اسلام آباد میں مقیم کشمیری شاعر احمد فرہاد کی جبری گمشدگی کے معاملے پر ان کی اہلیہ کی جانب سے دی گئی درخواست پر اسلام ہائی کورٹ میں جس مقدمے کی سماعت کی جا رہی ہے اس میں عدالت کے یک رکنی بنچ نے سیکورٹی و انٹیلی جنس اداروں کے سینئر افسران اور وزیر اعظم پاکستان کو طلب کرنے کا عندیہ دیا ہے جس پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ نے اسلام آباد ہائی کورٹ پر آئین میں دیے گئے اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام عائد کردیا ہے – انھوں نے دعوا کیا ہے کہ حبس بے جا کی درخواستوں میں آئین عدالتوں کو جس طریقے سے کی پابند کرتی ہیں اس کے مطابق عدالتیں حکومت سے سوال کرتی ہیں اور حکومت کی زمہ داری ان کے سنجیدگی سے جواب فراہم کرنا ہوتا ہے – جبری لاپتا افراد کے نا حل ہونے والے مقدمات پولیس کے سپرد کر دیے جانے چاہیں جو مقدمہ درج کرکے لاپتا افراد کی رہائی یقینی بنائے – انہوں نے دعوا کیا کہ آئین عدالت کو حبس بے جا کی درخواستوں میں فوج کے سینئر افسران کو طلب کرنے کا حکم جاری نہیں کر سکتیں اور نہ ہی وزیراعظم پاکستان کو طلب کرنے کا اختیار عدالت کے پاس ہے – انھوں نے کہا کہ ایسے احکامات سے پارلیمنٹ کے تقدس پر حرف آتا ہے-
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ کا بیان بظاہر تو پارلیمنٹ کی بالادستی اور تقدس کے حوالے سے بہت دلفریب اور خوشنما معلوم ہوتا ہے لیکن عدلیہ پر انتظامی امور میں مداخلت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اعظم نذیر تارڈ اصل مسئلے کی سنگینی کو کم کرتے ہوئے نظر آئے اور ایسا لگا جیسے وہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر سیکورٹی و انٹیلی جنس اداروں اور خود پولیس کی کارکردگی سے مطمئن ہوں – کشمیری نژاد شاعر احمد فرہاد کو دین دیہاڑے اسلام آباد کی گنجان آبادی میں موجود ان کے گھر کے سامنے سے “نامعلوم” افراد زبردستی اپنے ساتھ لیجاتے ہیں اور وہ جن گاڑیوں میں آئے تھے ان کے بارے میں ان کے گھر والوں کا دعوا ہے کہ وہ انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی – آئی ایس آئی کے اہلکاروں کے استعمال میں ہیں جبکہ آئی ایس آئی نے عدالت کے سامنے یہ تحریری بیان پیش کیا ہے کہ شاعر احمد فرہاد ان کی تحویل میں نہیں ہے – جبکہ اسلام آباد پولیس کے آئی جی احمد فرہاد کے ان کے گھر کے باہر سے اغوا کی تصدیق کرتے ہیں اور وہ اس بات کا پتا لگانے سے قاصر ہیں انھیں اغوا کرنے والے کون تھے – اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ احمد فرہاد کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟ اور کیا پولیس نے احمد فرہاد کے اہل خانہ کے بیانات کی روشنی میں ان کی جبری گمشدگی کے مقدمے میں ان کی جانب سے جن پر الزام لگایا ہے کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے – تو کیا وفاقی حکومت نے اسلام آباد پولیس سے پوچھا ہے کہ وہ پہلے تو جبری گمشدہ احمد فرہاد کے اندراج مقدمہ کے لیے ان کی اہلیہ کی درخواست وصول کرنے اور مقدمہ درج کرنے میں لیت و لعل سے کام کیوں لیتی رہی اور پھر درخواست کے متن کے مطابق مقدمے کا اندراج کیوں نہ کیا ؟ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے جب پولیس نے جبری گمشدگی کی درخواست برائے اندراج مقدمہ ہی وصول کرنے سے انکار کیا ہو اور بعد ازاں عدالتی حکم پر مقدمے کا اندراج کرتے ہوئے درخواست گزار کے نامزد کردہ ملزمان کے نام ایف آئی آر میں ڈالے نہ ہوں – وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے آج تک ہزاروں جبری گمشدگی کے خلاف دی گئی درخواستوں میں مدعیان کی درخواست میں نامزد ملزمان کے نام نہ ڈالے جانے اور انھیں شامل تفتیش نہ کرنے پر کوئی ایکشن نہیں لیا جبکہ یہ ایکشن لینا ان کی ذمہ داری بنتی تھی – ہزاروں جبری گمشدگی کے کیسز میں جبری گمشدگی کے خاندانوں نے اپنے طور پر ثبوت اور شواہد پیش کرکے اس طرح کی غیر آئینی اور غیر قانونی روش میں ملوث ملزمان کی نشاندہی کی لیکن انھیں نہ تو مقدمے میں نامزد کیا گیا اور نہ ہی شامل تفتیش کیا گیا – رہا ہونے والے جبری گمشدگان نے بعد ازاں مختلف فورموں پر الزام عائد کیا کہ ان کی گمشدگی کے ذمہ دار سیکورٹی و انٹیلی جنس اہلکار تھے لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ان الزامات کی تحقیق کرانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا- اس سے پاکستان کے ہر ایک شہری میں شدید عدم تحفظ پیدا ہوا اور اس کا اداروں پر سے ایمان اٹھ گیا- پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جبری گم شدگی کی وارداتوں میں سیکورٹی و انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا اور ان کی اس حوالے سے فیکٹ فائنڈگ رپورٹس بھی اس الزام کو بادی النظر میں درست تسلیم کرتی نظر آتی ہیں – جب حکومتوں ، انتظامیہ اور پولیس جبری گمشدگی جیسے بدترین غیر آئینی و غیر قانونی مجرمانہ اقدامات کی روک تھام کرنے میں یکسر ناکام نظر آئیں تو تب متاثرہ خاندانوں نے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا اور انصاف کی مانگ کی – اس پر حکومتوں اور انتظامی اداروں اور قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار اداروں کے عہدے داروں کا الٹا عدالتوں پر الزام عائد کرنا اس تاثر کو جنم دیتا ہے جیسے وہ چاہتے ہوں کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو معمول بہ اقدام سمجھا جائے اور اس پر ان سے جواب طلبی بھی نہ ہو- جبری گمشدگیوں کے معاملے میں کیا حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے؟ یا وہ آئین میں دیے گئے اپنے فرائض کے مطابق اس مسئلے پر کام کرتے پائے گئے ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب آج تک نہیں ملے – پاکستان کے عام شہری حکومت سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ آج تک جبری گمشدگیوں کو روکنے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کے اس غیر قانونی کام میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی روش کی روک تھام کے لیے کوئی قانون پارلیمنٹ میں پیش نہیں کر پائی ہے اور جب کسی ممبر پارلیمنٹ نے اس پر پرائیویٹ بل پیش کیا تو وہ زیر التوا کیوں پڑا رہا؟ کیا پاکستان کے آئین اور قوانین کسی بھی شخص کو ملک کی سلامتی سے منافی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام پر قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے اور الزام ثابت ہونے پر سزا سنانے کے قابل نہیں ہے؟ کیا ایسا کرنے سے روکنے کے لیے صرف اور صرف واحد طریقہ کسی بھی الزام علیہ کو اغوا کرکے غائب کردینے اور سرکاری اہلکاروں کے خود ہی مدعی و خود ہی منصف بن جانے میں ہے؟ یہ سوال ہیں تو بڑے سخت اور ناگوار لیکن سوالات کے ابھرنے کا راستا خود ارباب اختیار کی اپنے فرائض کی عدم ادائیگی کے مستقل رجحان سے پیدا ہوا ہے اور ارباب اختیار کو ان کا جواب دینا پڑے گا – مہذب معاشروں میں جبری گمشدگی جیسا غیر آئینی اور غیرقانونی اقدام نہایت سنگین سمجھا جاتا ہے اور ان کو کسی بھی مملکت کے شہریوں کی عزت نفس پر گہری ضرب لگانے والا قرار پاتا ہے – جمہوری اور مہذب معاشرے اور اس کے عوام اسے برداشت نہیں کر پاتے- حکومت کو جبری گمشدگی سے جنم لینے والے لاقانونیت اور جنگل کے قانون کے راج جیسے تاثر کو ختم کرنا ہوگا ناکہ وہ ایسے معاملات پر عدالتی فعالیت کو ختم کرنے کے راستے پر چلنے کا تاثر دے- موجودہ حکومت کے دور میں یہ تاثر اور قوت پکڑ رہا ہے – شاعر احمد فرہاد کی جبری گمشدگی کے واقعے سے پہلے سپریم کورٹ کے ایک فاضل معزز جج نے چیف جسٹس پاکستان کو باقاعدہ خط لکھ کر یہ الزام لگایا کہ اسے حکومت باقاعدہ خط لکھ کر ہراساں کرنے کی کوشش کر رہی ہے – جبکہ اعلی عدلیہ کے دس ججوں نے اپنے دستخطوں سے سپریم کورٹ پاکستان کے چیف جسٹس کو مطلع کیا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار ان کو ڈکٹیٹ کرنے اور مقدمات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں وہ معاملہ سپریم کورٹ کے فل بنچ کے پاس زیر سماعت ہے – پاکستان کے قانونی حلقے حکومت پر عدلیہ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کرنے کا الزام بھی عائد کر رہے ہیں – وفاقی وزیر قانون کا اسلام آباد ہائی کورٹ کے بارے میں دیا گیا بیان بھی اسی کوشش کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے – ہماری نظر میں پارلیمنٹ کو اگر اپنے تقدس کو برقرار رکھنا ہے تو اسے عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا اور اس تاثر کو دور کرنا ہوگا کہ وہ غیر منتخب قوتوں کے دباؤ اور مداخلت کے آگے سرنگوں ہوچکی ہے –
۔۔۔۔۔۔
گندم درآمد اسکینڈل
نگراں دورِ حکومت میں اضافی گندم درآمد کرنے کے اسکینڈل نے ملکی معیشت اور فوڈ سیکیورٹی پر سنگین اثرات ڈالے ہیں۔ اس اسکینڈل کی تفصیلات کچھ اس طرح سے ہیں کہ حکومت نے اضافی گندم کی درآمد کے بعد مارکیٹ میں گندم کی قیمتوں میں زبردست کمی دیکھی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق، وزیراعظم شہباز شریف نے انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی ہے جس کے نتیجے میں کچھ اعلیٰ حکومتی افسران کو معطل کیا گیا ہے۔
انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، نگراں دورِ حکومت کے کسی بھی اہم ذمہ دار کے خلاف کارروائی کی سفارش نہیں کی گئی ہے۔ تاہم، وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے چار افسروں کو معطل کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ ان افسروں میں سابق وفاقی سیکریٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی محمد آصف، سابق ڈی جی پلانٹ پروٹیکشن اے ڈی عابد، فوڈ سیکیورٹی کمشنر ون ڈاکٹر وسیم، ڈائریکٹر سہیل، اور ڈائریکٹر فوڈ سیکیورٹی پنجاب امتیاز گوپانگ شامل ہیں۔
ذمہ دار افسروں پر ناقص منصوبہ بندی اور غفلت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ناقص منصوبہ بندی اور غفلت کی وجہ سے ملک میں گندم کی مارکیٹ کریش ہو گئی اور اس سے کسانوں کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اضافی گندم کی درآمد سے نہ صرف ملکی خزانے کو نقصان پہنچا بلکہ مقامی کاشتکاروں کی محنت بھی ضائع ہو گئی۔
اس اسکینڈل نے حکومتی کارکردگی پر کئی سوالات کھڑے کیے ہیں۔ عوامی سطح پر یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اگر انکوائری کمیٹی نے واقعی ایماندارانہ تحقیقات کی ہیں تو کیوں صرف چند افسروں کو سزا دی گئی؟ نگراں حکومت کے اہم ذمہ داروں کو کیوں بچایا گیا؟ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ ہمارے نظام میں اب بھی انصاف کا فقدان ہے؟
یہ اسکینڈل ملکی فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ جب ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے فوڈ سیکیورٹی متاثر ہوتی ہے تو اس کا براہ راست اثر عوام پر پڑتا ہے۔ اگر فوڈ سیکیورٹی کے ذمہ دار افسروں نے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے نبھایا ہوتا تو شاید آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف ذمہ دار افسروں کے خلاف سخت کارروائی کرے بلکہ آئندہ کے لیے بھی ایسے اقدامات اٹھائے جس سے ملک میں فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے علاوہ، حکومت کو شفافیت اور انصاف کے اصولوں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔
یہ وقت ہے کہ حکومت اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے اور مستقبل میں ایسی کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مضبوط حکمت عملی تیار کرے۔ عوام کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ ملک میں فوڈ سیکیورٹی کے مسائل کا مستقل حل نکالا جا سکے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اکثر ایسے اسکینڈلز سامنے آتے رہتے ہیں اور عموماً ان میں ملوث بڑے بڑے نام بچ نکلتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سخت اقدامات اٹھائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ مستقبل میں ایسا کوئی بھی واقعہ دوبارہ نہ ہو۔
یہی وقت ہے کہ حکومت اپنی ساکھ بحال کرے اور عوام کو یہ باور کرائے کہ وہ ان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہے۔ اس کے لیے شفافیت اور انصاف کے اصولوں پر عمل کرنا ہوگا اور تمام ذمہ داروں کو ان کے عمل کا جوابدہ بنایا جائے گا۔
……..
عزت ہتک کا سیاہ قانون
پنجاب اسمبلی نے پیر کے روز بدنامی بل 2024 منظور کیا، جس کے خلاف حزب اختلاف، صحافیوں اور پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل نے شدید احتجاج کیا۔ یہ بل تمام ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے منظور کیا گیا، جس کے بعد صحافیوں نے اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور اسے آزاد میڈیا کے خلاف ایک “سیاہ قانون” قرار دیا۔
اس بل کے تحت ایک خصوصی عدالت تشکیل دی جائے گی جو “جعلی خبریں” تیار کرنے یا پھیلانے والوں کو سزا دے گی۔ عدالت چھ ماہ کے اندر مقدمات کا فیصلہ کرے گی اور مجرموں پر تیس لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کر سکے گی۔ آئینی عہدوں پر فائز افراد کے خلاف الزامات کی صورت میں کیسز ہائی کورٹ میں سنے جائیں گے۔ اس کے علاوہ، بل کے مطابق حکومت خواتین اور خواجہ سرا افراد کو قانونی معاونت فراہم کرے گی۔
بل کی منظوری کے بعد سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور صحافیوں نے اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسمبلی بلڈنگ کے باہر احتجاج کیا۔ لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے صحافیوں کو بات چیت میں مصروف رکھا لیکن بل کی منظوری ملتوی کرنے کی تجویز نہیں مانی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ مریم نواز شریف نے پی ٹی آئی حکومت کے دوران الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) کے خلاف صحافیوں کے احتجاج میں شمولیت اختیار کی تھی، لیکن اب ان کی اپنی حکومت اس قانون کو نافذ کر رہی ہے۔
حزب اختلاف کے رہنما ملک احمد خان بھچر نے سوال اٹھایا کہ حکومت اس بل کو رات بارہ بجے سے پہلے کیوں منظور کرنے کی جلدی میں تھی؟ سنی اتحاد کونسل کے رکن رانا شہباز احمد نے کہا کہ خصوصی کمیٹی میں حزب اختلاف کے اراکین موجود نہیں تھے اور اس بل کی منظوری آئین کی دفعات 8، 202، اور 203 کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کے جج کی تقرری چیف جسٹس کے ذریعہ ہونی چاہیے، ورنہ یہ معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
سنی اتحاد کونسل کے دیگر اراکین نے بھی بل کی شدید مخالفت کی۔ افضال ساہی نے کہا کہ یہ قانون ان کی پارٹی کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا گیا ہے، جب کہ میڈیا پہلے ہی خاموش ہو چکا ہے۔ جماعت اسلامی کے قانون ساز جیم امان اللہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ قانون ایس ایچ او اور “بوٹ پالش” کرنے والوں کو فائدہ دے گا، ایک اصطلاح جو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے قریبی افراد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ایک نادر مثال میں، ایڈووکیٹ جنرل خالد اسحاق نے اسمبلی کی کارروائی میں شامل ہو کر حزب اختلاف کے اعتراضات کے جواب میں بل کے کچھ اہم نکات پڑھ کر سنائے۔
یہ بل آزادی صحافت کے خلاف ایک بڑا قدم ہے اور عوام کی آزادی رائے کو محدود کرنے کی کوشش ہے۔ صحافیوں نے اس بل کے خلاف احتجاج جاری رکھنے اور ممکنہ دھرنے کی دھمکی دی ہے۔ لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے صحافیوں کو بات چیت میں مصروف رکھا لیکن بل کی منظوری ملتوی کرنے کی تجویز نہیں مانی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ مریم نواز شریف نے پی ٹی آئی حکومت کے دوران الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) کے خلاف صحافیوں کے احتجاج میں شمولیت اختیار کی تھی، لیکن اب ان کی اپنی حکومت اس قانون کو نافذ کر رہی ہے۔
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک محمد احمد خان نے اسمبلی کی کارروائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔ صحافیوں نے اس بل کے خلاف احتجاج جاری رکھنے اور ممکنہ دھرنے کی دھمکی دی ہے۔ لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے صحافیوں کو بات چیت میں مصروف رکھا لیکن بل کی منظوری ملتوی کرنے کی تجویز نہیں مانی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ مریم نواز شریف نے پی ٹی آئی حکومت کے دوران الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) کے خلاف صحافیوں کے احتجاج میں شمولیت اختیار کی تھی، لیکن اب ان کی اپنی حکومت اس قانون کو نافذ کر رہی ہے۔
یہ بل آزادی صحافت کے خلاف ایک بڑا قدم ہے اور عوام کی آزادی رائے کو محدود کرنے کی کوشش ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بل کو واپس لے اور آزادی صحافت کے اصولوں کو برقرار رکھے تاکہ جمہوریت کو مضبوط بنایا جا سکے۔ صحافیوں نے اس بل کے خلاف احتجاج جاری رکھنے اور ممکنہ دھرنے کی دھمکی دی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس بل کے خلاف مختلف تنظیموں اور افراد نے آواز اٹھائی ہے، جن میں انسانی حقوق کے کارکنان، وکلا، اور سول سوسائٹی کے اراکین شامل ہیں۔ سب کا کہنا ہے کہ یہ قانون آزاد میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی پر پابندی لگانے کی کوشش ہے۔ اس بل کی منظوری سے صحافیوں کے لیے آزادانہ رپورٹنگ کرنا مشکل ہو جائے گا اور عوام کو صحیح معلومات فراہم کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔
پنجاب حکومت کو اس بل پر دوبارہ غور کرنا چاہیے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کر کے ایک ایسا قانون بنانا چاہیے جو آزادی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرے۔ اس کے علاوہ، حکومت کو شفافیت اور انصاف کے اصولوں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔
آزادی صحافت جمہوریت کی بنیاد ہے اور اس پر قدغن لگانے کی کوشش جمہوری اقدار کی نفی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بل کو واپس لے اور صحافیوں کی آزادی کو یقینی بنائے تاکہ ملک میں جمہوریت مضبوط ہو سکے۔