پاکستان کی وزارت خارجہ نے آئرلینڈ، اسپین اور ناروے کی طرف سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ اعلان فلسطینی عوام کی دہائیوں پر محیط جدوجہد میں ایک اہم سنگ میل ہے جس کا مقصد ان کے ناقابلِ تنسیخ حق خودارادیت کو تسلیم کرنا ہے۔ آئرلینڈ، اسپین اور ناروے کا فیصلہ ایک واضح پیغام ہے کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف فلسطینی عوام کی امیدوں اور امنگوں کی توثیق کرتا ہے بلکہ عالمی برادری کی طرف سے انصاف اور انسانی حقوق کی حمایت کا بھی عکاس ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران غزہ کی تباہ کن صورتحال اور انسانی بحران پر روشنی ڈالی۔ غزہ میں جاری “نسل کشی” اور انسانی ہمدردی کی ضروریات نے اس بات کی ضرورت کو مزید اُجاگر کیا ہے کہ ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ فلسطین کو اب دنیا کی بھاری اکثریت نے تسلیم کر لیا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دی جائے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بڑھتی ہوئی بین الاقوامی حمایت کا مثبت جواب دے۔
پاکستان کی حکومت اور عوام ہمیشہ سے فلسطینی کاز کے پُرجوش حامی رہے ہیں۔ پاکستان نے ہر فورم پر فلسطین کے حقوق کی بات کی ہے اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ فلسطین کو تسلیم کرنے کے حالیہ اعلانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی برادری اب فلسطین کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس عالمی جذبے کا احترام کرے اور فلسطینی ریاست کو مکمل رکنیت دے۔ یہ نہ صرف فلسطینی عوام کے حقوق کی پاسداری ہوگی بلکہ عالمی امن و استحکام کے لیے بھی اہم قدم ہوگا۔
فلسطینی عوام کا حق خودارادیت ایک بنیادی انسانی حق ہے جسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ فلسطینی عوام کی حمایت میں مضبوطی سے کھڑی ہو اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کی راہ ہموار کرے گا۔ یہ نہ صرف فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی ہوگی بلکہ اس سے پورے خطے میں استحکام اور خوشحالی کی فضا قائم ہوگی۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے انصاف، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں پر مبنی رہی ہے۔ فلسطینی کاز کی حمایت پاکستان کی اسی اصولی پالیسی کا حصہ ہے۔ آئرلینڈ، اسپین اور ناروے کی طرف سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے حالیہ اعلانات نے ایک نئی امید پیدا کی ہے کہ فلسطینی عوام کی دہائیوں پر محیط جدوجہد اب اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دے کر انصاف اور امن کی راہ ہموار کرے۔ پاکستان ہمیشہ کی طرح فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کے حقوق کی بحالی کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے گا۔
یہ اقدام عالمی برادری کو فلسطینی کاز کی حمایت کے سلسلے میں اپنے کردار اور ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عملی اقدامات کریں تاکہ خطے میں امن و استحکام قائم ہو سکے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے آئرلینڈ، اسپین اور ناروے کی طرف سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ اعلان فلسطینی عوام کی دہائیوں پر محیط جدوجہد میں ایک اہم سنگ میل ہے جس کا مقصد ان کے ناقابلِ تنسیخ حق خودارادیت کو تسلیم کرنا ہے۔ آئرلینڈ، اسپین اور ناروے کا فیصلہ ایک واضح پیغام ہے کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف فلسطینی عوام کی امیدوں اور امنگوں کی توثیق کرتا ہے بلکہ عالمی برادری کی طرف سے انصاف اور انسانی حقوق کی حمایت کا بھی عکاس ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران غزہ کی تباہ کن صورتحال اور انسانی بحران پر روشنی ڈالی۔ غزہ میں جاری “نسل کشی” اور انسانی ہمدردی کی ضروریات نے اس بات کی ضرورت کو مزید اُجاگر کیا ہے کہ ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ فلسطین کو اب دنیا کی بھاری اکثریت نے تسلیم کر لیا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دی جائے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بڑھتی ہوئی بین الاقوامی حمایت کا مثبت جواب دے۔
پاکستان کی حکومت اور عوام ہمیشہ سے فلسطینی کاز کے پُرجوش حامی رہے ہیں۔ پاکستان نے ہر فورم پر فلسطین کے حقوق کی بات کی ہے اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ فلسطین کو تسلیم کرنے کے حالیہ اعلانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی برادری اب فلسطین کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس عالمی جذبے کا احترام کرے اور فلسطینی ریاست کو مکمل رکنیت دے۔ یہ نہ صرف فلسطینی عوام کے حقوق کی پاسداری ہوگی بلکہ عالمی امن و استحکام کے لیے بھی اہم قدم ہوگا۔
فلسطینی عوام کا حق خودارادیت ایک بنیادی انسانی حق ہے جسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ فلسطینی عوام کی حمایت میں مضبوطی سے کھڑی ہو اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کی راہ ہموار کرے گا۔ یہ نہ صرف فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی ہوگی بلکہ اس سے پورے خطے میں استحکام اور خوشحالی کی فضا قائم ہوگی۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے انصاف، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں پر مبنی رہی ہے۔ فلسطینی کاز کی حمایت پاکستان کی اسی اصولی پالیسی کا حصہ ہے۔ آئرلینڈ، اسپین اور ناروے کی طرف سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے حالیہ اعلانات نے ایک نئی امید پیدا کی ہے کہ فلسطینی عوام کی دہائیوں پر محیط جدوجہد اب اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دے کر انصاف اور امن کی راہ ہموار کرے۔ پاکستان ہمیشہ کی طرح فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کے حقوق کی بحالی کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے گا۔
پاکستان کا یہ اقدام عالمی برادری کو فلسطینی کاز کی حمایت کے سلسلے میں اپنے کردار اور ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عملی اقدامات کریں تاکہ خطے میں امن و استحکام قائم ہو سکے۔
گرمی کی شدید لہر
پاکستان کے 26 اضلاع میں شدید گرمی کی لہر کے باعث عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی کے مطابق یہ گرمی کی شدید لہر 21 مئی سے شروع ہوئی ہے اور 30 مئی تک جاری رہے گی۔ جون میں مزید دو شدید لہریں متوقع ہیں۔ اس سنگین صورتحال کی ذمہ داری غیر پائیدار ماحولیاتی عمل اور جنگلات کی کٹائی پر عائد ہوتی ہے۔
پاکستان محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے زیادہ تر علاقوں میں درجہ حرارت معمول سے 5 سے 6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے 26 اضلاع میں شدید گرمی کی صورتحال ہے جو موسم گرما کے دوران تین لہروں میں جاری رہے گی۔ موجودہ گرمی کی شدید لہر 22 سے 30 مئی تک جاری رہے گی جبکہ دوسری لہر 7-8 جون اور تیسری لہر جون کے آخری ہفتے میں متوقع ہے۔ ملک کو درپیش یہ شدید گرمی کی لہر ابتدائی مراحل میں ہے اور اعلیٰ فضائی دباؤ ان حالات کو مزید خراب کر رہا ہے، جس سے عوام کی معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
پاکستان کے عوام نے 2015 کی مہلک گرمی کی شدید لہر کے دوران تقریباً 2500 افراد کی جانیں گنوا دیں۔ اس بار، حکومت اور متعلقہ اداروں کی طرف سے جامع ہدایات اور ابتدائی وارننگز جاری کی گئی ہیں تاکہ گرمی کی شدید لہر سے متعلق ہلاکتوں کو روکا جا سکے۔
گرمی کی شدید لہریں بنیادی طور پر انسان کی پیدا کردہ بحران ہیں، جو جنگلات کی کٹائی اور دیگر غیر پائیدار ماحولیاتی عمل سے بڑھتی ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ پوری دنیا کو متاثر کر رہا ہے، اور ہم اس کے اثرات ان بار بار اور شدید گرمی کی لہروں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ عوامی آگاہی مہمات مختلف میڈیا ذرائع کے ذریعے جاری ہیں تاکہ لوگوں کو صحت کے خطرات اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔
گرمی کی شدید لہروں سے ہلاکتوں کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے اور عوام کو غیر ضروری بیرونی سرگرمیوں سے گریز کرنا چاہیے، خصوصاً بچوں، بزرگوں اور سنگین صحت کے مسائل سے دوچار افراد کے لیے۔ این ڈی ایم اے ابتدائی وارننگز پر فعال طور پر کام کر رہی ہے اور قدرتی آفات اور مصائب کو منظم کرنے کے لیے صوبائی محکموں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
گرمی کی شدید لہر گلیشیئر کے پگھلنے اور جنگلات میں آگ لگنے کے خطرے کو بھی بڑھا رہی ہے۔ عوام کو قومی پارکس میں احتیاط برتنے اور سگریٹ بٹ یا دیگر آتش گیر مواد نہ پھینکنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ گاڑیوں کی کھڑکیاں تھوڑی کھلی رکھنے اور کارکنوں کو گرمی سے بچنے کے لیے پانی تک رسائی یقینی بنانے کی بھی سفارش کی جاتی ہے۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے پانچویں نمبر پر ہے۔ این ڈی ایم اے نے آئندہ چھ ماہ کے دوران قدرتی آفات کا پیشگی کیلنڈر تیار کیا ہے۔ حالیہ بے ترتیب موسمی حالات نے خطے، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بارشوں کے نمونوں میں نمایاں تغیرات پیدا کیے ہیں۔ گرمی کی شدید لہروں کے دوران پانی کی کمی اور قحط کے خطرے کو بھی اہم تشویش کے طور پر اجاگر کیا گیا ہے، تھرپارکر اور جیکب آباد جیسے علاقوں میں پہلے ہی ہلکے قحط کے حالات ہیں۔
وزیر اعظم نے متعلقہ حکام کے درمیان کوششوں کو ہم آہنگ کرنے اور قومی فورم کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق چیلنجز سے آگاہ رکھنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ این ڈی ایم اے ایک موبائل ایپلیکیشن تیار کر رہی ہے جو عوام اور میڈیا کو حقیقی وقت میں الرٹس، مشورے، اور آفات کے انتظام کے منصوبے فراہم کرے گی۔ این ڈی ایم اے کا قومی رابطہ سیل صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے، جس سے جامع آفات کی تیاری اور جوابدہی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
موجودہ صورتحال نہ صرف ماحولیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کی عکاس ہے بلکہ ہمارے ملک کی ماحولیاتی پالیسیوں میں فوری اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دیتی ہے۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی برادری کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی ماحولیاتی پالیسیوں میں تبدیلی لانے، جنگلات کی کٹائی کو روکنے، اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور مستحکم ماحول فراہم کر سکیں۔
حکومت کو فوری اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ عوام کو اس شدید گرمی سے بچایا جا سکے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ عوامی آگاہی، ماحولیاتی تحفظ، اور پائیدار ترقی کی پالیسیوں پر عمل درآمد ہی ہمارے ملک کو موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔