آج کی تاریخ

فوری جنگ بندی کی اپیل

فوری جنگ بندی کی اپیل
غزہ میں نو ماہ کی تباہ کن جنگ کے بعد، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بالآخر جنگ بندی کا منصوبہ منظور کر لیا ہے جس سے اس مقبوضہ علاقے میں جنگ کے خاتمے کی امید پیدا ہوئی ہے۔
امریکہ کے زیرِ سرپرستی تین مرحلوں پر مشتمل اس منصوبے کو سلامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے صرف ایک رکن کی غیر موجودگی میں منظور کیا گیا۔ یہ قرارداد فوری جنگ بندی اور اس کی شرائط کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کرتی ہے۔
گزشتہ سال اسرائیل کی غزہ پر چڑھائی کے بعد سے، سلامتی کونسل میں اس جنگ کے خاتمے کے لیے تعطل برقرار تھا۔ پہلی بار سلامتی کونسل نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، جو اسرائیل کے بے رحمانہ حملوں سے تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے، رمضان کے دوران انسانی ہمدردی کی جنگ بندی کی قرارداد منظور کی گئی تھی، لیکن اسرائیل نے جنگ بند کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اگرچہ یہ قرارداد تاخیر سے آئی ہے — 38,000 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، اور غزہ کی 80 فیصد عمارتوں کی تباہی کے بعد — پھر بھی یہ جاری نسل کشی کو ختم کرنے کی امید کی ایک کرن ہے۔ قرارداد کے کچھ پہلو مبہم ہیں، لیکن یہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کی طرف ایک قدم کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
پہلے مرحلے میں چھ ماہ کی ابتدائی جنگ بندی، فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی، غزہ کے گنجان آباد علاقوں سے اسرائیلی فوجیوں کا انخلا اور فلسطینی شہریوں کی اپنے علاقوں میں واپسی شامل ہے۔ دوسرے مرحلے میں “مستقل جنگ بندی” کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تیسرے مرحلے میں “غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ” شامل ہے۔
قرارداد کہتی ہے کہ اگر پہلے مرحلے کے مذاکرات میں چھ ہفتوں سے زیادہ وقت لگے تو “جنگ بندی مذاکرات کے دوران جاری رہے گی”۔ اہم بات یہ ہے کہ قرارداد غزہ کے علاقے یا آبادی کو تبدیل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتی ہے۔
اگرچہ یہ سب کچھ بہت مثبت لگتا ہے، لیکن اصل چیلنج یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کیسے کیا جائے۔ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی ذمہ داری ہے کہ اس منصوبے کو مکمل طور پر نافذ کریں۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ تین مرحلوں کی جنگ بندی پر راضی ہوگا؟ جبکہ حماس نے جنگ بندی کا خیرمقدم کیا ہے، اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو ختم کیے بغیر مستقل جنگ بندی کی بات کرنا ممکن نہیں ہے۔
اسرائیل نے غزہ میں اپنے حملے تیز کر دیے ہیں، جس سے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود جنگ ختم نہیں ہو رہی۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے نیتن یاہو کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ ظاہر ہے کہ اسرائیل نے جنگ ختم کرنے سے انکار کر کے بین الاقوامی برادری میں خود کو الگ تھلگ کر لیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد جنگ سے باہر نکلنے کا راستہ فراہم کرتی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ صیہونی حکومت ابھی بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے قریب ترین اتحادی کتنی حد تک اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

غیر دستاویزی معیشت

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کیا – اس پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں انھوں نے موجودہ حکومت کی مالیاتی پالیسی کے اہم اہداف پر روشنی ڈالی – ان میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ پاکستان کی غیر دستاویزی معشیت کا حجم دستاویزی معیشت سے بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے – انہوں نے بتایا کہ اس وقت بازار میں زیرگردشی زر 90 کھرب روپے ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ کس قدر خرید و فروخت کا نیٹ ورک ٹیکس نیٹ ورک کے دائرے کے باہر ہے – انھوں نے غیر دستاویزی معیشت کے اس حد سے بڑھے ہوئے حجم کو کم کرنے کو حکومت کی مالیاتی پالیسی کا اہم ترین ہدف قرار دیا – اس وقت تک پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح محض 9 فیصد ہے اور وفاقی وزیر خزانہ نے اسے 13 فیصد تک لانے کا ہدف مقرر کیا ہے – کیا وفاقی حکومت اس میں کامیاب ہوگی ؟ اس کا جواب ہمیں آنے والے مہینوں میں مل جائے گا – وفاقی وزیر خزانہ نے اس حوالے سے نان فائلرز کے لیے مختلف مد میں جو ٹیکس شرح بڑھانے والے اقدامات اٹھائے جانے کا ذکر کیا ہے وہ خوش آئند ہے اس سے پہلے سے ٹیکس نیٹ ورک میں موجود شہریوں میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ حکومت اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے سارا بوجھ پہلے سے ٹیکس دینے والے افراد پر مزید ٹیکس لگا کر پورا نہیں کر رہی ہے – وفاقی وزیر خزانہ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں یہ نہیں بتایا کہ کیا وفاقی حکومت اپنے ٹیکس سسٹم میں براہ راست ٹیکسز کی شرح بالواسطہ ٹیکسز کی شرح سے زیادہ کرنے کے لیے بھی کوئی اقدامات اٹھا رہی ہے؟ کیونکہ گزشتہ 76 سالوں میں پاکستان کا ٹیکس سسٹم کل ٹیکسز میں براہ راست ٹیکسز کا تناسب کو محض 30 سے 39 فیصد پر ہی لا سکا ہے جبکہ بالواسطہ ٹیکسز کا تناسب 70 سے 59 فیصد رہا ہے – اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ٹیکسز کا 70 سے 59 فیصد بوجھ درمیانے اور نچلے طبقات کے شہریوں کے کندھے پر ہے جو ان کی کمر توڑے دے رہا ہے اور غربت میں اضافے کا سبب بھی بن رہا ہے – یہ ٹیکس سسٹم ایک طرح سے اشرافیہ کو بہت بڑی تعداد میں براہ راست ٹیکسز سے بھی بچا رہا ہے – افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی اس وقت جتنی پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتیں ہیں ان کی طرف سے ٹیکس سسٹم میں براہ راست ٹیکسز کی تعداد میں اضافے اور بلاواسطہ ٹیکسز کی تعداد میں کمی کا مطالبہ کبھی سامنے نہیں آیا- سیاسی جماعتوں کی اس مسئلے پر عدم دلچسپی ان جماعتوں کی قیادت پر اشرافیہ کے غلبے کی عکاسی بھی کرتی ہیں – وفاقی وزیر خزانہ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں بھولے سے بھی کارپوریٹ سیکٹر اور زمیندار اشرافیہ کے سپر منافع پر کارپوریٹ ٹیکس اور زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ پر کوئی بات نہیں کی – ایسا لگتا ہے کہ کارپوریٹ فرموں کے سپر پرافٹ اور زمیندار اشرافیہ کی سپر انکم پر ٹیکس کے نفاذ کے سوال کو دباؤ کی وجہ سے نظر انداز کر دیا ہے کیونکہ دونوں طاقتور لابی ہیں اور پارلیمنٹ میں ان دونوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والے نمائندے کثیر تعداد میں موجود ہیں جن کے دباؤ کا سامنا حکومت کرنے سے قاصر ہے – پاکستان کا ٹیکس سسٹم کس قدر کمزور ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 21 سال میں پاکستان کی ٹیکس آمدن جی ڈی پی کا 9 فیصد اور حکومتی اخراجات جی ڈی پی کا 21 سے 26 فیصد ہیں- لامحالہ حکومت اپنے اخراجات کا 12 سے 14 فیصد قرض لیکر پورا کرتی ہے اور جس کا بوجھ بھی آخر کار ملک کے شہریوں کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے- اگر حکومت اس فرق کو کم کرنے کے لیے کارپوریٹ پرافٹ پر ٹیکس اور زرعی آمدن پر ٹیکس عائد کرکے کم کرے تو اس سے درمیانے اور نچلے طبقات پر ٹیکسز کا بوجھ نہیں پڑے گا –
وفاقی وزیر خزانہ نے دبئی لیکس کے ذریعے سے پاکستان سے سرمائے کی بھاری تعداد میں دبئی منتقلی کا سراغ لگانے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے لیکن اس بارے شہریوں کے ذہن میں شکوک بد دستور موجود ہیں جب تک حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا شہری یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ ایف بی آر بنا ٹیکس وصول کیے اتنے بڑے سرمائے کی دبئی منتقلی کا ذمہ دار ہے- ہم وفاقی وزیر خزانہ کی توجہ ملک بھر میں سمگلنگ کے ذریعے پٹرول ، ڈیزل اور ٹائرز کی دستیابی کے بڑے وسیع نیٹ ورک کے بدستور فعال رہنے کی طرف بھی دلانا چاہتے ہیں – لوگ یہ بھی سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ مسلح افواج کے سربراہ جنرل عاصم منیر جانب سے جو یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ اس سمگلنگ نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ کر دیں گے تو اب تک یہ خاتمہ کیوں نہیں ہوسکا ہے؟ کیا حکومت اس نیٹ ورک کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے؟ کیا اس بغیر ٹیکس کے دھندے کو غیر دستاویزی معشیت میں شامل نہیں سمجھا جا رہا ؟ وفاقی وزیر خزانہ نے پوسٹ بجٹ کانفرنس میں اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات دور کرنے جیسا دعوا بھی کیا ہے – کیا پاکستان کے درمیانے اور نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے شہری اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں ؟ کیا ان کے تحفظات کو دور کرنے کی کوئی کوشش کی گئی ہے؟ وفاقی وزیر خزانہ نےمعیشت کو ڈیجیٹلائز کرنے کی خوشخبری بھی سنائی ہے – اس میں کتنا وقت لگے گا ؟ جبکہ اس مد میں حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے مسلسل قرضے لے رہی ہے – پاکستان کی معیشت میں قرضوں پر سود کی ادائیگی کا تناسب 52 فیصد ہے یعنی 5659 ارب روپے ( کل رقم 18877 ارب روپے میں ) بنتی ہے – یعنی یہ کل بجٹ کا 10777 ارب روپے بنتی ہے جو کل بجٹ کے حجم کا 54 فیصد سے زائد ہے – یعنی حکومت کو باقی کے 46 فیصد اخراجات مزید قرض اٹھاکر پورا کرنے ہوں گے – اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ہمارے ملک کی معیشت اخراجات اور آمدن میں کتنے بڑے فرق کا سامنا کر رہی ہے – جس ملک کی معیشت آمدن اور اخراجات کے درمیان 54:46 کے تناسب کا سامنا کر رہی ہو تو کیا اس ملک کی وردی و باوردی نوکر شاہی کو بڑی لگژری گاڑیوں کی فراہمی اور عالیشان گھروں میں رہائش اور وسیع دفاتر کی عیاشی زیب دیتی ہے؟ کیا یہ اس ملک کے غریب عوام سے بہت سنگین مذاق نہیں ہے؟ وفاقی وزیر خزانہ نے سویلین اور باوردی نوکر شاہی کی مراعات پر کٹ لگانے اور ان کے خاتمے پر سرے سے کوئی بات ہی نہیں کی ہے – اس سے بھی ہم پاکستان کی معیشت کے اشرافیائی ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔

توانائی کا بحران

پاکستان کی معیشت کو سب سے بڑا خطرہ توانائی کے شعبے سے ہے، اور ناقص پالیسیوں اور بیس سے زائد اداروں کے پیچیدہ انتظامی ڈھانچے کی وجہ سے کوئی بہتری ممکن نظر نہیں آتی۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں توانائی کی ترسیل اور تقسیم کے دوران 17 فیصد نقصان ہوتا ہے، جبکہ جنوبی کوریا میں یہ شرح 3.6 فیصد، امریکہ میں 5 فیصد اور چین میں 8 فیصد ہے۔
بجلی کے شعبے میں بدعنوانی اور چوری بڑے مسائل ہیں۔ بجلی کی چوری، ناجائز کنکشنز، اور ناکافی سرمایہ کاری کی وجہ سے ڈسکوز اپنے نظام کو بہتر نہیں کر سکتے۔ ان کی مالی مشکلات حکومتی قرضوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں، جسے ‘سرکلر ڈیٹ کہا جاتا ہے۔
حکومت دوبارہ ڈسکوز کی نجکاری کی بات کر رہی ہے، لیکن یہ واضح نہیں کہ نجکاری کس حد تک مؤثر ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ کیا بنیادی ڈھانچہ نجی شعبے کو منتقل کیا جائے گا؟ اور اگر نہیں تو مسابقت کیسے پیدا ہوگی؟
نجکاری کے عمل میں کئی چیلنجز ہیں، جیسے کہ یکساں ٹیرف، سرکاری اداروں کی بل ادائیگی، اور ناجائز کنکشنز کو روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد۔
عالمی تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں نجکاری تبھی کامیاب ہوتی ہے جب حکومت مستحکم ہو، پالیسی واضح ہو، اور ماہر عملہ نظام کو سنبھالے۔ ہمارے ملک میں متعدد ایجنسیاں اور سیاسی مداخلت مسائل کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔
نجکاری کے دوران مختلف امور پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے کہ کیا یکساں ٹیرف کی پالیسی جاری رکھی جائے گی؟ اگر پرائیویٹ آپریٹرز کو زیادہ منافع بخش صارفین کو ہدف بنانے کی اجازت دی گئی تو غریب صارفین کو سبسڈی کیسے ملے گی؟
ٹیرف میں بروقت اضافہ کرنے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں؟ اہم بات یہ ہے کہ کیا پرائیویٹ آپریٹرز کو عملے میں تبدیلی کا اختیار ہوگا اور کیا وہ سرکاری اداروں کی بل عدم ادائیگی کی صورت میں سخت اقدامات کر سکیں گے؟ اور کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی مدد کریں گے؟
عالمی تجربہ بتاتا ہے کہ نجکاری کے دوران سرکاری اور نجی شعبے میں متوازن اور مؤثر اشتراک ضروری ہے۔ اگر صرف نجکاری کر دی جائے اور بنیادی ڈھانچہ اور پالیسیز میں بہتری نہ لائی جائے تو یہ عمل ناکام ہو سکتا ہے۔آخر میں، یہ واضح نہیں کہ نجکاری کے منصوبے میں ان مسائل کو کیسے حل کیا جائے گا۔ ان اہم امور پر غور کیے بغیر نجکاری کے اہداف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ حکومتی اور نجی شعبے کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بجلی کی فراہمی میں بہتری آ سکے اور عوام کو سستی اور قابل اعتماد بجلی مل سکے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں