وقوعہ سوات: قانون کی بالا دستی کے لیے کیا کیا جائے؟
خیبر پختون خوا کے علاقے مدین میں مشتعل ہجوم نے جمعرات کو توہینِ قرآن کا الزام میں پولیس کی جانب سے حراست میں لیے گئے سیاح کو زبردستی تھانے سے نکال کر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کر دیا ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سوات کے علاقے مدین سے واقعے سے متعلق متضاد اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ پولیس تفصیلات حاصل کر رہی ہے کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور اگر توہین ہوئی ہے تو وہ کیسے کی گئی ہے؟ پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش کے بعد اس بارے میں بیان جاری کیا جائے گا۔
ضلعی پولیس افسر کے مطابق مذکورہ شخص مقامی ہوٹل میں 18 جون کو آیا تھا اورجمعرات کی شام مقامی تھانے کو اطلاع موصول ہوئی کہ ہوٹل میں مقیم ایک شخص توہینِ مذہب کا مرتکب ہوا ہے جو اب رکشہ میں سامان لے کر کہیں جا رہا ہے جس پر ایس ایچ او موقع پر پہنچے تو اس وقت تک بڑی تعداد میں لوگ مبینہ ملزم کا تعاقب کرتے ہوئے ان کے پیچھے پہنچ چکے تھے۔ پولیس نے مشتعل ہجوم سے مبینہ ملزم کو بچانے کے لیے کوششیں کیں اور انھیں کہا کہ ان کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی لیکن ہجوم میں شامل لوگ مطالبہ کر رہے تھے کہ یہ شخص ان کے حوالے کیا جائے۔ پولیس حکام کے مطابق ’پولیس کے پیچھے پیچھے مشتعل ہجوم بھی تھانے آن پہنچا تاہم ملزم کی جان بچانے کے لیے تھانے کے گیٹ بند کر دیے گئے اوراسے قریب ہی ایک کوارٹر میں منتقل کر دیا لیکن ہجوم وہاں بھی پہنچ گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس دوران علاقے کی مساجد میں اعلانات کیے گئے جس پر بڑی تعداد میں لوگ تھانے کے باہر پہنچ گئے اور سیاح کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہجوم میں شامل افراد نے پہلے تھانے پر پتھراؤ کیا اور پھر دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے اور تھانے کی عمارت اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا اور اس دوران پولیس اہلکاروں کو بھی معمولی چوٹیں آئیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں ہجوم کو تھانے پر دھاوا بولتے اور املاک کو نذرِ آتش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ہجومی تشدد اور لنچنگ کا یہ پلا واقعہ نہیں ہے – ایسے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں- ضرف توہین کے الزام میں ہی نہیں بلکہ کوئی چور یا ڈاکو شہریوں کے ہاتھ آجائے تو اسے بھی ہجومی تشدد سے ہلاک کرنے کے واقعات پیش آچکے ہیں- اس سے سب سے پہلے تو یہ پتا چلتا ہے کہ سماج میں اب ایسے بااثر اور اور لوگوں کو ہپنا ٹائز کرنے والے گلی محلوں میں چھوٹی موٹی لیڈری کرنے والوں کی کمی نہیں ہے جو کسی بھی اشتعال انگیزی کی خبر پر قطع نظر اس کے کہ وہ جھوٹ ہے یا سچ ہجومی عدالت لگانے کے قائل ہیں اور وہ انتظامیہ ، پراسیکوشن ، گواہ، مدعی، وکیل استغاثہ اور جج سب خود ہی بن جاتے ہیں اور یوں لنچنگ جیسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں- اس رجحان کی سختی سے حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ اس واقعے پر سب ہی مسالک کے جید علمائے کرام نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب کسی پر قران پاک جیسی مقدس کتاب کو آگ لگانے کا الزام لگے تو ایسے الزام کی سختی سے اور بہت احتیاط سے جانچ ہونی چاہیئے۔ اور سب سے بڑھ کر جس پر الزام لگا ہو اس کی ذہنی صحت کی جانچ اور سابقہ ذہنی حالت کی ہسٹری کی جانچ کی جانی بنتی ہے۔ پاکستان کی ریاست کا ایک آئین ہے۔ قوانین موجود ہیں۔ انتظامیہ اور عدالت دونوں موجود ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی ملزم کو خود سزا دینے کا فیصلہ کرلے۔
ہمارے سماج میں ہجومی تشدد اور بلوائی حملوں میں لوگوں کی ہلاکتوں، لوٹ مار کے بڑھتے ہوئے رجحان کی سختی سے روک تھام کی بہت ضرورت ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے تو علمائے کرام، تاجران ، پروفیشنل باڈیز کے بااثر افراد، محلے کی سطح کے مساجد کے آئمہ اور ان کی بنتظامی کمیٹیوں کے اراکین سب کو مل کر پہلے مرحلے میں آغندہ جب کبھی کسی پر توہین کا الزام لگے تو اس بارے میں مساجد ، بازار اور محلے کی سطح پر اعلانات کی سختی سے ممانعت کرنا ہوگی اور کسی کو اشتعال پھیلانے کی اجازت نہ دی جائے۔ مقامی امن کمیٹیاں اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی مسجد کا یا بازاروں میں انجمن تاجران کے لائؤڈ اسپیکر اشتعال انگیز اعلانات کے لیے استعمال نہ ہوں۔ الزام کی پوری مستعدی سے اور شفاف طریفے سے پولیس جانچ کرے اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں- حکومت اور معاشرے کے بااثر لوگوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا وگرنہ ہمارا سماج جنگل کے قانون کا مںطر نامہ پیش کرتا رہے گا۔
ایک اور صحافی قتل
پاکستان میں مقتول صحافیوں کی فہرست میں ایک اور نام شامل ہو گیا ہے۔ منگل کو، صحافی خلیل جبران کی گاڑی کو لنڈی کوٹل، خیبر ضلع، میں حملہ آور کیا گیا، اور ان کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ جب تک کوئی گروپ اس گھناؤنہ جرم کا ذمہ داری قبول نہیں کرتا ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ کام کس کا ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹسس – پی ایف یو جے کے مطابق، جبران کو دہشت گردوں کی طرف سے ڈھمکیوں اور خطرات کا سامنا تھا۔ اس علاقے میں جہاں وہ کام کر رہے تھے، کالعدم تحریک طالبان کی دہشت گرد سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں اور طاقتور جرآئم پیشہ گروپ بھی فعال ہیں۔ صحافی مقامی پریس کلب میں بھی فعال تھے ساتھ ہی سماجی کام میں بھی مصروف تھے۔
حال ہی میں شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کے خلاف تشدد اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی جرنلسٹ کمیٹی کے مطابق، مئی میں چار صحافی قتل ہوئے، جبکہ متعدد صحافیوں کو کئی دوسری قسم کی ایذا رسانی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ 1992 سے اب تک پاکستان میں 64 صحافی اپنے فراض منصبی ادا کرتے ہوئے مارے گئے جبکہ دیگر کئی اور تحقیقاتی ادارے مارے جانے والے صحافیموں کی تعداد 100 بتاتے ہیں۔ عالمی کمیٹی برائے تحفظ صحافیان کے گلوبل امپیونٹی انڈیکس میۂ پاکستان صحافیوں کو خطرات کے حوالے سے 11وین نمبر پر ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ضحافیوں کے قتل یا ان پر حملوں میں ملوث افراد کا پکڑا جانا بہت کم ہوتا ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کی خبر نگاری پر ان کے حلاف تشدد کا استعمال کرنےوالے کرداروں کی تعداد بہت وسیع ہے ان میں مذہبی و نسلی بنیادوں پر دہشت گردی میں ملوث گروہ، چرائم پیشہ افراد، بدعنوانی میں ملوث مقامی با اثر افراد اور کئی ایک ریاست اندر ریاست کا کردار ادا کرنے والے نان اسٹیٹ ایکٹرز شامل ہیں –
حکومت کو خلیل جبران سمیت تمام صحافیوں کے قتل کی تحقیقات کرنی چاہیے، اور قاتلوں کو انصاف کے کہٹرے میں کھڑا چاہیے۔ اگر میڈیا کو جبر کی قوتوں کے ذریعے خاموش کر دیا جائے، تو کون ان کی آواز بلند کرے گا جو بے آوازوں کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، اور وہ ان مشکل سوالات کو پوچھتے ہیں جو پوچھنے ضروری ہیں؟ اظہار رائے کی حفاظت کے لیے، ریاست کو صحافیوں کے لیے پرامن ماحول پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پنجاب حکومت کب اپنی آمدن بڑھائے گی ؟
اگرچہ عالمی مالیاتی بینک نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر شدید دباؤ ڈالا ہوا ہے کہ وہ اپنی آمدنی بڑھائیں اور اخرجات میں کمی لائیں لیکن پنجاب حکومت کا سالانہ بجٹ 2024-25 کی دستاویز صاف بتاتی ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے نے اپنی ٹیکس و نان ٹیکس آمدنی بڑھانے میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ مریم نواز شریف کی قیادت میں موجودہ پنجاب حکومت نے بھی سابقہ حکومتوں کی طرح اپنے اخراجات پورا کرنے کے لیے وفاق کی طرف سے ملنے والی رقوم ، قرضوں اور کمرشل بینکوں کے قرضوں پر ہی زیادہ انحصار کیا ہے۔
پنجاب کا موجودہ بجٹ 5456 ارب روپے کا ہے جبکہ اس کی کل آمدنی بشمول وفاق سے منتقل کردہ رقوم کا تخمینہ 4643 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ دستاویز بتاتی اے کہ پنجاب حکومت کو وفاق سے قابل تقسیم محصولات سے 3683 ارب روپ ملیں کے اور جبکہ پنجاب حکومت اپنے آمدن کے زرایع سے صرف 960 ارب روپے اکٹھا کرے گی- یہ رقم اگرچہ پچھلے سال صوبے کی اپنی آمدنی سے 50 فیصد زیادہ ہے لیکن اس سے پتا چلتا ہے کہ پنجاب حکومت اپنے ٹیکس نیٹ ورک کا دائراہ بڑھانے کے لیے کوئی حاطر حواہ اقدامات اٹھانے نہیں جا رہی-
اس کی وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ صوبائی حکومت نے زرعی آمدنیوں یا رئیل سٹیٹ سیکٹر پر کسی نئے ٹیکس کو بڑھانے یا عائد کرنے سے گریو کیا ہے۔ زرعی آمدنیوں پر ٹیکس دوسرے سیکٹر کی آمدنی کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ٹیکس عائد کیا گیا ہے جبکہ پراپرٹی کی منتقلیوں پر اسٹیمپ ڈیوٹیز اور کارپوریشن فیس میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔
پنجاب حکومت اگر صوبے کو حقیقی ترقی کے سفر پر گامزن کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے زرایع آمدن میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہوگا اور اس کے لیے سب سے بڑی ٹاسک ٹیکس کے دائرے سے باہر کاروبار اور خدمات کے شعبوں کو ٹیکس دائرے میں شامل کرنا ہے۔