آج کی تاریخ

کپاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی

پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی

پاکستان کے رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں 218 ملین ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ایک اہم کامیابی قرار دی جا رہی ہے، لیکن اس معاشی پیشرفت کے استحکام اور اس کے عوامل کو سمجھنا ضروری ہے۔اس سرپلس کی ایک بڑی وجہ ترسیلات زر میں اضافہ ہے، جو ہر مہینے پچھلے سال کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ رہی۔ جولائی میں 47.6 فیصد، اگست میں 40.56 فیصد، ستمبر میں 29.5 فیصد اور اکتوبر میں 23.9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔تاہم، اس کامیابی کے پیچھے کچھ پیچیدہ عوامل ہیں۔ مثال کے طور پر، اکتوبر 2022 سے جون 2023 تک اسحاق ڈار کی پالیسی کے تحت روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھا گیا، جس نے غیر رسمی مارکیٹ کو فروغ دیا اور 4 ارب ڈالر کی ترسیلات کو متاثر کیا۔ اس کے نتیجے میں، موجودہ مالی سال میں سرکاری چینلز کے ذریعے بھیجی جانے والی ترسیلات میں تیزی سے اضافہ ہوا، لیکن ہر ماہ اضافے کی شرح کم ہو رہی ہے، جو ممکنہ طور پر اس رفتار کے رک جانے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔رواں سال کے پہلے چار ماہ میں تجارتی خسارہ کم ہو کر 7.083 بلین ڈالر رہا جو پچھلے سال 7.387 بلین ڈالر تھا۔ درآمدات میں 995 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا، جبکہ برآمدات 1,399 ملین ڈالر بڑھ گئیں۔ تاہم، یہ اضافہ محدود عوامل کا نتیجہ تھا، جن میں تیل کی قیمتوں میں تبدیلی، روایتی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ اور درآمدات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامی اقدامات شامل ہیں۔رواں مالی سال کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری 32 فیصد بڑھ کر 904.3 ملین ڈالر ہو گئی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سرمائے کا اخراج بھی 374.3 ملین ڈالر بڑھ گیا۔ اس کے علاوہ، پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں کمی جاری ہے، جو ملکی معیشت کے بارے میں عالمی سطح پر کمزور اعتماد کی عکاسی کرتی ہے، حالانکہ ڈسکاؤنٹ ریٹ 15 فیصد پر ہے۔پاکستان کے معاشی مسائل کا حل محض کامیابیاں پیش کرنے میں نہیں، بلکہ ایسی پائیدار اور مقامی پالیسیوں کی تشکیل میں ہے جو عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ پاکستان کی گفت و شنید کی قوت کو بڑھا سکیں۔ موجودہ اقدامات، جیسے درآمدات پر پابندی اور برآمدی رقم کی واپسی کے لیے مدت کی کمی، وقتی طور پر مددگار ہیں لیکن آئی ایم ایف کے اصولوں کے مطابق نہیں۔پاکستان کی معیشت کے لیے یہ وقت حقیقت پسندانہ اور دوراندیشانہ پالیسیاں اپنانے کا ہے۔ معیشت کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز اس بات کے متقاضی ہیں کہ حکومت مختصر مدت کے اقدامات کے بجائے طویل المدتی حکمت عملی پر توجہ دے۔ مصنوعی کامیابیاں پیش کرنے کے بجائے ایسی پالیسیاں بنانا ضروری ہے جو نہ صرف موجودہ مسائل کا حل فراہم کریں بلکہ معیشت کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کریں۔ عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ہمیں اپنی معاشی حقیقتوں کا ادراک کرنا ہوگاپاکستان کے معاشی مسائل کے مستقل حل کے لیے موجودہ مالیاتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ مختصر مدتی حکمت عملیوں اور آئی ایم ایف کی شرائط پر انحصار کرنے کے بجائے ایک خود مختار معاشی نظام کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس میں اندرونی وسائل کو بہتر طور پر استعمال کرنا، برآمدات کو متنوع بنانا، اور پبلک سیکٹر کے اداروں میں شفافیت کو فروغ دینا شامل ہیں۔پاکستان کی معیشت زیادہ تر روایتی اور صارفین پر مبنی برآمدات پر انحصار کرتی ہے۔ ہمیں اپنی صنعتی پالیسی کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا تاکہ زیادہ ویلیو ایڈڈ مصنوعات تیار ہوں۔ ٹیکنالوجی اور تحقیق پر سرمایہ کاری کے بغیر برآمدی سیکٹر میں پائیدار ترقی ممکن نہیں۔زرعی شعبہ، جو ملکی معیشت کا ایک اہم ستون ہے، بہتر پیداوار کے لیے جدید تکنیکوں اور سہولیات کا متقاضی ہے۔ فصلوں کی تنوع اور زراعت پر مبنی صنعتوں کے قیام سے معیشت کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔پاکستان کا قرضوں پر بڑھتا ہوا انحصار ملکی معیشت کی خود مختاری کے لیے خطرناک ہے۔ غیر ملکی قرضوں کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے ٹیکس نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ایک منصفانہ اور شفاف ٹیکس پالیسی نہ صرف آمدنی میں اضافے کا ذریعہ بنے گی بلکہ معاشرتی عدم مساوات کو بھی کم کرے گی۔عالمی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی مارکیٹ میں دلچسپی دلانے کے لیے سیاسی استحکام اور مالیاتی شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا۔ کرپشن، غیر یقینی پالیسی سازی، اور بار بار بدلتے ہوئے قوانین سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کرتے ہیں۔ سرمایہ کاری کے لیے مراعات اور کاروبار کو آسان بنانے کے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔معاشی ترقی کے ساتھ سماجی اشاریے بھی بہت اہم ہیں۔ صحت، تعلیم، اور روزگار کے مواقع میں بہتری لائے بغیر ایک متوازن معاشی ترقی ممکن نہیں۔ انسانی وسائل کی ترقی کے لیے حکومتی سطح پر پالیسی سازی اور عمل درآمد ضروری ہے۔پاکستان کو معاشی ترقی کے لیے ایک جامع اور حقیقت پسندانہ لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ عارضی کامیابیوں سے خوش ہونے کے بجائے، حکومت کو معیشت کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ پائیدار ترقی صرف اسی وقت ممکن ہوگی جب ہم مقامی وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کریں اور عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار کم کریں۔ یہ ایک مشکل راستہ ضرور ہے، لیکن معاشی خود مختاری اور استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں