ابھی تو میں نے جنوبی پنجاب کی ضلع کونسلوں اور ان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ایڈمنسٹریٹر حضرات کی داستانیں شروع ہی کی تھیں کہ درمیان میں دیگر اہم ڈویلپمنٹس ہو گئیں۔ کیا کریں کہ نت نئی کہانیاں قلم کو بھٹکا اور ذہن کو الجھا دیتی ہیں۔ اس قسط میں ارادہ تو یہ تھا کہ جنوبی پنجاب کی تقریباً تمام ضلع کونسلوں میں کتنے ترقیاتی کام ہوتے ہیں اور ان پر فنڈز کا کتنے فیصد خرچ ہوتا ہے۔ کس طرح پول پر الاٹ ہونے والے ترقیاتی کاموں پر ٹھیکیداروں کی بجائے ضلع کونسل کا عملہ خود ہی “کام مکمل” کراتا ہے اور یہ ترقیاتی کام کب شروع ہو کر کب ختم بھی ہو جاتے ہیں،اس کا علم نہ تو متعلقہ ضلع کونسل کے ایڈمنسٹریٹر کو ہوتا ہے اور نہ ہی اس ٹھیکیدار کو جس کے نام پر کام الاٹ ہوتا ہے۔ کسی بھی شہر کی جامعہ مسجد میں کسی بھی ضلع کونسل کے ٹھیکیداروں کو جمع کرکے باوضو چند مخصوص آیات کی تلاوت کروا کر حلف لے لیں۔ کم از کم 50 فیصد تو حلف ہی نہیں دیں اور جو دیں گے وہ سچ ہی بولیں گے اور بتائیں گے کہ ان کے نام پر کام تو الاٹ ہوا تھا مگر انہوں نے کیا نہیں البتہ انہیں ملنے والے چیکوں سے اپنے حصے کا 20 فیصد کاٹ کر اپنی فرم یا اپنے نام پر جاری چیک کی باقی 80 فیصد نقد رقم ان کی اکثریت نے ضلع کونسلز کے عملے کو ادا کر دی ہے کیونکہ ترقیاتی کام از خود ضلع کونسل کا عملہ ہی کراتا ہے۔ ٹھیکیدار کو تو فرم کا نام استعمال کرنے پر 20 فیصد مل جاتا ہے۔ اگر کسی ٹھیکیدار کے نام 5 لاکھ کے ترقیاتی کام کا قرعہ نکلا تو ضلع کونسلز میں 90 فیصد یہی پریکٹس ہے کہ محکمہ خود ہی کام کروائے گا بلکہ ’’کام ڈالے” گا اور چونکہ چیک ٹھیکیدار کے نام جاری ہونا ہوتا ہے لہٰذا وہ “ایمانداری‘‘ سے اس چیک میں سے حساب کرکے اپنا 20 فیصد کاٹ کر باقی نقد رقم ضلع کونسل کے متعلقہ کلرک کے حوالے کرے گا اور یوں ترقیاتی کام پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا خواہ وہ کاغذات کی حد تک ہو۔ متعدد اراکین اسمبلی نھی اپنا ’’ حصہ بقدر جثہ‘‘ لے جاتے ہیں اور جہاں پر کاغذات میں سرکاری فنڈز کا خرچ ہونا ظاہر کیا گیا ہو گا وہاں گلیاں ٹوٹی ہی ہوں گی، گٹر ابل ہی رہے ہوں گے۔ ڈپٹی کمشنر حضرات پر پورے ضلع سے اتنی “برکت اور رحمت‘‘ نہیں برستی جتنی اکیلی ضلعی کونسلز ان پر سال بھر برسائے رکھتی ہیں اور جون کا مہینہ ان بلدیاتی و ترقیاتی اداروں میں عیدین کا مہینہ ہوتا ہے کہ ہر کوئی “جون لگانے” میں دن رات مصروف ہو جاتا ہے۔
ابھی تو یہ لکھنا بھی باقی تھا کہ ضلع کونسلوں کی پٹرول کی پرچیوں پر کس کس سیاستدان، ضلعی کمیٹیوں کے کون کون سے ممبران، کون کون سے صحافی اور دینی خدمت گزار حضرات مستفید ہوتے ہیں اور سالہا سال سے یہ سلسلہ بلا رکاوٹ جاری ہے۔ ہر ایڈمنسٹریٹر کو اس کا علم ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ جب گوشت کی بھنی ہوئی بوٹیاں ہم لے جاتے ہیں تو دیگ کی کھرچن اور بقایا جات تقسیم بھی ہو جائیں تو حرج والی کوئی بات نہیں۔ نہ اسمبلی میں سوال ہو گا، نہ استحقاق مجروح ہو گا اور نہ ہی کوئی درخواست بازی، لہٰذا ضلع کونسلز کے ایڈمنسٹریٹروں کی یہی پالیسی رہی ہے کہ مکھن جمع کرکے چھاچھ تقسیم کر دو کیونکہ بہت سے تو چھاچھ پر ہی ’’بھاگ لگے رہن‘‘ کے نعرہ مستانہ کو بلند کرنے میں مگن رہتے ہیں۔
یہ عاجز کیا کرے اسے تو تحقیقاتی ایشوز پر کام کرنا ہوتا ہے۔ اسے تو قلم سے قلم کا توڑ کرنا ہوتا ہے اور پھر معلومات اکٹھی کرنے کیلئے کبھی مجھے لاہور میں ای ایم ای سوسائٹی جانا پڑتا ہے اور کبھی سرگودھا تک بھی رابطہ مضبوط رکھنا پڑتا ہے کیونکہ وائیٹ کالر کاروائیوں کی معلومات کیلئے اپنے کالر گرد سے سیاہ اور گاریوں کے سیاہ ٹائر گھسانے پڑتے ہیں۔ میرے پاس تین اضلاع کی ضلع کونسلوں کا ریکارڈ تو الحمد اللہ آ چکا ہے اور میرا قلم تو ویسے بھی پرانے انجن کی طرح سٹارٹ ہو کر آہستہ آہستہ سپیڈ پکڑتا ہے۔ یہ تو ایسا ایشو ہے کہ سالہا سال تک بھی کاغذ کالے کرتا رہے گا
گزشتہ سال اگست میں ملتان کے منفی، تخریبی سوچ رکھنے والے اور دوسروں کو اذیت بانٹ کر خوشی محسوس کرنے والے این ایف سی یونیورسٹی ملتان کے غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر معیاری، غیر علمی غیر تدریسی حتہ کہ غیر ضروری اور ناجائز وائس چانسلر کے ساتھ ہتھ جوڑی یہ جانتے ہوئے بھی ہو گئی تھی کہ مذکورہ علمی شخصیت مقابلے بازی میں کسی بھی حد تک جا سکتی ہے خواہ اس “اصولی جنگ” میں “حدود” کی حد تک بھی انہیں جانا پڑے کہ دریا کے کناروں کے لوگ عمومی طور پر ایسے ہی ہوتے ہیں۔13 ماہ کی مسلسل قلمی جدوجہد کے بعد اللہ نے کامیابی دی اور میری شائع کردہ خبریں ہر فورم تک پڑھی جاتی رہیں کہ سوشل میڈیا کے دور میں اخبارات نے بھی لہروں کا سہارا لے لیا ہے اور اخبارات کی ریڈر شپ بہت بڑھ چکی ہے کیونکہ اب پورے اخبار کی بجائے ’’ پسند اپنی اپنی اور نصیب اپنا اپنا ‘‘کا فارمولا چل رہا ہے۔ اب جس کی پسند کی جو بھی خبر ہو وہ اسے ہر جگہ لیجانے کی احسن ذمہ داری از خود ہی سنبھال لیتا ہے اور پرانے زمانے میں تو کہا جاتا تھا کہ انسان اپنی بھینس کا دودھ اپنے گھر سے دو سو میل دور بھی ہو تو پی ہی لیتا ہے۔ اب نئے دور میں اپنے پسند کی خبر ہزاروں میل دور ایک منٹ میں بھیج دیتا ہے۔
ڈاکٹر اختر کالرو کو سپریم کورٹ نے وائس چانسلر کے عہدے سے برخاست کرکے 6 سال کی تنخواہیں اور مراعات یونیورسٹی میں واپس جمع کرانے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ یہ ڈاکٹر کالرو کی شکست ہی نہیں، یہ ان مظالم کی شکست ہے جو موصوف 12 سال تک کرتے رہے۔ ان عورتوں کی شکست ہے جو ان کے اشاروں پر دوسروں کی کردار کشی کیلئے استعمال ہوتی رہیں۔ یہ اس “سیاسی جن” کی شکست ہے جس کی جان اور ’’رزق‘‘ کا ایک مخصوص حصہ ڈاکٹر کالرو جیسے “گانی والے طوطے” کی ٹیں ٹیں سے وابستہ تھا۔ یہ تو کامیابی کا پہلا مرحلہ ہے ابھی تو بہت سے معاملات اور ان کے مظالم کے ساتھی باقی ہیں۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔
