حال ہی میں سرگودھا کی مجاہد کالونی میں دو مسیحی خاندانوں پر مشتعل ہجوم کے حملے نے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک نیا سوال کھڑا کر دیا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام کے تحت مشتعل ہجوم نے ان خاندانوں کے گھروں پر حملہ کیا۔ سرگودھا پولیس کی بروقت مداخلت سے کوئی جان کا نقصان نہیں ہوا، لیکن اس واقعے نے ایک بار پھر مذہبی انتہا پسندی اور ہجوم کے تشدد کی سنگینی کو ظاہر کیا ہے۔
یہ حملہ اس وقت ہوا جب ایک ہجوم نے ان گھروں کے باہر جمع ہو کر ان پر حملہ کیا۔ پولیس کے مطابق جب وہ موقع پر پہنچے تو ہجوم پہلے سے موجود تھا۔ پولیس نے علاقے کا محاصرہ کیا اور رہائشیوں کو بحفاظت نکالا۔ اگرچہ کوئی ہلاکت نہیں ہوئی، مگر سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں ایک زخمی شخص اور جلے ہوئے مکان دکھائے گئے ہیں۔
سرگودھا کے ضلعی پولیس افسر اسد اعجاز ملہی نے دعویٰ کیا کہ ویڈیوز جعلی ہیں اور کوئی زخمی نہیں ہوا، لیکن ایک متاثرہ شخص کے رشتہ دار نے بتایا کہ ان کے چچا کو شدید زخمی حالت میں فوجی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے اور خاندان کو ان سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔ اقلیتی حقوق مارچ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ویڈیوز میں 70 سالہ شخص کو ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوتے دکھایا گیا ہے جبکہ ان کا گھر اور فیکٹری جلائی گئی ہیں۔
پنجاب پولیس نے اس واقعے پر فوری کارروائی کا دعویٰ کیا ہے، جس میں دس جانیں بچائی گئیں اور ہجوم کو منتشر کیا گیا۔ اس کارروائی میں پولیس کے دس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ پولیس کے مطابق، سرگودھا میں امن و امان بحال ہے اور شہر میں دو ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات ہیں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹا جا سکے۔
یہ واقعہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کی ایک اور کڑی ہے۔ مسیحی برادری کے خلاف بلاسفیمی کے الزام کے تحت ہونے والے حملے ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں جو کہ نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی حقوق کی سنگین پامالی بھی ہے۔
پاکستان میں مذہب کے نام پر ہونے والے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر سال ہم دیکھتے ہیں کہ مسیحی برادری اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف بلاسفیمی کے الزامات کے تحت حملے کیے جاتے ہیں۔ یہ حملے نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی ہیں۔
ماضی میں بھی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ گزشتہ سال جڑانوالہ میں بھی مسیحی برادری پر حملہ کیا گیا تھا جس میں کئی گھروں اور گرجا گھروں کو جلایا گیا تھا۔ ان واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت کی جڑیں معاشرے میں گہری ہو چکی ہیں۔
یہ حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت قوانین نافذ کرے اور ان پر عمل درآمد یقینی بنائے۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی اور سماجی اصلاحات کرے۔ مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین کو سختی سے نافذ کیا جائے اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے۔ اس کے علاوہ، مذہبی انتہا پسندی کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔
پاکستان کے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ دیں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے اور یہاں ہر شہری کو بلا تفریق مذہب و مسلک امن و امان کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ ہمیں متحد ہو کر اس قسم کی انتہا پسندی اور نفرت کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا تاکہ کوئی بھی شہری مذہب کے نام پر خوفزدہ نہ ہو۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو امن و امان کا گہوارہ بنائے اور ہر شہری کو تحفظ فراہم کرے۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کر کے انصاف فراہم کریں گے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہونے والے حملے نہ صرف پاکستان کی عالمی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کو بھی اس معاملے پر پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دیں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے اور یہاں ہر شہری کو بلا تفریق مذہب و مسلک امن و امان کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ ہمیں متحد ہو کر اس قسم کی انتہا پسندی اور نفرت کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا تاکہ کوئی بھی شہری مذہب کے نام پر خوفزدہ نہ ہو۔
اس اداریے کا مقصد نہ صرف حالیہ واقعے کی مذمت کرنا ہے بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دینا بھی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت اور معاشرہ مل کر مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ایک مضبوط موقف اختیار کریں گے اور ملک میں امن و امان اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیں گے۔
کراچی میں مبینہ رہزن کی لنچنگ: ایک خطرناک رجحان
کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں مبینہ رہزن کی شہریوں کے ہاتھوں لنچنگ نے شہر میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی ایک اور تشویشناک مثال پیش کی ہے۔ پولیس کے مطابق، دو مبینہ رہزنوں نے ایک شہری سے موبائل فون اور موٹرسائیکل چھیننے کی کوشش کی۔ شور مچنے پر لوگوں نے ان کا پیچھا کیا اور ایک کو پکڑ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ جبکہ دوسرے رہزن کو مشتعل ہجوم آگ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ پولیس نے موقع پر پہنچ کر اس کی جان بچائی۔
یہ واقعہ کراچی میں بڑھتے ہوئے تشدد اور خود عدالت کرنے کے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگرچہ جرائم کی روک تھام ضروری ہے، لیکن قانون کو ہاتھ میں لینا اور ملزمان کو تشدد کا نشانہ بنانا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ یہ نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ معاشرتی بدامنی کا باعث بھی بنتا ہے۔ کراچی میں اس قسم کے واقعات کا تسلسل اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام کا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد کم ہو رہا ہے۔ گزشتہ ماہ بھی نیو کراچی میں دو مبینہ رہزنوں کو شہریوں نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں آگ لگانے کی کوشش کی، جسے پولیس نے بروقت کارروائی کر کے ناکام بنایا۔
شہریوں کے ہاتھوں قانون کی خلاف ورزی اور خود عدالت کرنے کے واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ معاشرتی نظام میں بگاڑ آ رہا ہے۔ عوام کا یہ رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انصاف کے نظام پر ان کا اعتماد کم ہو گیا ہے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو نہ صرف شہریوں کے حقوق کی پامالی ہے بلکہ معاشرتی امن و امان کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ کراچی پولیس کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور شہریوں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ پولیس کی بروقت مداخلت قابل ستائش ہے، لیکن جرائم کی روک تھام کے لیے مزید مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ پولیس کو چاہیے کہ وہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے اور عوام کو تحفظ کا احساس دلائے۔
کراچی میں بڑھتے ہوئے جرائم اور خود عدالت کرنے کے واقعات کے پس پردہ عوامل کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ غربت، بے روزگاری اور نظام انصاف کی کمزوری جیسے مسائل نے عوام میں مایوسی اور غصے کو بڑھایا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مسائل کے حل کے لیے جامع اقدامات کرے۔ پولیس کے لیے جدید تربیت اور وسائل فراہم کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ جرائم کے خلاف مؤثر طریقے سے کارروائی کر سکیں۔ پولیس کی نگرانی اور جواب دہی کے نظام کو بھی مضبوط بنانا ہوگا تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں بہتر انداز میں نبھا سکیں۔
عوام کو بھی چاہیے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں اور قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کریں۔ جرائم کی اطلاع دینے اور پولیس کے ساتھ تعاون کرنے سے ہی ہم ایک محفوظ معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کرے اور قانون کی پاسداری کی اہمیت کو اجاگر کرے۔ حکومت اور سول سوسائٹی کو مل کر عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے مہمات چلانی چاہئیں تاکہ لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد کریں۔
حکومت کو پولیس کی تربیت اور وسائل میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ وہ جرائم کے خلاف مؤثر طریقے سے کارروائی کر سکیں۔ تعلیمی نظام میں اصلاحات بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کو ابتدائی سطح پر ہی قانون کی اہمیت اور احترام کا درس دینا چاہیے۔ اس سے نہ صرف مستقبل میں جرائم کی شرح کم ہوگی بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور رواداری کو بھی فروغ ملے گا۔
پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر امن و امان کی بحالی کے لیے کام کریں۔ اگر ہم سب مل کر قانون کا احترام کریں اور انصاف کے نظام پر اعتماد بحال کریں تو ہم ایک محفوظ اور پرامن معاشرے کی تشکیل میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف اندرونی طور پر ملک کے لیے بہتر ہوگا بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا امیج بہتر ہوگا۔
پاکستان میں مختلف مذہبی اور ثقافتی گروہوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا بھی ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے مختلف طبقوں کے درمیان اعتماد اور بھائی چارہ بڑھے۔ اس سے نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی میں اضافہ ہوگا بلکہ انتہا پسندی اور تشدد کے واقعات میں بھی کمی آئے گی۔
کراچی میں مبینہ رہزن کی شہریوں کے ہاتھوں لنچنگ ایک سنگین مسئلہ ہے جس کا فوری حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ اس واقعے نے نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام کا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد متزلزل ہو چکا ہے اور وہ خود انصاف کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں مختلف مذہبی اور ثقافتی گروہوں کے درمیان پہلے سے ہی تناؤ موجود ہے، ایسے واقعات معاشرتی ہم آہنگی کو مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے عوام کا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد بحال ہو اور وہ قانون کے مطابق انصاف حاصل کرنے کے قابل ہوں۔
کراچی میں بڑھتے ہوئے جرائم اور خود عدالت کرنے کے واقعات کے پس پردہ عوامل کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ غربت، بے روزگاری اور نظام انصاف کی کمزوری جیسے مسائل نے عوام میں مایوسی اور غصے کو بڑھایا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مسائل کے حل کے لیے جامع اقدامات کرے۔
پولیس کے لیے جدید تربیت اور وسائل فراہم کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ جرائم کے خلاف مؤثر طریقے سے کارروائی کر سکیں۔ پولیس کی نگرانی اور جواب دہی کے نظام کو بھی مضبوط بنانا ہوگا تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں بہتر انداز میں نبھا سکیں۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں اور قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کریں۔
جرائم کی اطلاع دینے اور پولیس کے ساتھ تعاون کرنے سے ہی ہم ایک محفوظ معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کرے اور قانون کی پاسداری کی اہمیت کو اجاگر کرے۔ حکومت اور سول سوسائٹی کو مل کر عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے مہمات چلانی چاہئیں تاکہ لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد کریں۔
حکومت کو پولیس کی تربیت اور وسائل میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ وہ جرائم کے خلاف مؤثر طریقے سے کارروائی کر سکیں۔ تعلیمی نظام میں اصلاحات بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کو ابتدائی سطح پر ہی قانون کی اہمیت اور احترام کا درس دینا چاہیے۔ اس سے نہ صرف مستقبل میں جرائم کی شرح کم ہوگی بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور رواداری کو بھی فروغ ملے گا۔