آج کی تاریخ

معلم یا درندے

معلم یا درندے

(قسط اول) روزنامہ قوم ملتان، سوموار، 21 اکتوبر 2024۔ میاں غفار احمد کا کالم۔ کار جہاں

اس ملک میں ہے کوئی جو ایجوکیشن مافیا کو لگام ڈال سکے، جو تعلیمی اداروں میں آٹے میں نمک کے برابر گھسے ہوئے عزتوں کو نوچنے والے چند درندوں کو روک سکے۔ کون سی ایسی سرکاری یونیورسٹی یا نجی تعلیمی ادارہ بچ پایا ہے جہاں گنتی کے چند بدقماشوں کے ہاتھوں طلبہ و طالبات کا تعلیمی اور اخلاقی استحصال نہیں ہو رہا، کیا سمسٹر سسٹم کا ناگ ہزاروں طلبہ و طالبات کو برباد نہیں کر چکا؟ گنتی کے ہی تعلیمی ادارے محفوظ رہ پائے ہوں گے جہاں گنے چنے بدنام اساتذہ اور ایڈمن سٹاف طالبات کو بلیک میل نہیں کر سکے؟ ایسے لوگ ہر تعلیمی ادارے میں پانچ سات فیصد ہی بمشکل ہوں گے جو طالب علموں اور طالبات کو اپنی اپنی اوقات، اپنے اپنے ظرف، اپنے اپنے اختیار، اپنی اپنی مادری تربیت اور اپنے اپنے اخلاقی کردار کے مطابق بلیک میل کرتے ہیں، جبکہ انتہائی معزز، طیب، پروفیشنل، باوقار اور صاحب کردار اساتذہ کرام تو 90 فیصد سے بھی زائد ہیں مگر ان پانچ سات فیصد کے سہولت کار ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہیں، اور انہی کی وجہ سے تعلیمی شعبہ بدترین تنزلی کا شکار ہو چکا ہے۔ میں ان تعلیمی درندوں سے وابستہ درجنوں واقعات کا گواہ ہوں اور اس طرح کے روحانی باپ کہلانے والوں پر کروڑ بار تین حرف بھیجتا ہوں، جو میرے ساتھ اتفاق نہیں کرتے تو میں ایسے قارئین اور دیگر افراد کے سامنے کچھ سوال رکھتا ہوں اور امید بھی رکھتا ہوں مجھے ان سوالوں کا جواب ہر ذمہ دار شہری ضرور دے گا۔
کیا نبی پاکؐ کو معلم بنا کر نہیں بھیجا گیا؟ کیا اعلی ترین معلم نبی آخر الزماں کا مقام اللہ کریم نے سب سے بلند تر قرار نہیں دیا اور اپنے نام کے کلمے کے ساتھ نام محمد کو نتھی کرکے جو اعزاز بخشا وہ کس اور کو نصیب ہوا؟ اب اس پیمانے اور فریم میں ایسے اساتذہ کو فٹ کریں تو کیا قارئین کرام آپ بھی میرے ساتھ شامل ہو کر ان پر وہی تین حرف نہیں بھیجیں گے کیا؟ جی وہی تین حروف جو میں اوپری سطور میں بھیج چکا ہوں۔
قارئین کرام، کیسے وہ سب لکھوں جو میں جانتا ہوں، وہ اتنا بھیانک ہے کہ پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوں جائیں۔ مساجد اور دینی مدارس سے کہیں زیادہ حالات آج کے تعلیمی اداروں میں ایسے چند لوگوں کی وجہ سے خراب ہیں جنہیں شاید ماں کی گود اور بہن کی حرمت نصیب نہیں ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے پرائیویٹ سکولوں میں؟؟ کیا ایم اے اور ایم فل لڑکی کو چھوٹے شہروں میں 7 یا 8 ہزار میں ملازمت دو اور جو سب سے بڑھ کر منہ متھے لگتی ہو اسے ایڈمنسٹریشن کی مد میں دو تین ہزار اضافی دے کر انتظامی معاملات کی آڑ میں اپنے “حلقہ تصرف” میں رکھ لو، ایسے واقعات نہیں ہو رہے؟ جب دل بھر جائے تو انتظامی معاملات کسی اور کے سپرد کر دو اور اپنی بے غیرتی جاری رکھو؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا ایسی اکا دکا شکایات نہیں ہیں؟
کیا زکریا یونیورسٹی کے ایک استاد و،ن، نے طالبہ کو اپنی درجنوں برہنہ تصاویر اور ویڈیوز نہیں بھیجیں تھیں جسے اس کالم نگار نے بے نقاب کیا تھا اور پھر وہ ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔ زکریا یونیورسٹی کے ایک بدنام پروفیسر طالبات سے دست درازی کے مرتکب نہیں رہے۔ کیا ایک مرحوم ٹیچر کے ڈیپارٹمنٹ کی طالبات حتیٰ کہ لیڈی اساتذہ بھی مرحوم کی قبیح حرکات سے عاجز نہ تھیں؟ کیا ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ نے جنسی الزام تراشی کے لیے کاری گر خواتین کی خدمات لے نہیں لے رکھیں؟ کیا اپنے متعلقہ اداروں کے سرکاری سربراہ سے فائلیں منظور کرانے کے لیے ملتان کا ایک نجی تعلیمی ادارہ خوبرو لڑکیوں کو فائلیں دے کر لاہور کے پنج ستارہ ہوٹل میں قیام نہیں کرایا کرتا رہا؟ وہ لڑکیاں ہوتی تو اور قماش کی تھیں مگر انہیں طالبات کا ٹیگ لگا کہ بھیجا نہیں جاتا تھا کیا؟ اور کیا مزکورہ فائلیں دوران قیام و طعام ہی منظوری حاصل نہیں کر لیتی تھیں؟ کون سی ایسی یونیورسٹی ہے جہاں سرکاری خفیہ ایجنسیوں کے لوگ ڈیوٹی نہیں دیتے اور اگر اخلاص سے ڈیوٹی دیتے ہیں تو کیا انہیں علم نہیں کہ جو میں لکھ رہا ہوں وہ غالب حد تک درست ہے، تو پھر وہ کیوں خاموش ہیں؟ اپنے اعلی حکام کو تھرو پراپر چینل رپورٹ کیوں نہیں کرتے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ بیٹیوں کی حرمت سے آگاہی ہی نہیں رکھتے؟
کیا اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں طالبات کو عرصے تک بلیک میل نہیں کیا جاتا رہا؟ کیا بہاولنگر کیمپس کے ڈاکٹر اطہر محبوب کے دور میں بنائے گئے سربراہ کی ہوس اور بے غیرتی بارے سب آگاہ نہیں تھے؟ کیا خواتین سٹاف اس کی غلیظ عادتوں سے محفوظ تھی؟ کیا یہ تمام حکومتی خفیہ اداروں سے وابستگان اللہ کو حاضر ناصر جان کر قرآن مجید کی حرمت کے حوالے سے آیات پر حلف دے کر کہہ سکتے ہیں کہ انہیں اسلامیہ یونیورسٹی کے سیکنڈلز بارے علم نہ تھا؟ اور کیا سابقہ ڈی پی او بہاولپور عباس شاہ اور ان کی ٹیم نے درست ہاتھ نہ ڈالا تھا؟ کیا سینکڑوں قابل اعتراض اور بلیک میلنک پر مبنی ویڈیوز برآمد نہیں ہوئی تھی؟ کیا فرانزک رپورٹ غلط تھی؟ کیا پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے دور میں بنائی گئی کمیٹی کو بہاولپور یونیورسٹی کے مذکورہ سیکنڈل کو دبانے اور اس پر مٹی ڈالنے کا ٹاسک دے کر نہیں بھیجا گیا تھا؟ اور کیا جو اعلی سطحی کمیٹی انکوائری کرنے آئی تھی، اسے اپنے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر خود کو شیشے کے سامنے کھڑے کرکے ازخود ضمیر کی عدالت لگا کر خود سے سوال نہیں کرنا چاہئے کہ وہ راہ انصاف میں روڑے اٹکا کر کیوں گئے تھے؟
میں سلام پیش کرتا ہوں بہاولنگر کی (س) نامی بیٹی کو اور اس کے والدین کو کہ انہوں نے درندے کے روپ میں چھپے ایک بدقماش لیکچرار ندیم احمد کو حوالات میں بند کرا کر ہزاروں بیٹیوں کو حوصلہ دیا اور مقدمہ درج کرایا ہے۔ ایف آئی آڑ کی تحریر پڑھ کر کیا آپ سب اس درندے نما استاد پر تین حرف نہیں بھیجیں گے؟
سب سے بڑھ کر حیران کن اور خوفناک اس ایشو سے کیا سب ایجنسیاں، ادارے اور حکومتیں بے خبر ہیں جو میں اشارے کنایے میں نتائج کی پرواہ کئے بغیر لکھ رہا ہوں کہ مجھے طالبات کی حرمت عزیز نہ ہوتی تو کھل کر لکھتا۔
ہوا یوں ہے کہ ایک نجی تعلیمی ادارے میں لفظ A سے شروع ہونے والی ایک معروف میڈیسن کمپنی نے خصوصی سٹال لگا کر صرف اور صرف طالبات کے جبری طور پر خون کے نمونے کن مقاصد کے لئے حاصل کئے گئے؟ کیا صرف طالبات ہی کے نمونے درکار تھے؟ کیا طلبہ میں خون نہیں ہوتا؟ کیا چند طلبہ ڈرگز کا استعمال نہیں کرتے؟کیا طلبہ کی بلڈ سکیرینگ غیر ضروری تھی؟ کیا طالبات سے زبردستی 100 روپے فی طالبہ لے کر فارم پر دستخط کرانا ضروری تھا کہ وہ اپنی مرضی سے خون ٹیسٹ کروا رہی ہیں؟ اس قانونی تحفظ کی کیا ضرورت تھی۔ جن طالبات کے خون کے نمونے لیے گئے اور اپنی مرتب کردہ رپورٹ کی روشنی میں جن طالبات کو بتایا گیا کہ ان میں ہیوموگلوبن کی کمی کے علاوہ بھی بہت سی کمیاں ہیں، ان پر کیا بیتی ہو گی؟ کیا چند طالبات کو لفظ A سے شروع ہونے والی نامی گرامی میڈیسن کمپنی کی طرف سے دی گئی دوائی کا ری ایکشن نہیں ہوا؟ کیا بعض طالبات کو بلڈ ٹیسٹ کے بعد شدید بخار نہیں ہوا تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ معلوم کرنا درکار تھا کہ کون کون سی طالبات کے خون میں کون کون سی نشہ آور چیزوں کے استعمال کے اثرات موجود ہیں۔ یہ حق تعلیمی ادارے کو کس نے دیا؟ اگر مقصد یہی تھا تو صرف طالبات ہی کیوں؟ طلبہ کیوں نہیں؟ کیا طلبہ کے خون کے نمونے ضروری نہ تھے؟ میرے پاس درجنوں سوالات ابھی اور بھی باقی ہیں حتہ کہ جوابات سے بھی آگاہی رکھتا ہوں تاہم مجھے یقین ہے کہ مذکورہ نجی تعلیمی ادارے میں ہونے والی اس ایکٹویٹی سے ان سے منسلک خفیہ اداروں کے ملازمین بھی ہر صورت آگاہ ہوں گے، سوال مگر ترجیحات کا ہے۔ (جاری ہے)

شیئر کریں

:مزید خبریں