آج کی تاریخ

Champions Trophy 2025, Cricket Champions Trophy,

تحریک انصاف کاجلد بازی کا سیاسی داؤ

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 24 نومبر کو فائنل احتجاج کا اعلان کیا ہے، جو پاکستان کی سیاست میں ایک نیا تنازع پیدا کر سکتا ہے۔ اس فیصلے کی عجلت اس کے ممکنہ نتائج اور پارٹی کے اندرونی اختلافات پر ایک گہرا تجزیہ ضروری ہے۔عمران خان کا 24 نومبر کو فائنل احتجاج کرنے کا اعلان، ان کے سیاسی انداز کا ایک نیا رنگ نظر آتا ہے۔ ان کا یہ فیصلہ ایک ایسی حکومت کے خلاف کیا جا رہا ہے جس کے خلاف پی ٹی آئی پہلے ہی کئی بار احتجاج کر چکی ہے اور عمران خان خود اس وقت اڈیالہ جیل میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس احتجاج کے ذریعے عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں گے اور حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنی سیاسی جدوجہد کو کامیاب کریں گے۔تاہم اس فیصلے کی عجلت سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا یہ فیصلہ ٹھوس حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہے یا یہ محض ایک جذباتی ردعمل ہے؟ اگرچہ عمران خان کی سیاسی بصیرت پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن اس نوعیت کے احتجاجی فیصلے میں جلد بازی ایک سنگین مسئلہ بن سکتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جب بھی بڑی احتجاجی تحریکیں چلائی گئیں، ان کا کامیاب ہونا محض ایک طاقتور اور منظم حکمت عملی پر منحصر نہیں تھا بلکہ ان کے کامیاب ہونے کے لئے وقت کا انتخاب، عوامی حمایت اور اس تحریک کو قانونی و آئینی جواز فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کے پچھلے احتجاجوں کا تجزیہ کریں تو ان میں عوامی حمایت اور تنظیمی سطح پر کمزوریاں نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر 2014 میں عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنے کا آغاز کیا تھا، جس میں انہوں نے حکومت سے استعفیٰ مانگا۔ یہ دھرنا کئی مہینوں تک جاری رہا، لیکن آخرکار اسے ختم کر دیا گیا اور عمران خان کو حکومت سے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ اس دھرنے میں پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکن ایک دوسرے سے مایوس نظر آئے تھے اور حزب مخالف کی جماعتوں نے پی ٹی آئی کو بدعنوان اور غیر سنجیدہ قرار دیا تھا۔اس دھرنے کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ اس میں عوام کی شرکت بتدریج کم ہوتی گئی، اور تحریک انصاف کے سینئر رہنما اس میں شامل ہونے میں ہچکچاتے نظر آئے۔ عوامی احتجاجی تحریک کے لئے ایک مستحکم قیادت اور سیاسی جواز کا ہونا ضروری ہوتا ہے، جو اس وقت پی ٹی آئی میں موجود نہیں۔
اسی طرح 2019 میں جب عمران خان حکومت میں تھے، تب بھی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریکوں کی دھمکیاں دی گئیں لیکن ان میں سے کسی بھی تحریک میں وہ شدت اور کامیابی نہیں آئی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ اس پس منظر میں اگر 24 نومبر کو ہونے والا احتجاج بھی اسی طرح ناکام ہوتا ہے، تو اس کا اثر پی ٹی آئی کی سیاسی ساکھ پر بہت برا پڑے گا۔
پاکستان میں اس وقت موسمیاتی بحران، خاص طور پر سموگ کی صورت میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ ملتان،لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں سموگ کی شدت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کو صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔ اس ماحول میں اگر پی ٹی آئی 24 نومبر کو احتجاج کرتی ہے، تو اس کے نتائج منفی ہو سکتے ہیں۔ سموگ کی شدت اور کمزور صحت کے حالات احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کے لئے ایک اضافی خطرہ بن سکتے ہیں۔اس کے علاوہ سموگ کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر حکومت کے خلاف عوامی ردعمل میں بھی کمی آ سکتی ہے، کیونکہ لوگوں کی بڑی تعداد اس وقت حکومت کے خلاف نہیں بلکہ موسمیاتی بحران اور اس سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے پریشان ہے۔ ایسے میں پی ٹی آئی کا احتجاج ایک غیر ضروری اور وقت ضائع کرنے والا عمل لگ سکتا ہے۔
عمران خان کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی طرف سے یہ پیغام آیا کہ وہ اس احتجاج کے بارے میں خوش نہیں ہیں۔ ان رہنماؤں نے آپسی ملاقاتوں میں یہ ذکر کیا کہ عمران خان کا یہ فیصلہ جلد بازی پر مبنی ہے اور اس کے نتائج ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔پی ٹی آئی میں دراڑیں اور اختلافات اس بات کی علامت ہیں کہ پارٹی میں قیادت کا خلا اور داخلی عدم ہم آہنگی بڑھ رہی ہے۔ یہ اختلافات نہ صرف احتجاج کے دوران پارٹی کی تنظیمی قوت کو متاثر کر سکتے ہیں بلکہ پارٹی کے منشور اور مقصد کے حوالے سے بھی ایک سرد مہری کا احساس پیدا کر سکتے ہیں۔ پارٹی کے اندر یہ بحران اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کو یکجا رکھنے کے لئے ایک مضبوط قیادت کی ضرورت ہے، جو اس وقت پی ٹی آئی میں نظر نہیں آ رہی۔
عمران خان نے 24 نومبر کو فائنل احتجاج کا اعلان کیا ہے، لیکن اس کے بعد بھی حکومت کو ایک اور کال دی جا سکتی ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی اس احتجاج کو ایک نیا سیاسی محاذ سمجھ رہی ہے، تو دوسری طرف اس کے مخالفین اسے محض سیاسی داؤ پیچ سمجھتے ہیں۔ اگر اس احتجاج میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی، تو پی ٹی آئی کے حامیوں کا اعتماد مزید ٹوٹ سکتا ہے۔اس احتجاج کے بعد اگر پی ٹی آئی کی قیادت کو کوئی حقیقی کامیابی نہیں ملتی تو یہ پورے ملک میں ایک نیا سیاسی بحران پیدا کر سکتا ہے۔ حکومت کی طرف سے طاقت کے استعمال یا احتجاجی مظاہرین پر دباؤ ڈالنے کے امکانات بھی موجود ہیں، جو کہ ایک نئے تنازع کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں پی ٹی آئی کو اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہو گی، ورنہ وہ ایک اور سیاسی ناکامی کا سامنا کر سکتی ہے۔
اگر تحریک انصاف کے 24 نومبر کو ہونے والے فائنل احتجاج میں بڑی کامیابی نہیں ملتی، تو یہ نہ صرف عمران خان کی قیادت کے حوالے سے سوالات پیدا کر سکتا ہے، بلکہ اس کا اثر پورے ملک کی سیاست پر پڑے گا۔ حکومت مخالف تحریکوں کی تاریخ میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب تحریکیں وقت سے پہلے یا جلد بازی میں شروع کی جاتی ہیں تو ان میں عوامی جوش کم ہو جاتا ہے اور ریاستی ادارے بھی اس تحریک کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ نہ صرف حکومت کے لئے ایک موقع بن سکتا ہے بلکہ پی ٹی آئی کے احتجاج کو غیر قانونی یا غیر آئینی قرار دینے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان میں احتجاجی تحریکوں کا ماضی بتاتا ہے کہ جب تحریکیں مضبوط سیاسی بنیادوں کے بجائے محض جذبات یا جلد بازی کی بنیاد پر چلائی جاتی ہیں تو ان کے نتیجے میں نہ صرف حکومت مخالف ردعمل پیدا ہوتا ہے، بلکہ حکومت کے حمایتی حلقے بھی زیادہ متحرک ہو جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں اگر پی ٹی آئی کے رہنما حکومت کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ان کی سیاسی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات اور قیادت کا بحران مزید بڑھ سکتا ہے، جس سے پارٹی کی آئندہ سیاسی جدوجہد پیچیدہ ہو جائے گی۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی تحریک انصاف کے فائنل احتجاج پر مختلف ردعمل ظاہر کر سکتے ہیں۔ جہاں حکومت احتجاج کے دوران کسی بھی قسم کی تشویش یا بدامنی کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کر سکتی ہے، وہیں اپوزیشن بھی اس موقع پر اپنی سیاسی گیم کو آگے بڑھانے کے لیے پی ٹی آئی کے ساتھ اظہار یکجہتی کر سکتی ہے۔ تاہم اگر حکومت نے پی ٹی آئی کے احتجاج کو غیر قانونی قرار دیا یا اسے روکنے کی کوشش کی تو اس سے ملک میں مزید سیاسی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف اگر پی ٹی آئی کے احتجاج میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت نہ کی یا وہ حکومت کے خلاف کوئی ٹھوس نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے، تو اپوزیشن کی جماعتیں اس موقع کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکتی ہیں۔اپوزیشن کی طرف سے یہ امکان بھی موجود ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے احتجاج کو ایک ’’مذہبی‘‘ یا ’’مذہبی اصولوں کی خلاف ورزی‘‘ کے طور پر پیش کر کے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے نتیجے میں تحریک انصاف کے لئے سیاسی مہم مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے، کیونکہ اس سے پارٹی کی سیاسی ساکھ اور عوامی حمایت پر مزید دباؤ آ سکتا ہے۔
تحریک انصاف کے پچھلے احتجاج نے یہ ثابت کیا کہ پارٹی کی تنظیمی صلاحیت میں اتنی ہم آہنگی اور استحکام نہیں رہا جو ایک کامیاب تحریک کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب پارٹی کے اندر مختلف دھڑے فعال ہیں اور قیادت کے حوالے سے اختلافات بڑھ رہے ہیں، ایک بڑے سطح کے احتجاج کی کامیابی کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ اس بار اگر پی ٹی آئی اپنے داخلی مسائل اور قیادت کے بحران کو حل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پارٹی اپنے احتجاجی منصوبے میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔یہ بات واضح ہے کہ تحریک انصاف کا اندرونی اتحاد اس وقت کمزور ہو چکا ہےاور اگر اس احتجاج کے دوران پارٹی کے مختلف دھڑے آپس میں متفق نہ ہوں یا ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات رکھتے ہوں تو اس کا اثر پورے احتجاج پر پڑے گا۔ پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے درمیان عدم ہم آہنگی اور رابطوں میں کمی، پارٹی کے احتجاجی کامیابی کو محدود کر سکتی ہے۔
پاکستان اس وقت نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی بحران کا بھی شکار ہے۔ ملک میں مہنگائی، بیروزگاری، اور معاشی عدم استحکام نے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرایا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر پی ٹی آئی اپنے احتجاج میں عوام کو شامل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ عوام کی بیشتر تعداد اپنے روزمرہ مسائل میں ہی الجھی ہوئی ہے اور انہیں سیاسی احتجاج میں حصہ لینے کی مزید ہمت نہیں ہو گی۔ اس لئے پی ٹی آئی کو اپنے احتجاجی ایجنڈے کو عوامی مسائل کے حل سے جوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام اس احتجاج کا حصہ بنیں اور اسے اپنی حقیقی مسائل کے حل کے طور پر دیکھیں۔
آخرکار، 24 نومبر کا فائنل احتجاج تحریک انصاف کے لئے ایک اہم سیاسی موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ فیصلہ جلد بازی پر مبنی ہے اور اس کے کامیاب ہونے کا دارومدار پارٹی کی تنظیمی صلاحیت، عوامی حمایت، اور حکومتی ردعمل پر ہے۔ تحریک انصاف کو اپنے احتجاجی اہداف کو واضح طور پر متعین کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اندرونی اختلافات کو ختم کرنے کے لئے ایک مضبوط حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ اگر پارٹی اس احتجاج کو کامیاب بنانے میں ناکام رہتی ہے تو نہ صرف اس کے لئے سیاسی بحران پیدا ہو گا بلکہ پاکستان کی سیاست میں ایک اور پیچیدہ دور شروع ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر یہ احتجاج کامیاب ہوتا ہے، تو پی ٹی آئی کو نئی قوت حاصل ہو سکتی ہے اور اس کے سیاسی مستقبل کے لئے یہ ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔
تحریک انصاف کا 24 نومبر کو فائنل احتجاج ایک اہم سیاسی موڑ ہے، لیکن اس کا کامیاب ہونا بہت سے عوامل پر منحصر ہے۔ پی ٹی آئی کو اپنے احتجاجی فیصلوں میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے ہوں گے تاکہ وہ اپنے حامیوں کی حمایت برقرار رکھ سکے۔ پارٹی میں درپیش اندرونی اختلافات، پچھلے احتجاج کی ناکامیاں، اور ملک میں موجود موسمی بحران جیسے عوامل عمران خان کے لیے ایک سنگین چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی اس احتجاج کو کامیاب بنانے میں ناکام رہی تو نہ صرف ان کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچے گا بلکہ ملک میں ایک اور سیاسی بحران جنم لے سکتا ہے جس کا اثر حکومت، اپوزیشن اور عوام پر پڑے گا۔یہ وقت پی ٹی آئی کے لئے اہم ہے کہ وہ اپنے احتجاجی فیصلوں پر نظر ثانی کرے اور کسی بھی جلد بازی کے بغیر ایک متوازن حکمت عملی اپنائے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں