پاکستان کی عدلیہ ایک بار پھر ایک متنازع صورتحال سے دوچار ہے، جس کی تازہ ترین مثال جوڈیشل سپریم کونسل کی وہ سفارش ہے جس میں چیف جسٹس سے کہا گیا ہے کہ وہ ملٹری ٹرائلز کے خلاف مقدمات سننے والے پانچ رکنی بنچ سے جسٹس عائشہ ملک کو الگ کریں۔ یہ فیصلہ ایک پیچیدہ آئینی اور قانونی مسئلہ پیش کرتا ہے، جس میں عدلیہ کی آزادی، انصاف کے عمل، اور حکومتی اثر و رسوخ کے سوالات شامل ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک، جو اس وقت آئینی بنچ کا حصہ ہیں، پہلے بھی 23 اکتوبر 2023 کے تاریخی فیصلے میں شامل تھیں جس میں ملٹری عدالتوں کے ذریعے 103 شہریوں کے ٹرائلز کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔ اب، انہی مقدمات پر انٹرا کورٹ اپیلز کے تناظر میں انہیں بنچ سے الگ کرنے کی سفارش، بظاہر عدالتی تقاضوں کے تحت کی گئی ہے، لیکن اس کے پس منظر میں حکومتی اثر و رسوخ کے خدشات بھی زور پکڑ رہے ہیں۔
یہ فیصلہ اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ حکومت یا دیگر بااثر حلقے عدالتی بنچوں میں شامل اپنی ناپسندیدہ شخصیات کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف انصاف کے عمل پر عوام کا اعتماد متاثر ہوگا بلکہ عدلیہ کی آزادی پر بھی سنگین سوالات کھڑے ہوں گے۔
چھبسوویں آئینی ترمیم کے تحت متعارف کرائی گئی عدالتی اصلاحات کے بارے میں اپوزیشن اور انسانی حقوق کے ماہرین نے جو خدشات ظاہر کیے تھے، وہ اس فیصلے کے تناظر میں حقیقت بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان ترامیم نے عدالتی کارروائیوں اور بنچ کی تشکیل کے اصولوں پر حکومتی مداخلت کا دروازہ کھول دیا ہے، جو انصاف کی فراہمی کے لیے خطرہ ہے۔
جوڈیشل سپریم کونسل کی جانب سے آئینی بنچ کے کام میں شفافیت اور مؤثریت کو بڑھانے کے لیے جو اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، ان میں بعض قابل ستائش ہیں۔ مقدمات کی شناخت، ٹریکنگ، اور عدالتی کارروائیوں کو تیز کرنے کے لیے خصوصی قوانین اور نظام کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔ تاہم، ان اقدامات کا استعمال عدلیہ کے آزادانہ فیصلے کو متاثر کرنے کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔
ملٹری ٹرائلز جیسے معاملات میں انسانی حقوق کا تحفظ بھی ایک بنیادی پہلو ہے۔ عوام کا عدلیہ پر اعتماد اس وقت بحال ہو سکتا ہے جب وہ یہ دیکھیں کہ کسی دباؤ یا اثر و رسوخ کے بغیر ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی جا رہی ہے۔ شھداء فورم بلوچستان کی جانب سے آئینی بنچ پر دباؤ ڈالنے کے لیے درخواستیں بھی اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ مقدمات میں تاخیر اور عدالتی عمل کی پیچیدگیوں کو جلد از جلد دور کرنا ناگزیر ہے۔
حکومت اور قانون ساز اداروں کو فوری طور پر عدلیہ کی آزادی اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ عدالتی بنچ کی تشکیل کو کسی بھی قسم کے اثر و رسوخ سے محفوظ رکھا جائے اور ایسے اصول و ضوابط متعارف کرائے جائیں جو عدالتی عمل کو مکمل طور پر آزاد بنائیں۔ آئینی بنچ کے کام میں پیشہ ورانہ مہارت کو یقینی بنانے کے لیے شفاف نظام قائم کیا جائے، جس میں ججوں کے انتخاب سے لے کر مقدمات کی سماعت تک کے تمام پہلوؤں کو واضح اور غیر جانبدار رکھا جائے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے خصوصی توجہ دی جائے اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئین کے تحت ہر شہری کو انصاف فراہم کیا جائے۔
ملٹری ٹرائلز کے مقدمات میں عدلیہ کی آزادی اور انصاف کے اصولوں کو برقرار رکھنا پاکستان کے جمہوری اور آئینی نظام کی بنیاد ہے۔ جوڈیشل سپریم کونسل کی حالیہ سفارشات نے ان معاملات پر ایک اہم بحث کو جنم دیا ہے۔ اب یہ ضروری ہے کہ عدلیہ اپنی آزادی اور غیر جانبداری کو قائم رکھتے ہوئے ایسے فیصلے کرے جو عوام کے اعتماد کو بحال کریں اور آئین کے تحت فراہم کردہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ بصورت دیگر، عدلیہ پر عوامی اعتماد کا خاتمہ اور سیاسی اثر و رسوخ کا غلبہ ہمارے عدالتی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس وقت کے فیصلے اور اقدامات نہ صرف عدلیہ کی ساکھ بلکہ قوم کے جمہوری مستقبل کا تعین کریں گے۔
