روداد زندگی
تحریر: ڈاکٹر ظفر چوہدری
آج میں چانڈکا میڈیکل کالج کے طالب علمی کے زمانہ میں اپنی اور اپنے دوستوں کی شرارتوں اور حماقتوں بارے لکھنا چاہتا ہوں۔ ایک دفعہ کمال سومرو نے شکار پور میں واقع اپنے گھر ہمیں دعوت دی۔ جس میں کھانے کے علاوہ ہمارے لئے ساوی (بھنگ) کا بھی اہتمام کیا گیا۔ باقی دوست جن میں انکل فاروق، اعجاز کشمیری ، خالد محمود، اویس سعید خان وغیرہ شامل تھے وہ تو اس “نعمت” سے محروم رہے۔ متین خان اور میں نے پہلی اور آخری دفعہ ساوی نوش فرمائی۔ ساوی بنیادی طو پر سندھ اور جنوبی پنجاب میں اس دور میں کثرت سے استعمال ہوتی تھی اور سمجھا جاتا تھا کہ یہ اپنی تاثیر کے حوالے سے ٹھنڈی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ایک اکھان بھی ہے ” ساوی سب کوں بھاوی” بڑے بڑے زمیندار افیم بھی استعمال کرتے تھے کیونکہ افیم کیلئے دودھ کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔الکوحل عام طور پر سرد علاقوں کا مشروب سمجھا جاتا ہے۔ مغل بادشاہ بابر نے اپنی جود نوشت تزک بابری میں لکھا ہے وہ افیم اور شراب دونوں کو استعمال کرتے تھے۔ چرس غریب لوگ استعمال کرتے تھے لیکن دانشور حضرات بھی اپنی ذہنی صلاحیتیں بڑھانے کیلئے بھی چرس استعمال کر لیتے تھے۔ بااثر اور امیر لوگوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا تھا مگر بھنگی، چرسی اور افیمی کے القابات صرف اور صرف غریب طبقے کے لوگوں کیلئے استعمال ہوتے تھے۔ پتہ نہیں سچ ہے یا جھوٹ ہے اللہ جانے مگر سندھ کے سابقہ وزیراعلیٰ جو ابھی بھی حیات ہیں ان کے بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے ۔ جب وہ وزیر اعلیٰ بنے اور پہلی بار پولیس اسکارڈ کے ساتھ روانہ ہوئے تھے تو انہوں اپنے پی اے سے پوچھا کہ یہ پولیس والے میرا پیچھا کیوں کر رہے ہیں کیونکہ اس وقت بھی انہوں نے بھنگ پی ہوئی تھی پی اے نے بتایا کہ سائیں آپ وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں اور یہ آپ کی حفاظت کیلئے آپ کے ساتھ ہیں۔ لیجئے جناب میں پھر بھٹک گیا، بات کمال سومرو کی دعوت کی ہو رہی تھی انہوں نے جو ساوی تیار کروائی اس میں چار مغز ، بادام اور سن کراپ کا استعمال کیا اور متین خان اس سے خوب لطف اندوز ہوئے۔کھانے کے بعد ہم واپس بذریعہ ٹرین لاڑکانہ روانہ ہوئے تو راستے میں ہم ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ یار کوئی نشہ نہیں ہوا بالکل نارمل تھے۔ یہی بات واپسی پر کمال سومرو سے بھی کی بعد میں مجھے ایک دوست نے بتایا کہ کمال سومرو کا عزیز اس کے پاس آیا ہوا تھا تو ہمارے کلاس فیلو نے اس کے ساتھ اصلی ساوی پی لی اور تین دن خواب خرگوش کے مزے لیتا رہا۔ اسی طرح ایک بار میں نے اپنے سندھی کلاس فیلو سے پوچھا تم کہاں جا رہے تو اس نے کہا کہ ریڈ لائٹ ایریا جا رہا ہوں میرے لئے یہ جواب غیر متوقع تھا کیونکہ ملتان میں حرم گیٹ اور لاہور میں ہیرا منڈی کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا مگر مجھے اس وقت تک ان مقامات پر جانے کا “شرف” حاصل نہیں ہوا تھا اور جو لوگ جاتے بھی تھے وہ چھپ چھپا کر جاتے تھے اور آج کل کی طرح کھلے عام بتا کر نہیں جاتے تھے۔ اس دور میں پاکستان میں کوئی آئیڈیل معاشرہ تو تھا نہیں، مگر آج کل کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ بہتر تھا۔ ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے پر معاشرے نے گھٹن اور جعلی پارسائی کو ضیافت کے پردے میں رائج کیا۔ اس کے نتائج ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔ منو بھائی اور ایاز امیر اسی بارے لکھا کرتے تھے تاہم ایاز امیر جب سے مخصوص حجامتوں والون کی خصوصی مہربانی سے پی ٹی آئی کی نزر ہوئے ہیں انہیں بھی عمران خان کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ ان دنوں چانڈکا میں ہمارے باورچی کی شادی ہوئی تو میں نے پوچھا کیا حال ہے اس نے کہا سائیں اب تو گھر والوں کو روزانہ دس روپے دینے پڑتے ہیں پہلے تو ہفتہ میں ایک بار دس روپے خرچ کرنا پڑتے تھے۔ میری سمجھ میں اس کی بات نہیں آئی پھر میں نے ساتھ بیٹھے سندھی کلاس فیلو سے مطلب پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ لکھ نہیں سکتا۔
اسی طرح اپنے ایک سندھی کلاس فیلو کے ساتھ حیدر آباد گیا اس کلاس فیلو کے والد صاحب سندھ حکومت میں انتظامی عہدہ پر فائز تھے اور اسے گھر سے معقول رقم مل جاتی تھی تو اس نے عورتوں کا دھندہ کرنے والے کو بلایا اور کہا کہ میرے لیے “تفریح طبع” کا بندوبست کرو تو اس نے جواب دیا کہ سائیں اس وقت کوئی موجود نہیں ہے اس نے دوبارہ سندھی میں گالی دے کر کہا میں جو کہہ رہا ہوں اس پر عمل کرو تو اس نے جواب دیا سائیں میں اتنا بے غیرت نہیں ہوں کہ میرے پاس “مال” ہو اور میں آپ کی خدمت نہ کروں اس بات سے مجھے غربت اور پیشہ ورانہ کمٹمنٹ کی سمجھ آ گئی۔ اسی دور میں ساحر لدھیانوی کی لکھی ایک نظم یاد آ گئی۔
ساحر لدھیانوی اس دور بہت مشہور شاعر تھے ۔ان کا مجموعہ کلام’’ تلخیاں‘‘ کے کچھ اشعار یاد ہیں۔
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
ثنا خوان تقدیس مشرق کو لاو
یہ کوچے یہ منظر یہ گلیاں دکھائو
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں
عتیق خان جتنا مہذب اور بااخلا ق تھا ہمارا ایک اور پٹھان کلاس فیلو اتنا ہی غیر مہذب اور بداخلاق تھا اور اکثر دوست اس سے ڈرنا تو نہیں کہہ سکتے مگر اس سے دور رہتے تھے۔میں اس کا نام نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ اس کے بعد نہ تو اس سے ملاقات ہوئی اور نہ ہی پتہ ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔ ایک بار مجھے اس کے ساتھ سکھر سے ٹرین میں ملتان تک سفر کرنا پڑا اس نے پشاور جانا تھا ہم نے ٹرین میں برتھ ریزرو کروائی ہوئی تھیں آمنے سامنے ہم اپنی اپنی برتھ پر لیٹ گئے اور نیچے لاہوریوں کا گروپ بیٹھا تھا اور پھر وہ تاش کھیلنا شروع ہو گئے۔ میرا کلاس فیلو نسوار کھاتا تھا ۔ کچھ دیر بعد اس نے تھوک کی پچکاری نیچے ماری تو ایک بندے نے کہا کہ خان صاحب کچھ خیال کریں ہم نیچے بیٹھے ہیں تو اس نے کہا اچھا اچھا دوسری بار جب اس نے دوبارہ وہی حرکت کی تو انہوں نے مل کے کہا کہ آپ خیال کریں پہلے بھی کہا ہے ۔ خان نے پھر کہا اچھا اچھا ۔ جب موصوف نے تیسری بار یہ حرکت کی تو لاہوریوں نے غصے میں کہا تمہیں سمجھ نہیں آتی تو اس نے کہا شور مت کرو اب میں تمہارے منہ پر تھوکوں گا ۔یہ کہنا تھا کہ لاہوری نے جوتا اس کے منہ پر مارا تو وہ بڑا غصے میں اُٹھ بیٹھا تو دوسرے نے جوتا جڑ دیا ۔ اس نے میری طرف دیکھا تو میں نے منہ دوسری طرف کر لیا پھر میرا کلاس فیلو خان بھی ٹھنڈا ہو گیا اور ملتان تک اس نے پچکاری ہی نہیں ماری ۔ جب ملتان آ گیا تو میں نے اس سے کہا گاڑی کچھ دیر رکے گی تم ناشتہ کر لو اس نے کہا نہیں نہیں ناشتہ میں کرائوں گا ۔خیر میں نے اسے پیسے نہیں دینے دیئے اور جاتے وقت بڑی خوشامد سے کہنے لگا ظفر یہ بات کالج میں کسی کو مت بتانا۔
میں نے اس سال گرمیوں کی چھٹیاں بڑی بے چینی سے گزاریں کہ کب ختم ہومیں یہ واقعہ اپنے دوستوں کو بتا سکوں۔