عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ میں ٹکراؤ
حالیہ دنوں میں ججوں کی دھمکیوں اور ہراساں کرنے کے واقعات میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حکومتی وزراء اور کابینہ کے کچھ دیگر اراکین کی جانب سے ان عناصر کی حمایت کے بعد، جو ججوں کو دھمکا رہے ہیں، صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔ اس عمل نے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے اس حصے کے درمیان ٹکراؤ کو مزید شدید کر دیا ہے جو دباؤ میں جھکنے سے انکاری ہے۔سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے دو قانون سازوں کو طلب کیا ہے تاکہ وہ اپنے عدلیہ مخالف بیانات کی وضاحت کریں، مگر اس کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آیا ہے۔ اب یہ دو ریاستی اداروں کے درمیان کھلے تصادم کی شکل اختیار کر رہا ہے، جو ملک میں جاری افراتفری میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ یہ صورتحال ایک ایسی حکومت کے لیے یقیناً نیک شگون نہیں ہے جو اپنی قانونی حیثیت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔عدلیہ کا احترام کسی بھی جمہوری نظام کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اگر ججوں کو دھمکایا جائے یا انہیں ہراساں کیا جائے، تو اس سے عدلیہ کی آزادی اور وقار پر شدید ضرب لگتی ہے۔ ایسی صورتحال میں، عوام کا عدلیہ پر اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے، جو جمہوری نظام کے لیے نقصان دہ ہے۔حکومتی عہدیداروں کی جانب سے ججوں کو ہراساں کرنے والوں کی حمایت کرنا نہایت ہی افسوسناک اور خطرناک قدم ہے۔ یہ عمل نہ صرف عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرہ ہے بلکہ ملک کی مجموعی قانونی اور سیاسی صورتحال کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے اور ججوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان اس ٹکراؤ نے عوام میں بھی بے چینی پیدا کر دی ہے۔ عوام کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد میں رکاوٹیں محسوس ہو رہی ہیں۔ اس صورتحال کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہو سکے۔عدلیہ اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ کی موجودہ صورتحال نہ صرف ملک کے داخلی استحکام کے لیے خطرہ ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ دنیا بھر میں ممالک اپنی عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بناتے ہیں تاکہ عوام کو انصاف کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اگر پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کو خطرہ ہو گا تو بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ عدلیہ کے ساتھ تعاون کرے اور اس کی خودمختاری کا احترام کرے۔ ججوں کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے اور عوام کو یقین دلائے کہ عدلیہ کی آزادی کو ہر حال میں برقرار رکھا جائے گا۔ عدلیہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے فیصلوں میں انصاف اور قانون کے اصولوں پر قائم رہے اور کسی بھی دباؤ میں نہ آئے۔حکومت اور عدلیہ کے درمیان تصادم کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات اور تعاون کی ضرورت ہے۔ دونوں اداروں کو ملک کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے اور عوام کے حقوق اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ اگر حکومت اور عدلیہ کے درمیان یہ ٹکراؤ جاری رہا تو اس کے نتائج ملک کے لیے نہایت ہی خطرناک ہو سکتے ہیں۔آخر میں، عوام کو بھی چاہیے کہ وہ عدلیہ کی آزادی کی حفاظت کریں اور ججوں کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ عوام کا تعاون اور حمایت عدلیہ کے لیے نہایت اہم ہے تاکہ وہ انصاف کی فراہمی میں آزاد اور خودمختار رہ سکے۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدلیہ کی خودمختاری کو یقینی بنائے اور ججوں کو دھمکانے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ ججوں کی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بنانا حکومت کا اولین فرض ہے۔ اگر حکومت عدلیہ کی آزادی کو محفوظ نہیں رکھ سکے گی تو اس سے ملک میں افراتفری اور انتشار کی صورتحال پیدا ہو گی جو کسی بھی طرح سے ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔عدلیہ کی خودمختاری کسی بھی جمہوری نظام کے لیے نہایت اہم ہے۔ عدلیہ کو بغیر کسی دباؤ کے انصاف فراہم کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ ججوں کو دھمکانے اور ہراساں کرنے والے عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے تاکہ عدلیہ کی خودمختاری اور وقار برقرار رہے۔عوام کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔ عوام کو عدلیہ کی حمایت کرنی چاہیے اور ججوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ عوام کی حمایت سے ہی عدلیہ کی خودمختاری اور آزادی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔حکومت اور عدلیہ کے درمیان موجودہ تصادم ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ دونوں اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے اور عوام کے حقوق اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عدلیہ کی خودمختاری کا احترام کرے اور ججوں کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ عوام کو بھی عدلیہ کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ ملک میں انصاف کی فراہمی کا عمل بلا رکاوٹ جاری رہ سکے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات: پاکستان میں سیلاب کی روک تھام کیلئے اقدامات
پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشئرز کے پگھلنے اور سیلاب کی صورت حال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے بنیادی انفراسٹرکچر میں مسلسل سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ فلڈ بیریئرز کی تعمیر سے نہ صرف ان کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ لوگوں کی زندگیوں اور املاک کو بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ فلڈ بیریئرز پانی کے دباؤ کو کم کر کے آبادیوں کو محفوظ رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، اور اس سے زرعی زمینوں کو بھی نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔نکاسی آب کے نظام کی بہتری بھی ضروری ہے۔ اگر نکاسی آب کا نظام مؤثر ہوگا تو بارشوں اور سیلاب کے دوران پانی کی صحیح نکاسی ممکن ہو سکے گی، جس سے سیلابی پانی کی تباہ کاریوں کو روکا جا سکتا ہے۔ نکاسی آب کے نظام کی بہتری سے شہری اور دیہی علاقوں دونوں میں پانی کی نکاسی کا عمل بہتر ہوگا۔ شہروں میں بہترین ڈرینیج سسٹم سے سڑکوں پر پانی کھڑا ہونے کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے، جبکہ دیہی علاقوں میں زرعی زمینوں کو بچایا جا سکتا ہے۔گلیشئرز کی نگرانی کے لیے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال نہایت اہم ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے گلیشئرز کی حالت پر نظر رکھی جا سکتی ہے اور ان کے پگھلنے کی رفتار کو مانیٹر کیا جا سکتا ہے۔ بروقت معلومات حاصل ہونے سے فوری اقدامات کیے جا سکتے ہیں اور سیلاب کی پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے، جس سے جانی اور مالی نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی سے ہمیں نہ صرف گلیشئرز کی صورتحال پر نظر رکھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ ممکنہ سیلابی صورتحال کی پیش گوئی بھی کی جا سکتی ہے۔پاکستان کو بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں کے ساتھ مل کر تکنیکی مہارت حاصل کرنی چاہیے۔ یہ تعاون نہ صرف ملکی ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے میں مدد دے گا بلکہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں بھی اضافہ ہوگا۔ بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں کے تجربات اور تحقیق سے فائدہ اٹھا کر پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بہتر منصوبے بنا سکتا ہے۔ عالمی اداروں کے تعاون سے ہمیں جدید ٹیکنالوجی اور ماہرین کی خدمات حاصل ہو سکتی ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں مؤثر ثابت ہوں گی۔کمیونٹی کی شمولیت اور عوامی آگاہی بھی نہایت ضروری ہے۔ مقامی سطح پر لوگوں کی شمولیت اور آگاہی مہمات کے ذریعے انہیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ مقامی گروپس اور رہنماؤں کے ذریعے آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ عوام ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو سمجھ سکیں اور ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہوں۔ ہنگامی حالات کے لیے تربیت اور مشقیں بھی کروائی جائیں تاکہ لوگ ہنگامی صورت حال میں درست اقدامات کر سکیں۔ آگاہی مہمات سے لوگوں میں شعور اجاگر ہو گا اور وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تیار ہو سکیں گے۔مقامی سطح پر ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کمیٹیاں بنائی جائیں جو خطرات کو کم کرنے میں مدد دیں۔ یہ کمیٹیاں مقامی سطح پر لوگوں کو تربیت دے سکتی ہیں اور ہنگامی صورت حال میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔ ان کمیٹیوں کے ذریعے مقامی لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے اور انہیں ہنگامی صورت حال میں مؤثر طریقے سے کام کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے۔دیہات میں ہنگامی ردعمل کی ٹیمیں بھی قائم کی جائیں تاکہ فوری کارروائی کی جا سکے اور نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ ان ٹیموں کے ذریعے مقامی سطح پر فوری امداد فراہم کی جا سکتی ہے اور لوگوں کی جان و مال کو بچایا جا سکتا ہے۔ ہنگامی ردعمل کی ٹیمیں فوری طور پر حادثات کی جگہ پر پہنچ کر امدادی کاروائیاں شروع کر سکتی ہیں اور لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری اور کمیونٹی کی شمولیت نہایت ضروری ہے۔ بروقت اقدامات اور تیاریاں انسانی زندگیوں کو محفوظ بنا سکتی ہیں۔ پاکستان کو عالمی اداروں کے ساتھ مل کر تکنیکی مہارت حاصل کرنی چاہیے اور مقامی سطح پر لوگوں کو تیار کرنا چاہیے تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی، مؤثر نظام اور عوامی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس سلسلے میں حکومت، مقامی اداروں اور عوام سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ان تمام اقدامات کے باوجود، ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم، ان کے اثرات کو کم کرنے اور عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، عوامی آگاہی اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور ملک میں سیلاب اور دیگر ماحولیاتی آفات کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے جس کے لیے حکومت، مقامی اداروں اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ان اقدامات کے ذریعے ہم ملک میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور مستقبل میں بہتر اور محفوظ ماحول فراہم کر سکتے ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمیں جدید تحقیق اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کی شعور بیداری بھی ضروری ہے تاکہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تیار ہوں۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہمیں عالمی برادری سے بھی تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ عالمی برادری کے تجربات سے سیکھ کر ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بہتر منصوبے بنا سکتے ہیں۔ بین الاقوامی تعاون کے ذریعے ہم جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق کے فوائد حاصل کر سکتے ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے طویل المدتی منصوبے بنائے۔ ان منصوبوں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، عوام کی شعور بیداری، اور بین الاقوامی تعاون کو شامل کیا جائے۔ حکومت کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مناسب فنڈز بھی مختص کرنے ہوں گے تاکہ انفراسٹرکچر کی بہتری، ڈرینیج سسٹمز کی بہتری، اور فلڈ بیریئرز کی تعمیر کے منصوبے مکمل ہو سکیں۔عوام کو بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ عوام کو حکومت کے ساتھ مل کر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ عوامی شعور بیداری مہمات کے ذریعے لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے آگاہ کیا جا سکتا ہے اور انہیں ان سے نمٹنے کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہمیں مشترکہ کاوشیں کرنی ہوں گی۔ حکومت، مقامی ادارے، اور عوام سب کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کر سکیں اور ملک میں بہتر اور محفوظ ماحول فراہم کر سکیں۔آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہم سب کو مل کر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ حکومت، عوام، اور بین الاقوامی برادری کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کر سکیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بہتر اور محفوظ مستقبل فراہم کر سکیں۔