روزنامہ قوم ملتان اتوار 15 ستمبر 2024 ۔۔میاں غفار احمد، کا کالم،
سوال یہ ہے کہ پنجاب بھر میں بلدیہ اور ضلع کونسلز میں ڈپٹی کمشنر اور ایڈمنسٹریٹر حضرات کے دور میں کرپشن عروج پر کیوں ہوتی ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ اول تو سیاسی سربراہوں کی طرح وہ مقامی نہیں ہوتے اسی لئے کسی کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ دوئم، جب وہ ٹرانسفر ہوتے ہیں تو انہیں کچھ بھی اپنی سابقہ پوسٹنگ سے لینا دینا نہیں ہوتا۔ تقررنامہ لے کر آئے، عملے کے ساتھ “ہتھ جوڑی” کی مال کمانے میں جت گئے کہ معلوم نہیں پھر ڈپٹی کمشنری ملے نہ ملے لہٰذا وہ وقت اور فنڈز کا بھر پور استعمال کرتے ہیں۔ اعظم سلیمان صوبائی سیکرٹری جنگلات رہے اور بطور سیکرٹری جنگلات انہوں نے سیکرٹری انہار کو کئی مرتبہ پنجاب میں جنگلات کیلئے مختص نہری پانی کی کمی اور اوپر سے چوری کی شکایات کیں اور تحریری طور پر بھی یاد دہانی کے خطوط لکھے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ محکمہ جنگلات سے ٹرانسفر ہو کر محکمہ انہار کے سیکرٹری لگ گئے تو جنگلات کے افسران نے خوشیاں منائیں کہ اعظم سلمان تو محکمہ جنگلات بارے بہت سی معلومات رکھتے ہیں اب نہری پانی میں بھی اضافہ ہو گا اور پانی کی چوری بھی کنٹرول ہوجائے گی۔ محکمہ جنگلات کے اعلیٰ افسران گروپ کی صورت میں انہیں مبارکباد دینے گئے اور انہیں یاد دلایا کہ آپ جنگلات کے لئے پانی کی کمی سے بخوبی آگاہ ہیں اب تو آپ نے خود ہی فیصلہ کرنا ہے تو مہربانی فرمائیں۔ اعظم سلیمان نے جواب دیا، ضرور مگر میں محکمے کی پالیسی دیکھوں گا اور پھر وہ کافی عرصہ سیکرٹری انہار رہے مگر محکمہ جنگلات کو ضرورت کا پانی نہ مل سکا۔
پنجاب یونیورسٹی میں میری اس سے ملاقات ہوئی جو مجھ سے کم از کم 15سال بڑا تھا۔ وہ ایک دشمن ملک میں جاسوس تھا۔ ان کے ریڈار پر آیا اور اس کی سرویلنس شروع ہوئی تو وہ موقع پا کر بھاگ آیا۔ اس نے اس ملک کے ایک اہم سرکاری عہدیدار کی بیٹی سے محبت کی شادی کی۔ بچے بھی پیدا کئے۔ طویل نشت کے دوران میں نے سوال کیا کہ کبھی بچے یاد نہیں آتے۔ کہنے لگے نہیں۔ ان بچوں کے پیدا کرنے کی تو میں تنخواہ لیتا تھا، میرے لئے اس بندے کا سپاٹ چہرے کے ساتھ جواب حیران کن تھا۔ اس وسیب کے لوگ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہ جو دور دراز سے آپ کے اضلاع میں آتے ہیں، آج کے دور میں ان کی غالب اکثریت پہلے سے موجود مسائل میں اضافہ کرکے اور سالہا سال سے زیر التوا مسائل کے “نئے بچے” پیدا کرکے اپنی راہ لیتے ہیں۔
مجھے ایک بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ نئے آنے والے آفیسر کے ساتھ اس ضلع کے بدنام اور کرپٹ ترین عملہ کیسے شیر و شکر ہو جاتا ہے، کیسے چند ہی دنوں میں گوٹی فٹ کر لیتا ہے۔ کون سی ایسی خوبی ہوتی ہے جو ہر ضلعی سربراہ کو اس کاریگر کلرک مافیا کی اداؤں کا اسیر بنا دیتی ہے ۔ مظفرگڑھ کے انتظامی افسران کی ایسی کیا مجبوریاں ہیں جو اپنے ملازمین کے گھر بیٹھے بچوں کو بھی تین تین جگہوں سے تنخواہیں دلواتے ہیں۔ کیسے کسی ایک کو میونسپل کمیٹی سناواں، میونسپل کمیٹی خان گڑھ اور ضلع کونسل مظفرگڑھ ہر ماہ بندہ ایک اور تنخواہیں تین دیتی ہیں۔ میرے پاس ثبوتوں کا پلندہ پڑا ہے مگر جمعرات کے روز شائع ہونیوالے کالم میں مجھے چند باتیں واضح کرنی ہیں۔ اس لئے فی الحال کرپشن کی داستانوں کی پٹاری کے منہ پر کپڑا باندھتا ہوں۔
معزز قارئین کرام، کامیابی کے حصول کیلئے سب سے پہلی شرط ثابت قدمی ہے مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بہت ہی جلد فرسٹریشن کا شکار ہو کر ایسی حماقتیں کر لیتے ہیں جو ہمارے اپنے لئے ہی مسائل پیدا کرتے ہیں۔ محض ایک درخواست ہی تو دی گئی تھی کہ رائیٹ آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت ضلع کونسل میں ہونے والی کرپشن پر معلومات درکار ہیں، تو کیا ضرورت تھی کہ پولیس کے چار ڈالے دن رات ایک اخبار نویس کے مظفرگڑھ میں واقع گھر کا طواف اور تلاشی شروع کر دیتے۔ بار بار گھر کی بغیر سرچ وارنٹ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہیں۔ ایک سوال ابھی باقی ہے کہ ڈی پی او حضرات مشرف دور میں کی گئی ترامیم اور پولیس آڈر کے بعد اب ضلعی انتظامی سربراہ کو پہلے کی طرح جواب دہ نہیں تو کیا ڈی پی او مظفرگڑھ میرٹ کی پاسداری نہیں کر سکتے تھے کہ تاثر تو یہی تھا کہ اچھے آدمی ہیں، دیگر پولیس والوں کی طرح “وردی کے قیدی” نہیں ہیں بلکہ سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں مگر یہاں شاید تعلق نے میرٹ کے لحاظ کو لحاظ میں نہ رکھا، ویسے بھی طاقت اور تحمل و بردباری کی ہمارے جیسے “آزاد” معاشرے میں کم ہی آپس میں بنا کرتی ہے
تین روز قبل شائع ہونے والے کالم میں بعض دوستوں نے سابق ڈی پی او راو طیب سعید کے حوالے سے بعض سوالات اٹھائے ہیں۔ سوال کی بجائے میں براہ راست جواب پر آتا ہوں۔ میں نے لکھا تھا کہ راو طیب سعید مرحوم بہت اچھے منتظم اور ایماندار انسان تھے تاہم کبھی کبھار ایمانداری کے تکبر میں بھی مبتلا ہو جاتے تھے اللہ ان کی اگلی منزلیں آسان فرمائے۔ انہوں نے ضلعی انفارمیشن آفیسر اور ایک صحافی سے بلاوجہ زیادتی کرائی تھی۔ مذکورہ دونوں متاثرین مجھ سے کہتے تھے کہ داد رسی کریں۔ میں کہتا تھا کہ صبر کرو اور انتظار کرو انتظار کی روٹی اور صبر کا پھل ہمیشہ لذیذ ہوتے ہیں اور پھر چند ہی ہفتے کے بعد موقع ہمارا منتظر تھا (جاری ہے)