بلوچستان میں دہشت گردی کا ایک اور اندوہناک واقعہ، جس میں حال ہی میں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش حملے کے نتیجے میں 26 معصوم جانیں ضائع ہوئیں اور 62 افراد زخمی ہوئے، ہمیں ایک بار پھر بلوچستان کے دیرینہ مسائل کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہ سانحہ اپنی نوعیت میں بےحد افسوسناک اور بلوچستان کے موجودہ حالات کا مظہر ہے۔ ہمیں بلوچستان کے عوام کی سسکتی ہوئی آواز کو سننے اور اس کا حل نکالنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جائے اور تشدد کو کسی صورت گوارا نہ کیا جائے۔یہ بات حقیقت ہے کہ بلوچستان میں تشدد اور دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ریاست مخالف عناصر، جیسے کہ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کا راستہ اپناتے ہیں اور معصوم عوام کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان واقعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اور عام شہری دونوں متاثر ہو رہے ہیں، جو کہ نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کی امن و امان کی صورت حال کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ بلوچستان کی دہشت گردی سے جڑی پیچیدگیاں محض ایک سیکیورٹی مسئلہ نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے کئی دہائیوں سے جاری سیاسی، اقتصادی اور سماجی ناانصافیاں اور محرومیاں موجود ہیں۔ ہمیں اس خطے کے مسائل کو طاقت کے ذریعے دبانے کے بجائے ان کے لیے پائیدار اور سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا۔بلوچستان میں دہشت گردی کے اسباب میں سب سے اہم عوامل میں معاشی اور سیاسی محرومیاں شامل ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالامال اس صوبے میں مقامی افراد کی حالت زار اور ترقی کے فقدان نے انہیں احساس محرومی کا شکار بنا دیا ہے۔ بلوچستان کے عوام کا حق ہے کہ انہیں بھی دیگر صوبوں کی طرح ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ یہ بات باعث افسوس ہے کہ جب بھی بلوچستان کی ترقی اور امن کے لیے کوئی جامع حکمت عملی بنائی گئی تو اس پر حقیقی عملدرآمد نہیں ہوا۔ نتیجتاً، وہاں کے لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ ان کی آواز کو سننے والا کوئی نہیں ہے۔ایسے واقعات، جیسے کہ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر حالیہ خودکش دھماکہ، اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے مسئلے کو صرف فوجی یا قانون نافذ کرنے والے زاویے سے نہیں دیکھیں، بلکہ ہمیں بلوچستان کے لوگوں کے سیاسی اور معاشرتی حقوق کے حوالے سے سنجیدہ گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ اعتماد پر مبنی ایک نیا تعلق قائم کرے۔ انہیں یقین دلایا جائے کہ ان کی شکایات اور مسائل کا سنجیدہ حل موجود ہے اور ریاست ان کی فلاح و بہبود کے لیے پرعزم ہے۔پاکستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بلوچستان جیسے مسائل کو عسکریت سے دبانے کی کوششیں کبھی بھی دیرپا امن نہیں لا سکیں۔ ہمیں ان مسائل کے سیاسی حل کی ضرورت ہے تاکہ ہم دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں اور نہ ہی معصوم جانوں کا ضیاع ہو۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے جامع ڈائیلاگ، شفافیت اور انصاف پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر بلوچستان کے عوام کو معاشرتی و معاشی حقوق دیے جائیں، وہاں پر تعلیمی اور طبی سہولیات فراہم کی جائیں اور مقامی وسائل میں ان کا حقیقی حصہ تسلیم کیا جائے تو دہشت گردی کے عفریت کو شکست دی جا سکتی ہے۔ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ بلوچستان کے مسائل کو صرف عسکری نکتہ نظر سے دیکھنے کے بجائے سیاسی نکتہ نظر سے دیکھے اور عوام کو اپنی طرف سے یہ یقین دلائے کہ ان کی مشکلات اور حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ بلوچستان کے عوام کے دلوں میں حکومت کے لیے اعتماد کا بیج بونا انتہائی ضروری ہے، اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب بلوچستان میں احساس محرومی کے خاتمے کے لیے حقیقی اقدامات کیے جائیں۔موجودہ صورت حال میں بلوچستان کی عوام کو یہ پیغام دینا نہایت ضروری ہے کہ ان کے مسائل کو سمجھا جا رہا ہے اور ان کے حل کے لیے سیاسی اور سماجی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل صرف طاقت کے استعمال میں نہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کی دلجوئی اور انہیں ملکی دھارے میں شامل کرنے میں مضمر ہے۔حکومت کو بلوچستان میں بنیادی انسانی حقوق، سماجی انصاف، اور معاشی مواقع فراہم کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ اس کے علاوہ، پاکستان کے دیگر صوبوں کو بھی بلوچستان کے مسئلے کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا اور حکومت کو اس مسئلے کے حل کے لیے سیاسی دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ بلوچستان کے عوام کو ان کا حق مل سکے۔اس کے ساتھ ہی، بلوچستان میں تشدد کی ہر شکل کی مذمت کرنا اور دہشت گردی کے واقعات کے خلاف بھرپور آواز اٹھانا بھی ضروری ہے۔ دہشت گردی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، اور اسے کسی بھی مقصد کے لیے استعمال کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ بلوچستان کے حالیہ واقعات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اگر ہم نے بلوچستان کے عوام کے ساتھ انصاف نہیں کیا تو دہشت گرد تنظیمیں اس کا فائدہ اٹھا کر انہیں اپنی جانب راغب کر سکتی ہیں۔ریاست کو چاہیے کہ وہ عوام کے ساتھ ایک مضبوط اور شفاف تعلق قائم کرے اور ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر بلوچستان کے عوام کو ان کے حقوق اور انصاف نہیں ملے گا تو وہ اپنے حقوق کے لیے احتجاج کریں گے، جس کا فائدہ دہشت گرد تنظیمیں اٹھا سکتی ہیں۔یہ وقت ہے کہ حکومت اور ادارے بلوچستان کے مسئلے کا مستقل اور سیاسی حل نکالنے پر زور دیں۔ ہمیں بلوچستان کے عوام کے ساتھ ان کا حق انصاف دینا ہوگا اور ان کے حقوق کو تسلیم کرنا ہوگا۔
غیر ملکی بینکوں کی رخصتی
پاکستان سے غیر ملکی بینک کیوں جا رہے ہیں؟ گزشتہ چند دہائیوں میں ہم نے کئی عالمی بینکنگ کمپنیوں — بارکلیز، اے بی این ایمرو، رائل بینک آف اسکاٹ لینڈ، ایچ ایس بی سی، کریڈیٹ ایگریکل، سوسائٹی جنرال وغیرہ — کو پاکستانی مارکیٹ میں قدم رکھتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن چند سال بعد انہوں نے اسی طرح مارکیٹ چھوڑ دی جیسے زیادہ تر غیر ملکی ایئر لائنز کرتی ہیں۔ دیگر بین الاقوامی بینک جیسے کہ سعودی ملکیت کا سامبا بھی اپنے کاروبار کو یہاں سے سمیٹنے اور اپنے اثاثوں کو بیچنے یا اپنے کاروبار اور برانچ آپریشنز کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ ان میں سے کچھ بینکوں نے عالمی مالیاتی بحران 2008 کے بعد اپنی عالمی کارروائیوں کو یکجا کرنے کی حکمت عملی کے تحت پاکستان چھوڑا ہے۔ تاہم، زیادہ تر بینک یا تو پاکستان سے جا چکے ہیں یا وہاں سے جانے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ متعدد وجوہات کی بنا پر پاکستان میں ان کے لیے منافع کمانا کافی مشکل ہے۔ مثال کے طور پر، متعدد معاشی جھٹکوں کے باعث کرنسی کی تیزی سے گراوٹ، شیئر ہولڈرز کے منافع کی بیرون ملک منتقلی پر پابندیاں، پالیسیوں میں عدم استحکام، اور بینکوں کی آمدنی پر بھاری ٹیکس ان کے لیے چیلنج ہیں۔ یہی پیغام ایک غیر ملکی بینکر نے حال ہی میں کراچی میں ایک بزنس کانفرنس میں دیا، جہاں اس نے کہا کہ ملک کی گرتی ہوئی کریڈٹ پروفائل کے سبب غیر ملکی بینک آہستہ آہستہ پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹ رہے ہیں۔آخر میں، یہ بھی اہم ہے کہ پاکستان سے آپریٹ کرنے والے بینکوں پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خطرات کے سبب کڑی نظر رکھی جا رہی ہے، حالانکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے چند سال قبل پاکستان کو گرین چِٹ دی تھی جب اسلام آباد نے عالمی ادارے کی ضروریات کے مطابق اپنے اینٹی منی لانڈرنگ اور کاؤنٹر فنانسنگ آف ٹیررازم نظام کو مضبوط بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر اقدامات کیے تھے۔گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کے کاروباری ماحول میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے، جس کی وجہ خراب معاشی حالات، خاص طور پر ادائیگیوں کے توازن کے بحران، اور پالیسیوں میں عدم تسلسل ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی غیر ملکی کمپنیاں — جیسے کہ دوائیوں کے مینوفیکچررز، ایئر لائنز، تیل کی مارکیٹنگ کمپنیاں، تیل و گیس کی تلاش کی کمپنیاں وغیرہ — اپنے نقصانات کو کم کرنے کے لیے پاکستانی مارکیٹ چھوڑ چکی ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ کمپنیاں پاکستان نہ چھوڑتیں اگر ملٹی نیشنل بینک یہاں رکنے کا فیصلہ کرتے۔ کسی بھی ملک میں غیر ملکی بینک کی موجودگی اہم ہوتی ہے کیونکہ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ریاست کی معیشت اور مالیاتی پالیسیوں پر اعتماد ملتا ہے۔ اس لیے جب کوئی غیر ملکی بینک کسی مارکیٹ کو چھوڑتا ہے تو یہ میزبان معیشت پر کسی تیل کی مارکیٹنگ کمپنی یا دیگر فرم کے نکلنے سے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔پاکستان سے غیر ملکی بینکوں کے انخلاء کے پیچھے کئی پیچیدہ عوامل کارفرما ہیں جو نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی اور سیکیورٹی کی صورتحال سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی بینکوں کا پاکستان میں آنا، یہاں کی معیشت اور عالمی مالیاتی منڈیوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ ان بینکوں کی موجودگی سرمایہ کاروں میں اعتماد پیدا کرتی ہے، جو سرمایہ کاری کے لیے ملک میں مالیاتی استحکام اور اقتصادی پالیسیوں کی مستقل مزاجی کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں پاکستان میں معاشی پالیسیوں کی غیر یقینی صورتحال، کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی، اور قانونی پیچیدگیاں غیر ملکی بینکوں کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہی ہیں۔بین الاقوامی بینکوں کا انخلاء پاکستان کی معیشت کے لیے تشویشناک ہے کیونکہ ان کے جانے سے نہ صرف ملک میں سرمایہ کاری کی صورتحال پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ ملکی بینکاری شعبے پر بھی دباؤ بڑھتا ہے۔ بڑے بینکوں کے انخلاء کے بعد مقامی بینکوں پر قرضوں کی فراہمی کا بوجھ بڑھتا ہے، جبکہ صارفین کی جانب سے بھی بینکنگ سروسز پر اعتماد میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے لیے مالیاتی امداد یا قرض دینے میں زیادہ محتاط ہو جاتے ہیں۔پاکستان کی معیشت، جو گزشتہ کئی سالوں سے عالمی مالیاتی اداروں کی سپورٹ پر انحصار کر رہی ہے، کو اب ان عوامل کا سامنا ہے جنہیں حل کیے بغیر ملکی معیشت کو مستحکم بنانا مشکل ہوگا۔ پالیسیوں میں عدم تسلسل اور حکومتی اقدامات میں تاخیر نہ صرف سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کرتی ہے بلکہ ملکی معیشت پر بھی دباؤ ڈالتی ہے۔ پاکستان کے کاروباری اور صنعتی شعبے کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو برقرار رکھنے کے لیے جامع اقدامات کرے۔اس کے علاوہ، سیکیورٹی خدشات اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے دہشت گردی کی مالی معاونت پر پاکستان کی سخت نگرانی بھی ایک وجہ ہے جس کے باعث غیر ملکی بینک یہاں سے اپنے کاروبار سمیٹنے پر مجبور ہیں۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف عالمی سطح پر سخت قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں، اور پاکستان کو ان قوانین کی پیروی کرنا ضروری ہے تاکہ غیر ملکی بینک اور ادارے یہاں آزادانہ کاروبار کر سکیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے باوجود، عالمی سرمایہ کاروں میں تاحال پاکستان کے حوالے سے تحفظات موجود ہیں۔عالمی اقتصادی بحران، کورونا وائرس کے بعد عالمی منڈیوں میں آنے والی غیر یقینی صورتحال اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال بھی پاکستان کی معیشت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح، ادائیگیوں کے توازن کا بحران اور بیرونی قرضوں کی بڑھتی ہوئی لاگت نے سرمایہ کاروں کے لیے ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔اگر حکومت ان مسائل پر فوری توجہ نہ دے، تو مستقبل میں مزید غیر ملکی ادارے پاکستان سے اپنی سرمایہ کاری واپس نکال سکتے ہیں، جس کا براہ راست اثر روزگار کے مواقع، ملکی ترقی اور عوام کی مالی حالت پر پڑے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت مستحکم اور دیرپا معاشی پالیسیوں پر عمل کرے، کاروباری ماحول کو بہتر بنائے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے تحفظات کو دور کرے۔ یوں ہی پاکستان دوبارہ عالمی معیشت میں اپنا مقام مضبوط کر سکتا ہے اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
کرم ضلع کی پکار سنیں
ریاست کی بے حسی سے تنگ آ کر، ضلع کرم کے قبائلی عوام نے جمعرات کو سڑکوں پر نکل کر سیکیورٹی اور آزادانہ نقل و حرکت کا مطالبہ کیا۔ مرکزی تھل-پاراچنار روڈ تین ہفتوں سے بند ہے جبکہ دیگر راستے، جو کرم کو خیبرپختونخوا کے دیگر حصوں سے جوڑتے ہیں، تقریباً ایک ماہ سے ناقابل رسائی ہیں۔ مقامی حکام نے سڑکوں کی بندش کی وجہ ’سیکیورٹی خدشات‘ کو قرار دیا ہے، جس کا اشارہ علاقے میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے جان لیوا قبائلی اور فرقہ وارانہ تصادم اور بھاری اسلحے سے لیس عسکریت پسندوں کی موجودگی کی طرف ہے۔ جولائی سے لے کر اب تک کی اطلاعات کے مطابق، تصادم میں 80 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس ہفتے کے آغاز میں ہونے والے تازہ ترین واقعے میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے دو مسافر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔سڑکوں کی بندش اور عدم تحفظ کے باعث کرم کے لوگوں کو غذائی اجناس اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے، جبکہ تعلیمی اور معاشی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔ مظاہرین کے دو بنیادی مطالبات ہیں: علاقے میں امن کا قیام اور مسافروں کے تحفظ کی فراہمی۔ بدقسمتی سے، اب تک ریاستی ادارے ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔اس حساس علاقے میں سڑکوں کی بندش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دراصل، تھل-پاراچنار روڈ 2007 سے 2011 تک بند رہا تھا اور مقامی لوگوں کو پاکستان کے دیگر حصوں میں پہنچنے کے لیے افغانستان سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ مقامی اور افغان عسکریت پسندوں نے سیکیورٹی کی صورت حال پیدا کی تھی۔ آج، زمین پر حریف قبائل کے دعوے اور عسکریت پسندوں کی موجودگی کو اس تشدد کے سلسلے کو ہوا دینے والے عوامل قرار دیا جا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا اپیکس کمیٹی نے حال ہی میں کہا ہے کہ کرم کی صورت حال کو ’خصوصی توجہ‘ دی جا رہی ہے اور امن کی بحالی کے لیے ’تمام دستیاب آپشنز‘ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ یہ محض دعویٰ نہ ہو بلکہ ٹھوس اقدامات کیے جائیں تاکہ مقامی لوگوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی سہولت میسر ہو اور انہیں عسکریت پسندوں سے تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ کرم کے قبائلی عوام کے لیے سڑکوں کی بندش اور عدم تحفظ کا یہ مسئلہ ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے، جو ان کی روزمرہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ جہاں ایک طرف غذائی قلت اور طبی سہولیات کی کمی لوگوں کی جانیں خطرے میں ڈال رہی ہیں، وہیں دوسری طرف تعلیمی اداروں کی بندش اور تجارتی سرگرمیوں میں خلل نے مقامی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اکثر بچوں کی تعلیم تعطل کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں پورا ایک نسل تعلیمی پسماندگی کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔ مقامی کاروباری افراد اور مزدور طبقہ بھی روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ریاستی ادارے اور مقامی حکام کی طرف سے کیے گئے دعوے، جیسے کہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر راستوں کی بندش، عوام کے لیے ناقابل قبول اور مایوس کن ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ سڑکیں علاقے کے لوگوں کے لیے زندگی کی شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہیں، اور ان کی طویل عرصے تک بندش نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ بنیادی ضروریات کی فراہمی میں شدید رکاوٹ کا سبب بھی بن رہی ہے۔تاریخی طور پر دیکھا جائے تو تھل-پاراچنار روڈ کا مسئلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ 2007 سے 2011 کے دوران بھی اس سڑک کی بندش کی وجہ سے مقامی لوگوں کو افغانستان کے راستے پاکستان کے دیگر شہروں تک رسائی حاصل کرنی پڑتی تھی، جو کہ انتہائی خطرناک اور کٹھن سفر ہوتا تھا۔ اس وقت بھی عسکریت پسندوں اور مقامی گروہوں کے درمیان جھگڑوں نے عام لوگوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ آج بھی صورتحال میں کوئی خاص فرق نہیں آیا، اور زمین کے تنازعات اور عسکریت پسندوں کی موجودگی ایک بار پھر خطے میں تشدد اور بدامنی کو ہوا دے رہی ہے۔خیبرپختونخوا اپیکس کمیٹی کے حالیہ بیان میں کرم کی صورتحال کو خصوصی توجہ دینے اور امن کی بحالی کے لیے تمام دستیاب ذرائع کے استعمال کا عندیہ دیا گیا ہے۔ تاہم، عوام میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ یہ بھی محض ایک روایتی اعلان نہ ہو، کیونکہ ایسے وعدے ماضی میں بھی کیے گئے ہیں لیکن عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ علاقے کے عوام کے لیے اس وقت سب سے اہم ضرورت ہے کہ حکومت اور سیکیورٹی ادارے فوری، مؤثر اور پائیدار اقدامات اٹھائیں۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ مستقل بنیادوں پر علاقے میں امن و امان کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو آزادانہ نقل و حرکت کا حق فراہم کرے تاکہ وہ اپنی زندگیوں کو معمول پر لا سکیں۔علاوہ ازیں، ضروری ہے کہ حکومت مقامی تنازعات کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنائے اور متعلقہ قبائلی عمائدین اور رہنماؤں کو اعتماد میں لے کر ایک جامع حکمت عملی تیار کرے۔ قبائلی عمائدین اور مقامی قیادت کے تعاون سے علاقے میں مصالحتی کمیٹیاں قائم کی جائیں تاکہ مختلف گروہوں کے درمیان جاری جھگڑوں کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی، عسکریت پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں امن و امان کے لیے کوئی خطرہ نہ رہے۔ان اقدامات کے ذریعے ہی علاقے کے لوگوں کو طویل المدتی امن اور استحکام فراہم کیا جا سکتا ہے اور انہیں اپنے علاقے میں پرامن زندگی گزارنے کے لیے ضروری سیکیورٹی فراہم کی جا سکتی ہے۔ ریاست کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کرم کے عوام کے بنیادی حقوق اور ان کی زندگی کا تحفظ اس کے اولین فرائض میں شامل ہے۔