آج کی تاریخ

Champions Trophy 2025, Cricket Champions Trophy,

چیمپئنز ٹرافی،عدم شرکت پر بھارت کو سزا یا پی سی بی کو جزا

کرکٹ دنیا کا ایک مقبول ترین کھیل ہے جو قوموں کو جوڑنے اور ان کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مختلف ٹورنامنٹس جیسے ورلڈ کپ اور چیمپیئنز ٹرافی کھیل کے معیار کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کو بھی فروغ دیتے ہیں۔ آئندہ سال 2025 میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کا انعقاد پاکستان میں ہو رہا ہے، لیکن بھارت کی جانب سے ممکنہ عدم شرکت کے باعث یہ ایونٹ تنازعات کا شکار ہے۔
بھارت کا کہنا ہے کہ وہ سکیورٹی خدشات کی بنا پر پاکستان میں میچ نہیں کھیلے گا، جبکہ حقیقت میں یہ تنازع دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات کی تلخی کا نتیجہ ہے۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ آئی سی سی اپنے قوانین کے مطابق کارروائی کرے اور ایک مضبوط پیغام دے کہ کھیل کو سیاست سے علیحدہ رکھا جائے۔آئی سی سی کے قوانین کے مطابق، اگر کوئی ٹیم کسی بھی آئی سی سی ٹورنامنٹ میں شرکت سے انکار کرتی ہے، تو اس کے میچوں کو ہارا ہوا شمار کیا جاتا ہے اور حریف ٹیم کو دو پوائنٹس دے دیے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ٹورنامنٹ کے شیڈول کو متاثر کیے بغیر آگے بڑھایا جائے اور دیگر ٹیموں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔
1996 کے ورلڈ کپ میں، آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز نے سری لنکا کے خلاف میچ کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔ انکار کی وجہ سری لنکا میں دہشت گردی کے واقعات اور سیکورٹی خدشات تھے۔ آئی سی سی نے دونوں میچوں کو سری لنکا کے حق میں فیصلہ کر دیا اور سری لنکا کو پوائنٹس دے کر اگلے مرحلے میں پہنچا دیا۔ 2003 کے ورلڈ کپ کے دوران، نیوزی لینڈ نے کینیا میں میچ کھیلنے سے انکار کیا جبکہ انگلینڈ نے زمبابوے کے خلاف کھیلنے سے معذرت کی۔ آئی سی سی نے دونوں صورتوں میں پوائنٹس حریف ٹیموں کو دے دیے۔ اس فیصلے کے بعد، زمبابوے اور کینیا دونوں نے اگلے راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016 میںبھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والے میچ کو دھرم شالہ سے کولکتہ منتقل کرنا پڑا کیونکہ پاکستان نے سیکورٹی خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اس دوران بھارتی بورڈ نے دباؤ ڈالا اور میچ منتقل کر دیا گیا، حالانکہ پاکستان کی ٹیم بھارت کے سیکورٹی اقدامات سے مطمئن نہیں تھی۔ اس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اکثر اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے فیصلے اپنے حق میں کرواتا ہے۔
بھارت کا چیمپیئنز ٹرافی 2025 میں شرکت سے انکار بین الاقوامی کرکٹ پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ بھارت کرکٹ کی دنیا میں ایک بڑی مارکیٹ ہے، اور اس کی عدم موجودگی سے ٹورنامنٹ کی مقبولیت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، مالی نقصانات بھی ہو سکتے ہیں، جیسے کہ ٹی وی رائٹس، اشتہارات، اور اسپانسرز کی دلچسپی میں کمی۔بھارت دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ بازار ہے، اور اس کی عدم موجودگی سے آئی سی سی کے مالی معاملات پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ اشتہارات اور براڈکاسٹنگ معاہدے بھارت کے شائقین کی بنیاد پر ہوتے ہیں، اور اس کی عدم شرکت سے بڑی تعداد میں مالی نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ تعلقات ہمیشہ سے ہی حساس رہے ہیں۔ بھارت کی عدم شرکت ایک نئی بحث چھیڑ سکتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔آئی سی سی کو اپنے قوانین کے تحت ہر اس میچ کو بھارت کے لیے ہارا ہوا شمار کرنا چاہئے جس میں وہ شرکت نہیں کرتا۔ حریف ٹیم کو واک اوور دیا جانا چاہئے اور اسے دو پوائنٹس دیے جائیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو چاہئے کہ بھارت کی عدم شرکت کی صورت میں متبادل ٹیموں جیسے سری لنکا، ویسٹ انڈیز، یا بنگلہ دیش کو مدعو کرے تاکہ ٹورنامنٹ کا معیار برقرار رہے۔ اس اقدام سے ٹورنامنٹ کا شیڈول متاثر نہیں ہوگا اور دیگر ٹیموں کو کھیلنے کا موقع ملے گا۔
اگر بھارت شرکت نہیں کرتا تو آئی سی سی کو سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ بی سی سی آئی پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے اور مستقبل کے ٹورنامنٹس میں اس کی شرکت پر پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے۔ آئی سی سی کے قوانین کے مطابق، کسی بھی ٹیم کی جانب سے شرکت سے انکار بین الاقوامی کرکٹ کے اصولوں کے خلاف ہے اور اس پر سخت ایکشن لیا جانا چاہئے۔ایک بڑا مسئلہ جو یہاں آتا ہے وہ ہے آئی سی سی پر بھارت کا اثر و رسوخ۔ بی سی سی آئی دنیا کا امیر ترین کرکٹ بورڈ ہے اور آئی سی سی کے مالی وسائل کا بڑا حصہ بھارت سے آتا ہے۔ اس لیے آئی سی سی اکثر بھارت کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کرتا ہے۔2023 کے ایشیا کپ کے دوران بھارت نے نیوٹرل مقام پر میچوں کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ وہ پاکستان میں کھیلنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس مطالبے کو ایشین کرکٹ کونسل نے منظور کر لیا تھا حالانکہ پاکستان نے کئی بار سیکورٹی کی یقین دہانی کرائی تھی۔ 1970 کی دہائی میں، انگلینڈ اور آسٹریلیا نے جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلنے سے انکار کیا تھا کیونکہ جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کی پالیسی تھی۔ اس وقت آئی سی سی نے جنوبی افریقہ کو بین الاقوامی کرکٹ سے معطل کر دیا تھا۔ 2000 کی دہائی کے اوائل میں، زمبابوے کے سیاسی حالات کی وجہ سے کئی ممالک نے وہاں کھیلنے سے انکار کیا تھا۔ اس کے بعد آئی سی سی نے زمبابوے کرکٹ بورڈ کے خلاف کارروائی کی اور اسے کچھ عرصے کے لیے بین الاقوامی کرکٹ سے معطل کر دیا۔
بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی مالی پوزیشن میں بھارت کا کردار انتہائی اہم ہے کیونکہ بھارت کرکٹ کی دنیا میں سب سے بڑی مارکیٹ ہے اور آئی سی سی کی آمدنی کا تقریباً 80 فیصد حصہ بھارتی براڈکاسٹنگ رائٹس اور اشتہارات سے آتا ہے۔ ایسے میں اگر بھارت چیمپیئنز ٹرافی 2025 میں شرکت سے انکار کرتا ہے، تو آئی سی سی کے لیے اسے سزا دینا نہایت مشکل ہو جائے گا۔ بجائے اس کے کہ آئی سی سی اپنے قوانین پر عمل کرتے ہوئے بھارت کے خلاف کارروائی کرے، وہ ممکنہ طور پر اپنی مالی مفادات کی وجہ سے بھارت کو رعایت دینے کی کوشش کرے گا۔آئی سی سی جانتا ہے کہ بھارت کو سزا دینے سے بی سی سی آئی ناراض ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں بھارت آئی سی سی کے مختلف ٹورنامنٹس میں شرکت کرنے سے انکار بھی کر سکتا ہے۔ اس کے باعث آئی سی سی کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا، خاص طور پر براڈکاسٹنگ رائٹس کی قیمتوں میں کمی اور اسپانسرز کے دلچسپی میں کمی آئے گی۔ اس صورتحال میں آئی سی سی پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے کہ وہ بھارت کے مطالبات مانے یا اسے لالچ دے کہ اگر وہ بھارت کے ساتھ کھیلنے کے لیے نیوٹرل مقام پر رضامند ہو جائے تو آئی سی سی پاکستان کے لیے اضافی مالی فوائد یا سہولتیں فراہم کرے گا۔پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ ہو گا کیونکہ پاکستان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر میچ منعقد کر کے کرکٹ کے فروغ کے ساتھ ساتھ اپنے کرکٹ بورڈ کی مالی پوزیشن کو بھی مضبوط کرے۔ تاہم، آئی سی سی کی جانب سے لالچ دینے کی صورت میں، پاکستان کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹے اور بھارت کے ساتھ کھیلنے کے لیے نیوٹرل مقام پر راضی ہو جائے، تاکہ آئی سی سی کی مالی مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔ اس طرح آئی سی سی اپنی مالی لالچ میں اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کو سزا دینے کے بجائے پاکستان کو لالچ دے کر معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرے گا۔
بھارت کی چیمپیئنز ٹرافی 2025 میں شرکت سے انکار نہ صرف کرکٹ کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ یہ کھیل کے روح کے منافی بھی ہے۔ آئی سی سی کو چاہئے کہ وہ اس معاملے میں غیر جانبدارانہ رویہ اپنائے اور اپنے قوانین کے تحت بھارت کے خلاف کارروائی کرے۔ اگر آئی سی سی اس معاملے میں خاموشی اختیار کرتی ہے تو یہ اس کے غیر جانبداری کے اصولوں پر سوالات اٹھاتا ہے اور اس کے بھارتی اثر و رسوخ کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔آئی سی سی کو ایک مضبوط پیغام دینا چاہئے کہ کرکٹ سیاست سے بالاتر ہے۔ بھارت کی عدم شرکت کی صورت میں اسے ہر میچ میں ہارا ہوا شمار کیا جائے اور دیگر ٹیموں کو مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ ٹورنامنٹ کا معیار اور شائقین کا جوش و خروش برقرار رہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف کھیل کی ساکھ بحال ہوگی بلکہ آئی سی سی کا وقار بھی بڑھے گا۔بین الاقوامی کرکٹ کو سیاست سے پاک رکھا جانا چاہئے اور آئی سی سی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی بھی ٹیم اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کھیل کے اصولوں کو پامال نہ کرے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں