پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری سیاسی تعطل نے ملک کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔ یہ تنازعہ جو دو سال سے زائد عرصے سے جاری ہے، نہ صرف سیاسی ماحول کو متاثر کر رہا ہے بلکہ پاکستان کی معیشت پر بھی شدید اثر ڈال رہا ہے۔ ملک کا مستقبل خطرے میں ہے، اور یہ ضروری ہے کہ تمام متعلقہ فریق اس کا حل تلاش کریں اور آگے بڑھیں۔
ایک طرف پاکستان تحریک انصاف ہے، جو سابق وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ہے، جو اپنی مقبولیت کے باوجود کئی کوششوں کے باوجود مضبوط ہے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ ہے جو مختلف چیلنجز کے باوجود اپنی جگہ قائم ہے۔ یہ تعطل ایک قومی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے، خاص طور پر 9 مئی کے واقعات جو کہ ایک سنگین لمحہ بن چکے ہیں۔ اُس دن خان کو گرفتار کیا گیا، اور اس کے بعد احتجاج نے پرتشدد شکل اختیار کر لی، جس کی وجہ سے سرکاری املاک کو نقصان پہنچا۔ دونوں فریقوں کی عدم مصالحت نے تناؤ کو بڑھا دیا ہے، جس کی وجہ سے ملک غیر یقینی کی حالت میں ہے۔
عمران خان کے حالیہ بیانات نے اس تعطل میں پیشرفت کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔ خان نے اشارہ دیا ہے کہ وہ ریاست کی جانب سے 9 مئی کے واقعات پر اپنے موقف کی تصدیق کے بعد معافی مانگنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ موقف میں تبدیلی ایک اہم پیشرفت سمجھی جا رہی ہے، تاہم دونوں فریق پہل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ریاست غیر مشروط معافی کا مطالبہ کرتی ہے، جبکہ خان اصرار کرتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے خلاف الزامات کی تحقیقات ایک آزاد کمیشن کے ذریعے کی جانی چاہیے۔ جوابدہی کا یہ مطالبہ اہم ہے، کیونکہ یہ واقعات کی صاف سمجھ بوجھ پیدا کرے گا اور تمام فریقوں کو ذمہ دار ٹھہرائے گا۔
ناقدین یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا آزادانہ تحقیقات پر اصرار صرف کارروائی کو طول دینے کی حکمت عملی ہے۔ تاہم، شفافیت اور جوابدہی اس بحران کے حل کے لیے ضروری ہیں۔ احتجاج کو دہشت گردی قرار دینا اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتا ہے اور تناؤ کو بڑھا سکتا ہے۔ احتجاج اُس وقت پرتشدد ہو سکتے ہیں جب شرکاء کو اپنے غصے کا جواز محسوس ہوتا ہے، جیسا کہ 9 مئی کو ہوا تھا۔ رینجرز کے اہلکاروں کی جانب سے خان کے ساتھ سلوک اور ان کی گرفتاری کے حالات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ عوامی ردعمل کے پس منظر فراہم کرتے ہیں۔
یہ ناقابل تردید ہے کہ بعد میں جو تشدد ہوا وہ غلط تھا۔ تاہم، یہ بھی ضروری ہے کہ ریاست اپنے اعمال پر غور کرے اور اپنے ردعمل کے وسیع اثرات پر غور کرے۔ ریاست کو تمام ثبوت استغاثہ کے حوالے کرنے چاہئیں اور 9 مئی سے متعلق جرائم کے الزام میں ملوث افراد کو عام عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی اجازت دینی چاہیے۔ ریاست کو اپنے حقوق میں ہونا چاہئے کہ وہ اپنے جرائم کے تناسب میں سزائیں طلب کرے۔ یہ طریقہ انصاف اور جوابدہی کے عزم کو ظاہر کرے گا، جو آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہیں۔
ماضی کے واقعات پر موجودہ توجہ معیشت میں اصلاحات اور استحکام کی فوری ضرورت سے توجہ ہٹاتی ہے۔ پاکستان کی قیادت کو ایسے اقدامات کو ترجیح دینی چاہیے جو ملک کے فوری مسائل کو حل کریں بجائے اس کے کہ سیاسی تنازعات میں الجھ کر رہ جائیں۔ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں، اور یہ مستقبل پر توجہ مرکوز کرنے اور ایک ایسے حل کی جانب بڑھنے کے لیے ضروری ہے جو پورے ملک کے لیے فائدہ مند ہو۔
پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کو اپنے اختلافات سے اوپر اٹھنا چاہیے اور آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنے کے لئے تعاون کرنا چاہیے۔ ملک کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ آیا وہ مصالحت کرنے کے قابل ہیں اور ایسی پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جو معاشی ترقی، استحکام اور سماجی ترقی کو فروغ دیتی ہیں۔ سیاسی تعطل ہمیشہ کے لئے جاری نہیں رہ سکتا، اور تمام متعلقہ فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیں۔
آخر میں، پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان سیاسی تعطل ایک اہم مسئلہ ہے جس کا فوری حل ضروری ہے۔ دونوں فریقوں کو مصالحت کے لئے تیار ہونا چاہئے اور آگے بڑھنے کے لئے بات چیت میں شامل ہونا چاہئے۔ پاکستان کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ آیا وہ اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال سکتے ہیں اور ایک مشترکہ مقصد کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ ایسی پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرکے جو استحکام اور ترقی کو فروغ دیتی ہیں، قوم موجودہ بحران سے آگے بڑھ سکتی ہے اور اپنے شہریوں کے لیے روشن مستقبل کی تعمیر کر سکتی ہے۔
پاکستان کی معاشی پالیسی: مہنگائی اور ترقی کے درمیان توازن
پاکستان کی معاشی پالیسی ایک اہم مرحلے پر ہے، جو مہنگائی پر قابو پانے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے دوہرے چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے۔ پاکستان کے مرکزی بینک کا حالیہ فیصلہ کہ پالیسی ریٹ کو 19.5 فیصد پر برقرار رکھا جائے، اس کے معاشی اثرات کے بارے میں شدید بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ معاشی ماحول کتنا پیچیدہ ہے، جہاں مہنگائی پر قابو پانے اور اقتصادی ترقی کے درمیان توازن حاصل کرنے کے لیے متعدد عوامل پر غور کرنا پڑتا ہے۔
اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ کو بلند رکھنے کا فیصلہ مستقبل کے خطرات اور بیرونی خطرات کے بارے میں خدشات کے درمیان آیا ہے۔ گورنر جمیل احمد نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کو بتایا کہ یہ فیصلہ ممکنہ رجحانات، بیرونی اکاؤنٹ کی کمزوریوں، اور بین الاقوامی وعدوں سے متاثر ہوا تھا۔ یہ محتاط رویہ پاکستان کے معاشی منیجروں کو ایک غیر مستحکم عالمی معاشی منظر نامے میں نیویگیٹ کرنے میں درپیش چیلنجوں کو اجاگر کرتا ہے۔
ہیڈ لائن افراط زر کی شرح پالیسی ریٹ سے کافی کم ہونے کے باوجود، بلند شرح سود کو برقرار رکھنے کا فیصلہ طویل مدتی استحکام پر مرکزی بینک کی توجہ کو واضح کرتا ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسی بلند شرح نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں رکاوٹ بنے گی، جو معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ نجی شعبہ قومی پیداوار کا ایک کلیدی محرک ہے، اور اس کی ترقی کو محدود کرنا معیشت پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، اعلی پالیسی کی شرح حکومت کے قرضوں کی خدمت کے اخراجات کو بڑھا دیتی ہے، جس سے مالی بجٹ مزید دباؤ کا شکار ہوتا ہے۔
آخری مالیاتی پالیسی کے بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مہنگائی توقع سے قدرے بہتر تھی، جس میں ہیڈ لائن اور بنیادی مہنگائی کی شرح میں کمی آئی۔ بیرونی کھاتہ بھی بہتری کے آثار دکھا رہا ہے، جہاں قرضوں کی نمایاں ادائیگیوں کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ایسی مزید متوازن حکمت عملی کے لئے گنجائش موجود ہے جو مہنگائی پر قابو پانے کے بغیر اقتصادی ترقی کو فروغ دے سکے۔
گورنر نے حالیہ مالیاتی اقدامات کے اثرات پر بھی روشنی ڈالی، جیسے کہ بڑھتی ہوئی توانائی کی قیمتیں اور مشرق وسطی کی بگڑتی ہوئی صورتحال، جو تیل کی زیادہ قیمتوں کا باعث بن سکتی ہیں۔ ان عوامل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی وعدے، جیسے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے توسیعی فنڈ کی سہولت کے پروگرام، پاکستان کے معاشی استحکام کے لئے اہم چیلنج پیش کرتے ہیں۔
حکمت عملی، جو ایک بلند پالیسی کی شرح پر زور دیتی ہے، طویل مدت میں پائیدار نہیں ہو سکتی۔ ایسی مزید تفصیلی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو مہنگائی پر قابو پانے کے ساتھ ترقی کو فروغ دے۔ بجٹ کے موجودہ اخراجات میں کمی زیادہ مؤثر طریقہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کی قرض لینے کی ضروریات کو کم کرے اور مہنگائی کے دباؤ کو حل کرے۔
پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجوں کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جو فوری خدشات اور طویل مدتی اہداف کو حل کرتی ہے۔ اخراجات کو کم کرنے اور مزید متوازن مالیاتی پالیسی اپنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، قوم پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کر سکتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ معاشی منیجر ایسی پالیسیوں کو ترجیح دیں جو استحکام اور ترقی کو فروغ دیں، ملک کے لئے ایک خوشحال مستقبل کو یقینی بنائیں۔
قرضوں کی ادائیگی کی اہلیت بھی ایک اہم مسئلہ ہے، جس میں بیرونی مالیات کے حصول اور قرضوں کی ادائیگیوں کا انتظام کرنا شامل ہے۔ گورنر احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ اس سال کل بیرونی ادائیگیوں کی ضرورت 26.2 بلین ڈالر ہے، جس میں رول اوورز اور دو طرفہ آمدنی مالی ضروریات میں حصہ ڈالتی ہیں۔ ان چیلنجوں کے باوجود، یہ ضروری ہے کہ پائیدار اقتصادی پالیسیوں پر توجہ مرکوز کی جائے جو بیرونی قرضوں پر انحصار کو کم کرے۔
آخر میں، پاکستان کی معاشی پالیسی کو مہنگائی پر قابو پانے اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کے درمیان نازک توازن کو نیویگیٹ کرنا چاہئے۔ بلند پالیسی کی شرح، جبکہ مہنگائی کے خدشات کو حل کرتی ہے، نجی شعبے کی سرمایہ کاری اور اقتصادی توسیع کو فروغ دینے کے لیے سازگار نہیں ہو سکتی۔ متوازن نقطہ نظر اپنانے اور مالی ذمہ داری کو ترجیح دے کر، قوم طویل مدتی معاشی استحکام اور خوشحالی حاصل کر سکتی ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ فیصلہ کن کارروائی اور اسٹریٹجک منصوبہ بندی کا تقاضا کرتا ہے تاکہ تمام پاکستانیوں کے لئے ایک روشن مستقبل کو یقینی بنایا جا سکے۔
غزہ کے بارے میں مسلم دنیا کا ردعمل: الفاظ سے عمل تک
مسلم دنیا کو غزہ میں جاری تشدد اور اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں خطے کی عدم استحکام کے معاملے پر فیصلہ کن کارروائی کرنی چاہیے۔ طویل عرصے سے، مسلم اکثریتی ریاستوں کا ردعمل مذمت اور بیانات تک محدود رہا ہے، جو کہ اس بحران کو حل کرنے کے لیے ضروری متحد اور مضبوط کارروائی کی کمی رہی ہے۔ موجودہ صورتحال الفاظ سے زیادہ مطالبہ کرتی ہے۔ اس کے لیے فلسطینی کاز کی حمایت اور اسرائیلی اشتعال انگیزیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
غزہ پر اسرائیلی حملہ اور مختلف مسلم ریاستوں کی خودمختاری کی خلاف ورزی، جن میں شام، لبنان، یمن، اور ایران شامل ہیں، نے مسلم دنیا کے ردعمل کی ناکافی کو اجاگر کیا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے بیانات جاری کیے ہیں، لیکن یہ اقدامات فلسطینی حقوق اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات میں تبدیل نہیں ہوئے۔
حال ہی میں ہونے والی پیش رفت، جیسے سعودی عرب میں ہونے والا او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس، مسلم دنیا کے موقف میں ممکنہ تبدیلی کا اشارہ دیتی ہے۔ یہ اجلاس ایران اور فلسطین کے ذریعہ حماس کے چیف اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل کے بعد بلایا گیا، جو ایک نایاب اتحاد کا مظاہرہ تھا۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے قتل اور مقبوضہ علاقوں میں جاری “نسل کشی” کی مذمت کی۔ خاص طور پر، سعودی عرب، جو ایران اور حماس کے ساتھ اپنے اختلافات کے باوجود، قتل کی مذمت میں شامل ہو گیا اور ایران کی خودمختاری کی “واضح خلاف ورزی” کے طور پر اس کی مذمت کی۔
یہ بیانات ایک مثبت قدم ہیں، لیکن انہیں عمل سے تقویت ملنی چاہیے۔ او آئی سی اور مسلم اکثریتی ریاستوں کو الفاظ سے آگے بڑھنے اور ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو اسرائیل کو اس کے اعمال پر جوابدہ ٹھہرا سکیں۔ اس میں بین الاقوامی فورمز پر متحد آواز میں بات کرنا، فلسطینی حقوق کی وکالت کرنا، اور اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف تعزیری اقدامات کرنا شامل ہے۔
ترکی کا حالیہ فیصلہ کہ وہ جنوبی افریقہ کے ساتھ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے میں بین الاقوامی عدالت میں شامل ہو، مسلم دنیا کے ردعمل میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ یہ قانونی کارروائی غزہ اور اس سے باہر اسرائیل کے مجرمانہ طرز عمل کے خلاف انقرہ کے موقف کی سختی کا اشارہ دیتی ہے۔ ایسے اقدامات انصاف اور جوابدہی کے عزم کو ظاہر کرنے میں اہم ہیں۔
تاہم، مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ مسلم دنیا کو اپنے اجتماعی اثر و رسوخ کو استعمال کرنا چاہئے تاکہ اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے لیے دباؤ میں لایا جا سکے۔ اقتصادی پابندیاں، سفارتی دباؤ، اور بین الاقوامی فورمز پر وکالت وہ رفتار پیدا کر سکتی ہے جو تبدیلی کو ممکن بنا سکے۔ بین الاقوامی برادری کو خطے میں اسرائیل کے اقدامات کے غیر مستحکم اثرات کو تسلیم کرنا چاہیے اور تنازعے کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
مشرق وسطی میں اسرائیل کی خودمختاری کی خلاف ورزیاں خطے کو جنگ کے دہانے پر لے آئی ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے اشتعال انگیز اقدامات، اگر انہیں نظرانداز کیا گیا، تو وہ وسیع پیمانے پر تنازعہ کا سبب بن سکتے ہیں، جس کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ مسلم بلاک کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسرائیل کو اس کے مغربی حامیوں کے ذریعہ کنٹرول کیا جائے، اس سے پہلے کہ وہ مشرق وسطی کو آگ لگا دے۔
بین الاقوامی برادری کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ اگر خطے میں دشمنی بڑھ گئی تو اس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جائیں گے۔ اگر غزہ اور مشرق وسطی میں صورتحال مزید خراب ہوتی ہے تو اس کے اثرات فوری علاقے سے کہیں زیادہ دور تک محسوس کیے جائیں گے۔ مزید اضافے کو روکنے اور امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے ایک اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔
آخر میں، مسلم دنیا کو چیلنج کا سامنا کرنا چاہئے اور غزہ میں تشدد کے خاتمے اور خطے کی عدم استحکام کے حل کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ ایک متحدہ نقطہ نظر، بین الاقوامی دباؤ کی حمایت کے ساتھ، مزید تنازعے کو روک سکتا ہے اور دیرپا امن کو فروغ دے سکتا ہے۔ عمل کا وقت اب ہے، اور مسلم دنیا کو فلسطینی حقوق کی حمایت اور علاقائی استحکام کو یقینی بنانے میں قیادت کرنی چاہئے۔ الفاظ سے آگے بڑھ کر اور مؤثر اقدامات کو نافذ کرکے، مسلم دنیا انصاف اور امن کے لیے اپنے عزم کا مظاہرہ کر سکتی ہے، اور مشرق وسطی میں ایک روشن مستقبل کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔