آج کی تاریخ

Champions Trophy 2025, Cricket Champions Trophy,

حکومت اور بغض عمران

پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت ہمیشہ سے متنازعہ اور پیچیدہ رہا ہے، لیکن موجودہ دور میں جس طرح سے حکومت نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف انتقامی سیاست کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنایا ہے، وہ ایک نیا اور خطرناک رخ اختیار کر چکا ہے۔ حالیہ دنوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کہ حکومت کی قیدیوں سے سیاسی گفتگو پر فوری پابندی کی درخواست مسترد کردی گئی نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی حکومت کی بے بنیاد سیاسی مداخلت اور بغض عمران میں حد سے آگے نکلنے کی پالیسی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی گفتگو کی آزادی کا تاریخی پس منظر ہے اور اس میں کسی بھی حکومت کی مداخلت کا مقصد صرف اور صرف سیاسی مخالفین کو دباؤ میں لانا ہوتا ہے۔ عمران خان کے قریبی حلقوں اور ان کے حامیوں کے بارے میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے مخالفین کو مختلف طریقوں سے زیر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے حکومت کی درخواست کو مسترد کیا جانا اس بات کا غماز ہے کہ عدالتیں آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہیں اور وہ کسی بھی غیر آئینی اقدام کو جواز فراہم نہیں کرنے دیتیں۔ حکومت کی درخواست کا مقصد صرف قیدیوں کے درمیان سیاسی گفتگو پر پابندی لگانا تھا جو ایک بے جا مداخلت تھی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے حالیہ درخواست پر سماعت کے دوران حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے اہم فیصلہ سنایا۔ حکومت نے جیلوں میں قیدیوں کی ملاقاتوں کے دوران سیاسی گفتگو پر پابندی لگانے کی درخواست دی تھی جو کہ ایک سنگین اور غیر جمہوری اقدام تھا۔ عدالت نے حکومت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا کہ جیل میں قید افراد کو سیاسی گفتگو کرنے سے روکا نہیں جا سکتا جب تک کہ اس میں کسی قسم کی بدامنی یا خطرہ پیدا نہ ہو۔اس حوالے سے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کا فیصلہ اہم ہے، جس میں انہوں نے جیل رولز کی شق 265 کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ یہ شق پنجاب پریزن رولز سے تعلق رکھتی تھی جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے دائرہ اختیار میں آ کر چیلنج کیا تھا۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ اس فیصلے کو فوری طور پر معطل کیا جائے، لیکن عدالت نے ان کی استدعا کو مسترد کر دیا۔
پاکستان کی سیاست میں جب سے عمران خان نے تحریک انصاف کی قیادت سنبھالی ہے، تب سے ہی ان کے خلاف حکومت کی انتقامی سیاست عروج پر ہے۔ ایک طرف جہاں تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے، وہیں دوسری طرف حکومت کے چھوٹے چھوٹے اقدامات جیسے سیاسی گفتگو پر پابندی، مخالفین کی زبان بندی اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔حکومت کی بغض عمران پر مبنی پالیسی نے اداروں کو بھی شدید متاثر کیا ہے اور یہ عمل جمہوریت اور آئین کے خلاف ایک واضح حملہ ہے۔ حکومت کی خواہش یہ ہے کہ عمران خان اور ان کے حامیوں کو سیاسی طور پر محض اس لیے الگ تھلگ کر دیا جائے کہ وہ موجودہ حکومت کے مخالف ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک جمہوری ملک میں کسی بھی فرد کی سیاسی آزادی کو اس طرح سے سلب کرنا کہاں تک درست ہے؟
پاکستان میں سیاسی انتقام اور حکومتوں کی جانب سے مخالفین کو دبانے کی تاریخ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم موجودہ حکومت کا بغض عمران میں حد سے آگے نکلنا ایک نئی سطح پر پہنچ چکا ہے۔گزشتہ برس لاہور ہائی کورٹ نے بھی سیاسی گفتگو پر پابندی کی حکومتی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی قیدی اپنے سیاسی خیالات کو ظاہر کرنے کے حق سے محروم نہیں ہو سکتا۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے نے بھی حکومت کی جانب سے جیلوں میں سیاسی سرگرمیوں کو روکنے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا۔عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے ساتھ ہونے والے سلوک نے پورے ملک میں ایک نیا سیاسی بحران پیدا کر دیا تھا۔ ان کی گرفتاری کو جواز بنا کر حکومت نے ایک طرف انہیں سیاسی طور پر موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی تو دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکنوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک بھی کیا گیا۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے ان کی رہائی اور سیاسی عمل میں شرکت کے راستے کو روکنے کی مسلسل کوششیں دیکھنے کو ملیں۔
پاکستان میں میڈیا کو ہمیشہ سے ایک چیلنج کا سامنا رہا ہے، لیکن اس دور میں حکومت کی جانب سے میڈیا پر دباؤ بڑھانے اور ان کے ذریعے مخالفین کی آواز کو دبانے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں۔ میڈیا کے ادارے نہ صرف حکومت کے اقدامات پر تنقید نہیں کر سکتے بلکہ انہیں اپنی رپورٹنگ میں جمود کی صورت میں گزرنا پڑتا ہے۔پاکستان کی جمہوریت میں ایک بنیادی ستون یہ ہے کہ ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو اور ہر قیدی کو سیاسی طور پر اپنے خیالات کے اظہار کا حق ہو۔ تاہم موجودہ حکومت کے اقدامات اس اصول کے خلاف ہیں۔ حکومت کی جانب سے سیاسی گفتگو پر پابندی کا مقصد نہ صرف سیاسی مخالفین کو خاموش کرنا ہے بلکہ جمہوریت کے اصل اصولوں کو بھی کمزور کرنا ہے۔ یہ عمل ایک نیا نوعیت کا سیاسی انتقام ہے جو نہ صرف عمران خان بلکہ پورے سیاسی نظام کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جب بھی کسی حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی ہیں اس کے نتائج نہ صرف سیاسی عدم استحکام کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں بلکہ عوام میں حکومت کی مخالفت میں مزید شدت بھی آئی ہے۔ موجودہ حکومت کے بغض عمران کے جواز میں کیے جانے والے اقدامات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنی حکومت میں جو تبدیلیوں کی بات کی تھی وہ بہت سے لوگوں کے لیے ایک نیا سیاسی افق تھا۔ لیکن موجودہ حکمرانوں نے یہ تبدیلی کی خواہش برداشت نہ کی اور عمران خان کو سیاسی طور پر ہراساں کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھایا۔یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی جمہوری نظام میں حکومت کو اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ ہر فرد کو اپنی سیاسی رائے رکھنے اور اس کے اظہار کا حق حاصل ہے، چاہے وہ قید میں ہو یا آزاد۔ لیکن موجودہ حکومت نے اس بنیادی حق کو سلب کرنے کی جتنی کوششیں کی ہیں، اس سے جمہوریت کو ایک سنگین دھچکا پہنچا ہے۔ قیدیوں سے سیاسی گفتگو پر پابندی لگانے کی حکومتی درخواست ایک ایسا اقدام تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اپنے مخالفین کے لیے صرف جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں بلکہ ان کے حق اظہار رائے کو بھی محدود کرنا چاہتی ہے۔
حکومت کے اس طرح کے اقدامات نے نہ صرف تحریک انصاف کے حامیوں کو غصے میں مبتلا کیا بلکہ ملک کی وسیع عوامی حمایت میں بھی کمی کا باعث بنے ہیں۔ ایک جمہوری معاشرے میں اگر حکومت اپنی سیاسی حکمت عملی کو چلانے کے لیے طاقت کا استعمال کرے اور مخالفین کو سیاسی سرگرمیوں سے محروم کرنے کے اقدامات کرے تو اس کے اثرات عوامی اعتماد پر مرتب ہوتے ہیں۔ عوام میں یہ تاثر قائم ہو جاتا ہے کہ حکومت سیاسی عمل کو دھاندلی کے ذریعے قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے، جس سے پورے سیاسی نظام کا اعتبار متاثر ہوتا ہے۔حکومت کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ایک جمہوریت میں طاقت کا استعمال اس وقت تک جائز ہوتا ہے جب تک وہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر ہو۔ اگر حکومت سیاسی مخالفین کو خوف و ہراس کے ذریعے خاموش کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ نہ صرف جمہوریت کے خلاف ہے بلکہ ملک میں سیاسی فضا کو مزید تنگ کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کی مقبولیت میں مزید کمی واقع ہوتی ہے اور عوام میں حکومت کے بارے میں منفی رائے پیدا ہوتی ہے۔
پاکستان میں سیاسی نظام کی ترقی اور جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ حکومت سیاسی مخالفین کو صرف سیاسی عمل کا حصہ سمجھے نہ کہ ان کے وجود کو غیر قانونی طور پر مٹانے کی کوشش کرے۔ اس کے لیے سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھی جا سکیں اور کسی کو بھی جیلوں میں بند کر کے اس کے سیاسی حقوق کو دبانے کی اجازت نہ ہو۔عدلیہ کا کردار اس حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ اس بات کی گواہی ہے کہ جب حکومت کسی غیر آئینی اقدام کے ذریعے اپنے مخالفین کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہے تو عدالتیں اپنے آئینی کردار کو ادا کرنے میں پیچھے نہیں ہٹتیں۔ عدالت نے واضح طور پر اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جیل میں قید افراد کو سیاسی اظہار رائے کے حق سے محروم کرنا آئین کے خلاف ہے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کو روکا ہے۔
جمہوریت کا اصل کلمہ سیاسی آزادی ہے۔ جب تک ہر فرد بشمول قیدیوںکو اپنی سیاسی رائے کے اظہار کی آزادی حاصل ہے، تب تک جمہوریت کی بنیاد مضبوط رہتی ہے۔ لیکن جب حکومت کسی سیاسی جماعت کے رہنماؤں یا کارکنوں کو اس حق سے محروم کرتی ہے، تو یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں کمزور ہو جاتی ہیں اور عوام کا حکومتی اداروں سے اعتماد اٹھنے لگتا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ حکومت کا یہ بغض عمران میں حد سے آگے نکلنا نہ صرف سیاسی انتشار کا سبب بنے گا بلکہ اس سے عوامی سطح پر حکومت کے خلاف غم و غصہ بھی بڑھے گا۔ پاکستان کی جمہوریت اور آئین کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کے حقوق کا احترام کرے اور ان کے اظہار رائے کو روکنے کی بجائے ان کے ساتھ قانونی دائرے میں شفاف اور منصفانہ طریقے سے پیش آئے۔
پاکستان میں جمہوری عمل کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کا پابند بنایا جائے۔ حکومت کا بغض عمران میں حد سے آگے نکلنا اور سیاسی آزادی پر پابندی لگانے کی کوششیں نہ صرف غیر آئینی ہیں بلکہ یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف بھی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ حکومت کو ایک پیغام دیتا ہے کہ سیاسی انتقام اور مخالفین کو دبانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی، جب تک کہ عدلیہ اور عوام آئین کی حفاظت کے لیے کھڑے ہیں۔پاکستان کے عوام اور سیاسی قیادت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ جمہوریت میں اختلاف رائے کا احترام کرنا ضروری ہے اور کسی بھی حکومت کا اصل مقصد عوام کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے نہ کہ سیاسی انتقام کا ایجنڈا چلانا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں