آج کی تاریخ

پی ٹی آئی احتجاج، ملک عامر ڈوگر، زین قریشی سمیت پانچ سو کارکن ملتان سے گرفتار

دھرنا:سیاست یا مجبوری؟

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حالیہ اسلام آباد دھرنے کا اختتام بدھ کی صبح ہوا۔ یہ احتجاج نہ صرف ملکی سیاست میں ایک نئی بحث کا آغاز کر گیا بلکہ کئی اہم سوالات بھی چھوڑ گیا ہے۔ مظاہرین کی واپسی، حکومتی طاقت کا استعمال، اور دھرنے کے دوران ہونے والے تشدد نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ ریڈ زون میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپوں کے بعد پارٹی قیادت نے عارضی طور پر احتجاج کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم، یہ واقعہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
پی ٹی آئی نے حکومت پر “بربریت” اور “قتل گاہ” جیسے سنگین الزامات عائد کیے۔ ان کے مطابق، پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف شدید آنسو گیس، ربڑ کی گولیاں اور براہ راست فائرنگ کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں درجنوں کارکنان ہلاک اور زخمی ہوئے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، دو شہریوں کی ہلاکت اور ساٹھ سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی، جبکہ تین رینجرز اہلکار اور ایک پولیس اہلکار بھی جان کی بازی ہار گئے۔
یہ سوال ہر ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ کیا حکومتی طاقت کا استعمال ضرورت سے زیادہ تھا یا مظاہرین کے طرز عمل نے حالات کو خراب کر دیا؟ احتجاج ہر جمہوری معاشرے میں ایک بنیادی حق ہے، لیکن جب یہ احتجاج عوامی زندگی کو مفلوج کر دے یا ریاستی مشینری کو نقصان پہنچائے، تو سوال اٹھنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کی قیادت نے مظاہرین کو “گھروں کو واپس جانے اور اگلے دن لوٹنے” کی ہدایت دی۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب حالات کشیدگی کی انتہا پر تھے۔ عمران خان کی غیر موجودگی میں قیادت کا بوجھ بشریٰ بی بی اور خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے کندھوں پر تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ قیادت کا ایک سیاسی تدبر تھا یا موجودہ حالات کی مجبوری؟ وقت ہی اس سوال کا جواب دے گا، لیکن یہ واضح ہے کہ اس فیصلے نے نہ صرف پارٹی کے کارکنان بلکہ عوام میں بھی ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ احتجاجوں اور دھرنوں سے بھری پڑی ہے، لیکن پی ٹی آئی کا حالیہ دھرنا اپنی شدت اور کشیدگی کے لحاظ سے منفرد تھا۔ پارٹی نے اسے “حقیقی آزادی” کی جدوجہد قرار دیا، لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا اس جدوجہد نے جمہوری اصولوں کو مضبوط کیا یا مزید تقسیم کا باعث بنی۔
ریاستی طاقت کا استعمال کسی بھی سیاسی تنازع میں ہمیشہ متنازع رہا ہے۔ حکومت نے اس دھرنے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ حکومتی مؤقف تھا کہ احتجاج دارالحکومت کی زندگی کو مفلوج کر رہا تھا اور ریاستی اداروں کے لیے خطرہ بن رہا تھا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی نے اسے جمہوری حق” قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ریاست عوامی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ریاستی طاقت کے استعمال نے نہ صرف مظاہرین کے موقف کو مزید تقویت دی بلکہ حکومتی پالیسیوں پر بھی سوالات اٹھائے۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا طاقت کا بے دریغ استعمال مسائل کا حل ہو سکتا ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی نے اپنے کارکنان کو یہ باور کرایا کہ ان کی جدوجہد نہ صرف ان کے حقوق بلکہ پورے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ہے۔ مظاہرین نے اپنے عزم کا بھرپور مظاہرہ کیا، لیکن ریاستی طاقت کے آگے انہیں پسپا ہونا پڑا۔ عوامی ردعمل بھی اس واقعے پر تقسیم کا شکار رہا۔ کچھ حلقوں نے مظاہرین کی حمایت کی، جبکہ دوسروں نے حکومتی ردعمل کو جائز قرار دیا۔
سوشل میڈیا پر دھرنے کے حوالے سے بیانیے کی جنگ نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اپنی اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ عوامی جذبات کو بھڑکانے کے لیے مختلف بیانیے پیش کیے گئے، جس نے حالات کو مزید کشیدہ کر دیا۔
یہ دھرنا پاکستانی سیاست میں ایک نئے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ ماضی میں دھرنے حکومتی پالیسیوں پر دباؤ ڈالنے کا ذریعہ رہے ہیں، لیکن حالیہ دھرنے نے شدت اور کشیدگی کی نئی سطح کو چھو لیا ہے۔ اس احتجاج کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کے ذریعے اس تنازع کا حل نکالنا ہوگا۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ دونوں فریقین عوامی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے تحمل اور دانشمندی کا مظاہرہ کریں۔
پی ٹی آئی نے چیف جسٹس پاکستان سے ازخود نوٹس لینے اور وزیر اعظم، وزیر داخلہ، اور پولیس حکام کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ عدلیہ کا کردار ایسے مواقع پر انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اگر عدلیہ اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیتی تو یہ نہ صرف سیاسی کارکنان بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں نے مظاہرین کے لیے مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا، لیکن دوسری جانب ان جھڑپوں نے روزمرہ کی زندگی کو مفلوج کر دیا۔ عوام کی نقل و حرکت محدود ہو گئی، کاروبار متاثر ہوئے، اور شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان کی معیشت پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے، اور ایسے تنازعات معیشت کو مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سیاسی کشیدگی نے نہ صرف عوامی زندگی بلکہ ملکی معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ مظاہروں اور دھرنوں کے دوران کاروباری سرگرمیاں معطل ہو جاتی ہیں، جس سے ملکی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔
اسلام آباد کا حالیہ دھرنا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اور اہم باب کا اضافہ کرتا ہے۔ یہ تنازع نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی اور معاشی اثرات کا حامل بھی ہے۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے رویوں میں نرمی لاتے ہوئے عوامی مفاد کو مقدم رکھیں۔
ریاستی طاقت کے بے جا استعمال یا تصادم کے بجائے مکالمہ اور افہام و تفہیم ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے اقدامات کا اثر صرف ان کے سیاسی مستقبل پر نہیں بلکہ پورے ملک کی سلامتی اور استحکام پر پڑتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی قیادت اگر دانشمندی اور تحمل کا مظاہرہ کرے تو یہ بحران جمہوریت کے استحکام کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ مذاکرات کا آغاز نہ صرف موجودہ سیاسی بحران کو حل کرے گا بلکہ مستقبل کے لیے ایک مثبت مثال بھی قائم کرے گا۔
پاکستان کے عوام ایک پرامن اور مستحکم معاشرے کے حق دار ہیں۔ سیاسی قیادت کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ ان کے فیصلے عوام کی زندگیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ تمام فریقین اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملک کی بہتری کے لیے اقدامات کریں۔
اگر موجودہ بحران کا حل نہ نکالا گیا تو اس کے اثرات دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ اس موقع کو ضائع نہ کرے اور ملک کو استحکام کی طرف لے جانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ یہی پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔

شمسی توانائی کا معمہ: پاکستان میں توانائی مساوات کا مسئلہ

پاکستان میں شمسی توانائی کی تیزی سے اپنائیت قابل تجدید توانائی کی طرف ملک کے عزم میں ایک نمایاں سنگ میل ہے۔ صرف 2023 میں، 13 گیگاواٹ شمسی پینلز کی درآمد اور 2,200 میگاواٹ شمسی صلاحیت کے اضافے نے صاف توانائی کے لیے قوم کی بڑھتی ہوئی وابستگی کو اجاگر کیا۔ تاہم، جیسے جیسے چھت پر نصب شمسی نظام بڑھ رہے ہیں، 141,800 سے زائد نیٹ میٹرنگ صارفین گرڈ میں حصہ ڈال رہے ہیں، لیکن توانائی کے نظام پر اس کے غیر متوقع اقتصادی اور عملیاتی اثرات نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔
شمسی توانائی کی ترقی کا ایک قیمت کے ساتھ سامنا ہوا ہے: بجلی کے نظام میں عدم مساوات۔ شمسی توانائی کے استعمال کرنے والے پروسومرز (جو پیداوار اور صارف دونوں ہیں) کم بلوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اضافی بجلی کو 27 روپے فی کلوواٹ گھنٹہ کے حساب سے فروخت کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، گرڈ کے مقررہ اخراجات جیسے کہ دیکھ بھال اور صلاحیت کی ادائیگیاں، غیر شمسی صارفین کو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ یہ صارفین زیادہ تر درمیانے اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جنہوں نے مالی سال 2023-24 کے دوران 200 ارب روپے اضافی گرڈ اخراجات کا سامنا کیا، جس کے نتیجے میں بجلی کے نرخوں میں 2 روپے فی یونٹ اضافہ ہوا۔
یہ صورتحال ریگریسو (محدود آمدنی والوں پر زیادہ اثر ڈالنے والے) اخراجات کا منتقلی کا باعث بنتی ہے۔ شمسی صارفین 20.93 روپے فی یونٹ مقررہ اخراجات سے بچ جاتے ہیں، جو کہ غیر شمسی صارفین کی جانب سے سبسڈی کے طور پر پورے کیے جاتے ہیں، جو پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ مسئلہ اس وقت مزید بڑھتا ہے جب شمسی توانائی کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے گرڈ کی طلب کم ہو جاتی ہے، جس سے بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں (ڈسکوز) کے مالی استحکام کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
اس تبدیلی کے ساتھ عملیاتی مسائل بھی سامنے آتے ہیں۔ شمسی توانائی کے بڑھتے ہوئے استعمال سے الٹی بجلی کے بہاؤ، وولٹیج کی غیر استحکام، اور گرڈ کو متوازن رکھنے کے لیے اضافی خدمات کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔ اگر انفراسٹرکچر کی اپ گریڈیشن میں سرمایہ کاری نہ کی گئی تو یہ تکنیکی مسائل گرڈ کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
مزید برآں، پاکستان کی توانائی کی پالیسیاں شمسی توانائی کی اپنائیت کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔ جرمنی اور آسٹریلیا جیسے ممالک نے قابل تجدید توانائی کو بہتر طور پر ضم کرنے کے لیے فیڈ ان ٹیرف اور وقت کے لحاظ سے قیمتوں کا تعین (ٹائم آف یوز پرائسنگ) جیسے طریقے اپنائے ہیں، لیکن پاکستان پرانی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جو غیر شمسی صارفین کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتی ہیں۔
آرزیکل کی تحقیق کے مطابق، شمسی توانائی کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے گرڈ کی طلب میں 10 فیصد کمی متوقع ہے، جو بنیادی ٹیرف میں 17 فیصد اضافے کا باعث بن سکتی ہے، جو سالانہ 261 ارب روپے کے اضافی اخراجات میں تبدیل ہوگی۔ اگر اصلاحات نہ کی گئیں تو توانائی کی تقسیم کرنے والی کمپنیاں “ڈیتھ اسپائرل” کے خطرے کا سامنا کر سکتی ہیں، جہاں بڑھتے ہوئے ٹیرف مزید صارفین کو گرڈ سے ہٹنے پر مجبور کریں گے، صارفین کی تعداد کم ہو گی اور ان کی مالی حالت مزید خراب ہو جائے گی۔
اس معمہ سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو فوری اصلاحات نافذ کرنا ہوں گی۔ نیٹ میٹرنگ سے نیٹ بلنگ پر منتقلی اخراجات کی تقسیم کے ایک منصفانہ ماڈل کو فروغ دے سکتی ہے۔ شمسی صارفین کے لیے کم از کم ماہانہ چارجز متعارف کرانا، بیٹری انرجی اسٹوریج سسٹمز
(BESS)
کے لیے ترغیبات کے ساتھ، گرڈ کو مستحکم کرنے اور مساوات کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ریگولیٹرز کو لوکیشنل مارجنل پرائسنگ
(LMP)
کو اپنانے پر بھی غور کرنا چاہیے تاکہ گرڈ کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے اور ذمہ دارانہ توانائی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ معاون خدمات کی مارکیٹیں، جیسا کہ کیلیفورنیا میں ہیں، تقسیم شدہ پیداوار کو مؤثر طریقے سے سنبھالنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تعاون کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ پالیسی سازوں، توانائی کی کمپنیوں، اور صارفین کو مل کر ایک ایسا فریم ورک تشکیل دینا ہوگا جو قابل تجدید توانائی کے فوائد کو گرڈ کو برقرار رکھنے کے اخراجات کے ساتھ متوازن رکھ سکے۔ مساوات کے مسائل اور تکنیکی چیلنجوں کا حل تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ پاکستان کا قابل تجدید توانائی کا سفر پائیدار اور سب کے لیے فائدہ مند بن سکے۔
شمسی توانائی مستقبل کو صاف بنانے کا راستہ فراہم کرتی ہے، لیکن یہ راستہ مساوات اور سستی کے اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر طے ہونا چاہیے۔ پاکستان کو اپنی پالیسیوں اور انفراسٹرکچر میں فوری اصلاحات کرنی ہوں گی تاکہ توانائی کی منتقلی کے فوائد تمام صارفین تک پہنچ سکیں، نہ کہ صرف چند خوش نصیب افراد تک۔ ایک متوازن حکمت عملی نہ صرف گرڈ کو مستحکم کرے گی بلکہ ایک حقیقی پائیدار توانائی کے نظام کی بنیاد بھی رکھے گی۔
پی ٹی آئی نے چیف جسٹس پاکستان سے از خود نوٹس لینے اور وزیر اعظم، وزیر داخلہ، اور پولیس حکام کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ عدلیہ کا کردار ایسے مواقع پر انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اگر عدلیہ اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیتی تو یہ نہ صرف سیاسی کارکنان بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
معاشرتی اثرات
حالیہ دھرنے نے عوامی زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں نے مظاہرین کے لیے مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا، لیکن دوسری جانب ان جھڑپوں نے روزمرہ کی زندگی کو مفلوج کر دیا۔
حکومت کی حکمتِ عملی
حکومت کی جانب سے مظاہرین کو روکنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ریاستی مشینری کی جانب سے آنسو گیس، ربڑ کی گولیاں، اور دیگر اقدامات نے صورت حال کو مزید بگاڑ دیا۔ اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ کیا طاقت کا استعمال اس مسئلے کا حل تھا؟
مستقبل کی سیاست پر اثرات
پی ٹی آئی کے اس دھرنے کے خاتمے کے باوجود، اس کا اثر مستقبل کی سیاست پر یقینی طور پر پڑے گا۔ پی ٹی آئی نے “حقیقی آزادی” کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔
نتیجہ
اسلام آباد کا حالیہ دھرنا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اور اہم باب کا اضافہ کرتا ہے۔ اس نے نہ صرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کیا بلکہ عوامی مسائل کو بھی اجاگر کیا۔ یہ وقت تمام سیاسی جماعتوں کے لیے سوچنے کا ہے کہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی لائیں اور ملک کی ترقی کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔
پاکستان کو موجودہ حالات سے نکلنے کے لیے سیاسی استحکام، عوامی مسائل کے حل، اور ایک جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب تمام فریقین جمہوری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے عوامی فلاح کو ترجیح دیں۔
پاکستان کی منتخب اور غیر منتخب ہئیت مقتدرہ دونوں کے دونوں اپوزیشن میں بیٹھے زیادہ ناپسندیدہ سیاسی قوت کو میدان سے باہر رکھنے کے لیے پرانی ناـادیاتی سازشوں سے کام لے رہی ہے۔ اور وہ عوامی جذبات کا زرا خیال نہیں کر رہی ہے۔ اسے لجگ دکھانا پڑے گی – تب ہی درمیان کا راستا نکلے
سچیا ربّا توں تے آکھیا سی جگ دا شاہ ایں توں؟
پاکستان کا آئین ہر شہری کو پرامن احتجاج اور اظہارخیا ل کی ضمانت دیتا ہے۔ وہ ہر شہری کے بنیادی انسانی حقوق کا مکمہ تحفظ فراہم کرتا ہے- لیکن اس ملک میں خدائي خدمت گار جب چاہتے ہیں آئیں میں فراہم کردہ اس بنیادی ضمانتوں کو سلب

شیئر کریں

:مزید خبریں