پاکستان کی سیاسی تاریخ میں احتجاج ہمیشہ ایک متنازعہ اور اہم مسئلہ رہا ہے۔ خاص طور پر جب سیاسی جماعتیں یا اہم شخصیات اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر آتی ہیں تو اس کا اثر پورے نظام پر پڑتا ہے۔ 24 نومبر 2024 کو ہونے والے احتجاج کا کال عمران خان، بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے دی گئی، جو نہ صرف ایک سیاسی اقدام تھا، بلکہ اس کے ذریعے پورے ملک کی سیاسی حالت، حکومت کی پالیسیوں، اور عوامی مطالبات کو اجاگر کیا گیا۔ اس احتجاج کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا، سیاسی گرفتاریوں کے خلاف آواز اٹھانا، اور معاشی، سماجی اور قانونی اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کرنا تھا۔ تاہم، اس کے اثرات پاکستان کی سیاست میں کہیں زیادہ وسیع ہوں گے، اور ممکنہ طور پر یہ ایک نئے سیاسی دور کا آغاز کر سکتا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں مسلسل بے چینی اور بحران کے ساتھ، 24 نومبر کے احتجاج کا پس منظر اہمیت رکھتا ہے۔ اس احتجاج کی کال عمران خان نے دی، جن کا کہنا ہے کہ حکومت ان کے خلاف سیاسی انتقام لے رہی ہےوہ اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کئی ماہ سے حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ ان کے مطابق، حکومت نے نہ صرف ان کے اور ان کے اتحادیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے ہیں بلکہ جیلوں میں بند کیے گئے سیاسی رہنماؤں کو رہا کرنے کے بجائے ان پر مزید مقدمات ڈالے جا رہے ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ 24 نومبر کو ہونے والا احتجاج حکومت کے خلاف ایک بڑا احتجاج ہوگا جو نہ صرف ان کے حمایتیوں کی آواز بلند کرے گا بلکہ ملک بھر میں پھیلے عوامی غم و غصے کو بھی اجاگر کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد صرف حکومت کو دباؤ میں لانا نہیں ہے، بلکہ یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ ملک کے عوام اپنے حقوق کے لیے تیار ہیں اور وہ ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان نے اس احتجاج کو ایک ’’زندہ قوم‘‘ کی علامت قرار دیا، جو اپنے حقوق کے لئے ہر سطح پر لڑنے کے لئے تیار ہے۔
عمران خان نے اس احتجاج کو ایک سیاسی حل کے طور پر پیش کیا اور ان کے مطابق، یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت ان کے اور ان کے پارٹی ارکان کی رہائی کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوتی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان کے اور ان کے حمایتیوں کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائیاں کی ہیں، جس کے تحت انہیں جیلوں میں بند کر دیا گیا اور ان پر بے شمار مقدمات قائم کر دیے گئے۔ ان کے مطابق، مذاکرات کا مقصد محض احتجاج کو روکنا تھا، جبکہ حکومت ان کے تمام مطالبات کو سنجیدہ طور پر حل کرنے کے بجائے صرف وقت خریدنا چاہتی تھی۔
عمران خان نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ان کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان کے تمام گرفتار ساتھیوں کو رہا کیا جائے اور حکومت انہیں سیاسی طور پر آزاد کرے تاکہ وہ اپنے آئینی اور قانونی حقوق کے مطابق سیاست کر سکیں۔ ان کے مطابق، یہ مطالبات فوری طور پر پورے کیے جا سکتے تھے، مگر حکومت نے ان کی کوئی بات نہیں مانی۔ عمران خان نے ان مذاکرات کو بے فائدہ اور غیر سنجیدہ قرار دیا اور کہا کہ اس احتجاج کا مقصد ملک میں جمہوریت کے حقیقی معنی کو دوبارہ زندہ کرنا ہے۔
حکومت کے ردعمل میں ایک طرف تو پی ٹی آئی کے احتجاج کو سرکاری طور پر مسترد کرنے کی کوشش کی گئی، دوسری طرف حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ احتجاج ملک کے آئین و قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ حکومت نے یہ کہا کہ ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے لئے کسی بھی قسم کی سیاسی تحریک کی حمایت کرنے کی بجائے، آئین کے مطابق کام کرنا ضروری ہے۔ اس تناظر میں، حکومت نے اس احتجاج کے بارے میں اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھنے کی کوشش کی۔
تاہم، عمران خان کی طرف سے یہ کہا گیا کہ حکومت کے پاس ایک سنہری موقع تھا کہ وہ انہیں اور ان کے پارٹی ارکان کو رہا کر کے مذاکرات کی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی، مگر حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ عمران خان کے مطابق، اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اصل میں اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کے لئے بے بنیاد مقدمات کا سہارا لے رہی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی تکمیل کے بعد سیاسی رہنماؤں کو مزید دبایا جائے گا اور عوامی تحریکوں کو دبا دیا جائے گا۔
24 نومبر کے احتجاج کے بعد عوامی ردعمل کا جائزہ لیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں اور عوامی غصہ دونوں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ عوامی سطح پر اس احتجاج کو ایک نیا سیاسی پیغام سمجھا جا رہا ہے۔ مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کے حامیوں کی بڑی تعداد اس احتجاج میں شرکت کے لیے تیار تھی، اور عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ان کے حامیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگی کہ وہ حکومت کے خلاف ایک بڑا دباؤ ڈال سکیں گے۔
پی ٹی آئی کے حامیوں کے علاوہ، اپوزیشن جماعتیں بھی اس احتجاج میں شریک ہو سکتی ہیں۔ ان جماعتوں کے نزدیک، یہ احتجاج صرف پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کے حقوق کی بازیابی کی کوشش ہے۔ کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج حکومت کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے، کیونکہ عوام میں حکومت کے خلاف غصہ بڑھ رہا ہے، اور اس میں اگر اپوزیشن کی حمایت مل گئی تو حکومت کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
24 نومبر کا احتجاج ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، جو ملک کی سیاسی صورتحال میں ایک نیا موڑ لے کر آئے گا۔ اگر حکومت نے اس احتجاج کا صحیح طور پر جواب نہ دیا تو یہ نہ صرف حکومت کے لیے مشکل ہو سکتا ہے بلکہ ملک میں جمہوری عمل کے حوالے سے سوالات اٹھا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج ملک میں جمہوری طاقتوں کی طاقت کا اظہار ہے جو آئین اور قانون کی حکمرانی کے حق میں ہیں۔
اس احتجاج کا ایک اور ممکنہ اثر یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اور دیگر اہم ادارے اپنے کردار کو دوبارہ دیکھیں اور سیاست میں اصلاحات کے لیے نئے راستے تلاش کریں۔ عوامی سطح پر اس احتجاج کی کامیابی یا ناکامی پاکستان کے آئندہ سیاسی منظرنامے پر گہرا اثر ڈالے گی۔
24 نومبر کے احتجاج کے پیچھے ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور قانونی اصلاحات کی ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ شدت اختیار کر چکی ہے۔ ملک میں جمہوریت کی بحالی، انصاف کا تقاضا، اور سیاسی نظام میں شفافیت کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ عمران خان نے اس احتجاج کو اس بات کی نشاندہی کرنے کے طور پر پیش کیا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اس وقت جو کمزوریاں ہیں، ان کا ازالہ ضروری ہے۔
ان اصلاحات میں سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا ایک ایسا میکانزم تشکیل دیا جائے جو دونوں طرف سے سنجیدگی اور دیانت داری پر مبنی ہو، تاکہ عوامی مسائل کا حل نکالا جا سکے۔ اس کے علاوہ، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لئے عدلیہ اور حکومت کے درمیان توازن قائم کرنا ضروری ہوگا۔
24 نومبر کا احتجاج پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، جس کے ذریعے ایک نئی سیاسی اور جمہوری لہر شروع ہو سکتی ہے۔ اس احتجاج کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ عوامی حمایت اور حکومت کے ردعمل پر منحصر ہوگا۔ عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے اٹھائے گئے مطالبات، ان کی جیل میں موجودگی کے باوجود مسلسل احتجاج کی کال، اور حکومت کی سیاسی حکمت عملی اس بات کا تعین کریں گے کہ پاکستان کا سیاسی منظرنامہ کس سمت میں جائے گا۔
یہ احتجاج محض ایک سیاسی مظاہرہ نہیں بلکہ ایک سیاسی تبدیلی کی طرف قدم اٹھانے کی کوشش ہے۔ اس سے پاکستان کی سیاست میں اصلاحات کی ضرورت اور جمہوری طاقتوں کا کردار دوبارہ اجاگر ہوگا۔ اس بات کا فیصلہ ابھی باقی ہے کہ حکومت اس احتجاج کا کس طرح جواب دیتی ہے، مگر اس کا ایک بات واضح ہے کہ پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے یہ ایک اہم لمحہ ہے۔
