تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری(روداد زندگی)
پٹیالہ مشرقی پنجاب کا مشہور شہر بھارت کی تقسیم سے پہلے ریاست پٹیالہ ہوتی تھی جس کے سکھ مہاراجہ حکمران تھے۔ میں اپنے کزنز کے ساتھ پٹیالہ گیا تو ہم وہاں کے سب سے مشہور بازار عدالت بازار میں گھوم رہے تھے (یاد رہے کہ عدالت بازار کے علاوہ پٹیالہ پیگ بھی ہندو ستان میں مشہور ہے) کہ مجھے ایک درمیانی عمر کے سکھ نے روک لیا اور کہا کہ آپ پاکستان سے آئے ہیں تو میں نے کہا نہیں سردار جی میں تو مالیر کوٹلہ سے آیا ہوں ۔میر ے کزنز نے بھی یہی جواب دیا میں نے ہاتھوں میں کڑے بھی پہن رکھےتھے وہاں پر ہندو اکثر ہاتھوں میں کڑے پہنتے تھے کیونکہ میرے پاس پٹیالہ ضلع کا ویزا نہیں تھا اسی لئے اپنی شناخت چھپانا چاہتا تھا۔ جب اس نے زیادہ اصرار کیا تو میں نے کہا کہ پاکستان میں ہمارے عزیز رہتے ہیں کوئی کام ہو تو بتائو، وہ ہمیں جوس کی دکان پر لے گیا، اس کا نام گرمیل سنگھ تھا اور بھارتی فوج سے نائب صوبیدار ریٹائرڈ ہوا تھا۔ اس نے اپنا مسئلہ بتایا میں نے کہا ٹھیک ہے پھر اس نے کہا میں کسی خفیہ ایجنسی کا بندہ نہیں ہوں۔ اس نے گرو کی قسمیں بھی اُٹھائیں۔ خیر جب اعتماد بحال ہوا تو میں نے اسے بتا دیا کہ میں پاکستان سے پی آیا ہوں، میرا دادا کا خاندان مالیر کوٹلہ میں ہی رہتا ہے تو میں نے پوچھا کہ آپ نے مجھے کیسے پہچانا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں تو گرمیل سنگھ نے کہا کہ آپ کے کوٹ کی تراش (سلائی) سے کیونکہ ہمارے پنجاب میں اتنے اچھے درزی نہیں ہوتے۔ صرف ممبئی میں ہی ملتے ہیں یا پھر پاکستان میں۔ میری دو دن بعد پاکستان واپسی تھی۔ مالیر کوٹلہ سے واہگہ بارڈر کیلئے صبح 4 بجے بس روانہ ہونی تھی اور مجھے بس سٹینڈ پر الوداع کہنے بھائی بشیر کے علاوہ تین کزنز بھی آئے ہوئے تھے۔ جنوری میں صبح صبح 4 بجے اٹھنا بڑی مشقت اور محبت کی بات تھی، بس سٹینڈ پر پروفیسر کھیڑا سنگھ کو دیکھ کر سکھوں کی یاری کی بارے میں جو سنا تھا وہ حرف بحرف سچ ثابت ہو گیا۔ لاہور پہنچ کر میں چوہدری آفتاب جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے کے پاس ہاسٹل پہنچ گیا وہاں پر ان کے روم میٹ ڈاکٹر امتیاز شیرازی، اکرم خان اور عبد اللہ گلگتی سے ملاقات بھی ہو گئی۔ 44-45 سال گزرنے کے بعد بھی یہ ڈاکٹر صاحبان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اورمجھے بھی ان سب دوستوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر آفتاب کو میں نے گرمیل سنگھ کی داستان سنائی تو انہوں نے کہا کہ لکھ کر دے دیں میں اسلم ملک یا خود منو بھائی تک پہنچا دوں گا۔ پھر وہ کہانی منو بھائی نے اپنے کالم گریبان امروز اخبار میں شائع کرا دی اور گرمیل سنگھ نے کہا تھا کہ میری بھابھی کے والدین لاہور کے نزدیک کسی گاوں میں رہائش پذیر ہیں۔منو بھائی مرحوم کا کالم گریبان اس زمانے میں بہت پڑھا جاتا تھا۔ میں نے کالم کا تراشا گرمیل سنگھ کو پٹیالہ بذریعہ خط ارسال کر دیا تھا اس کا جوابی خط بھی ملا تھا کہ باپ بیٹی میں رابطہ ہو گیا یہ کالم 12 جنوری 1980 کو شائع ہوا تھا ۔
بہاولپور کی سنٹرل لائبریری سے محترم ڈاکٹر عبد الشکور نے ڈھونڈ کر مجھے بھیجا اور ڈاکٹر آفتاب صاحب کی فرمائش پر لاہور سے اسلم ملک صاحب نے بھی ’’دل دریا سمندروں ڈونگے‘‘ تلاش کر لیا۔
قارئین کرام کی دلچسپی کیلئے 12 جنوری 1980 کو روزنامہ امروز، جو اس وقت کا بہت مقبول اخبار تھا، میں شائع منوں بھائی کے کالم گریبان بعنوان ’’دل دریا سمندروں ڈونگے‘‘ پیش خدمت ہے۔
منوں بھائی اپنے کالم میں لکھتے ہیں:
چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ کے طالب علم ظفر علی صاحب نے روہیلانوالی ضلع مظفر گڑھ سے قبیلے نام ایک خط میں لکھا ہے۔ مجھے پچھلے دنوں ہندوستان کے شہر پٹیالہ جانے کا اتفاق ہوا جہاں ایک شخص سردار گورمیل سنگھ سے ملاقات کے دوران سردار گورمیل سنگھ نے بتایا کہ ان کے والد کو 1947 کے فسادات میں مریم نام کی لڑکی ملی تھی جس کے گھر والے ہندوستان چھوڑ کر پاکستان آ گئے تھے اور وہ تنہا اور بے یارو مدد گار بھارت ہی میں رہ گئی تھی۔ اس نے بتایا کہ اُس کے والد کا نام ولی محمد ہے جو کہ ریاست پٹیالہ کے گائوں وڈی دون (وڈی یعنی بڑی) کا رہنے والا تھا، والد نے اس بچی کے والدین کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے اور یہ بچی ان کے گھر ہی میں پل کر جوان ہو گئی اور پھر انہوں نے مریم کی شادی کر دی۔ اب مریم کےبچے جوان ہیں اور انگلستان میں کاروبار کرتے ہیں۔
سردار گورمیل سنگھ کا کہنا ہے کہ تئیس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اور خاصی آسودہ زندگی گزارنے کے با وجود مریم کو آج بھی اپنے بچھڑ ے ہوئے والدین اور بہن بھائیوں کی یاد ستاتی ہے اور وہ ان سے ایک مرتبہ ملنا چاہتی ہے۔ مریم کا دل کہتا ہے کہ اس کے والد ولی محمد لاہور کے قریب کسی علاقے میں رہتے ہیں اُس کی یہ خواہش ہے کہ اس کی یہ روداد پاکستان کے کسی اخبار میں شائع کر دی جائے کہ ولی محمد صاحب جہاں بھی ہوں اور جس حالت میں بھی ہوں اپنی بیٹی مریم سے رابطہ قائم کریں۔ یہ رابطہ سردار امریک سنگھ ولد سردار گورمیل سنگھ ڈاکخانہ آمر گڑھ ضلع سنگرور (بھارت) کے پتہ پر خط لکھ کر قائم کیا جا سکتا ہے اور ایک مرتبہ رابطہ قائم ہو جائے تو پھر ملاقات کی بھی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔
ظفر علی صاحب کی خواہش کے مطابق مریم بنت ولی محمد کی یہ آرزو میں نے اپنے کالم کی زینت بنا دی ہے اس امید پر کہ شاید یہ تحریر براہ راست یا بالواسطہ طور پر ولی محمد صاحب تک پہنچ جائے اور وہ سردار امریک سنگھ کو خط لکھ کر اپنی بیٹی سے رابطہ قائم کرکے اس سے ملاقات کی کوئی سبیل نکال سکیں لیکن ایک سوال بار بار ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا مریم کے والد ولی محمد ابھی تک زندہ ہیں یا اپنی گمشدہ یا بچھڑی ہوئی بچی کی یاد اپنے دل میں لے کر رشتوں، دوستوں اور دشمنوں کی اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں اور ایک ایسی دنیا میں چکے ہیں جہاں کوئی کسی کا رشتہ دار نہیں ہے۔ جہاں بچھڑے ہوئے یاد آ ہی نہیں سکتے اور جہاں جانے والے آخر کار بھلا دیئے جاتے ہیں۔
والدین کے علاوہ اور کون ہو گا جس کو مریم یاد ہو گی اور پھر یہ یاد تینتیس سال بعد زندہ بھی ہو گی۔ ان تینتیس سال کے دوران پیدا ہونے والوں سے مریم کا کیا رشتہ ہو سکتا ہے۔ خود ولی محمد اور مریم کے درمیان تینتیس سال کی خلیج حائل ہو گی۔ ولی محمد کے ذہن میں مریم ابھی چھوٹی ننھی بچی ہو گی اور مریم کے خیالو ں میں بھی تینتیس سال پہلے کے ولی محمد ہی ہوں گے۔ اُن کی سوچوں میں فرق آ گیا ہو گا ۔ اُن کی زبان اور بولی الگ ہو گئی ہو گی۔ سکھ گھرانے میں ہوش سنبھالنے اور پھر جوان ہونے والی مریم کے پاس ولی محمد کا صرف خون ہی باقی رہ گیا ہوگا اور اس خون کی پکار اس کی آرزو بن گئی ہے مگر میں سردار گورمیل سنگھ اور اس کے والد کے لئے بھی اپنے دل میں احترام محسوس کرتا ہوں جس نے مریم کی آرزو کو زبان دینا ضرور سمجھا اور مریم کو اس کے اصلی والد سے ملانے کا جتن کیا۔ ولی محمد تو ایک بچی کا باپ تھا لیکن گورمیل سنگھ کا باپ ایک خاتون کا باپ ہے ۔ تینتیس سال تک والد کے فرائض انجام دینے والا باپ اُس باپ کی تلاش میں ہے جو محض چند سال تک باپ رہا اور پھر کھو گیا۔ انسانی جذبات اور احساسات کا دریا و اقعی سمندر سے بھی زیادہ گہرا ہوتا ہے۔
آج اس کالم نے منو بھائی سے ملاقاتیں، ان کی تحریری اور ان کا انداز تکلم یاد کرا دیا۔ دنیا سے جانے والے منو بھائی آج بھی تھیلیسمیا کے مریض بچوں کو مسلسل خون فراہم کرنے والے فلاحی ادارے سندس فائونڈیشن کی صورت میں ہر اس بچے کی رگوں میں زندگی کا پیغام بن کر زندہ ہیں جو بچے اس ادارے سے باقاعدگی سے خون لے رہے ہیں۔