بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جس کی تاریخ استحصال، بدامنی اور پسماندگی سے بھری پڑی ہے۔ حالیہ برسوں میں اس صوبے میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے کئی ہولناک واقعات نے مقامی آبادی کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، جن میں مستونگ میں ہونے والا بم دھماکہ بھی شامل ہے۔ اس واقعے نے ایک بار پھر اس حقیقت کو واضح کیا کہ بلوچستان ایک بحران زدہ علاقہ ہے، جہاں بدامنی کا سلسلہ کسی طور رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ان واقعات میں بنیادی طور پر معصوم شہری، خاص طور پر بچے، براہ راست متاثر ہوئے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شدت پسند عناصر اپنے مقاصد کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ حالات پیدا کیوں ہوئے اور اس عدم استحکام کی اصل جڑیں کہاں ہیں؟بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جو وسائل سے مالامال ہے۔ یہاں معدنیات، قدرتی گیس اور دیگر اہم وسائل وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ تاہم، ان وسائل سے حاصل ہونے والا فائدہ مقامی آبادی تک نہیں پہنچتا۔ یہاں کی دولت کا بڑا حصہ مرکزی حکومت اور نجی کارپوریٹ اداروں کی جیبوں میں جاتا ہے، جبکہ بلوچستان کے لوگ غربت اور محرومی کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال ایک “وسائل کا عذاب” کی شکل اختیار کر چکی ہے، جہاں ایک طرف قدرتی وسائل کی بہتات ہے اور دوسری طرف مقامی آبادی بنیادی سہولیات اور حقوق سے محروم ہے۔ یہاں کی آبادی کی غربت، تعلیم کی کمی اور بنیادی انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی نے ایک ایسا خلا پیدا کیا ہے جو شدت پسندی اور تشدد کے لیے موزوں ثابت ہوا ہے۔ جب لوگوں کو روزگار کے مواقع اور تعلیم میسر نہیں ہوتی تو وہ جلد شدت پسند نظریات کی طرف راغب ہو جاتے ہیں اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے خطرناک راستے اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔بلوچستان کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنانے والے عوامل میں بین الاقوامی سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔ بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت اور اس کے وسائل نے بیرونی سرمایہ کاروں کو بھی یہاں متوجہ کیا ہے، خصوصاً توانائی اور کان کنی کے شعبے میں۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ سرمایہ کاری مقامی آبادی کی فلاح و بہبود کے بجائے بیرونی اداروں اور حکومت کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ مثال کے طور پر، معدنیات کی کان کنی کے شعبے میں بین الاقوامی کمپنیاں بھاری منافع کما رہی ہیں، لیکن ان منافعوں میں سے کچھ بھی مقامی لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے پر خرچ نہیں ہوتا۔ اس استحصال نے مقامی آبادی میں احساس محرومی کو جنم دیا ہے، جس کے نتیجے میں بدامنی اور تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بدامنی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں مختلف ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی موجودگی نے صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ایک طرف علیحدگی پسند تحریکیں ہیں جو خود مختاری اور وسائل پر مقامی اختیار کا مطالبہ کر رہی ہیں، جبکہ دوسری طرف فرقہ وارانہ اور شدت پسند تنظیمیں بھی یہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں۔ بلوچستان کا علاقہ نہ صرف علیحدگی پسند تحریکوں کے لیے میدان بنا ہوا ہے بلکہ فرقہ وارانہ اور شدت پسند تنظیموں کے لیے بھی ایک اڈہ بن چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کو ریاست کی جانب سے محرومی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے ان میں احساس بغاوت پیدا ہوتا ہے۔ ان تنظیموں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نظریات پھیلانے کا عمل شروع کر رکھا ہے اور یہ شدت پسند تنظیمیں بلوچستان میں مزید بدامنی کو فروغ دے رہی ہیں۔بلوچستان میں غربت، بے روزگاری اور تعلیم کی کمی نے یہاں کے نوجوانوں کو شدت پسند نظریات کی طرف مائل کر دیا ہے۔ جب لوگوں کو بنیادی سہولیات اور مواقع نہیں ملتے تو وہ اپنے حقوق کے لیے شدت پسندانہ راستے اپنانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کو اس قدر طویل عرصے سے ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے کہ اب ان میں شدید مایوسی اور بغاوت کا رجحان پیدا ہو چکا ہے۔ تعلیم اور روزگار کے مواقع کی عدم موجودگی شدت پسند تنظیموں کو اپنا نظریہ پھیلانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہاں کے نوجوانوں میں تعلیم کی کمی نے ان کے لیے حالات کو مزید مشکل بنا دیا ہے اور ان میں شدت پسندانہ خیالات کے لیے گنجائش پیدا کر دی ہے۔ریاست کا موجودہ ردعمل عموماً سیکیورٹی پر مرکوز رہا ہے، جس میں فوجی اقدامات اور مشتبہ افراد پر کارروائی شامل ہے۔ لیکن یہ اقدامات محض وقتی مسائل کا حل فراہم کرتے ہیں اور اصل مسائل کو جڑ سے ختم نہیں کرتے۔ اگرچہ سیکیورٹی اقدامات ضروری ہیں، لیکن ان پر زیادہ انحصار نے بلوچستان کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ریاست کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ امن و امان کا مسئلہ صرف طاقت کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی شکایات کا مداوا کیا جائے اور انہیں وسائل و مواقع میں حصہ دار بنایا جائے۔ بلوچستان میں امن اور ترقی کے لیے ریاست کو حقیقی معنوں میں مقامی لوگوں کو ترقیاتی منصوبوں میں شریک کرنا ہوگا اور ان کی مخصوص ثقافتی شناخت کا احترام کرنا ہوگا۔بلوچستان میں پائیدار امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ریاست منصفانہ ترقی کو یقینی بنائے اور عوام کو خود مختار بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کچھ حصہ مقامی ترقی، صحت اور تعلیم پر خرچ کرے۔ مقامی آبادی کو تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں، تاکہ نوجوان انتہا پسندانہ نظریات سے دور رہ سکیں۔ بلوچستان میں بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے مقامی ضروریات کے مطابق منصوبے بنائے جائیں اور مقامی آبادی کو ان منصوبوں میں شامل کیا جائے۔ ریاست اور علیحدگی پسند عناصر سمیت تمام شراکت داروں کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے، تاکہ لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے اور انہیں معاشرتی و اقتصادی ترقی میں شراکت دار بنایا جا سکے۔مستونگ کا المیہ ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کا حل سیکیورٹی کے اقدامات میں نہیں بلکہ سماجی و اقتصادی انصاف میں ہے۔ پاکستان کو بلوچستان کے لوگوں کو اپنے وسائل میں حصہ دار بنانا ہوگا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا۔ بلوچ عوام کو اپنی محرومیوں کے خاتمے اور ترقی کے عمل میں شریک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے مسائل کو حل کیا جائے اور انہیں معاشرتی و اقتصادی ترقی میں شراکت دار بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ریاست ایک جامع پالیسی اپنائے جو محض سیکیورٹی کے اقدامات پر انحصار نہ کرے، بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کو مرکز میں رکھے۔بلوچستان کے لوگ صرف ترقی کے خواہاں نہیں بلکہ انہیں یہ احساس دلانا بھی ضروری ہے کہ وہ ملک کے مجموعی ترقی کے عمل کا حصہ ہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ بلوچستان میں ایک پائیدار امن کے قیام کے لیے انصاف، منصفانہ ترقی اور عوامی شمولیت کو یقینی بنائے۔ اگر بلوچستان کے لوگوں کو ان کے حقوق دیے جائیں اور انہیں ملک کے اجتماعی ترقی کا حصہ بنایا جائے تو ہی ہم ایک خوشحال اور متحد پاکستان کا خواب پورا کر سکتے ہیں۔
گندم کی قیمت اور منڈی کا استحصالی نظام
پاکستان میں گندم کی امدادی قیمت مقرر نہ کرنے کی تاخیر نے ملک کے زرعی شعبے اور غذائی تحفظ کو غیر یقینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ خاص طور پر چھوٹے کاشتکاروں کے لیے گندم کی امدادی قیمت کا تعین ان کی معاشی بقا کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ امدادی قیمت کسانوں کے لیے ایک حفاظتی جال کا کام کرتی ہے، جو انہیں منڈی کی غیر یقینی صورتحال اور بڑے سرمایہ داروں کے استحصالی رویے سے محفوظ رکھتی ہے۔ لیکن جب حکومت بروقت امدادی قیمت کا اعلان نہیں کرتی تو کسان مجبوراً سرمایہ دارانہ نظام کے نام نہاد فری مارکیٹ کے رحم و کرم پر آ جاتے ہیں، جہاں انہیں اپنی محنت کی کم سے کم قیمت پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے حالیہ معاہدے کے تحت حکومت کو زرعی منڈیوں میں براہ راست مداخلت سے روک دیا گیا ہے، جس کا مقصد بظاہر معاشی استحکام کا حصول ہے۔ تاہم، یہ شرط ایک ایسے ملک میں زرعی سیکٹر کے لیے تباہ کن ہے جہاں زراعت دیہی زندگی کا محور ہے اور چھوٹے کاشتکاروں کی بڑی تعداد غذائی تحفظ میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ آئی ایم ایف کی یہ پالیسی پاکستانی زرعی شعبے کے زمینی حقائق سے بے خبر ہے، جس میں کاشتکاروں کو فری مارکیٹ کے نام پر سرمایہ دارانہ منڈی کے استحصالی نظام کے حوالے کیا جا رہا ہے۔جب حکومت امدادی قیمت کا تعین نہیں کرتی تو کسانوں کو ان کی محنت کے عوض مناسب معاوضہ نہیں ملتا۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ فائدہ منڈی کے درمیانی افراد اور بڑے تاجر اٹھاتے ہیں، جو کہ گندم کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے نفع کماتے ہیں اور کسانوں کو کم ترین قیمت پر مجبور کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ استحصالی رویہ فری مارکیٹ کے اصولوں کے تحت جواز فراہم کرتا ہے، جہاں منافع کمانا ہی واحد مقصد ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں، کسان اپنی محنت کی اصل قیمت وصول کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور ان کا معاشی مستقبل غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔پنجاب حکومت کا رویہ اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ پنجاب ملک میں گندم کی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز ہے اور یہاں کی پالیسی پورے ملک کے زرعی نظام پر اثر انداز ہوتی ہے۔ تاہم، پنجاب حکومت نے وفاقی پالیسی کے تحت گندم کی قیمت کے تعین میں تاخیر کرتے ہوئے کاشتکاروں کو منڈی کے استحصالی نظام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ نتیجتاً، منڈی کے بڑے کھلاڑی اور درمیانی افراد اپنی مرضی سے قیمتوں کو قابو میں رکھتے ہیں اور کسانوں کو کم قیمت پر اپنی فصل فروخت کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پنجاب حکومت کی بے عملی نے کسانوں کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا ہے اور انہیں ان کے حقوق سے محروم کر دیا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں آزاد منڈی کے نام پر چند افراد قیمتوں پر قابض ہو کر زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے کسانوں کا استحصال کرتے ہیں۔ اس استحصالی نظام میں درمیانی افراد اور بڑے تاجر نہ صرف کسانوں کو ان کی محنت کی اصل قیمت دینے سے گریز کرتے ہیں، بلکہ منڈی میں قیمتوں کا اتار چڑھاؤ کر کے اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف کسان مالی طور پر برباد ہوتے ہیں تو دوسری طرف چند سرمایہ دار اور تاجر اپنے نفع کو زیادہ سے زیادہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔حکومت کی جانب سے کسانوں کے لیے امدادی قیمت کا اعلان نہ کرنا ان کی مالی صورتحال کو مزید بگڑنے کی طرف لے جاتا ہے۔ جب کسانوں کو اپنی فصل کی اصل قیمت نہیں ملتی تو وہ قرضوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کا معاشی استحکام خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں چھوٹے کاشتکار اپنے بچوں کی تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہتے اور ان کی زندگی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔ کسان اپنی زمینیں فروخت کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں یا دوسرے کاموں کی طرف راغب ہو سکتے ہیں، جو کہ زرعی پیداوار میں مزید کمی کا باعث بن سکتا ہے۔آزاد منڈی کے نام پر سرمایہ دارانہ نظام میں کسانوں کو استحصال کا شکار بنایا جاتا ہے۔ جب منڈی کے بڑے کھلاڑی گندم کو ذخیرہ کر کے مصنوعی طور پر قیمتوں کو بڑھا دیتے ہیں تو کسان اپنی فصل کی صحیح قیمت وصول نہیں کر پاتے۔ اس صورتحال میں حکومت کی عدم مداخلت نے منڈی کو ایک ایسے استحصالی نظام میں تبدیل کر دیا ہے جہاں چھوٹے کسانوں کی محنت اور سرمایہ صرف چند لوگوں کی تجوریوں میں جا رہا ہے۔ یہ نظام اس قدر بگڑ چکا ہے کہ منڈی کے بڑے کھلاڑیوں کو کسانوں کے مفادات اور ان کی محنت کا بالکل خیال نہیں ہوتا۔کچھ معاشی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت حکومت کو زرعی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ایک ایسی حکمت عملی اپنائے جس میں نہ صرف آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کیا جائے بلکہ چھوٹے کسانوں کو بھی تحفظ فراہم کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے پالیسیاں بنائے اور گندم کی امدادی قیمت کا تعین کرے تاکہ کسان منڈی میں بڑے تاجروں کے استحصال سے محفوظ رہ سکیں۔آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کے ساتھ مشاورت کے عمل کو ترجیح دے۔ اگر حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ میں آ کر کسانوں کے مفادات کو نظر انداز کرتی ہے تو اس کے نتائج ملکی غذائی تحفظ اور دیہی معیشت کے لیے شدید نقصان دہ ہوں گے۔ پاکستان میں زراعت دیہی زندگی اور ملک کی غذائی ضروریات کا ستون ہے اور اگر حکومت اس ستون کو مضبوط بنانے کے بجائے اسے مزید کمزور کرتی ہے تو ملک کو غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔موجودہ بحران کے حل کے لیے ضروری ہے کہ حکومت فوری اور سنجیدہ اقدامات کرے۔ ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت گندم کی امدادی قیمت کا اعلان کرے اور کسانوں کے ساتھ ایک واضح پالیسی وضع کرے جس کے تحت ان کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ اگر حکومت براہ راست مداخلت نہیں کر سکتی تو اسے چاہیے کہ کسانوں کے لیے کم از کم قیمت کا تعین کرے تاکہ انہیں منڈی کی غیر یقینی صورتحال میں کم از کم قیمت کا تحفظ حاصل ہو۔کچھ ماہرین کا مشورہ ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ذریعے زرعی پالیسی کا جامع جائزہ لیا جائے اور پالیسی سازی کے عمل میں کسانوں کو شامل کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ صوبائی حکومتوں اور کسانوں کے ساتھ مشاورت کر کے ایک پالیسی ترتیب دے جو آئی ایم ایف کی شرائط کو بھی پورا کرے اور کسانوں کو بھی مالی تحفظ فراہم کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت زرعی پالیسی کو اس طریقے سے ترتیب دے جس سے چھوٹے کاشتکار اور کسانوں کو استحصال سے بچایا جا سکے۔مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی گندم کی امدادی قیمت کے تعین میں تاخیر سرمایہ دارانہ نظام کے اس پہلو کو اجاگر کرتی ہے جہاں منافع کی خاطر چند افراد پورے زرعی شعبے کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ آزاد منڈی میں چھوٹے کسانوں کے لیے حکومتی حمایت ناگزیر ہے۔ اگر حکومت نے بروقت اقدامات نہ کیے تو یہ بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے اور نہ صرف کسانوں کا روزگار بلکہ ملک کا غذائی تحفظ بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔