آج کی تاریخ

امن کی راہ میں پہلا قدم,غزہ جنگ بندی معاہدے کی اہمیت اور چیلنجز

امن کی راہ میں پہلا قدم,غزہ جنگ بندی معاہدے کی اہمیت اور چیلنجز

غزہ کی حالیہ جنگ بندی کی تجاویز کی منظوری ایک اہم ترقی ہے جسے حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے اعلان کیا۔ یہ تجاویز تین مراحل میں نافذ العمل ہوں گی، جن میں ہر مرحلہ 42 دن پر مشتمل ہوگا۔ ان مراحل کا مقصد اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی، فوجی آپریشنز کا خاتمہ، اور غزہ کے محاصرے کو ختم کرنا ہے۔ اس معاہدے نے فلسطینیوں میں امید کی ایک نئی لہر پیدا کی ہے، جیسا کہ رفح میں دیکھنے کو ملا، جہاں لوگوں نے جشن منایا اور خوشی کا اظہار کیا۔
مگر اس معاہدے کی منظوری کے باوجود، اسرائیل کی جانب سے رفح میں زمینی آپریشن کی تیاریوں نے اس خطے میں تنازعہ کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے ہر جواب کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی غزہ میں کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ دوہرا معیار فلسطینی عوام میں مایوسی کا باعث بن رہا ہے جو جنگ بندی کے معاہدے کی روح کے خلاف ہے۔
سعودی عرب نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں فوری طور پر روکے اور غزہ میں قتل عام کا سلسلہ بند کرے۔ سعودی عرب کا یہ مطالبہ عالمی برادری سے بھی کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی ان خلاف ورزیوں کو روکنے کے لئے مداخلت کرے۔
یہ معاہدہ اور اس کی تجاویز، اگرچہ ایک امید کی کرن ہیں، لیکن اس کی کامیابی کے لئے دونوں فریقین کی جانب سے مکماسماعیل ہنیہ، حماس کے سربراہ، نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی تجاویز کو منظور کر لیا گیا ہے، جس سے اس تنازعہ میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ حماس نے قطری اور مصری ثالثوں کو اپنی منظوری کی اطلاع دی، جبکہ اب معاملہ اسرائیل کے کورٹ میں ہے۔جنگ بندی کا یہ معاہدہ تین مرحلوں پر مشتمل ہوگا، ہر ایک مرحلہ 42 دنوں پر محیط ہوگا۔ پہلا مرحلہ اسرائیلی فوج کی غزہ کی مرکزی راہداری سے واپسی، دوسرا مرحلہ مکمل فوجی آپریشن کا خاتمہ، اور تیسرا مرحلہ غزہ کے محاصرے کا خاتمہ شامل ہے۔رفح میں، جنگ بندی کی تجاویز کی منظوری پر فلسطینیوں نے جشن منایا، اور سڑکوں پر خوشی کا اظہار کیا گیا۔ اسرائیلی فوج نے بھی حماس کی جوابات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی بات کہی ہے۔معاہدے کی منظوری کے باوجود، اسرائیل نے رفح میں زمینی آپریشن شروع کرنے کی تیاری کر لی ہے، جس سے تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ سعودی عرب نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ وہ غزہ میں قتل عام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فوری روکے، اور عالمی برادری سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔اہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کے لئے سنجیدہ اقدامات کریں اور امن کے قیام کی جانب مخلصانہ کوششیں کریں۔ دیرپا امن کے لئے یہ ناگزیر ہے کہ دونوں فریق اپنی سابقہ مواقف سے ہٹ کر نئے سرے سے مذاکرات کا آغاز کریں اور ایک دوسرے کے بنیادی حقوق کا احترام کریں۔
جنگ بندی کے معاہدے کی تجاویز پر عملدرآمد کے دوران نگرانی کا کردار بھی اہم ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی خلاف ورزی یا ناکامی کی صورت میں فوری اور منصفانہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہوگی تاکہ دونوں فریقین معاہدے کی شرائط کے پابند رہیں۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی مبصرین کا کردار کلیدی ہو سکتا ہے، جو کہ تنازع کے دونوں جانب کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکیں اور شفافیت کو یقینی بنائیں۔
ان تمام کوششوں کے ساتھ، انسانی امداد کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ غزہ کے محصور عوام جن کا جینا دوبھر ہو چکا ہے، ان کی بنیادی ضروریات جیسے کہ خوراک، پانی، صحت اور تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں مزید فعال کردار ادا کرے۔
آخر میں، امن کا قیام صرف ملٹری اقدامات کے ذریعے نہیں بلکہ مکالمے، باہمی احترام اور تفہیم کے ذریعے ممکن ہے۔ غزہ کے تنازعہ کا حل تلاش کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام فریقین اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور ایک پرامن اور مستحکم مستقبل کے لئے سنجیدہ اقدامات کریں۔ اس طرح ہی ہم ایک ایسی دنیل عزمی اور نیک نیتی کے ساتھ عملدرآمد ناگزیر ہے۔ اس معاہدے کی روح کو زندہ رکھنے کے لئے دونوں طرف سے اعتماد سازی کی سنگین کوششیں بھی ضروری ہیں۔
رفح میں جشن کے مناظر اور فلسطینیوں کی خوشیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ عوام کتنی شدت سے امن کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ جشن نہ صرف جنگ بندی کی تجاویز کی منظوری کی خوشی میں تھا بلکہ اس بات کا بھی اعلان تھا کہ فلسطینی ایک پرامن اور محفوظ مستقبل کی امید رکھتے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے رفح میں زمینی آپریشن کی تیاری اور جاری کارروائیاں اس امید کو دھندلا دیتی ہیں۔ اس سے نہ صرف معاہدے کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا واقعی دونوں جانب سے جنگ بندی کی خواہش موجود ہے؟ اگر اسرائیل حقیقی امن کا خواہاں ہے، تو اسے زمینی حقائق کو تبدیل کرنے کی پالیسیوں کو ترک کرنا ہوگا اور جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کرنی ہوگی۔
دوسری جانب، عالمی برادری کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ نہ صرف موقف اختیار کرے بلکہ عملی اقدامات اٹھائے تاکہ جنگ بندی کا معاہدہ نافذ العمل ہو سکے۔ سعودی عرب کا مطالبہ کہ عالمی برادری اسرائیل کی جانب سے جنگی جرائم روکنے کے لئے مداخلت کرے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس معاملے کو کس قدر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
مجموعی طور پر، غزہ کی صورتحال ایک نازک مرحلے میں ہے جہاں جنگ بندی کی تجاویز کی منظوری ایک مثبت پیشرفت ہے، لیکن اس کی حقیقی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ اسے کس طرح نافذ کیا جاتا ہے۔ یہ نافذ کرنے کا عمل نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بڑی حساسیت اور دیانتداری کا تقاضا کرتا ہے۔
اس سلسلے میں، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو مزید فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی مداخلت نہ صرف جنگ بندی کو مستحکم بنانے میں مدد دے سکتی ہے بلکہ طویل مدتی امن کی بنیادیں بھی رکھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، انسانی حقوق کی پامالیوں کی روک تھام اور پہلے سے موجود مسائل کا حل تلاش کرنے میں بھی یہ ادارے مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
علاقائی طاقتوں کی طرف سے بھی مزید ذمہ دارانہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ خطے کے ممالک بشمول مصر، قطر، سعودی عرب، اور ترکی کو چاہیے کہ وہ معاملات کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور غزہ کے محصور عوام کی مدد کے لئے مؤثر اقدامات کریں۔
اسرائیل اور حماس دونوں کو چا کی تعمیر کر سکتے ہیں جہاں امن کی بنیادیں مضبوط ہوں اور جنگ و جدال کی بجائے ترقی اور خوشحالی کے مواقع موجود ہوں۔
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دیرپا امن صرف اس وقت ممکن ہے جب دونوں طرف سے عزم نظر آئے۔ انسانی حقوق کی پاسداری اور عالمی قوانین کی پیروی اس عمل میں کلیدی اہمیت رکھتی ہیں۔ تمام فریقین کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ جنگ و جدال سے نہ صرف علاقائی استحکام کو خطرہ ہے بلکہ یہ عالمی امن کے لیے بھی مضر ہے۔
عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کا فرض ہے کہ وہ اس عمل میں مثبت کردار ادا کریں، تاکہ نہ صرف جنگ بندی برقرار رہے بلکہ ایک جامع امن معاہدہ تک پہنچا جا سکے۔ اس کے علاوہ، یہ بھی ضروری ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو فوری طور پر روکنے کے لئے سخت اور فوری اقدامات کیے جائیں۔
اس کے علاوہ، میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ معاملات کو بغیر کسی تعصب کے پیش کرے اور دونوں جانب کے نظریات اور موقف کو برابری کی سطح پر اجاگر کرے تاکہ عوام بہتر طور پر آگاہ ہو سکیں اور اپنے فیصلے خود کر سکیں۔
یہ وقت کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری مل کر کام کرے اور ایک ایسے میکانزم پر اتفاق رائے قائم کرے جو نہ صرف غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنائے، بلکہ دیرپا امن کی راہ ہموار کرے۔ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کے لئے امن کا قیام نہ صرف ان کے اپنے بہتر مستقبل کےلئے ضروری ہے بلکہ یہ خطے کے ساتھ ساتھ عالمی امن کے لیے بھی مفید ہوگا۔ امن کی اس دیرپا راہ میں ہر قدم کے ساتھ مصائب بھی آئیں گے، لیکن ثابت قدمی اور باہمی تعاون سے ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے۔
امن کے قیام کے لئے جامع ترتیبات، جیسے کہ تعلیم، اقتصادی ترقی، اور سماجی انصاف کے فروغ میں سرمایہ کاری کرنا بھی اہم ہوگا۔ ان عوامل کو نظرانداز کرنا مستقبل میں دوبارہ تنازعات کو جنم دے سکتا ہے۔ لہذا، دونوں فریقوں کو ان کے حل کے لئے پرعزم رہنا چاہیے۔
ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا اور مسائل کو باہمی گفت و شنید سے حل کرنا، اس سلسلے کی سب سے موثر راہ ہوگی۔ فریقین کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی اور مذہبی اختلافات سے بالا تر ہوکر انسانیت کے مفاد میں فیصلے کریں۔ اسرائیل اور فلسطین دونوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جنگ و جدل کے بجائے امن کی راہ پر چلنا ہی ان کے لئے بہتر ہے۔
بین الاقوامی معاونت اور نگرانی کے ذریعے، امن معاہدہ نافذ العمل ہو سکتا ہے اور دونوں جانب کے عوام کے لئے ایک پرامن اور محفوظ مستقبل کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ جنگ بندی کی کامیابی اور دیرپا امن کی راہ ہموار کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام متعلقہ فریقین مشترکہ مقاصد کی جانب کام کریں اور ہر قسم کی اشتعال انگیزی سے گریز کریں۔
یہ امید کی جاتی ہے کہ غزہ کی جنگ بندی کی تجاویز پر مبنی معاہدہ نہ صرف نافذ العمل ہو، بلکہ اس کے ذریعے طویل المدتی امن و استحکام کی بنیاد بھی رکھی جا سکے۔ عالمی برادری کو اس پروسیس میں اپنی مکمل حمایت اور تعاون دینا چاہیے تاکہ مستقل امن کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے۔
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ صرف ایک قدم ہے۔ اس کے علاوہ، دونوں فریقین کو اپنے اپنے عوام کی بہتری کے لئے معاشی اور سماجی اصلاحات پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ اسرائیل کو چاہیے کہ وہ غزہ کے محاصرے کو ختم کرے اور فلسطینیوں کو بنیادی انسانی حقوق اور آزادیاں فراہم کرے۔ اسی طرح، فلسطینی انتظامیہ کو بھی اپنے عوام کی سماجی و اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لئے کوششیں کرنی چاہییں۔
انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف عملی اقدامات اور ان کے مجرموں کو عدالت میں لانے کی بھی ضرورت ہے۔ عالمی قوانین اور معاہدات کی پاسداری اس عمل کے لئے ناگزیر ہے۔ بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس عمل میں شفافیت برقرار رکھیں اور کسی بھی قسم کی جانبداری سے گریز کریں۔
آخر میں، امن کا قیام اور دوام بغیر کسی جامع اور متوازن حل کے ممکن نہیں ہے۔ دونوں جانب سے جراتمندانہ فیصلے کرنے پڑیں گے۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کی راہ میں ہر رکاوٹ کا سامنا کرنے کے لئے عزم و ہمت کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ یہ معاہدہ ایک نئے، پرامن، اور مستحکم مستقبل کی جانب پہلا قدم ثابت ہوگا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر:ملکی استحکام و سلامتی سب سے مقدم

حالیہ دور میں، جہاں عالمی و علاقائی سطح پر سیکیورٹی کے چیلنجز اپنی انتہا کو پہنچ رہے ہیں، پاکستان کی سرحدوں پر بھی امن کی صورتحال متاثر ہو رہی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر، میجر جنرل احمد شریف چوہدری کی حالیہ پریس بریفنگ نے اس بات کی چشم کشا مثال پیش کی کہ کس طرح پاکستان اپنی سرزمین اور اپنے عوام کی حفاظت کے لیے سرگرم عمل ہے۔
میجر جنرل احمد شریف چوہدری کے مطابق، حالیہ دہشت گرد واقعات کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں جہاں سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سرگرم ہے۔ یہ بیان اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ پاکستان کو اپنی مغربی سرحدوں پر کس قدر سنگین سیکیورٹی خطرات کا سامنا ہے۔
افغانستان میں موجودہ عبوری حکومت سے جو وعدے لیے گئے تھے، وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی مدد کی ہے، لیکن اس کے باوجود دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کا استعمال کر رہی ہیں، جو کہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی تناؤ کا باعث بن رہا ہے۔
اس بریفنگ کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستانی فوج دہشت گردی کے خلاف اپنی جدوجہد میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ یہ عزم اس بات کا مظہر ہے کہ قومی سلامتی کو کسی بھی قسم کے خطرے سے محفوظ رکھنا پاکستانی افواج کی اولین ترجیح ہے۔
میجر جنرل کمل ہو، بلکہ اس کے ذریعے طویل المدتی امن و استحکام کی بنیاد بھی رکھی جا سکے۔ عالمی برادری کو اس پروسیس میں اپنی مکمل حمایت اور تعاون دینا چاہیے تاکہ مستقل امن کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے۔
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ صرف ایک قدم ہے۔ اس کے علاوہ، دونوں فریقین کو اپنے اپنے عوام کی بہتری کے لئے معاشی اور سماجی اصلاحات پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ اسرائیل کو چاہیے کہ وہ غزہ کے محاصرے کو ختم کرے اور فلسطینیوں کو بنیادی انسانی حقوق اور آزادیاں فراہم کرے۔ اسی طرح، فلسطینی انتظامیہ کو بھی اپنے عوام کی سماجی و اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لئے کوششیں کرنی چاہییں۔
انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف عملی اقدامات اور ان کے مجرموں کو عدالت میں لانے کی بھی ضرورت ہے۔ عالمی قوانین اور معاہدات کی پاسداری اس عمل کے لئے ناگزیر ہے۔ بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس عمل میں شفافیت برقرار رکھیں اور کسی بھی قسم کی جانبداری سے گریز کریں۔
آخر میں، امن کا قیام اور دوام بغیر کسی جامع اور متوازن حل کے ممکن نہیں ہے۔ دونوں جانب سے جراتمندانہ فیصلے کرنے پڑیں گے۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کی راہ میں ہر رکاوٹ کا سامنا کرنے کے لئے عزم و ہمت کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ یہ معاہدہ ایک نئے، پرامن، اور مستحکم مستقبل کی جانب پہلا قدم ثابت ہوگا۔ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ اس عزم کے تحت، ملکی سطح پر امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں، جو کہ علاقائی استحکام کے لئے بھی ضروری ہیں۔
افغان سرزمین کے استعمال کے معاملے میں پاکستانی حکام کی طرف سے بارہا آواز اٹھائی گئی ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی دیگر ریاستوں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، جہاں دہشت گرد تنظیمیں ان علاقوں کو اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ پاکستان کی مستقل مدد کے باوجود، افغانستان کی موجودہ حکومت کی طرف سے عدم عمل درآمد اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
اس پس منظر میں، پاکستان کے سیکیورٹی ادارے، بالخصوص فوج، دہشت گردی کے خلاف اپنی کارروائیوں کو مزید تیز کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا یہ رویہ نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی سراہا جاتا ہے، جیسا کہ متعدد بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی کاوشوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔
آخر میں، پاکستانی فوج کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جاری مہم نہ صرف دہشت گردوں بلکہ ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی ہے، جو کہ پاکستان کی سرزمین پر امن کی بحالی کے لیے ناگزیر ہے۔ اس تناظر میں، میجر جنرل احمد شریف چوہدری کی بریفنگ پاکستانی عوام کے لیے امید کی کرن بھی بنتی ہے کہ ان کے حفاظتی ادارے ہر ممکن حد تک ان کی حفاظت کے لیے سرگرم عمل ہیں اور ملکی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے کوئی کسر ناحمد شریف چوہدری کی تقریر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دہشت گردی کے نیٹ ورک کے خلاف مؤثر اقدامات ان کی فوری ترجیحات میں شامل ہیں۔ پاکستانی افواج نے نہ صرف دہشت گردوں بلکہ ان کے سہولت کاروں اور سرپرستوں کے خلاف بھی سخت اقدامات اٹھائے ہیں، جو کہ خطے میں دیرپا امن و استحکام کے قیام کے لیے ناگزیر ہیں۔
ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کو پناہ دی ہے، اور اس کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی واپسی پاکستان کی معیشت پر بوجھ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔
میجر جنرل چوہدری کی بریفنگ نے بھارتی جانب سے مشرقی سرحدوں پر موجود خطرات اور کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے ماورائے عدالت قتلوں کی بھی نشاندہی کی۔ پاکستان کشمیری عوام کی حق رائے دہی کے حق میں مسلسل حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، اور بھارتی ایجنسیوں کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کرتا ہے۔
یہ بریفنگ نہ صرف پاکستان کی داخلی و خارجی سیکیورٹی پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کس قدر سنجیدہ ہے۔ اس کے علاوہ، ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ بیان کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، قوم کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ حکومت اور فوج کسی بھی دہشت گردی کے خلاف بے رحمانہ اقدامات اٹھانے میں مصروف عمل ہیں۔
اس سنجیدگی کا مظاہرہ پاکستانی فوج کی جانب سے کی جانے والی کوششوں سے بھی واضح ہوتا ہے، جہاں بڑے پیمانے پر آپریشنز کیے گئے ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف دہشت گردوں کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے بلکہ ان کے سہولت کاروں کو بھی روکنے میں مدد دیتا ہے، جو کہ امن و استحکام کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔
مزید برآں، پاکستان کی عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کو بھی سراہا جانا چاہیے۔ پاکستان نہ صرف اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے بلکہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر اس عفریت کو ختم کرنے کی کوششوں میں بھی شامل ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ نے نہ صرف پاکستان کی سیکیورٹی پالیسیوں کی شفافیت کو بڑھایا ہے بلکہ عوام کے درمیان یہ اعتماد بھی بڑھایا ہے کہ ان کی حفاظت کے لیے مسلسل کام کیا جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں جب دہشت گردی جیسے مسائل عالمی سطح پر ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آتے ہیں، پاکستان کی جانب سے یہ قدم نہ صرف قومی بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔
ان اقدامات کے ساتھ، پاکستان نے دکھایا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتا اور اپنے عوام کی سلامتی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیےہیں چھوڑی جائے گی۔
یہ عزم واضح کرتا ہے کہ پاکستان کی دفاعی و سیکیورٹی پالیسیاں کس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید مستحکم اور مؤثر بنائی جا رہی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیانات نے ایک جامع تصویر پیش کی ہے کہ کس طرح سے پاکستانی افواج نہ صرف داخلی خطرات کے خلاف بلکہ خارجی دباؤ اور تنازعات کا بھی مقابلہ کر رہی ہیں۔
مزید برآں، پاکستان کا رویہ کشمیر کے مسئلے پر بھی انتہائی واضح رہا ہے۔ پاکستان کشمیری عوام کی حق خود ارادیت کی حمایت میں سب سے آگے ہے، جو کہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہے۔ اس موقف کا مقصد کشمیری عوام کی آواز کو عالمی سطح پر بلند کرنا اور ان کی جدوجہد کو عالمی توجہ میں لانا ہے۔
پاکستانی فوج کی کارکردگی اور عزم کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ملک نے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو نہ صرف بڑھایا ہے بلکہ داخلی اور خارجی سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے اپنی تیاریوں کو بھی مضبوط بنایا ہے۔ ان کوششوں کا مقصد پاکستان کو ایک محفوظ، مستحکم، اور ترقی پذیر ملک بنانا ہے جہاں ہر شہری کو امن و امان کے ساتھ زندگی گزارنے کے برابر مواقع میسر ہوں۔
یہ سب دکھاتا ہے کہ پاکستانی فوج نہ صرف ملکی دفاع کے لیے بلکہ علاقائی امن و استحکام کے لیے بھی سرگرم عمل ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ نے اس بات کی واضح تصدیق کی کہ پاکستان کی سیکیورٹی اور دفاعی ادارے اپنی کردار کو بخوبی ادا کر رہے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی مستعدی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ نہ صرف داخلی سیکیورٹی کو مضبوط کر رہے ہیں بلکہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
اس سیاق میں، پاکستانی فوج کی کوششیں عالمی سطح پر سراہی جاتی ہیں، کیونکہ ان کی جدوجہد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک اہم جزو کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ یہ کوششیں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے استحکام کا باعث بنتی ہیں۔
پاکستانی فوج کی یہ بھرپور سرگرمیاں دکھاتی ہیں کہ ملکی سلامتی کو کسی بھی خطرے سے بچانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ ملکی سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج کا کردار ناگزیر ہے۔
اس تمام تر معلومات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کتنا سنجیدہ ہے اور اس کے لیے کس قدر مضبوط اقدامات کر رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ سے عوام میں یہ اعتماد بھی بڑھتا ہے کہ ان کے حفاظتی ادارے ہر سطح پر مکمل طور پر چوکس ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی لازوال جدوجہد جاری ہے۔
یہ سب معلومات و تجزیات ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے دفاعی و سیکیورٹی کے عزم کو نمایاں کرتے ہیں، جو کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ایک مثبت رویہ اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اس جنگ میں پاکستان نہ صرف اپنی سرزمین پر امن و استحکام کو یقینی بنا رہا ہے بلکہ خطے میں بھی استحکام کے لئے کوشاں ہے۔
پاکستانی فوج کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے، یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فوج نے نہ صرف داخلی سلامتی میں اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا ہے۔ یہ جنگ صرف ملکی حدود تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی مؤثر شراکت داری کو ظاہر کرتی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ نے اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ پاکستان اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے لئے کسی بھی سطح پر تعاون اور اقدامات کے لئے تیار ہے۔ یہ کوششیں نہ صرف افغانستان بلکہ دیگر ملکوں کے ساتھ بھی سیکیورٹی تعاون کو فروغ دے رہی ہیں۔
میجر جنرل احمد شریف چوہدری کی بریفنگ نے ایک امید بھرا پیغام دیا کہ پاکستانی فوج دہشت گردی کے خلاف اپنے عزم میں ثابت قدم ہے اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی تاکہ ملک کی سلامتی اور خطے کے استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔
ان تمام تر جدوجہد اور کاوشوں کا مقصد ملک میں دیرپا امن و امان اور خوشحالی کا قیام ہے، جو کہ ہر پاکستانی کی آرزو ہے اور فوج کی ان کوششوں کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھرپور سراہا جا رہا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں