آج کی تاریخ

حکومتی مالیاتی پالیسیاں:تھوتھا چنا ، باجے گھنا

اس ملک کی حکمران اشرافیہ نے ایک کام بنا کسی تعطل کے ہمیشہ جاری رکھا ہے اور وہ ہے اپنے مفادات کی ہر قیمت پر حفاظت کرنا اور اپنی نا اہلی، مجرمانہ غفلت، بدعنوانی ، لوٹ کھسوٹ،اقربا پروری کے سبب جو معشیت بدحال ہوئی اس کا سارا بوجھ عام آدمی کے اوپر منتقل کرنا- حکمران اشرافیہ کی اس مستقل مزاج عوام دشمنی کی ‘داد’ نہ دینا ‘کم ظرفی’ کہلائے گی-
مالیاتی سال 2024-25 کے آغاز سے پہلے حکمران اتحاد کی حکومتی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان پاکستان مسلم لیگ نواز کے مقرر کردہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کے بیانات پڑھ کر اور سن کر بے اختیار زبان پر یہ شعر آجاتا:
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی ہے جو بچے کچھے پاکستان میں خود کو عوام کی مائی باپ کہتے تھکتی نہیں ہے۔ اس نے بجٹ سے پہلے بار بار کہا کہ وہ عوام دشمن اقدامات پر مبنی بجٹ کی مںطوری نہیں دے گی۔
موجودہ حکومت میں ہمارے ٹیکنو کریٹ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ہیں جو مسلسل یہ تاثر دیتے ہیں کہ نہ تو وہ روایت خرانٹ سیاست دان ہیں نہ ہی وہ کایاں بیوروکریٹ ہیں، وہ تو ایک ماہر بینکر ہیں ۔ بجٹ پیش کرنے سے 21 دن پہلے انہوں نے بہت سختی سے سے اعلان کیا کہ ان کی ںطر میں کوئی ادارہ یا کوئی شخص مقدس گائے نہیں ہے اور ہر ایک کو معشیت میں اپنا حصّہ ڈالنا ہوگا- انھوں نے حکومتی اخراجات میں کمی کرنے، ٹیکس نہ دینے والے طاقتور امیر گروہوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کا اعلان کیا۔ بجٹ پیش کرنے سے ایک دن پہلے بھی انھوں نے کہا کہ ‘سب’ کو ٹیکس دنیا پڑے گا؟ [‘سب’ میں کون کون شامل تھا اور کون نہیں تھا، یہ بجٹ دستاویز سامنے آنے سے پتا چلا۔
اس مشق سے پہلے ہماری فوجی قیادت کی جانب سے سرحدوں سے اسمگلنگ کا خاتمہ کرنے کے دعوے سامنے آئے تھے جس نے معشیت کا بیڑا غرق کرکے رکھا ہوا ہے۔
پاکستان کی منتخب اور غیر منتخب اسٹبلشمنٹ کی طاقتور شخصیات کے یہ سارے اعلانات میڈیا پر زور و شور سے گونجے۔ ان کے میڈیا مینجرز نے انہیں روشن امید کا پیغام قرار دیا- کہا گیا کہ پہلی بار پاکستان کی سیاسی اور فوجی اشرافیہ معشیت کی بحالی کے لیے متفقہ لائحہ عمل بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اب ٹیکس نظام میں زیادہ بوجھ زیادہ کمائی کرنے والوں پر پڑے گا- حکومت خزانے سے زیادہ سبسڈیز عام آدمی کو دے گی اور اشرافیہ کی سبسڈیز کا خاتمہ کر دیا جائے گا- حکومتی اللے تللوں پر فالتو اور بے جا اصراف ختم ہوگا- حکومتی اخراجات کو کم کرکے دکھایا جائے گا-
لیکن ‘چیزوں کو درست کرنے کا نیا مالیاتی سال بھی شب گزیدہ،گرہن زدہ سورج کے ساتھ طلوع ہوا۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ عام آدمی کے مصائب اور تکالیف پر ان کے آنسو مگرمچھ کے آنسو تھے۔ ان کے بیانات ‘بغل میں چھری منہ پہ رام رام’ کا عکس تھے۔ ان کی بے رحیمی اور ظلم کے بارے میں نرم سے نرم الفاظ میں بس یہی کہا جاسکتا ہے:
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک
وزیر اعظم کے عوام کی مشکلات پر پڑھے گئے نوحے، آصف علی زرداری کے عوام دوستی کے نعرے، وفاقی وزیر خزانہ کی ‘یقین دہانیاں عوام سے ‘سنگین، بے رحم، ظالمانہ مذاق کے سوا کچھ نہیں تھیں۔
اس بجٹ میں ‘تنخواہ دار طبقے پر ظالمانہ ٹیکسز کی بھرمار کردی گئی ۔ منتخب اور غیر منتخب اسٹبلشمنٹ کے اخراجات اور مراعات میں اضافہ کردیا گیا- بجٹ کی 92 فیصد سبسڈيز حکمران اشرافیہ کے لیے مختص کی گئیں۔
وفاقی وزیر خزانہ شاید ضمیر کی خلش سے متاثر ہوکر اتوار کے روز میڈیا کے سامنے تنخواہ دار طبقے سے تعزیت کرتے پائے گئے۔ انہوں نے بالواسطہ یہ تسلیم کیا کہ اس ملک میں ‘مقدس گائے ہونے کے اعزاز سے اگر کوئی محروم ہے تو وہ اس ملک کے عوام ہیں جن کی نہ تو منتخب اسٹبلشمنٹ میں کوئی نمائندگی ہے نہ ان کی شمولیت غیر منتخب اسٹبلشمنٹ میں ہے اور کوئی نہیں ہے جو ان کے مفاد میں مالیاتی پالیساں بنوا سکے۔
عوام کی اکثریت یہ جان گئی ہے کہ ہائبرڈ حکومتی سسٹم سے نکل کر آنے والا بجٹ صرف ان لوگوں کے گلے پر مزید دباؤ بڑھائے گا جو پہلے سے ہی حکومتی ٹیکسز ادا کر رہے ہیں- جبکہ اس بجٹ سے مقدس گائیں اور موٹی ہوں گی- معشیت کی حقیقی اصلاح کا پروگرام ایک بار پھر نسیا منسیا ہوگیا ہے۔
ٹیکس کے جال کو مزید گہرائی تک لیجانے کے دعوے کا مطلب عوام کو سمجھ میں آگیا ہے- یعنی حکومت کو اپنے انتہائی بڑھے ہوئے اخراجات اور اشرافیہ کے طفیلی پن کو ریاستی خرچ پر برقرار رکھنے کے لیے پہلے سے ہی ٹیکس دینے والے افراد اور گروپوں پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لادھ دینا تھا۔
حکومت ٹیکس دائرے میں وسعت اور گہرائی لانے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔ اور اس کی اس بارے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ، یہ اس مالیاتی سال کی حکومتی پالیسیوں اور فیضلوں کا سب سے بڑا تلخ اور دردناک سبق ہے۔
غریبوں کو موت کا پیغام دینے اور درمیانے و سفید پوش طبقے کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا سب سے سنگین ترین مذاق حکومت کا اپنے اخراجات میں کسی بھی طریقے سے کمی نہ لانے بلکہ اس میں 21 فیصد اضافے کا اعلان کرنے کا ہے۔ یعنی جو لوگ اتنے بڑے بیمار، طفیلی ، گماشتگی اور بدعنوانی کے گندے کیڑوں سے گل سڑ گئے حکومتی اپریٹس کو پالنے کے لیے جو ادائیگیاں گوشتہ مالی سال میں کر رہے تھے وہ اس مالی سال میں کہیں زیادہ کریں۔ وہ ایسے لوگوں کے جرائم کی سزا بھگتیں جو غیر دستاویزی معشیت میں اپنا سرمایہ لگائے ہوئے ہیں جس کی کمائی کا ایک پیشا بھی حکومتی حزانے میں داخل نہیں ہوتا-
رئیل اسٹیٹ پراپرٹی ٹیکسز میں سے وفافی و صوبائی نوکر شاہی اور باوردی نوکر شاہی کی جائیدادوں کو نکال دیا گیا ہے اور یہ عام شہریوں کی جائے دادوں پر مزید ٹیکس لگانے کا حربہ بن کر سامنے آیا ہے۔ اشرافی طبقے سے تعلق رکھنے ممبران قومی اسمبلی نے اپنی تنخواہوں، مراعات میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے۔ انہیں ایک سال میں 25 کی بجائے 30 ہوائی جہاز کے سفر کے واؤچر ملا کریں گے اور یہ واوچر معیاڈ گزرنے پر منسوخ ہونے کی بجائے ری نیو ہوجایا کریں گے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ انھوں نے مسلم لیگ نواز سے میثاق معشیت کیا ہوا ہے – آج تک دونوں جماعتوں نے “میثاق معشیت” کو پبلک نہیں کیا ہے جس کی کوئی وجہ سوائے اس کے سمجھ نہیں آتی کہ دونوں جماعتیں اپنے سیاسی کارکنوں اور حامیوں کے سامنے یہ ذمہ داری قبول کرنے کی ہمت نہیں رکھتیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں وہ جتنے عوام دشمن معاشی فیصلے کر رہی ہیں وہ ان کے باہمی اتفاق کا نتیجہ ہیں – وہ عوام میں یہ تاثر بنائے رکھنے پر راضی ہیں کہ ان عوام دشمن پالیسیوں کا الزام سابقہ حکومت ، آئی ایم ایف فوجی قیادت کو جائے جبکہ وہ بھی ان عوام دشمن پالیسیوں کے نفاذ کی برابر کی ذمہ دار ہیں –
پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی میں بجٹ کی منظوری سے پہلے نمائشی بائیکاٹ کیا اور پھر یہ تاثر دیا کہ انہوں نے عام آدمی کو متاثر کرنے والے اقدامات میں سے کئی ایک کو واپس لینے پر مسلم لیگ نواز کو راضی کر لیا ہے لیکن جب قومی اسمبلی سے فنانس بل کی شق وار منظوری ہوئی تو تو پتا چلا کہ ایک بھی عوام دشمن مالیاتی اقدام واپس نہیں لیا گیا
ایوان صدر جہاں پی پی پی کے صدر آصف علی زرداری براجمان ہیں کا بجٹ گزشتہ سال کی نسبت 62 فیصد زائد طلب کیا گیا جس کی منظوری قومی اسمبلی سے لے لی گئی – پی پی پی نے ایوان وزیراعظم کے زائد بجٹ کی منظوری بھی کی ، اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی منظوری بھی دی ، پارلیمنٹ سیکرٹریٹ کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے اور تین سال کی تنخواہوں کے برابر بونس کی منظوری بھی اس میں شامل ہے- ایسے ہی حکومتی اخراجات میں 21 فیصد اضافے کی منظوری بھی دی گئی اور بجلی ، گیس اور پٹرول پر حکومتی ٹیکسز میں اضافے کی منظوری بھی دی گئی – پیپلزپارٹی نے افسر شاہی کی مراعات جن میں مفت بجلی ، پٹرول اور وسیع و عریض رہائش گاہوں اور ان کے دیگر اضافی اخراجات پر بھی کسی قسم کی کٹوتی نہ کیے جانے کو بھی قبول کیا –
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان میثاق جمہوریت ملک کی حکمران اشرافیہ کی کل حکومتی سبسڈیز میں 92 فیصد شئیر پر بھی کوئی کٹوتی نہ لگوا سکا – اس میثاق جمہوریت سے تعلیم ، صحت کے بجٹ میں بھی کوئی اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا-
حکمران طبقے کی عوام دشمنی پر اتفاق اور ظالمانہ فیصلے کرنے کی جرآت یہ بتا رہی ہے کہ وہ اس ملک کے عام شہریوں کے معیار زندگی کو بدتر بناتے ہوئے بس اپنے نام نہاد ‘استحقاق میں اضافہ کرنے کے سوا اس ملک کے کسی بنیادی مسئلے کا حل نکالنے سے قاصر ہیں- یہ صرف تنگ معاشی حالات میں عوام کے ٹیکسزاور بھاری قرضے سے اکٹھا کیا ہوا ریونیو اپنی آسائشوں کو برقرار رکھنے کے لیے کافی نہیں سمجھ رہے بلکہ وہ آئی ایم ایف سے کم آو کم 8 ارب ڈالر کا قرض پروگرام مزید خریدنا چاہتے ہیں تاکہ اس قرض میں جو شرائط عوام پر لاگو ہونا ہوں تو ان کا تو یہ فوری نفاذ کردیں جو خود حکمران طبقات پر لاگو ہونا ہوں اسے سیاسی مصلحتوں کا نام دے کر نظر انداز کردیں۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ یہ ملک اپنی بیڑیوں کو توڑنے اور اپنے لاکھوں لوگوں کے لیے زیادہ خوشحال مستقبل تلاش کرنے سے قاصر ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں