تحریر:میاں غفار (کار جہاں )
ایک سوایک سالہ سلائی مشین اور ہجرت
پفاف کمپنی کی اس سلائی مشین کی عمر 101 سال ہے جسے ہماری چوتھی نسل استعمال کر رہی ہے۔ اس 1923ء ماڈل کی سلائی مشین کو چار نسلیں استعمال کر چکی ہیں۔ اسے میری دادی کی والدہ نے اپنی بیٹی کے جہیز کیلئے خریدا تھا جس نے اکلوتے بیٹے کی پیدائش کے بعد 1937ء میں ٹی بی کے ہاتھوں شکست کھا کر سفید کفن پہن لیا تھا۔ وہ اسی مشین کو استعمال کیا کرتی تھیں اور میرے چار سالہ والد کو ماں تو یاد نہ تھی البتہ مشین چلاتی ہوئی کسی ہستی کا خاکہ زندگی بھر ان کی آنکھوں کے سامنے رہا۔ میری والد کی عمر اس وقت 74 سال تھی جب میری اہلیہ کا انتقال ہوا تو کہنے لگے بیٹا سب کچھ مل سکتا ہے، بس مائیں نہیں ملتیں۔ میں نے بھی 70 سال ماں ہی کو ڈھونڈا، کہا کرتے تھے کہ یہاں کے لوگ خوش قسمت ہیں کہ اپنے آباواجداد کی قبروں پر چلے جاتے ہیں۔ میرے جیسے لاکھوں مہاجروں کو تو یہ سہولت بھی میسر نہیں۔
قیام پاکستان کے وقت میرے والد ہائی سکول کے طالب علم تھے اور ان دنوں میرے دادا برما میں کسی کمپنی میں جاب کرتے تھے۔ سامان سے لدا گھر ایک طالب علم کیلئے سنبھالنا اور اسے پاکستان لانا ناممکن تھا۔ لوگ تو بیٹیوں کا جہیز خریدتے اور اس کے لئے سامان تیار کرتے ہیں مگر میرے دادا میرے والد کے لئے، جو کہ ان کی اکلوتی اولاد تھے، کے لئے بغداد گئے تو وہاں سے بھی قیمتی سامان اٹھا لائے اور چونکہ میری دادی کا انتقال ٹی بی کے مرض کی وجہ سے ہوا تھا لہٰذا والد صاحب کا خاص خیال رکھا جاتا تھا اور والد مرحوم کیلئے کھانے کے تمام تر برتن چاندی کے ہوا کرتے تھے، وہ جب بھی رشتے داروں کے گھر رہنے جاتے ان کے برتن ساتھ ہی جایا کرتے تھے۔ دادا جالندھر کے عالی محلہ اور رستہ محلہ کے قریب ہی کہیں رہتے تھے۔ اچانک حکم ہوا کہ مسلمان گھر خالی کر دیں اور کیمپوں میں پناہ لے لیں۔ سامان لے جانا تو ممکن نہ تھا مگر والد صاحب بضد تھے کہ میں سلائی مشین ہرحال میں لے کر جائوں گا مجھے اپنی ماں کی شکل اسی سلائی مشین کے حوالے سے یاد ہے کچھ بھی ہو میں اسے یہاں مشین نہیں چھوڑوں گا۔ والد مرحوم کا گریہ اور ضد دیکھ کر ان کی ایک بزرگ رشتے دار نے کہا کہ سلائی مشین لے آو۔ پھر انہوں نے میری دادی کا تمام تر زیور نکالا اس کی ڈوریاں کاٹیں اور زیور سلائی مشین کے خانے میں بھر دیا۔ اس میں ایک رانی ہار بھی تھا جس پر میرے دادا اور دادی کے نام کندہ تھے۔ وہ پورا نہیں آ رہا تھا کہ خاصا بڑا تھا پھر اسے کاٹ کر مشین کے خانے میں بھر دیا اور اوپر رسی باندھ دی۔ پھر میرے والد سے کہا کہ اپنی کتابیں لے آو اور مشین کے دونوں طرف کتابیں باندھ کر اس کے اوپر موٹی چادر لپیٹ دی گئی اور پھر گدا لپیٹ کر دونوں اطراف اس طرح کھلی چھوڑ دیں کہ کتابیں دکھائی دیں اور مشین چھپ جائے تاکہ کوئی بلوائی حملہ کرکے چھین نہ لے۔ وزن خاصا زیادہ ہو گیا مگر ماں کی محبت کا جذبہ والد مرحوم میں قوت اور ہمت پیدا کرتا رہا۔ انہوں نے مشین سر پر رکھی اور کیمپ کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک دو بلوائیوں نے روکا اور کتابیں دیکھ کر جانے دیا اس طرح وہ سلائی مشین مہاجر کیمپ اور پھر پاکستان پہنچ گئی۔ ادھر بعد میں آنے والے رشتے داروں نے جالندھر والے گھر کچھ سامان ہمسائے سکھوں کو دے دیا اور باقی بخود بلوائیوں میں بٹ گیا۔ اس زمانے میں زیور فروخت کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ مانا جاتا تھا کہ پیٹ بھلے خالی رہے مگر ہاتھ خالی نہ ہوں۔ بہت غربت دیکھی مگر “ہو چوہدرانی زیور فروخت کرے” یہ ناممکن تھا۔ پھر وہی تمام زیور والدہ کو مل گیا اور وہ اتنا تھا کہ والدہ نے سب بچوں کی شادیوں کے موقع پر شائید ایک تولہ بھی مزید نہ خریدا۔
والدہ مرحومہ اس سلائی مشین سے اتنی ہی عقیدت رکھتی تھیں جتنی والد مرحوم کو زندگی بھر رہی۔ کم و بیش 50 سال تو والدہ کے کمرے کی وہی مشین زینت ہوتی تھی۔ اب والدہ دنیا میں نہیں مگر ان کا کمرہ اور ان کے بیڈ کے کونے پر مشین اسی طرح پڑی ہے جسے میری بہن نے نشانی کے طور پر نہ صرف سنبھال رکھا ہے بلکہ استعمال بھی کر لیتی ہے اور 101 سال میں کبھی کسی مستری کا اسے ہاتھ نہیں لگا۔ اس مشین کے ساتھ سائیڈ ٹیبل پر دو پلاسٹک کی ٹوکریاں پڑی ہوتی تھیں جو کئی دہائیوں سے کھجور اور املی کی گٹھلیوں سے بھری ہوئی ہیں اور ہزاروں نہیں لاکھوں کروڑوں مرتبہ والدہ کے ہاتھوں ایک سے دوسری ٹوکری میں منتقل ہوتی رہی ہیں اب ہم بہن بھائیوں میں سے جو بھی اس کمرے میں بیٹھے ان گٹھلیوں پر خود بخود کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا ہے۔ سردیوں کی دوپہر والدہ مرحومہ اس مشین کی صفائی کیلئے کڑی دھوپ میں باقاعدہ سیشن لگاتیں اور اکثر اوقات میں معاونت کرتا۔ اس کے نیچے چھوٹی پھرکی جس پر دھاگہ لپٹا جاتا ہے اور یہ دھاگہ لپیٹنے کیلئے علیحدہ سے ایک چھوٹا سا ٹول لگا ہوتا تھا۔ وہ کئی سال سے ناقابل استعمال تھا اور والدہ مشکل سے پھرکی کو بھرتی تھیں۔ ایک دن میں نے اس کا ربڑ اتارا تو اس کے نیچے ایک باریک پیچ لگا ہوا تھا میں نے پیچ کس سے اسے کھولا تو وہ باہر نکل آیا صفائی کی، دھاگے ہٹائے اور دوبارہ فٹ کر دیا جب وہ چل پڑی تو امی نے مجھے اتنی دعائیں دیں کہ تصور ہی محال ہے۔ انسانی ہاتھوں کی بنی سلائی مشین چار نسلیں بھگتا کر بھی جوان ہے جن ہاتھوں میں سب سے پہلے استعمال ہوئی، جالندھر میں وہ قبر بھی ختم ہو چکی ہو گی کہ گورکن اس صاحب قبر کے مکین کو مردہ تصور کرتے ہیں جس پر کوئی دعا کرنے نہ آئے۔ بس یہی انسان کی حیثیت اور اوقات ہے کہ اس کے پاس تو معمولی سی سلائی مشین جتنی بھی زندگی کی گارنٹی نہیں اور منصوبہ بندی وہ اپنی اس سات نسلوں کے لئے کرتا ہے جو ان کے ساتھ ساتھ ان کی قبروں کو بھی بھلا دیتیں ہیں۔ ہوا نہ انسان کمزور، بے جلد باز، بے اوقاتا۔