آج کی تاریخ

معاشی استحکام کی راہ

برآمدات پر مبنی ترقی کی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی ڈچ سفیر کے ساتھ ملاقات میں برآمدات پر مبنی ترقی کے عزم کی تجدید کئی دہائیوں پرانی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ گزشتہ تیس سالوں سے زائد عرصے سے سول اور فوجی حکومتیں برآمد کنندگان کو مالی اور دیگر مراعات دیتی رہی ہیں۔ تاہم، ان پالیسیوں کو موجودہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے تحت شدید تنقید کا سامنا ہے، جو اس امر کو چیلنج کر رہا ہے کہ امیر برآمد کنندگان کو مراعات دینا عوامی وسائل کے درست استعمال کے بجائے عدم مساوات کو فروغ دیتا ہے۔
اگرچہ برآمدات غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے اہم ہیں، لیکن غلط پالیسیوں نے ان کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ مالی مراعات، جیسے سستا قرضہ، کم یوٹیلیٹی ٹیرف، اور ٹیکس چھوٹ، چند بااثر برآمد کنندگان کے فائدے میں استعمال ہوئیں۔ ان اقدامات نے جدت، تنوع، یا مسابقت کو فروغ دینے کے بجائے روایتی اور کم قدر والے برآمدی شعبوں کو ہی مضبوط کیا۔ اس سے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور سماجی و اقتصادی ناہمواری میں اضافہ ہوا۔
اعداد و شمار واضح ہیں۔ موجودہ سال کے پہلے چار ماہ میں برآمدات سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ 10.508 ارب ڈالر رہا، جبکہ ترسیلات زر اس سے زیادہ 11.848 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ مزید برآں، 2022–23 میں ترسیلات زر میں 4 ارب ڈالر کی کمی حکومتی پالیسیوں، جیسے شرح تبادلہ پر کنٹرول، کے باعث ہوئی، جس نے غیر قانونی ہنڈی/حوالہ نظام کو دوبارہ فروغ دیا۔ اسی طرح برآمدات میں کمی کی وجہ صرف مراعات کی کمی نہیں بلکہ ساختی مسائل ہیں، جیسے خام مال پر زیادہ درآمدی ڈیوٹیز، تحقیق و ترقی کی کمی، اور کم قدر والی مصنوعات پر انحصار۔
آئی ایم ایف کی برآمد کنندگان کو مراعات کے خاتمے پر موقف اقتصادی حقائق پر مبنی ہے۔ جب ملک میں غربت کی شرح 41 فیصد سے زیادہ ہو، تو دولت مند کاروباری طبقات کو سبسڈی دینا قابل عمل نہیں رہتا۔ اس کے باوجود، مراعات کی بحالی کے مطالبات مسلسل جاری ہیں، جنہیں وزارت تجارت فروغ دے رہی ہے اور وزارت خزانہ مزاحمت کر رہی ہے، جو آئی ایم ایف سے مذاکرات کی قیادت کر رہی ہے۔
یہ کشمکش پالیسی سازی کے وسیع تر مسائل کو اجاگر کرتی ہے۔ صرف مراعات ہی پائیدار برآمدی ترقی کی ضمانت نہیں دے سکتیں۔ اس کے بجائے، اصلاحات مسابقت کو فروغ دینے، تنوع کو بڑھانے، اور ساختی رکاوٹوں کو دور کرنے پر مرکوز ہونی چاہئیں۔ مراعات پر انحصار ختم کرکے عالمی مارکیٹ کی حرکیات اور اعلیٰ قدر والے شعبوں کی ترقی کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔
ایک بڑی مثال حکومت کی ڈیجیٹل معیشت کے حوالے سے مختصر نظری کی ہے۔ ڈیجیٹل برآمدات، جن میں فری لانس خدمات، سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ، اور تخلیقی صنعتیں شامل ہیں، غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ لیکن اس کے بجائے کہ اس شعبے کی حوصلہ افزائی کی جائے، حکومت نے اسے “ڈیجیٹل دہشت گردی” سے تعبیر کرکے اس کی ترقی کو روک دیا ہے۔
یہ نقطہ نظر نہ صرف ایک اہم ترقیاتی شعبے کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ ملک کو مزید قرض لینے پر مجبور کرتا ہے، جو اقتصادی بحران کو مزید گہرا کرتا ہے۔ ڈیجیٹل برآمدات کے مواقع بند کرنے کے بجائے، پالیسی سازوں کو جامع تجزیہ کرنا چاہیے اور اس شعبے میں ترقی کے لیے مناسب ریگولیشنز نافذ کرنی چاہئیں۔
پاکستان کو برآمدات پر مبنی ترقی کے حصول کے لیے درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے- مراعات کو کارکردگی کے معیارات، جیسے اعلیٰ قدر والی مصنوعات کی تیاری یا تحقیق و ترقی پر خرچ، سے مشروط کیا جائے۔
خام مال پر درآمدی ڈیوٹیز کم کریں، ریگولیٹری نظام کو آسان بنائیں، اور چھوٹے اور درمیانے کاروباروں کو تکنیکی مدد فراہم کریں۔ فری لانس پلیٹ فارمز، آئی ٹی فرمز، اور ڈیجیٹل انٹرپرینیورز کو مراعات اور بنیادی ڈھانچہ فراہم کریں، جبکہ ریگولیٹری خدشات کو دانشمندی سے حل کریں۔
پالیسی سازی میں جدید عالمی تجارتی، تکنیکی، اور مواصلاتی رجحانات کو شامل کیا جائے، بجائے اس کے کہ پرانی حکمت عملیوں پر انحصار کیا جائے۔
پاکستان اب مزید غلط پالیسیوں اور وسائل کے غلط استعمال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ملک کو ایسی پالیسیوں پر عمل کرنا ہوگا جو پائیدار اور جامع ترقی کو فروغ دیں، تکنیکی ترقی سے فائدہ اٹھائیں، اور عوامی وسائل کو انصاف کے ساتھ استعمال کریں۔ بصورت دیگر، برآمدات پر مبنی ترقی کا خواب محض ایک نعرہ بن کر رہ جائے گا، اور ملک معاشی عدم استحکام اور سماجی بے چینی کا شکار رہے گا۔
پاکستان کے اقتصادی بحران کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ پالیسیاں عام طور پر قلیل مدتی نتائج پر مرکوز ہوتی ہیں، جبکہ طویل مدتی اور پائیدار ترقی کے لیے درکار بنیادی اصلاحات کو مسلسل نظرانداز کیا جاتا ہے۔ برآمدات پر مبنی ترقی کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک ایسی جامع پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے جو نہ صرف موجودہ مسائل کو حل کرے بلکہ مستقبل کی ضروریات کو بھی مدنظر رکھے۔
پہلا قدم معیشت کی بنیاد کو مضبوط بنانا ہے۔ اس کا مطلب ہے زرعی اور صنعتی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنا۔ زرعی پیداوار کی شرح کو بڑھانے کے لیے بہتر ٹیکنالوجی، تحقیق، اور کسانوں کے لیے تربیت ضروری ہے۔ اسی طرح، صنعتی شعبے میں صرف روایتی مصنوعات پر انحصار کے بجائے عالمی مارکیٹ کی طلب کے مطابق جدید اور زیادہ قدر والی مصنوعات کی تیاری پر توجہ دینی چاہیے۔
اس ضمن میں حکومت کو تحقیق و ترقی کے لیے وسائل مختص کرنے چاہئیں، جو کہ کسی بھی معیشت کی ترقی کا بنیادی ستون ہے۔ جدید معیشتوں میں تحقیق و ترقی پر سرمایہ کاری کے بغیر مسابقتی برتری حاصل کرنا ممکن نہیں۔ پاکستان کو اپنے تعلیمی اداروں، نجی شعبے، اور سرکاری اداروں کے درمیان ایک مضبوط اشتراک قائم کرنا ہوگا تاکہ جدت طرازی کو فروغ دیا جا سکے۔

برآمدات پر مبنی ترقی کا ایک اہم عنصر انسانی وسائل کی ترقی ہے۔ پاکستان میں بے روزگار نوجوانوں کی بڑی تعداد کو ہنر مند بنانے کے لیے مؤثر تربیتی پروگراموں کی ضرورت ہے۔ عالمی مارکیٹ میں مسابقتی برتری حاصل کرنے کے لیے آئی ٹی، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، اور دیگر جدید شعبوں میں مہارت پیدا کرنا ہوگی۔
حکومت کو ایک ایسا نظام تشکیل دینا ہوگا جو نوجوانوں کو نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر روزگار کے مواقع فراہم کرے۔ اس کے ساتھ ہی، بیرون ملک جانے والے محنت کشوں کے لیے سہولتوں میں اضافہ اور انہیں قانونی اور منظم چینلز کے ذریعے بھیجنے کی پالیسی اپنائی جائے تاکہ ترسیلات زر میں اضافہ کیا جا سکے۔
پاکستان کی برآمداتی منڈیوں کا زیادہ تر انحصار چند ممالک پر ہے، جو خطرناک حد تک محدود ہے۔ اس تناؤ کو کم کرنے کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش ضروری ہے، خاص طور پر افریقہ، جنوبی امریکہ، اور مشرقی ایشیا میں۔ حکومت کو سفارتی ذرائع اور تجارتی معاہدوں کے ذریعے ان منڈیوں تک رسائی کو ممکن بنانا چاہیے۔
برآمدات کے لیے توانائی کا شعبہ انتہائی اہم ہے۔ پاکستان میں توانائی کی بلند قیمتیں اور غیر مستحکم فراہمی برآمداتی مسابقت کو کمزور کر رہی ہیں۔ حکومت کو قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر سرمایہ کاری بڑھانے، بجلی کے ضیاع کو کم کرنے، اور کارخانوں کو سستی اور بلا تعطل توانائی فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پالیسیوں میں عدم استحکام نے پہنچایا ہے۔ ہر حکومت کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے طویل المدتی منصوبے یا تو شروع نہیں ہوتے یا مکمل ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیے جاتے ہیں۔ برآمدات پر مبنی ترقی کے لیے ایک قومی اتفاق رائے پر مبنی جامع اقتصادی پالیسی ترتیب دینا ہوگی جو کسی بھی سیاسی حکومت کے تبدیلی کے باوجود جاری رہے۔
آج کی دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور پاکستان کو ان تبدیلیوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ مصنوعی ذہانت، بائیوٹیکنالوجی، اور گرین ٹیکنالوجی جیسے شعبے عالمی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کو ان شعبوں میں مہارت پیدا کرنی ہوگی تاکہ وہ عالمی مسابقت میں شامل ہو سکے۔
پاکستان کے لیے برآمدات پر مبنی ترقی ایک اہم ہدف ہے، لیکن یہ صرف تبھی ممکن ہے جب پالیسیاں جامع، طویل مدتی، اور عوامی فلاح پر مبنی ہوں۔ حکومت کو نہ صرف موجودہ مسائل کو حل کرنے بلکہ ان عوامل کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے جو معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اگر ہم اس موقع کو سنجیدگی سے نہ لیں، تو معاشی بحران اور سماجی بے چینی کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔ لیکن اگر دانشمندانہ فیصلے کیے گئے، تو پاکستان نہ صرف برآمدات میں ترقی کر سکتا ہے بلکہ اپنی معیشت کو مستحکم اور خوشحال بنا سکتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں