آج کی تاریخ

سموگ کے خلاف جنگ نام نہاد اصلاح پسند نظام کی ناکامی

سموگ کے خلاف جنگ, نام نہاد اصلاح پسند نظام کی ناکامی

لاہور سمیت پنجاب میں پھیلی سموگ ایک سنگین ماحولیاتی بحران بن چکی ہے، جس نے صحت عامہ اور معیشت پر خطرناک اثرات مرتب کیے ہیں۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے اس مسئلے کے حل کے لیے بھارت سے مذاکرات کی تجویز پیش کی ہے تاکہ سرحد پار سے آنے والی آلودگی کا مشترکہ حل نکالا جا سکے۔ یہ اقدام خوش آئند ہے، مگر مسئلے کی سنگینی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اسے سرحدی سیاست اور مخصوص مفادات کی بجائے عوامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے۔ حقیقت میں یہ بحران صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی نااہلی اور مزدور طبقے کی بقا کی جنگ کی واضح مثال ہے۔سموگ کے بحران کی جڑیں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں میں پوشیدہ ہیں۔ یہ نظام منافع کو اولین ترجیح دیتا ہے، جس میں عوام کی صحت اور ماحولیات کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ لاہور جیسے بڑے شہروں میں صنعتوں، اینٹوں کے بھٹوں، اور تعمیراتی منصوبوں نے فضا کو زہریلا بنا دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ترقی کی بنیاد منافع پر ہے، اور اس کی راہ میں مزدوروں کی صحت اور فلاح ہمیشہ پیچھے رہ جاتی ہے۔ اگرچہ حکومت نے پرائمری اسکولوں کی بندش اور سبز لاک ڈاؤن کے اقدامات کیے ہیں، مگر یہ مسئلے کا وقتی حل ہیں اور اس کا مستقل حل ماحولیاتی انصاف اور طبقاتی استحصال کے خلاف انقلابی جدوجہد میں مضمر ہے۔حکومتی اقدامات میں لاہور کے اسکولوں کی بندش ایک فوری ردعمل ہے، جس کا مقصد بچوں کو وقتی طور پر محفوظ رکھنا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بچے اکثر مزدور اور غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے پاس اس طرح کی بندشوں میں گھروں میں رہنے کے وسائل نہیں ہوتے۔ کاشتکاروں کو جدید ٹیکنالوجی کی عدم فراہمی اور سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے تحت زرعی ملبہ جلانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جس کے اثرات پورے پنجاب اور دیگر علاقوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مزدور اور کسان طبقے کے مسائل سرمایہ داروں کے مفادات سے زیادہ اہم ہیں، اور ان کی فلاح کے بغیر ماحولیاتی بحران کو حل نہیں کیا جا سکتا۔سموگ کا مسئلہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ ماحولیاتی مسائل سرحدوں کے پابند نہیں ہوتے اور ان کا حل کسی ایک ملک میں ممکن نہیں۔ پنجاب کی حکومت نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ دیا ہے تاکہ دونوں ممالک مل کر اس مسئلے کا مستقل حل نکال سکیں۔ مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں عوامی رابطے اور تعاون کے بجائے سرحدی تنازعات کو ترجیح دیتی آئی ہیں۔ اس مسئلے کا حل انقلابی عوامی جدوجہد اور مشترکہ ماحولیاتی پالیسیوں میں مضمر ہے، جس میں دونوں ممالک کے محنت کش طبقے کی فلاح کو اولین ترجیح دی جائے۔سرمایہ دارانہ نظام میں ماحولیاتی قوانین اور پالیسیاں ہمیشہ سرمایہ داروں کے مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ پنجاب حکومت کے اقدامات جیسے اینٹوں کے بھٹوں اور زیادہ دھواں خارج کرنے والی گاڑیوں کی بندش محض وقتی اقدامات ہیں جو اصل مسئلے کا حل نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مزدور طبقہ ان پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرے اور ایک ایسے معاشی نظام کی بنیاد رکھے جو ماحول اور عوامی فلاح کو مرکزی حیثیت دے۔ ایک انقلابی تحریک کے ذریعے مزدور اور کسان طبقہ ماحولیاتی استحصال کے خلاف کھڑے ہو کر ایک ایسے معاشرتی ڈھانچے کا مطالبہ کر سکتا ہے جس میں ان کی صحت، فلاح و بہبود اور ماحولیات کو ترجیح دی جائے۔پنجاب میں بڑھتی ہوئی سموگ کی شدت اس بات کی متقاضی ہے کہ عوام کو آگاہ کیا جائے اور انہیں ماحول کے تحفظ کے لیے فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جائے۔ عوامی آگاہی کے بغیر ماحولیاتی مسائل کو حل کرنا ممکن نہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کو فروغ دینا، الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ افزائی، اور صنعتی آلودگی کو قابو میں رکھنا ایسے اقدامات ہیں جو مزدور طبقے کے مفادات کو بھی تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔ کسانوں کو زراعتی فضلہ جلانے کے بجائے جدید آلات فراہم کیے جائیں اور ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جائے۔سرمایہ دارانہ نظام میں ماحولیاتی بحران کا حل تلاش کرنا مشکل ہے، کیونکہ یہ نظام عوام کی بجائے سرمائے کے تحفظ پر مبنی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو بین الاقوامی سطح پر اپنے ماحولیاتی مسائل اجاگر کرنے اور ان کے حل کے لیے مشترکہ تجاویز پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اس مسئلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، مگر ان کا مؤثر استعمال تب ہی ممکن ہے جب ان مسائل کو عوامی سطح پر اجاگر کیا جائے۔سموگ کا بحران ایک عالمی مسئلہ ہے جس کا حل مشترکہ عوامی جدوجہد اور انقلابی اقدامات میں مضمر ہے۔ پنجاب حکومت کا بھارت سے تعاون کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے، مگر نیولبرل اصلاح پسندی کی موجودگی میں یہ بحران مستقل طور پر حل نہیں ہو سکتا۔ مزدور طبقے کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ مسئلہ سرحدوں اور فضائی آلودگی سے زیادہ سرمایہ دارانہ استحصال کا نتیجہ ہے۔ماحولیاتی انصاف اور ورکنگ کلاس کے حقوق کے تحفظ کے لیے مسلسل جدوجہد ضروری ہے، جس میں دونوں ممالک کے محنت کش اور کسان طبقے کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔ اگر سرمایہ دارانہ مفادات کی بجائے عوامی فلاح و بہبود اور ماحولیات کو ترجیح دی جائے تو ہی مستقبل میں ایسے بحرانوں سے بچا جا سکتا ہے۔

مشترکہ مفادات کونسل اور شراکتی وفاقیت کا بحران

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وفاق اور صوبوں کے تعلقات ہمیشہ سے نازک اور متنازع رہے ہیں۔ جمہوری اصولوں کی بنیاد پر شراکتی طرز حکومت کو مضبوط بنانے کی ہر کوشش کو بعض طاقتور حلقوں نے نہ صرف ناکام بنایا بلکہ وفاقی اکائیوں کے حقوق پر قدغنیں بھی لگائی گئیں۔ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کو اٹھارہویں آئینی ترمیم میں جو آئینی حیثیت دی گئی تھی، اس کا مقصد یہ تھا کہ صوبے اور مرکز اپنے مفادات میں ہم آہنگی پیدا کریں اور ایک مضبوط وفاق کی بنیاد رکھی جا سکے۔ تاہم، تاریخ نے بارہا ثابت کیا کہ یہ صرف ایک خواب رہا، جسے مرکزیت پسند عناصر اور طاقتور حلقوں نے ہر دور میں دبانے کی کوشش کی۔پاکستان میں مرکزی حکومت ہمیشہ سے صوبوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے متحرک رہی ہے۔ آئینی طور پر تو صوبوں کو خودمختاری دی گئی، مگر درحقیقت یہ خودمختاری محض کاغذی رہی۔ کئی دہائیوں تک ملک میں مارشل لاء کے نفاذ، منتخب حکومتوں کے ختم کرنے، اور جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی پالیسی نے وفاق اور صوبوں کے تعلقات کو ہمیشہ کشیدہ رکھا۔ آمریت کے ادوار میں تو مرکزیت پسند طرزِ حکومت کا فروغ واضح طور پر نظر آیا، مگر جمہوری ادوار میں بھی مرکزیت پسند عناصر نے ہمیشہ صوبوں کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے پارلیمنٹ اور حکومت میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا۔سیاسی جماعتیں، جو اصولی طور پر عوامی مفادات کی علمبردار سمجھی جاتی ہیں، جب اقتدار میں آتی ہیں تو اکثر ان کی پالیسیز بھی مرکزیت کی طرف مائل ہو جاتی ہیں۔ یہ جماعتیں جو حزب اختلاف میں ہوتے ہوئے صوبائی حقوق کے تحفظ کی بات کرتی ہیں، اقتدار میں آ کر خود ہی انہی حقوق کے خلاف فیصلے کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، شہباز شریف کی حالیہ حکومت نے سندھ کے تحفظات کو نظرانداز کرتے ہوئے سی سی آئی کو اجلاس بلائے بغیر فیصلے کیے۔ ارسہ قانون میں تبدیلی اور چولستان نہر منصوبہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ کیسے وفاقی حکومت نے صوبے کے اعتراضات کو یکسر نظرانداز کیا۔آئینی طور پر سی سی آئی ایک ایسا ادارہ ہے جو مرکز اور صوبوں کے درمیان معاملات کو سلجھانے اور پالیسی سازی میں شراکت داری کو یقینی بناتا ہے۔ ہر نوے دن میں اس کا اجلاس ہونا آئینی تقاضا ہے، مگر گزشتہ 34 ماہ میں صرف دو اجلاس بلائے گئے ہیں، جو حکومتوں کی جمہوری اصولوں سے انحراف کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کو واضح کرتی ہے کہ موجودہ اور سابقہ حکومتیں آئینی اداروں کو محض اپنی سیاسی مصلحتوں کے تحت استعمال کرتی ہیں اور عوامی مفادات کو نظرانداز کرتی ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مرکز اور صوبوں کے تعلقات کو طاقتور غیر جمہوری حلقے کنٹرول کرتے آئے ہیں۔ یہ حلقے اکثر پارلیمنٹ میں بھی موجود ہوتے ہیں، جو بظاہر جمہوری نظام کا حصہ ہوتے ہیں مگر ان کے مقاصد مرکزیت اور طاقت کو برقرار رکھنے تک محدود ہوتے ہیں۔ ان حلقوں کے زیر اثر سی سی آئی جیسے ادارے اپنی اصل حیثیت کھو دیتے ہیں، اور صوبے اپنے حقوق سے محروم رہتے ہیں۔ نتیجتاً، عوام کے مسائل حل نہیں ہو پاتے اور وفاقی نظام کمزور ہوتا ہے۔رضا ربانی جیسے سیاستدانوں نے بارہا خبردار کیا ہے کہ سی سی آئی کے بغیر کیے گئے فیصلے آئینی حیثیت نہیں رکھتے، مگر حکومتی رویے نے ان تنبیہات کو ہمیشہ نظرانداز کیا۔ اگر سی سی آئی کو فعال اور خودمختار نہیں رکھا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے آئینی ڈھانچے اور وفاقی نظام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جمہوری طرز عمل کا تقاضا یہ ہے کہ وفاقی اکائیوں کو ان کے حقوق دیے جائیں اور شراکتی طرز حکومت کو فروغ دیا جائے۔پاکستان میں شراکتی وفاقیت کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سی سی آئی کو اس کی آئینی حیثیت کے مطابق فعال کیا جائے اور اسے کسی بھی سیاسی مصلحت سے بالاتر رکھا جائے۔ یہ ادارہ جمہوری فیصلہ سازی کے عمل کو مضبوط بنا سکتا ہے اور وفاق و صوبوں کے درمیان توازن قائم کر سکتا ہے۔ اگر اس ادارے کو کمزور کیا گیا تو اس کا نتیجہ وفاق کے ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے، جس کی قیمت پوری قوم کو چکانی پڑے گی۔لہٰذا، سی سی آئی کے استحکام اور شراکتی وفاقیت کے فروغ کے لیے حکومت، سیاسی جماعتیں اور تمام متعلقہ ادارے ذمہ داری کا ثبوت دیں اور اپنے مفادات کی خاطر آئینی اداروں کی حیثیت کو مزید نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ اس کے بغیر وفاقی اکائیوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم نہیں ہو سکے گی اور ملک کی سیاسی استحکام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

اقتصادی بحالی کی حقیقت

پاکستان کی “اکنامک اپ ڈیٹ اور آؤٹ لک” رپورٹ کے مطابق، مالی سال 2025 کی پہلی سہ ماہی میں اقتصادی بحالی نے مثبت سمت میں قدم بڑھایا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بہتری عارضی اور سطحی ثابت ہو سکتی ہے۔ مالیاتی پالیسی میں غیر ملکی زر مبادلہ کی منڈی میں مداخلت کی ناکام کوششیں ترک کرنے سے ترسیلات زر میں 38.8 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا، مگر ستمبر میں اس کی شرح میں کمی نے ظاہر کیا کہ یہ آمدنی شاید اپنی انتہا کو پہنچ رہی ہے۔ملک نے مالی سال کے آغاز میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا، تاہم یہ سرپلس برآمدات میں خاطر خواہ اضافے سے زیادہ، لیٹرز آف کریڈٹ کے اجراء میں تاخیر کا نتیجہ تھا۔ خام مال کی درآمدات میں اضافہ ملکی پیداوار کو تقویت دینے کے لیے کیا گیا، جس نے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں منفی شرح میں کمی کی مگر یہ شرح اب بھی پچھلے سال کی سطح کے مقابلے میں نچلی ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر کی یہ منفی شرح تشویشناک ہے کیونکہ یہ ملک کی معیشت کو طویل مدتی بنیادوں پر مضبوط بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی وصولیوں میں سال بہ سال 32.7 فیصد کا اضافہ خوش آئند ہے، مگر یہ ہدف اصل تخمینے سے کم ہے جو کہ 40 فیصد زیادہ طے کیا گیا تھا۔ ہدف پورا نہ ہونے کی صورت میں حکومت کو سخت مالیاتی اقدامات اٹھانے پڑ سکتے ہیں، جن میں بالواسطہ ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنا شامل ہو سکتا ہے، جس سے غریب طبقہ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ بجلی کی کھپت میں 21 فیصد کمی اور جرائم کی شرح میں اضافہ اس بات کا غماز ہے کہ عوام کی مالی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔افراط زر میں کمی سے امید کی کرن ضرور پیدا ہوئی ہے، مگر یہ کمی عوام کی فلاح پر زیادہ اثرانداز نہیں ہو رہی۔ بجلی کی طلب میں 21 فیصد کمی اور پیٹرولیم لیوی میں 19.6 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام بنیادی ضروریات کے حصول میں دشواری کا شکار ہیں۔ اس وقت غربت کی شرح 41 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو کہ سب صحارا افریقہ کے برابر ہے۔ اس بدترین اقتصادی عدم استحکام کے باعث عوام کے حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔حکومتی رپورٹ میں بعض اہم اشاریوں کا تذکرہ موجود نہیں، جیسے کہ ملک کی قرضے داری اور توانائی کے شعبے میں موجود سنگین مسائل۔ گردشی قرض 2.6 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے، جسے حل کرنے کی بجائے حکومت شمسی پینلز کو فروغ دے کر قومی گرڈ کی طلب میں کمی کر رہی ہے، جس سے ٹیرف میں اضافہ ہوا ہے۔ کے الیکٹرک کی نجکاری کے ناکام تجربے کے باوجود، مزید اداروں کی نجکاری پر غور کیا جا رہا ہے۔ 20 سال کے بعد بھی کے الیکٹرک کو سبسڈی کی ضرورت ہے، جو کہ 171 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نجکاری مسائل کا حل نہیں بلکہ شاید مسائل کا بڑھاوہ ہے۔پاکستان کی اقتصادی بحالی کا یہ سفر ابھی طویل ہے۔ موجودہ اقتصادی بہتری کو برقرار رکھنے اور حقیقی ترقی کے لیے حکومت کو شفاف پالیسی سازی اور مضبوط مالیاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ معیشت کو استحکام دینے کے لیے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو صرف اعداد و شمار کو بہتر نہ بنائیں بلکہ عوام کی فلاح اور خوشحالی کو بھی یقینی بنائیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں