آج دنیا کے مختلف ممالک آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں سی او پی 29 کانفرنس کے لیے جمع ہو رہے ہیں، جہاں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے عالمی اقدامات پر تبادلہ خیال ہوگا۔ اس کانفرنس میں پاکستان کی شرکت نمایاں ہے، جہاں ہمارا وفد موسمیاتی انصاف، توانائی کی منتقلی اور صنفی حساس موسمیاتی پالیسیوں پر بات چیت کرے گا۔ پاکستان عالمی سطح پر اپنے قومی اقدامات جیسے لیونگ انڈس پراجیکٹ اور ریچارج پاکستان کو پیش کرے گا، تاکہ موسمیاتی مطابقت اور پائیداری کے لیے اپنی سنجیدہ کاوشوں کو اجاگر کیا جا سکے۔ تاہم، اصل چیلنج اس بات کا ہے کہ ان منصوبوں کے لیے بامعنی مالی معاونت کیسے حاصل کی جائے۔دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے خلاف اقدامات کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ جہاں ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی مطابقتی مالیات میں اضافے کا دعویٰ کر رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ اضافہ ناکافی ہے۔ مثال کے طور پر، صرف پاکستان کو 2030 تک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے عالمی بینک کے مطابق 348 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ اس میں لوس اینڈ ڈیمیج فنڈ کی رقم بھی شامل ہے، جو کہ 770 ملین ڈالر ہے، اور یہ بہت کم ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے مالی وعدے انتہائی ناکافی ہیں۔سینیٹر شیری رحمان نے ترقی یافتہ ممالک سے بین الاقوامی طے شدہ شراکت کی اپیل کی ہے، تاکہ موسمیاتی اثرات سے متاثرہ ممالک کی مدد ہو سکے۔ پاکستان جیسے ممالک جو عالمی اخراج میں نہایت کم حصہ ڈالتے ہیں، موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا غیر متناسب بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ 2022 میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب جنہوں نے 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا، اور پنجاب میں اس سال سرحد پار سے آنے والی شدید اسموگ ہماری کمزوریوں کو واضح کرتی ہے۔ یہ آفات ہمارے قدرتی وسائل اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہیں، جس سے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں اور روزگار کو خطرہ لاحق ہے۔سی او پی 29 میں اس سال کے دوران ایک نئے موسمیاتی مالیاتی ہدف پر بات چیت ہوگی، جو کہ پیرس معاہدے کے تحت 100 ارب ڈالر سالانہ کی کمٹمنٹ سے زیادہ ہوگا۔ ترقی پذیر ممالک اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ موسمیاتی مالیات کو گرانٹس یا بڑی رعایتوں کی صورت میں فراہم کیا جائے، تاکہ قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ میں اضافہ نہ ہو۔ آذربائیجان کی جانب سے مجوزہ 1 ارب ڈالر کا کلائمٹ فنانس ایکشن فنڈ موسمیاتی فوسل فیول پروڈیوسرز کی مالی مدد سے آفات کے ردعمل اور کمیونٹی منصوبوں میں معاونت کرے گا اور اس سلسلے میں ایک نیا اور مؤثر طریقہ فراہم کر رہا ہے۔پاکستان کے لیے یہ کانفرنس موسمیاتی چیلنجز پر عالمی برادری سے تعاون حاصل کرنے کا ایک اہم موقع ہے۔ پارلیمانی کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی نے شفافیت اور قابل پیمائش نتائج پر زور دیا ہے۔ اس کانفرنس میں ہماری کامیابی کا انحصار صرف حکومتی اقدامات پر نہیں بلکہ نجی شعبے کی شرکت اور صوبائی سطح پر موسمیاتی منصوبوں کو مضبوط بنانے پر بھی ہے۔گلوبل کلائمٹ فنانس فریم ورک، جسے پہلے ہی 15 ممالک نے دستخط کیا ہے، پاکستان کے لیے موسمیاتی مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ موسمیاتی اثرات سے متاثرہ ملک کی حیثیت سے اپنی اخلاقی اور اصولی حیثیت کو بہتر طور پر استعمال کرے، تاکہ عالمی برادری کو موسمیاتی انصاف کے لیے اس کے اہم کردار کی یاد دہانی کرائی جا سکے۔پاکستان کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں صرف حکومت کی سطح پر اقدامات کافی نہیں۔ ہمیں اپنی عوام کو آگاہ کرنا ہوگا، نجی شعبے کو موسمیاتی پالیسیوں میں شامل کرنا ہوگا، اور تعلیمی اداروں میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے شعور کو فروغ دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ، زرعی اور صنعتی شعبے میں جدت لاتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ پاکستان کو اپنے محدود وسائل کے باوجود اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہر سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالے۔پاکستان اس کانفرنس میں صرف اپنی ضروریات کا ذکر نہ کرے بلکہ عالمی برادری کے لیے ایک مثال قائم کرے کہ کس طرح موسمیاتی انصاف کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ایک خوشحال اور پائیدار مستقبل کے لیے کام کیا جا سکتا ہے۔
سرکاری اخراجات میں کمی کی راہ میں رکاوٹیں اور اصلاحات کی ضرورت
پاکستان کی معاشی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے آئی ایم ایف (عالمی مالیاتی فنڈ) نے ایک بیل آؤٹ پروگرام کے تحت حکومت کو سرکاری اخراجات میں کمی، موجودہ اخراجات پر قابو پانے، مالیاتی خسارے کو کم کرنے اور قرضوں کی پائیداری کے لیے بنیادی سرپلس حاصل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ حکومت پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اخراجات کو محدود کرے اور وسائل کا بہتر استعمال کرے تاکہ مالیاتی استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس منصوبے کے تحت، حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ نہ صرف اخراجات میں کمی کرے بلکہ معیشت میں ترقی اور استحکام کے لیے ضروری اقدامات بھی کرے۔حکومت پر اس پروگرام کے سبب سیاسی اور سماجی حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی ہے۔ خصوصاً اقتصادی ماہرین اور سیاسی جماعتوں نے حکومت پر تنقید کی ہے کہ اس نے آئی ایم ایف کے مالیاتی اہداف کو پورا کرنے کے لیے تنخواہ دار اور ٹیکس ادا کرنے والے افراد پر بھاری ٹیکس عائد کیے ہیں، جبکہ سرکاری اخراجات میں کمی کے بجائے بوجھ عوام پر منتقل کر دیا ہے۔ اس حکمت عملی سے نہ صرف عوامی ردعمل پیدا ہوا ہے بلکہ معاشرتی سطح پر بے چینی بھی بڑھ رہی ہے۔جون میں وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں اعلان کیا کہ حکومت نے اخراجات میں کمی کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا ہے۔ انہوں نے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کو ختم کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے مالی اخراجات کو محدود کرنے اور حکومتی ڈھانچے کو مختصر کرنے کے لیے یہ اقدام ناگزیر تھا۔ بعد ازاں، اگست میں کابینہ نے 150,000 سرکاری ملازمین کی آسامیوں کے خاتمے، چھ وزارتوں کی بندش اور دو وزارتوں کے انضمام کی منظوری دی۔ ان فیصلوں کے ذریعے حکومت سرکاری مشینری میں اصلاحات لاکر اخراجات میں کمی اور کارکردگی میں بہتری کا ارادہ رکھتی ہے۔تاہم، اصلاحات کے باوجود، اصل چیلنج ان اقدامات کے عملی نفاذ میں ہے۔ حکومت نے تمام وفاقی ڈویژنز، وزارتوں اور ذیلی اداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ غیر ضروری آسامیوں کی فہرستیں تیار کریں، غیر ضروری خدمات کو آؤٹ سورس کریں، اور اضافی ملازمین کی تفصیلات فراہم کریں جنہیں مناسب پیکج دے کر سبکدوش کیا جا سکے۔ لیکن یہ تمام منصوبے سست روی کا شکار ہیں اور اس پر عمل درآمد میں تاخیر ہو رہی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق، کابینہ کے فیصلے کے دو ماہ بعد بھی، 40 سے زیادہ وزارتوں میں سے صرف 15 یا 16 نے ہی اس عمل کا آغاز کیا ہے۔ دیگر وزارتیں اب تک ٹھنڈے ردعمل کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اس سست رفتار عمل کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس منصوبے کا عملی طور پر کامیاب ہونا مشکل ہے۔ یہ صورتحال ماضی کی کوششوں سے مختلف نہیں۔ 1997 میں وفاقی حکومت نے اسی طرح کا ایک منصوبہ بنایا تھا، مگر یہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا۔ ایک سینئر معیشت دان کے مطابق، 2011 تک وفاقی ملازمین کی تعداد 829,000 تھی، جو 2017 میں 966,000 تک پہنچ گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی اخراجات میں کمی کے بجائے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری مشینری کا حجم بڑھتا گیا۔پاکستان میں بیوروکریسی کی مضبوط جڑیں اور غیر لچکدار رویہ حکومتی اصلاحات کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ 2017 میں عمران خان کے دور حکومت میں ایک بڑے حکومتی ڈھانچے کی تجدید کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا، جس میں 441 اداروں میں سے 325 کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن اس منصوبے پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ بیوروکریسی کی سست روی اور اصلاحات کے حوالے سے غیر دلچسپی نے اس منصوبے کو ناکامی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ مزید برآں، سرکاری اداروں کی نجکاری اور خسارے سے بچانے کے لیے ریاستی ملکیت کے اداروں کو محدود کرنے کی کوششیں بھی ناکام رہیں۔پاکستانی بیوروکریسی کی ساخت میں ایسے عوامل شامل ہیں جو اصلاحات کے عمل کو سست کر دیتے ہیں۔ عموماً سرکاری افسران اصلاحات کے فیصلوں پر عمل درآمد میں دلچسپی نہیں لیتے، خصوصاً جب ان پر سیاسی دباؤ نہ ہو۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ جب تک سیاست دان کسی فیصلے کو پوری قوت اور ارادے کے ساتھ پیش نہیں کرتے، بیوروکریسی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ اگر بیوروکریسی وزیراعظم کا پیغام صحیح طریقے سے نہیں سمجھ رہی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پیغام اس شدت سے نہیں دیا گیا جتنا کہ اس کے نفاذ کے لیے ضروری تھا۔حکومت کی جانب سے سرکاری اداروں کا حجم محدود کرنے کا منصوبہ نہ صرف مالیاتی استحکام کے لیے اہم ہے بلکہ اس کا براہ راست اثر عوام پر بھی پڑتا ہے۔ سرکاری اداروں کی تعداد اور حجم میں اضافے کے باعث عوامی خدمات کے معیار میں کمی آتی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تعداد بڑھنے سے جہاں حکومت کے مالی وسائل پر بوجھ بڑھتا ہے، وہاں عوامی خدمات بھی متاثر ہوتی ہیں۔ مثلاً، تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں کارکردگی اور معیاری خدمات کی فراہمی مشکل ہو جاتی ہے۔پاکستان میں سرکاری اداروں کی تعداد بڑھنے سے حکومتی وسائل پر بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ، حکومتی وسائل کا غیر مؤثر استعمال بھی معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ وسائل ترقیاتی منصوبوں اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہوں، انہیں غیر ضروری اخراجات اور سرکاری مشینری کو چلانے میں صرف کیا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے عوام کو تعلیم، صحت، اور دیگر بنیادی ضروریات میں بہتری کی سہولت فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پروگرام کے تحت مالیاتی استحکام کے حصول کے لیے حکومت کو سخت شرائط پر عمل کرنا پڑ رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت پر مالیاتی خسارے کو کم کرنے، اخراجات میں کمی اور بنیادی سرپلس کے حصول کی شرائط عائد کی ہیں۔ لیکن ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے عوام پر اضافی ٹیکسز عائد کیے جا رہے ہیں، جس سے تنخواہ دار طبقہ اور ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے اپنی بے کار اخراجات میں کمی کی ہوتی تو عوام کو یہ اضافی بوجھ نہ اٹھانا پڑتا۔پاکستان میں مالیاتی استحکام کے حصول کے لیے سخت اقدامات اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبات کے تحت حکومت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اخراجات کو محدود کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ، سرکاری اخراجات میں کمی کے لیے واضح حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ عوامی بوجھ میں کمی کی جا سکے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بیوروکریسی اور سرکاری افسران اس عمل کو تیزی سے اور سنجیدگی سے لے کر آگے بڑھائیں۔پاکستان میں اصلاحات کے نفاذ کے لیے مضبوط سیاسی ارادے کی ضرورت ہے۔ سرکاری افسران عموماً اس وقت تک کسی اقدام پر عمل درآمد میں دلچسپی نہیں لیتے جب تک انہیں واضح سیاسی پیغام نہ ملے۔ بیوروکریسی میں اصلاحات کے لیے ضروری ہے کہ وزیراعظم اور کابینہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور اسے ملکی مفاد میں تیزی سے آگے بڑھائیں۔ اگر سیاسی قیادت اس معاملے کو نظر انداز کرے گی تو اصلاحات کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گی۔پاکستان میں کئی مواقع پر اصلاحات کا اعلان کیا گیا ہے، مگر ان پر عمل درآمد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 1997 میں بھی حکومت نے سرکاری اداروں کے حجم کو کم کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا، مگر یہ منصوبہ بھی عمل درآمد سے محروم رہا۔ اس کے علاوہ، ریاستی ملکیت کے اداروں کی نجکاری اور دیگر اصلاحات بھی بیوروکریسی کی سست روی اور غیر دلچسپی کے باعث ناکام رہیں۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی توقعات پر پورا اترے اور اصلاحات کے عمل کو موثر اور فوری طور پر آگے بڑھائے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں مالیاتی استحکام اور سرکاری اداروں کی کارکردگی میں بہتری کے لیے حکومت کو واضح اور سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ اگر حکومت نے سرکاری اخراجات کو محدود کرنے اور عوامی فلاح و بہبود کو بڑھانے کے لیے اقدامات نہیں کیے تو مستقبل میں معیشت مزید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔اس کے علاوہ، عوام کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ مالیاتی استحکام کے لیے مشکل فیصلے ضروری ہیں۔ حکومت کو عوام کے تعاون کی ضرورت ہے تاکہ اصلاحات کا عمل کامیابی سے آگے بڑھ سکے۔ عوامی شعور بیدار کرنا، نجی شعبے کو شامل کرنا، اور تعلیمی اداروں میں موسمیاتی تبدیلی اور مالیاتی استحکام کے حوالے سے شعور بیدار کرنا اس عمل میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔پاکستان کو مالیاتی استحکام اور سرکاری مشینری کی کارکردگی میں بہتری کے لیے فوری اور سخت اصلاحات کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی کرنی ہوگی، غیر ضروری اخراجات کو محدود کرنا ہوگا، اور بیوروکریسی کو فعال بنانا ہوگا۔ اگر حکومت نے اس معاملے میں سنجیدگی سے کام لیا اور بیوروکریسی کو واضح پیغام دیا تو یہ اصلاحات کامیاب ہو سکتی ہیں۔ بصورت دیگر، یہ بھی ماضی کے ناکام منصوبوں کی طرح محض ایک اعلان بن کر رہ جائے گا۔پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت، بیوروکریسی اور عوام مل کر اس مالیاتی چیلنج کا سامنا کریں۔ اگر حکومت نے اپنے مالیاتی اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری اصلاحات کا عمل کامیابی سے آگے بڑھایا تو یہ نہ صرف معاشی استحکام بلکہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے بھی ایک اہم قدم ہوگا۔