آج کی تاریخ

عوامی عمل کمیٹی برائے عوامی حقوق، آزاد جموں و کشمیر

عوامی عمل کمیٹی برائے عوامی حقوق، آزاد جموں و کشمیر

آزاد جموں و کشمیر میں حالیہ دنوں میں جو واقعات رونما ہوئے، وہ اس خطے میں جمہوری امنگوں اور عوامی مطالبات کی پیچیدگیوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ مظفرآباد میں پولیس اور عوامی حقوق کی تحریک کے کارکنان کے مابین جھڑپوں نے نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ مبذول کروائی ہے۔
جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت میں ہڑتال اور مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ آزاد کشمیر کے عوام اپنے جائز حقوق کے لئے کس قدر سرگرم عمل ہیں۔ ان کی اہم مطالبات میں سستی بجلی، سبسڈی والا آٹا، اور اشرافیہ کے خصوصی مراعات کا خاتمہ شامل ہیں۔
یہ مطالبات صرف معاشی نہیں بلکہ جمہوری حقوق کے تحفظ کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے عوام کا یہ حق ہے کہ انہیں ان کے وسائل کی مناسب قیمت ملے، جو کہ بجلی کی شکل میں ہو سکتی ہے کیونکہ یہ خطہ پانی کے ذخائر کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں خود کفیل ہے۔
تاہم، حکومتی اداروں کی جانب سے آئے دن کی بیان بازی اور وعدوں کے باوجود عملی جامہ پہنانے میں ناکامی، عوام میں مایوسی کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ اس سے بڑھ کر، جب حکومتی توجہ اور وسائل کو عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے اپنے مفادات پر مرکوز کیا جاتا ہے تو یہ جمہوریت کے لئے ایک خطرہ بن جاتا ہے۔
علاوہ ازیں، جب احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے تو یہ نہ صرف مظاہرین کے جمہوری حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ یہ ایک خطرناک رویہ بھی ظاہر کرتا ہے۔ مظفرآباد میں پولیس اور جے اے اے سی کے کارکنان کے مابین جھڑپوں کے دوران جو تشدد ہوا، وہ انتہائی افسوسناک ہے اور اس کی ہر سطح پر مذمت کی جانی چاہیے۔
یہ ضروری ہے کہ حکومت اور احتجاجی گروہوں کے درمیان مذاکرات کا ایک مؤثر نظام وضع کیا جائے، جس سے نہ صرف موجودہ مسائل کا حل نکلے بلکہ مستقبل میں ایسے مسائل کی روک تھام بھی ہو سکے۔ جے اے اے سی کے رہنما شوکت نواز میر کا موقف کہ تنظیم پر امن ہے اور وہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کے لئے تیار ہیں، ایک مثبت پیش قدمی ہے۔
اس کے علاوہ، حکومت کو بھی اپنی ترجیحات میں نظر ثانی کرنی چاہیے اور عوامی مفادات کو اولین اہمیت دینی چاہیے۔ آزاد کشمیر کے وزیر برائے دیہی ترقی فیصل ممتاز راتھور کا یہ بیان کہ بجلی کی قیمتیں کم کرنا ان کے اختیار میں نہیں ہے، یہ دکھاتا ہے کہ حکومت کو عوامی مطالبات کے حوالے سے مزید سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔
آزاد کشمیر کے عوام کے لئے یہ وقت اپنے حقوق کی جنگ میں مزید متحد ہونے کا ہے۔ یہ صرف بجلی یا آٹے کا مسئلہ نہیں بلکہ اپنے حقوق کی تحفظ کی جدوجہد ہے۔ عوامی عمل کمیٹی برائے عوامی حقوق کی اس جدوجہد میں سرگرمی سے حصہ لینا چاہیے اور حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ان کے جائز مطالبات کو سنجیدہ لے۔
آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ جمہوریت کی خوبصورتی مذاکرات اور تبادلہ خیال میں ہے، نہ کہ تشدد میں۔ آزاد کشمیر کے عوام کو اپنے حقوق کی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے، لیکن امن کے ساتھ، تاکہ ایک پرامن اور خوشحال معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔

موجودہ ہائبرڈ حکومتی نظام اور اس کی پیچیدگیاں

پاکستان میں موجودہ سیاسی و عسکری تعلقات کی بناوٹ کو اکثر ‘ہائبرڈ نظام’ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ نظام ایک ایسی صورتحال کو ظاہر کرتا ہے جہاں سیاسی اور عسکری قوتیں مل کر حکومتی امور کو چلاتی ہیں۔ حالیہ واقعات اور ان مییں پیش رفت نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ موجودہ نظام کو برقرار رکھنے میں عسکری ادارے کی دلچسپی شدید ہے، جبکہ ان کی راہ میں صرف ایک رکاوٹ نظر آتی ہے، وہ ہے بڑھتی ہوئی عدلیہ کی جانب سے مزاحمت۔
پاکستان تحریک انصاف کے قائد اور سابق وزیراعظم عمران خان کی برطانیہ کے اخبار میں شائع ہونے والا مضمون اور مئی نو کے واقعات پر عسکری ترجمان کی بریفنگ نے اس بات کو مزید واضح کر دیا کہ ہائبرڈ نظام کس طرح سیاسی جماعتوں اور خصوصاً عمران خان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ عسکری ترجمان کا یہ کہنا کہ معافی مانگنے کے بعد ہی کسی قسم کی بات چیت ممکن ہے، اس بات کا اظہار ہے کہ عسکری قیادت سیاسی معاملات میں کتنی گہری مداخلت کر رہی ہے۔
یہاں پر اہم کردار عدلیہ کا بھی ہے، جو کہ بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے ساتھ، عسکری قیادت کے فیصلہ سازی میں غلبہ کو چیلنج کر رہی ہے۔ عدلیہ کی اس جرأتمندانہ اور آزاد رویہ کی وجہ سے ہائبرڈ نظام میں دراڑ پڑتی نظر آ رہی ہے۔
معاشی بحالی کی ضرورت کے تحت ہائبرڈ نظام کو برقرار رکھنے کی عسکری قیادت کی خواہش اور عدلیہ کے مزاحمتی کردار کے درمیان کشمکش، ایک ایسا منظر پیش کرتی ہے جو نہ صرف سیاسی بلکہ جمہوری استحکام کے لئے بھی خطرہ ہے۔ اگر عدلیہ اپنے موقف پر قائم رہتی ہے، تو یہ ہائبرڈ نظام کی کشتی کو ہلانے کا سبب بن سکتی ہے۔
ہائبرڈ نظام کی اصلیت اور اس کی پیچیدگیوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک طرف، یہ نظام سیاسی استحکام کا ظاہر کرتا ہے، لیکن دوسری طرف، یہ عسکری اداروں کی سیاست میں براہ راست مداخلت کو بھی عیاں کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور عدلیہ کو اپنے حقوق کے لئے مزید فعال اور جرأتمند بننے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ملک کے جمہوری اور معاشی مستقبل کے لئے بہتر فیصلہ سازی کر سکیں۔
عدلیہ کی طرف سے مزید فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہائبرڈ نظام کی موجودہ صورتحال کو بہتر بنایا جا سکے اور جمہوری عمل کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے موقف کو مزید واضح کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ عوامی توقعات کو پورا کر سکیں اور ملک کے جمہوری ڈھانچے کو مزید بہتر بنا سکیں۔
پاکستان کے لئے یہ وقت انتہائی اہم ہے کہ وہ اپنے جمہوری اور معاشی نظام کو مزید مستحکم کرے اور عدلیہ سمیت تمام سیاسی اداروں کو ایک مؤثر اور شفاف نظام کے تحت کام کرنے کا موقع فراہم کرے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام فریقین مل کر کام کریں اور ملک کے مفاد میں فیصلہ سازی کریں۔

تیل کی سبسڈی کا خاتمہ

پاکستان کی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو یقین دلایا ہے کہ وہ مالی سال 24 اور اس کے بعد کے لیے کوئی نئی تیل سبسڈی یا کراس سبسڈی سکیم متعارف نہیں کروائے گی۔ اس فیصلے کا مقصد ملک کے معاشی استحکام کو یقینی بنانا اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ ملک کے تعلقات کو مزید بہتر بنانا ہے۔
توانائی کے شعبے میں سرکلر قرضہ جات کی موجودہ صورتحال اور اس کے استحکام کے لیے حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات، جیسے کہ توانائی کی قیمتوں کو لاگت کے مطابق بنانا اور بجلی چوری کے خلاف مہمات کا جاری رکھنا، اہم ہیں۔ اس کے علاوہ، گیس کی شعبے میں نرخوں میں اوسطاً 24 فیصد اضافہ بھی کیا گیا ہے۔
تاہم، آئی ایم ایف کی جانب سے مسلسل توانائی کی قیمتوں میں ترمیم اور وسیع تر اصلاحات کی ضرورت پر زور دینے کے باوجود، حکومت کی جانب سے تیل کی سبسڈی کے خاتمے کا فیصلہ معاشی اور سماجی دونوں پہلوؤں سے اہم ہے۔
یہ فیصلہ ملک میں توانائی کے شعبے کی استحکام کو بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے، جس میں توانائی کی لاگت کے مطابق قیمتوں کا تعین اور سرکلر قرضوں کے انبار کو ختم کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ، حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے توانائی کے قیمتوں میں بروقت ترمیم کا عزم بھی ظاہر کیا ہے، جو کہ معاشی استحکام کی جانب ایک اور قدم ہے۔
مگر اس فیصلے کے سماجی اثرات بھی ہیں- پاکستان کے عام آدمی پر توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ پہلے ہی کافی ہے، اور تیل کی سبسڈی کا خاتمہ اس بوجھ کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کم آمدنی والے طبقات کی حفاظت کے لیے موثر اقدامات اٹھائے، جیسے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے نقدی منتقلی کو بڑھانا۔
اس کے علاوہ، توانائی کی قیمتوں میں اضافے کو قانونی اور معاشی تقاضوں کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے تاکہ توانائی کے بحران کا مستقل حل تلاش کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو توانائی کے شعبے میں لاگتی اصلاحات، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، اور قابل تجدید توانائی کی گنجائش میں اضافے پر زور دینا چاہیے۔
مجموعی طور پر، تیل کی سبسڈی کے خاتمے کا فیصلہ ملک کے معاشی مفاد میں ہے، لیکن اس کے سماجی اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت کو موثر اور جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ کم آمدنی والے طبقات پر نہ ڈالا جائے، بلکہ ایسی پالیسیاں اپنائی جائیں جو معاشی ترقی اور سماجی تحفظ دونوں کو یقینی بنائیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں