آج کی تاریخ

گستاخ (قسط اول)

کامیابی کا راز

(کارِ جہاں) میاں غفار احمد

کوٹ لکھپت انڈسٹریل ایریا لاہور میں نمازِمغرب سے تھوڑی دیر پہلے ایک شخص نے مجھ سے لفٹ لی۔ اُس کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا اور اُس کا ایک جوتا اتنا زیادہ ٹوٹا ہوا تھا کہ چلنا بھی مشکل تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی پوچھنے لگا کہ آپ نے کس طرف جانا ہے؟ میں نے اُسے بتایا کہ میں ریلوے سٹیشن اور بادامی باغ کی طرف جارہا ہوں تو وہ ٹھنڈا سانس لے کر کہنے لگا کہ میرا کام ہوگیا۔ آپ مجھے بادامی باغ بس سٹینڈ پر اُتار دیجئے گا۔ اُس کی گفتگو میں شگفتگی تھی اور محسوس ہوتا تھا کہ وہ تعلیم یافتہ ہے۔ میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ وہ 13 سال جیل کاٹ کر رہا ہوا تھا۔ سزائے موت 25سال قید میں بدل گئی تو تقریباً 13 سال میں یہ قید مکمل ہوئی۔ کریدنے پر اُس نے بتایا کہ وہ بی اے کا طالبعلم تھا‘ جب اُس کی شادی کردی گئی اُس کی بیوی کے شروع سے ہی طور طریقے مشکوک تھے۔ میں نے اُسے کسی غیر کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تو طیش میں آکر اُسے قتل کردیا‘ عدالت سے سزائے موت ہوئی جو عمر قید میں تبدیل ہونے کے بعد آج میں رہائی پاکر اپنے گھر گوجرانوالہ جارہا ہوں۔ چند سال تک تو بھائی ملنے آتے رہے پھر آہستہ آہستہ سب تعلق ختم اور سہارے ٹوٹ گئے پھر جیل کی دیواریں ہی میرے لئے گود کی مانند تھیں۔

پون گھنٹہ کے سفر کے دوران کئی سوال جواب ہوئے! میں نے پوچھا کہ باہر نکل کر کیا کروگے؟ تو اُس نے بتایا کہ جیل میں رہ کر اُس نے ایم اے کرلیا ہے‘ نوکری کی عمر تو گزر چکی‘ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کروں گا۔ میں نے سوال کیا کہ شادی بھی کروگے؟ اُس نے کہا کہ جب کام سیٹ کروں گا تو شادی پھر کروں گا۔ میں نے ساتھ ہی ایک ضمنی سوال داغا کہ اگر تمہاری دوسری بیوی بھی اُسی طرح نکل آئی تو پھر کیا کروگے؟ ایک لمحہ کا وقفہ کئے بغیر کہنے لگا کہ میں اُسے طلاق دے کر کہوں گا کہ جو منہ کالا یہاں کررہی ہے‘ وہ کہیں اور جاکر کرلے! میں نے پوچھا اتنی بڑی تبدیلی؟ کہنے لگا کہ اِس تبدیلی کے پیچھے 13سال کی اذیت ہے۔ تھوڑی دیر کا غصہ اور زندگی بھر کا پچھتاوا! میں اُسے قتل نہ کرتا‘ طلاق دے دیتا اپنی زندگی تو بچ جاتی۔

بینائی سے محروم معروف مصنفہ ہیلن کلر (Hellen Killer) کا معروف جملہ ہے ”We see but do not look“۔ ہم چیزوں کو سرسری انداز میں دیکھتے ہیں مگر غوروفکر نہیں کرتے! کہتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ ایک دن مکہ کے بازار میں کھڑے ہوگئے اور لوگوں نے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ میں آج اہم بات کرنے لگا ہوں‘ اس بات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنالو۔ بازار میں آنے جانے والے لوگ آپ کا یہ جملہ سُن کر رُک گئے۔ آپ نے فقط اِتنا کہا اور تشریف لے گئے۔ عربی زبان کے اس جملے کا مفہوم کچھ یوں ہے ”پس تم غوروفکر کیا کرو“۔

ہمارے ہاں اصلاحِ معاشرہ کا کوئی تصور ہی موجود نہیں البتہ معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرنے کے ہزاروں تصورات ہروقت میدانِ عمل میں رہتے ہیں۔ 10 سال کے بچے سے لےکر 70 سال کے بوڑھے تک کوئی اصلاح کی طرف چلنے کو تیار نہیں۔ میری نظروں کے سامنے کئی ادوار بدلے‘ کئی افسران بدلے کسی نے کبھی اصلاح کی بات نہیں کی‘ کبھی کسی بااختیار کا ضمیر اُسے جھنجھوڑے کہ وہ کبھی جیلوں میں ملاقات کے لئے آنے والے قیدیوں کی فیملیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو دیکھے جو عزت کے نام پر قتل کرکے جیلوں میں جاتے ہیں‘ اُن کی عزتیں کس طرح جیلوں کے دروازوں پر دھکے کھاتی ہیں؟ کوئی فلاح وبہبود کا ادارہ‘ کوئی این جی او کبھی اُس طرف توجہ دے تو اس معاشرے کا بھیانک چہرہ سامنے آئے گا۔ کوئی رپورٹ تیار کرے تو آشکار ہو کہ ایک قیدی کے پیچھے کتنے ورثاءبے آبرو ہوتے ہیں؟ ہماری سیاست اور نوکرشاہی نے تقسیم در تقسیم کے فارمولے پر اپنی ساری توانائیاں صرف کردیں۔

بہت سال پہلے چناب کلب فیصل آباد میں ایک ڈنر کے دوران میری ایک بزرگ صنعتکار سے کافی دیر گپ شپ رہی۔ میں نے اُن سے سوال کیا کہ مجھے ایک جملے میں اپنی کامیابیوں کا راز بتائیں؟ کافی دیر سوچ کر ہنسنے لگے اور میرا کندھا تھپتھپا کر ایک جملے میں ساری کہانی کہہ دی۔ کہنے لگے ”ہم لڑائی جھگڑے سے بچتے ہیں اور صلح کے راستے پر چلتے ہیں‘ ہم ایڈجسٹمنٹ کرتے ہیں“۔ میں نے اُن سے درخواست کی کہ اُس کی وضاحت فرمادیں۔ کہنے لگے ”ایک ایکڑ پانی کا آبیانہ کتنا ہے؟ اُس وقت غالباً 50 یا 60 روپے آبیانہ تھا۔ کہنے لگے یعنی 50/60 روپے میں 52 ہفتے کا پانی گویا سرکاری پانی کی قیمت ایک ایکڑ کے لئے ایک روپیہ بنتی ہے۔ اب فتح محمد بھاگتا ہوا آتا ہے اور اﷲ رکھے سے کہتا ہے کہ فلاں شخص نے تمہارا پانی توڑ لیا ہے‘ وہ کسّی اُٹھائے موقع پر جاتا ہے‘ لڑائی ہوتی ہے اور جب وہ دونوں آپس میں لڑرہے ہوتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ چوری شدہ پانی کی قیمت ایک روپے کا چوتھا حصہ بھی نہیں بنتی مگر بندہ قتل ہوجاتا ہے اور پھر باقی زمین مقدمے کے اخراجات پر صرف ہوجاتی ہے۔ سیٹھ صاحب نے مجھے کہا کہ کچھ بھی ہوجائے ہم عدالتوں‘ جھگڑوں اور مارا ماری سے پرہیز کرنے والے لوگ ہیں۔ بھٹو دور کے بعد سے ہم نے زیادہ تر کاروباری اور دفتری ریکارڈ بھی اپنے گھروں پر رکھا ہوتا ہے۔ ہمیں کوئی آکر بتائے کہ فیکٹری میں جھگڑا ہوگیا ہے‘ مزدوروں نے آگ لگادی ہے یا شارٹ سرکٹ سے سب کچھ ضائع ہوگیا ہے یا کسی نے کوئی شرارت کی ہے تو ہم کوشش کرتے ہیں کہ اپنے دفتر میں موجود ریکارڈ بچالیں۔ اگلے روز ہم اپنا ریکارڈ تیار کرتے ہیں اور وکیلوں کے ذریعے انشورنس کلیم دائر کردیتے ہیں۔ سال دو سال میں 1962ء ماڈل کی مل کی جگہ پر 1999ء ماڈل کی مل لگ جاتی ہے بس یہی فرق ہے کہ ہم اپنی قوت اُن فضول کاموں پر ضائع نہیں کرتے اور جو بھی اپنی قوت اُن کاموں سے بچائے گا وہ ضرور ترقی کرے گا۔ آپ ابھی جوان ہیں اور اُس راز کو پالیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں