سوا سو سال پرانے ضع مظفر گڑھ کی مظلوم عوام ہر دور میں ظلم ہی کا شکار رہی اور اگر 2010 کے سیلاب میں دنیا بھر سے کوئی امداد آئی تو اس کا چوتھائی حصہ بھی سیلاب متاثرین تک نہ پہنچ سکا۔ اگر فرانس سے امداد میں کراکری کے کنٹینرز آئے تو قیمتی فرانسیسی کراکری کی بندر بانٹ ہوئی، اس بندر بانٹ کے نتیجے میں جو کراکری سیلاب متاثرین کو نصیب ہوئی وہ سلور کی تھی اور آج تک یہ عقدہ کھل ہی نہ سکا کہ کنٹینرز کے اندر اچھی طرح پیک کراکری سلور اور پلاسٹک کے برتنوں میں کیسے تبدیل ہو گئی۔ اس کراکری کے دھن سے بہت سے کاری گروں کے تن اور من چند ہی دنوں میں تولہ ماشہ سے سوا سیر ہو گئے۔ ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ میاں عثمان کیا یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ضلع کونسل کے پاس کتنی مشیری ہے؟ کتنی گاڑیاں چالو حالت ہیں یا پھر پیرس ڈھاکر جیپ ریلی میں مظفر گڑھ اور پاکستان کا نام روشن کر رہی ہیں کیونکہ سرکاری ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیرس اور ڈھاکر کے درمیان ریلی خواہ سال میں ایک مرتبہ ہو مگر سرکاری ریکارڈ کے مطابق ان جیپوں کو ملنے والے پیٹرول سے اس ریلی میں از خود ہی ہر ماہ یہ دونوں گاڑیاں حصہ لے رہی ہیں اور اسی لئے پاکستان میں گونجے نہ گونجے، ڈھاکر کی ہواؤں میں تو مظفرگڑھ کا نام لازمی گونج رہا ہو گا۔ ایک مظلوم شہری سے انڈس ہاسپٹل کے مریضوں کیلئے آنے والی بیش قیمت گاڑی کسی دولت کی ہوس کے مریض کے لئے لاہور گئی تھی مگر واپس نہیں آئی۔ ابھی تک باوجود کوشش یہ معلومات نہیں مل سکیں کہ مذکورہ گاڑی واپسی پر لاہور اور مظفر گڑھ کے درمیان کس “بارڈر” پر پکڑی گئی ہے۔ اور یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ مزکورہ گاڑی اکیلی پکڑی گئی ہے یا کسی کے ساتھ ۔ ایک مظلوم نے یہ مشورہ نما سوال مجھے وائس میسج پر بھجوایا ہے کہ عثمان تو نام ہی لج پال کا ہے اور اس طیب نام نے تو عرب کے پیاسے مسلمانوں کیلئے کنواں خرید کر وقف کیا تھا۔ شاید مظفرگڑھ کے عثمان تک اس واقعہ کی تفصیلات درست طریقے سے نہیں پہنچ سکیں اس لئے انہوں نے مظفر گڑھ شہر کی ہر گلی کو پانی سے بھر رکھا ہے اور پانی تو پانی ہی ہوتا ہے۔۔۔۔ کنویں کا ہو یا ۔۔۔
روزنامہ ’’ قوم‘‘ میں شائع ہونے والے گذشتہ روز کے کالم کی دوسری قسط کے حوالے سے ابھی بہت سے معلومات باقی ہیں اس لئے ’’ سلسلہ عثمانیہ‘‘ کو ماضی کے اندرون لاہور کے محلہ چومالہ کی عورتوں کی طرح فی الحال گھڑے میں بند کر کے اوپر سے کپڑا باندھتا ہوں کہ اس پٹاری میں تو ابھی بہت کچھ موجود ہے اور اوپر سے متاثرین مظفر گڑھ ہر روز علی الصبح ہی اسے لبالب بھر دیتے ہیں۔ لہٰذا مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے اگر تبوتوں کا تڑکا بھی لگا ہوا ہو تو سونے پہ سہاگہ۔ اب قلم کو واپس لے کر جا رہا ہوں رانا منان کی طرف۔ رانا عبدالمنان ایک بات تو بتائو آپ جوانی سے بڑھاپے کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ رہے ہو، گو کہ جسمانی ساخت اور مسکراتی آنکھوں سے محسوس نہیں ہونے دیتے۔ تمہیں کیا ضرورت تھی سارے محاذ کھولنے کی۔ کیا ضرورت تھی اس منظم سسٹم کو چیلنج کرنے کی کہ جس سسٹم کے تحت جتوئی جیسی پسماندہ تحصیل سے بھی دو کروڑ ماہانہ جمع ہو جاتا تھا اور مظفر گڑھ سے کینیڈا و امریکہ تک جاتا تھا۔ تقریباً 2 کروڑ کی اس ماہانہ ’’ نیاز‘‘ میں پٹواریوں سے لے کر ہر کوئی حصہ ڈالتا تھا تو آپ بھی حصہ بقدر جسہ لیتے رہتے، اور اگر نہیں لینا تھا کہ اللہ نے پچھلی دو دہائیوں سے جناب پر بہت کرم کیا اور مسلسل کیا بلکہ اس حد تک کیا کہ جتوئی اور شہر سلطان جسے حلقے سے ایک نووارد کو ایم پی اے بنوا دیا۔ یہ بات بہت سوں کے لئے ناقابل ہضم ہے۔ جناب نے سیاسی شطرنج سے ایک اہم مہرے کو مات دی تھی جس کے ساتھی پیادے اور جس کا منظم سسٹم موجود ہے ۔ آپ کو کیا ضرورت تھی دو محاذ اکٹھے کھولنے کی اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ قتل کے الزام میں ناجائز طور پر پولیس کی حراست میں کئی دن رہنے والے ٹھیکیدار محمد بخش کی مدد کرنے کی؟ کیا محمد بخش سے مبینہ طور پر ڈیڑھ کروڑ ایک ایس ایچ او محض اپنے زور پر لے سکتا تھا۔ وہ اہلکار جو تیسرا حصہ لینے کیلئے سپیشل گاڑی کروا کر مذکورہ تھانے دار کے پاس گیا تھا کیا وہ اپنی مرضی سے گیا تھا۔ مجھے تو اس کا نام عہدہ بھی معلوم ہے اور ٹریکنگ سے بھی آگاہ ہوں مگر پردے آہستہ آہستہ ہی وا ہوں تو بہتر ہوتا ہے۔
یہ بات بھی میرے علم میں ہے کہ آپ حلقے کے کاشتکاروں کو باردارنہ دلوانے کیلئے تحصیل اور ضلعی انتظامیہ پر دبائو ڈال کر ایک جاری سسٹم میں رکاوٹ ڈال رہے تھے اور یہ بھول گئے کہ سالہا سال سے رواں دواں کرپشن کے انجن میں رکاوٹ بننے والے پرزے ہی کو نکالا یا تبدیل کیا جاتا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ سابق اے سی کے گھر جو “ڈکیتی” ہوئی اور جو برآمدگی ہوئی اس برآمدگی کا 40 فیصد حصہ ضلع مظفر گڑھ کی مغربی جانب تھوڑے فاصلے پر گیا یا پھر مشرق کی جانب سے زیادہ فاصلے کو طے کرتا ہوا گیا۔ جناب کو یہ بھی خیال رکھنا چاہئے تھا کہ جب آپ کسی کے کھاتے میں جاتا ہوا پکا پکایا ’’رزق‘‘ ضائع کر دیں گے تو وہ بھول پائے گا؟ کیا وہ کاغذات کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ جناب کے خلاف رپورٹیں کیسے نہیں تیار ہوں گی پھر جب وہ ایسے ائیر کنڈیشنز میں بیٹھ کر لکھی جائیں گی جس کی تنصیب ہی ضلع کونسل کے ذریعے عمل میں لائی گئی ہو۔ (جاری ہے)
