آج کی تاریخ

کوئٹہ میں 4 مقامات پر دھماکے،ایک شخص جاں بحق

پاکستان میں استحکام یا خام خیالی؟

پاکستان کی تاریخ کو دیکھیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ سیاسی استحکام ہمیشہ ایک خواب ہی رہا ہے، جس کی تعبیر میں قدم قدم پر مشکلات حائل ہوئیں۔ 1947 میں آزادی کے بعد سے ملک میں سیاسی استحکام حاصل کرنے کی ہر کوشش میں رکاوٹیں پیش آئیں، جن میں فوجی مداخلت، اداروں کی کمزوری، اور حکمران طبقے کے مفادات شامل رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمران اشرافیہ اکثر معاشی اور سیکیورٹی مسائل کا حل “سیاسی استحکام” میں دیکھتے ہیں، مگر ان کے لیے سیاسی استحکام کا مطلب محض اقتدار پر مضبوط گرفت قائم رکھنا اور اختلافی آوازوں کو دبا دینا ہے۔ اس نام نہاد استحکام کے جواز میں جمہوری اصولوں اور شفافیت کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کی صورتحال نے ایک بار پھر اس مشاہدے کو درست ثابت کر دیا ہے کہ حکومتی اشرافیہ نے پارلیمانی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی حکمرانی قائم رکھی ہوئی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پارلیمانی روایات اور جمہوری اصولوں کو مستحکم کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں، لیکن ہر بار طاقت کے کھیل نے ان کوششوں کو نقصان پہنچایا۔ 1958 میں ملک میں پہلا مارشل لا نافذ ہوا، جس نے جمہوریت کے ارتقا کو روک دیا اور پارلیمنٹ کو مفلوج کر دیا۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لا نے پارلیمانی جمہوریت کو رد کرتے ہوئے ایک نئی صدارتی حکومت متعارف کروائی، جس کے اثرات آج تک پاکستانی سیاست پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد 1977 میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا نے ایک بار پھر جمہوری ڈھانچے کو نقصان پہنچایا، اور 1988 میں ان کے انتقال کے بعد ملک دوبارہ جمہوری نظام کی طرف لوٹا۔ لیکن اس دوران سیاسی جماعتوں کو تقسیم اور کمزور کر دیا گیا۔
نئے صدی کی شروعات بھی پاکستان میں طاقت اور سیاست کے اسی کھیل کی گواہ رہی۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر ایک بار پھر ملک میں مارشل لا نافذ کیا گیا۔ مشرف کے دور حکومت میں سیاسی استحکام کے نام پر پارلیمانی اختیارات کو کمزور کیا گیا اور حکومتی ادارے اپنی مرضی سے استعمال کیے گئے۔ مشرف نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے 2002 میں انتخابات کرائے، لیکن اختیارات کو مکمل طور پر اپنے پاس رکھا۔ اس کے بعد کی دہائیوں میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی، اور پاکستان کے سیاسی استحکام کو ہمیشہ طاقت کے مراکز نے قابو میں رکھا۔
گزشتہ چند دہائیوں میں یہ رجحان دیکھنے کو ملا ہے کہ پاکستان میں طاقت کی سیاست زیادہ تر شخصیت پرستی اور خاندانی سیاست کے گرد گھومتی ہے۔ سیاسی خاندانوں کی اس گرفت نے نہ صرف سیاسی اور جمہوری اداروں کو کمزور کیا ہے بلکہ حکومتی ناکامیوں میں بھی بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یہی خاندانی سیاست دان اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات قائم رکھنے کے ماہر ہیں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے باہم تعاون سے گریز نہیں کرتے۔ اس طرح کی سیاست سے حکومتی کارکردگی متاثر ہوئی ہے، اور عوامی فلاح و بہبود کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں حالیہ سیاسی صورتحال میں ایک بار پھر استحکام کے نام پر پارلیمانی اصولوں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ حکمران اشرافیہ اقتدار میں اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے۔ سیاسی اختلافات کو دبایا جا رہا ہے، اور میڈیا کے ذریعے ایک مصنوعی سکون کا تاثر دیا جا رہا ہے۔ بڑے شہروں میں ثقافتی تقریبات اور خوشگوار مناظر دکھا کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مگر اس مصنوعی سکون کے پیچھے دراصل ایک نہایت غیرمستحکم اور بے یقینی کی کیفیت ہے۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں صورتحال خاص طور پر سنگین ہے۔ ان علاقوں میں عدم استحکام اور تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں، جس سے مقامی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مقامی سیاسی جماعتیں اور حقوق کی تحریکیں حکومتی اقدامات سے نالاں ہیں، مگر ان کی آواز کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ان تحریکوں کو اکثر غیر ملکی اثرات سے متاثر یا ملک دشمن کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تحریکوں کے مطالبات عوامی مسائل پر مبنی ہیں۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہونے والے واقعات نے پاکستان کے اندرونی سیکیورٹی کے مسائل کو نمایاں کر دیا ہے۔ ان علاقوں میں سیاسی عدم استحکام اور بدامنی نے باغیوں اور شدت پسند گروہوں کو مقامی مسائل کا فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق، صرف اکتوبر 2023 میں 48 دہشت گردانہ حملوں میں 100 افراد جان سے گئے، جن میں سے 35 خیبر پختونخوا اور 9 بلوچستان میں ہوئے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ شدت پسند گروہ ان علاقوں میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا رہے ہیں۔
حکمران طبقات کا ماننا ہے کہ یہ مسائل محض شدت پسندوں کی کارستانی ہیں، اور انہیں سیکیورٹی اداروں کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، لیکن جب تک ان علاقوں کے عوامی مسائل کو سیاسی طور پر حل نہیں کیا جاتا، استحکام کی یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ مقامی سطح پر بے روزگاری، تعلیم، صحت اور دیگر مسائل حل کیے بغیر یہاں کے عوام کو مطمئن کرنا ناممکن ہے۔
پاکستان کے اندرونی سیکیورٹی مسائل اور معاشی صورتحال ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ طاقت کی سیاست اور معیشت کے درمیان مضبوط ربط پایا جاتا ہے، جس میں اقتدار کی تقسیم زرعی، صنعتی اور خدماتی شعبے میں اصلاحات پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ حقوق کی تحریکوں اور محروم طبقات کے مسائل داخلی سلامتی سے جڑے ہیں، جنہیں اکثر حکمران طبقات نظرانداز کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک حاصل کردہ سیاسی استحکام کا یہ تصور ایک خام خیالی ہی رہے گا جب تک کہ حاشیہ پر موجود آوازوں کو شامل نہ کیا جائے۔
پاکستان کے حکمران طبقات کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی سوچ کو وسعت دیں اور بلوچ، پشتون اور سندھ سمیت دیگر علاقوں کی سیاسی و حقوق کی تحریکوں کو قومی مکالمے میں شامل کریں۔ ان تحریکوں نے بارہا موجودہ سیاسی نظام کے اندر مذاکرات اور کام کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے، بشرطیکہ حکومت کا رویہ مخلص ہو۔ یہ تحریکیں اپنے حقوق کے لیے پُرامن طور پر جدوجہد کر رہی ہیں اور اگر انہیں مناسب طریقے سے شامل کیا جائے تو یہ نہ صرف حکومت کے لیے فائدہ مند ہوگا بلکہ ملک میں استحکام کے حصول میں بھی مدد ملے گی۔
اس صورتحال کا بہترین حل یہ ہے کہ حکمران طبقات ان حقوق کی تحریکوں کے ساتھ سنجیدہ مکالمے کا آغاز کریں اور ان کے مطالبات کو جمہوری اصولوں کے مطابق پورا کریں۔ اس طرح کا مکالمہ بامعنی اصلاحات کی راہ ہموار کر سکتا ہے اور عدم اطمینان کو کم کر سکتا ہے۔ اگر حکومت نے سیاسی نظام میں حقیقی تبدیلی لانے کی کوشش کی تو اس سے نہ صرف داخلی استحکام حاصل ہوگا بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا تاثر بہتر ہوگا۔
پاکستان کی تاریخ میں ہم نے دیکھا ہے کہ جب بھی ملک میں استحکام کے آثار نظر آتے ہیں تو اقتدار کے ایوانوں میں تکبر اور خود پسندی عود کر آتی ہے، جس سے ملک دوبارہ ایک خطرناک راستے پر چلا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد کا دور ایک مثال ہے، جب پاکستان نے عالمی سطح پر ترقی کی، مگر جنرل پرویز مشرف کی مہم جوئی اور عدالتی بحران نے اس ترقی کو نقصان پہنچایا۔
ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ استحکام کے نام پر جمہوری اصولوں کو پامال کرنے کے بجائے ایک جامع اور شراکت دارانہ حکومتی نظام اپنائیں۔ یہ تبھی ممکن ہے جب وہ حاشیہ پر موجود سیاسی اور حقوق کی تحریکوں کو بھی قومی مکالمے کا حصہ بنائیں اور ان کے مطالبات کو تسلیم کریں۔ موجودہ حکومتی رویے میں تبدیلی لانا وقت کی ضرورت ہے، تاکہ ملک میں حقیقی استحکام کا خواب پورا ہو سکے۔
پاکستان کو درپیش چیلنجز کا حل سیاسی شعور، عوامی مسائل کی فہم اور سنجیدہ حکومتی اقدامات میں ہے۔ محض طاقت اور سیاست کے کھیل سے حقیقی استحکام نہیں آ سکتا۔ حکمران طبقات کو اب اس خام خیالی سے نکلنا ہوگا کہ طاقت کے زور پر استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہیں اپنی سوچ اور حکمت عملی میں جامعیت اور شراکت داری کو شامل کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کو ایک مستحکم اور پائیدار مستقبل کی طرف لے جایا جا سکے۔

آسٹریلیا کے خلاف تاریخی جیت — پاکستان کی کرکٹ میں نئی تاریخ

پاکستان نے آسٹریلیا میں 22 سال کے طویل انتظار کے بعد ایک اہم ون ڈے سیریز جیت کر اپنی کرکٹ تاریخ میں ایک یادگار باب رقم کیا ہے۔ پرتھ اسٹیڈیم میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی نے قومی کرکٹ کے مداحوں کو امید کی ایک نئی کرن دکھائی۔ محمد رضوان کی زیر قیادت ٹیم نے انتہائی شاندار کھیل پیش کیا، جس میں پاکستان کے نوجوان بلے بازوں اور تجربہ کار باؤلرز نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
پاکستان کی جیت میں سب سے اہم کردار نصیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی، اور حارث رؤف نے ادا کیا۔ ان باؤلرز کی بہترین گیند بازی نے آسٹریلیا کی مضبوط بیٹنگ لائن کو بکھیر دیا۔ آسٹریلیا کو محض 140 رنز پر محدود کر دینا کسی بھی ٹیم کے لیے بڑا چیلنج ہوتا ہے، مگر پاکستانی باؤلرز نے یہ کام بخوبی سرانجام دیا۔ شاہین اور نصیم کی برق رفتار گیندیں آسٹریلوی بلے بازوں کے لیے ناقابلِ برداشت ثابت ہوئیں، جبکہ حارث نے اپنا شاندار فارم برقرار رکھتے ہوئے ایک بار پھر بہترین کارکردگی دکھائی۔
یہ جیت اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پاکستان نے سیریز کے پہلے میچ میں دو وکٹوں سے شکست کھانے کے بعد بھرپور واپسی کی۔ ایڈیلیڈ میں پاکستان نے نہ صرف نو وکٹوں سے کامیابی حاصل کی بلکہ اس جیت نے ٹیم کے حوصلے کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ پرتھ میں فتح کے ساتھ، پاکستانی ٹیم نے یہ ثابت کیا کہ وہ کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
پاکستان کی ٹیم میں نوجوان کھلاڑیوں، جیسے کہ سائم ایوب اور عبداللہ شفیق، نے بھی شاندار کارکردگی دکھائی۔ ان کی بیٹنگ نے ایک نیا اعتماد دیا ہے اور ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کے پاس مستقبل میں بھی بڑے میچز میں کارکردگی دکھانے والے بلے باز موجود ہیں۔ سائم ایوب نے 42 اور عبداللہ شفیق نے 37 رنز بنا کر پاکستان کو ایک مضبوط آغاز فراہم کیا، جس سے پاکستانی ٹیم نے بغیر کسی دباؤ کے ہدف حاصل کیا۔
یہ فتح نہ صرف پاکستانی کرکٹ کے لیے خوشی کا باعث ہے بلکہ اس نے ملک کے نوجوانوں کے لیے بھی ایک تحریک کا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستانی ٹیم کی اس کارکردگی نے ثابت کیا ہے کہ محنت، عزم اور لگن سے کسی بھی مشکل کو عبور کیا جا سکتا ہے۔ ٹیم کی یہ کارکردگی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کی ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، بلکہ مناسب تربیت اور حکمت عملی سے یہی ٹیم بڑے چیلنجز کا سامنا کر سکتی ہے۔
آسٹریلیا میں پاکستان کی جیت اس بات کی بھی یاد دہانی ہے کہ ٹیم کے کھلاڑیوں کو اعتماد اور تسلسل کے ساتھ کھیلنے کا موقع فراہم کیا جائے تو وہ عالمی معیار کی ٹیموں کے خلاف بھی شاندار کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ پاکستانی باؤلرز کی یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں فاسٹ باؤلنگ کا معیار بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے، اور یہ باؤلرز عالمی کرکٹ میں پاکستان کا نام روشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
آسٹریلیا کی اس شکست سے یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ عالمی چیمپئن ہونے کے باوجود، آسٹریلیا کی ٹیم کا معیار کمزور ہو سکتا ہے جب کچھ بڑے کھلاڑیوں کی کمی ہو۔ پاکستان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ اس فتح کو ایک نئے سفر کا آغاز بنائے اور عالمی سطح پر اپنی کرکٹ کو مزید مضبوط بنائے۔
اس تاریخی جیت کے بعد پاکستان کے شائقین کو ٹیم سے مزید امیدیں وابستہ ہو گئی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم اس جیت کے بعد آنے والے چیلنجز کو کس طرح قبول کرتی ہے۔ یہ جیت اس بات کی علامت ہے کہ اگر پاکستان کی ٹیم اپنی محنت جاری رکھے اور حکمت عملی میں نکھار لائے، تو وہ مستقبل میں مزید کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے۔
پاکستان کی کرکٹ میں یہ جیت ایک نئے عزم اور حوصلے کی بنیاد بن سکتی ہے۔

پاکستان کا ٹیکس بحران اور اصلاحات کی ضرورت

پاکستان کا ٹیکس سے جی ڈی پی تناسب ملکی معیشت کے لئے ایک تشویشناک علامت بن چکا ہے۔ ایف بی آر کا یہ دعویٰ کہ ’’آنے والے برسوں‘‘ میں اس تناسب میں بہتری آئے گی، اس وقت کچھ زیادہ حقیقت پسندانہ معلوم نہیں ہوتا، جب خود ایف بی آر کے جاری کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ تناسب 2021-22 میں 9.22 فیصد سے گھٹ کر 2023-24 میں 8.77 فیصد ہو گیا ہے۔ یہ اعداد و شمار معاشی کمزوری اور ٹیکس نظام میں بہتری کے دعوؤں کے برعکس صورتِ حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔
یہ بھی سامنے آیا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں انکم ٹیکس کی وصولی میں نمایاں 21.5 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ معجزاتی تبدیلی، جس پر حکومت نے آئی ایم ایف کے ای ایف ایف پروگرام میں مقرر کردہ مالیاتی اہداف پورا کرنے کے لئے انحصار کیا تھا، حاصل نہیں ہو رہی۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر، ایک منی بجٹ کی ناگزیریت بڑھ گئی ہے۔ بدقسمتی سے، اس منی بجٹ کے ذریعے عوامی طبقے پر مزید بوجھ ڈالا جائے گا، جبکہ طاقتور طبقات کو بدستور چھوٹ دی جائے گی۔
سیاسی رہنما ایک طویل عرصے سے ایف بی آر میں اصلاحات کے دعوے کرتے آ رہے ہیں، لیکن عملی اقدامات ہمیشہ نامکمل رہے ہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی نے ادارے میں غیر ضروری عملے کی کمی اور اصلاحات کی بات کی تھی، لیکن یہ اقدامات آغاز کے بعد ہی دم توڑ گئے اور زیدی نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس طرح اصلاحات کا خواب ادھورا رہ گیا اور ایف بی آر میں حقیقی تبدیلی کی توقعات دم توڑ گئیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کا ٹیکس سے جی ڈی پی تناسب اس وقت گھٹ رہا ہے جب اسے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت نے ایف بی آر میں بہتری اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے بجائے، ان طاقتور طبقات کو ٹیکس سے محفوظ رکھا ہے جو حکومت کے قریب ہیں یا جن کے مفادات پارلیمان میں موجود ہیں۔ یہی طبقات ہمیشہ ٹیکس سے بچنے میں کامیاب رہتے ہیں جبکہ محنت کش طبقہ مسلسل بوجھ اٹھانے پر مجبور ہے۔
عالمی بینک کے مطابق، ترقی پذیر ممالک کے لئے ٹیکس سے جی ڈی پی تناسب اوسطاً 18 فیصد ہوتا ہے، جو کہ پاکستان کے لئے ایک آئینہ ہے کہ ہم ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے میں کتنے پیچھے ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ملک میں بنیادی انفراسٹرکچر اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے فنڈز کی کمی رہتی ہے، جس کے نتیجے میں اہم سماجی اشاریے مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں۔ اس صورتحال کو ایک قومی ہنگامی حالت سمجھنا چاہئے اور فوری طور پر ایکشن پلان کی ضرورت ہے جس میں ایف بی آر کی مکمل اصلاحات شامل ہوں۔
یہ حقیقت کہ چند ایماندار شہری اپنی کمائی کا بڑا حصہ ٹیکس میں دیتے ہیں، جبکہ سب سے زیادہ کمائی کرنے والے شعبے ٹیکس سے باہر ہیں، ایک غیر منصفانہ نظام کی عکاسی کرتی ہے۔ حالیہ برسوں میں تاریخی مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی حقیقی آمدنی اور بچتوں کو ختم کر دیا ہے، مگر ان پر مسلسل ٹیکس کا بوجھ بڑھایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف، رئیل اسٹیٹ، زراعت، ریٹیل اور ہول سیل سیکٹرز کو ہمیشہ ٹیکس نیٹ سے باہر رکھا جاتا ہے، حالانکہ وزیر خزانہ سمیت دیگر حکام نے ان شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کا وعدہ کیا تھا، جو ہر بجٹ کے وقت پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
اب یہ حیرانی کی بات نہیں رہی کہ ٹیکس سے جی ڈی پی تناسب گراوٹ کا شکار ہے، محاصل کی کمی کا سامنا ہے، ای ایف ایف خطرے میں ہے، اور ایک منی بجٹ کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک حکومت فوری طور پر ایف بی آر کی اصلاحات نہیں کرتی اور ٹیکس نیٹ کو وسیع نہیں کرتی، یہ خطرہ برقرار ہے کہ ای ایف ایف کا سلسلہ متاثر ہوگا، آئی ایم ایف پاکستان کو تنہا چھوڑ دے گا، اور ملک خودمختار ڈیفالٹ کی جانب گرتا چلا جائے گا۔
پاکستان کو اس وقت فوری اور جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ٹیکس نظام کو مزید منصفانہ بنانا، ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا اور ایف بی آر کو ایک مؤثر اور شفاف ادارہ بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ اصلاحات نہ صرف معیشت کو استحکام فراہم کریں گی بلکہ ملک کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے بھی راہ ہموار کریں گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں