آج کی تاریخ

او آئی سی کا کردار اور اسحاق ڈار کا بیان-غزہ اور جموں و کشمیر کی صورتحال

او آئی سی کا کردار اور اسحاق ڈار کا بیان-غزہ اور جموں و کشمیر کی صورتحال

او آئی سی کا کردار اور اسحاق ڈار کا بیان-غزہ اور جموں و کشمیر کی صورتحال
غزہ اور جموں و کشمیردونوں ہی خطے جہاں انسانی المیے روز بروز نئی تاریخ رقم کرتے جا رہے ہیں۔ غزہ میں، جہاں اسرائیلی بمباری سے بچے، خواتین، اور بے گناہ شہری مسلسل موت کی آغوش میں جا رہے ہیں، وہیں جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر ظلم کی انتہا کی جا رہی ہے۔
وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا حالیہ بیان، جو انہوں نے گیمبیا میں او آئی سی کے اجلاس کے دوران دیا، ایک اہم پیش رفت ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی ہونی چاہیے اور مسلسل انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جائے، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسلم ممالک کو متحد ہو کر ایک مؤثر اور فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
او آئی سی، جو کہ مسلم دنیا کی سب سے بڑی بین الحکومتی تنظیم ہے، کا اس سنگین صورتحال میں کردار انتہائی اہم ہے۔ اس تنظیم کو نہ صرف غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں میں سرگرم ہونا چاہیے بلکہ جموں و کشمیر میں بھی انسانی حقوق کی پامالیوں کا سدباب کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
وزیرِ خارجہ کا فلسطینی ریاست کی حمایت کرنا اور اس کی مکمل رکنیت کے لیے او آئی سی کی حمایت کا مطالبہ کرنا ایک جانب تو امید کی کرن ہے، لیکن دوسری جانب یہ بھی دکھاتا ہے کہ مسلم دنیا کو متحد ہو کر ایک مضبوط موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔
اسلاموفوبیا کے خلاف جنگ میں او آئی سی کا کردار نہایت لائق تحسین ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ، اس تنظیم کو جموں و کشمیر کے مسئلے پر بھی مزید فعال اور عملی قدم اٹھانے چاہئیں۔ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے بھارتی مظالم پر روشنی ڈالی ہے، جس کا مقصد بین الاقوامی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کروانا ہے۔
او آئی سی کو چاہیے کہ وہ نہ صرف مذمتی بیانات تک محدود رہے، بلکہ موثر سفارتکاری کے ذریعے عملی اقدامات کو فروغ دے۔ اسحاق ڈار کی باتوں میں واضح تھا کہ اگر مسلم ممالک متحد ہو جائیں تو وہ عالمی سطح پر اہم مسائل پر مؤثر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی اہم ہے کہ او آئی سی ممالک موسمی تبدیلی جیسے بڑے عالمی چیلنجز پر بھی توجہ دیں، کیونکہ یہ مسائل بھی ان کے معاشرتی اور اقتصادی ڈھانچوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کا یہ کہنا کہ “او آئی سی کو عالمی فورم پر مسلمانوں کی آواز بننا چاہیے”، اس بات کی دلیل ہے کہ مسلم دنیا کو اپنی مشترکہ صلاحیتوں کا ادراک ہے۔
تاہم، اس ادراک کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری ہے کہ او آئی سی کے ممبر ممالک اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ غزہ اور جموں و کشمیر میں جاری انسانی بحرانوں کے حل کے لیے یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری، خاص طور پر اسلامی ممالک، متحد ہوکر ایک مضبوط، مؤثر اور یکسوئی سے بھرپور ردعمل دکھائیں۔
اسحاق ڈار کی تقریر میں جو عزم و یکسوئی دیکھنے کو ملی، اسے عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ ان کی باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر او آئی سی کی قیادت میں مضبوطی آئے تو مسلم امہ کی مشکلات میں کمی آ سکتی ہے۔
ایک جانب تو وہ عالمی محاذ پر مسلمانوں کی آواز کو بلند کرنے کی بات کر رہے ہیں، تو دوسری جانب انہوں نے اس بات کا بھی احساس دلایا کہ مسلم ممالک کے داخلی اتحاد کے بغیر عالمی سطح پر اثرانداز ہونا ممکن نہیں۔
او آئی سی کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ وہ جنگ زدہ علاقوں میں جنگ بندیوں کے لئے مزید فعال کردار ادا کرے اور بین الاقوامی فورمز پر زیادہ بھرپور طریقے سے موجود ہو، تاکہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر دنیا کی توجہ مبذول ہو سکے۔
غزہ کی صورتحال پر غور کریں تو یہ ایک طرح کا المیہ ہے جس میں ہر نئے دن بے گناہ انسان مر رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ ایک ایسا قدم ہے جو کہ نہ صرف ضروری ہے بلکہ انتہائی حساس بھی۔ جموں و کشمیر میں بھی، جہاں بھارتی حکومت کی جانب سے جاری ظلم و ستم کی داستانیں ہر روز نئی سنگینی اختیار کر رہی ہیں، او آئی سی کا مؤثر رول اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
اسلاموفوبیا کے خلاف جدوجہد میں او آئی سی کا فعال کردار اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم، ضروری ہے کہ اس جدوجہد کو مزید بڑھاوا دیا جائے اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے خلاف جاری بیانیہ کو تبدیل کرنے کے لئے موثر اقدامات کیے جائیں۔ اس کے لئے او آئی سی کو اپنی سفارتی حکمت عملیوں کو مزید بہتر بنانا ہوگا، تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی مظلومیت کو نمایاں کر سکے اور ان کے حقوق کی بحالی کے لئے زور دے سکے۔
یہ بات ضروری ہے کہ او آئی سی، جس کا بنیادی مقصد مسلم امہ کی آواز کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنا ہے، اپنے ممبر ممالک کے ساتھ مل کر نہ صرف خطے کے مسائل کو حل کرے، بلکہ عالمی مسائل جیسے موسمیاتی تبدیلی، معاشی انحطاط، اور بین الاقوامی سیاسی کشمکشوں میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔
اسحاق ڈار کی اپیل کہ او آئی سی ممالک کو موسمیاتی تبدیلی جیسے چیلنجز کے خلاف متحد ہوکر کام کرنا چاہیے، یہ دکھاتا ہے کہ مسلم دنیا بھی عالمی مسائل کے حل کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتی ہے۔ او آئی سی کے اس قدم سے نہ صرف مسلم ممالک کے درمیان اتحاد مضبوط ہوگا، بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کی آواز کو وزن ملے گا۔
اختتام پر، اسحاق ڈار کی یہ تقریر او آئی سی کے لئے ایک جدید نقطہ نظر کی پیشکش ہے، جس میں عملی اقدامات اور متحدہ جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ او آئی سی کو چاہیے کہ وہ اپنے ممبر ممالک کے ساتھ مل کر عالمی فورموں پر ان معاملات کو اٹھائے جو نہ صرف مسلم امہ کے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے اہم ہیں۔ اسحاق ڈار کی تقریر سے ایک نئے عزم کی لہر دیکھنے کو ملی ہے، اور اب یہ دیکھنا باقی ہےکہ او آئی سی اس عزم کو عملی جامہ کیسے پہناتی ہے۔ ضروری ہے کہ اس تنظیم کی سرگرمیاں محض بیان بازی تک محدود نہ رہیں، بلکہ مؤثر عالمی سفارتکاری اور عملی اقدامات کے ذریعے دنیا بھر میں مسلمانوں کی بہتری اور ان کے مسائل کے حل کی جانب پیش قدمی کی جائے۔
غزہ کی صورتحال اور جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر او آئی سی کا فعال کردار اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔ ان علاقوں میں جنگ بندی اور امن کی بحالی کے لئے مؤثر بین الاقوامی دباؤ میں او آئی سی کی کوششیں کلیدی ہو سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ، اسلاموفوبیا اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ رویوں کے خلاف جدوجہد میں بھی او آئی سی کو زیادہ فعال اور نظریاتی طور پر جارحانہ حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ اسحاق ڈار کی اپیل، کہ مسلم ممالک موسمیاتی تبدیلی جیسے عالمی چیلنجز کے مقابلے کے لیے بھی متحد ہوں، اس بات کا اشارہ ہے کہ او آئی سی کو اپنی سوچ اور عمل دونوں کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمی برادری میں او آئی سی کی موجودگی اور اثرورسوخ کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ مسلم ممالک کی آواز بھی عالمی سیاست میں مؤثر طریقے سے سنی جائے۔ اسحاق ڈار کا بیان نہ صرف او آئی سی کے لئے بلکہ ساری مسلم امہ کے لئے ایک جاگزینی کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں عملیت پسندی، متحدہ جدوجہد، اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
مجموعی طور پر، اسحاق ڈار کی اپیل اور بیانات او آئی سی کے لئے نئے افق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان کی باتوں سے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے، جس میں بین الاقوامی سیاست میں اثرورسوخ کے ساتھ ساتھ داخلی طور پر بھی مضبوط اتحاد کو فروغ دینا شامل ہے۔
مسلمان ممالک کے درمیان باہمی اتحاد و یکجہتی اور ان کی موجودہ اور مستقبل کی نسلوں کے لئے بہترین مستقبل کی ضمانت دینے کے لئے، او آئی سی کو اپنے فیصلوں اور پالیسیوں میں جدت لانی ہوگی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام ممبر ممالک مشترکہ مفادات اور مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے سنجیدگی سے کام کریں۔
غزہ اور جموں و کشمیر کے مسائل پر عالمی سطح پر مؤثر آواز اٹھانا، اسلاموفوبیا کے خلاف مقابلہ کرنا، اور عالمی چیلنجز جیسے موسمیاتی تبدیلی کے مقابلے میں کردار ادا کرنا، او آئی سی کے لئے فوری اور دیرپا اقدامات طلب کرتے ہیں۔
اسحاق ڈار کی تقریر اور ان کی اپیل او آئی سی کے لئے ایک رہنما خطوط فراہم کرتی ہے، جس پر عمل پیرا ہوکر او آئی سی نہ صرف مسلم ممالک کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر سکتی ہے، بلکہ عالمی سطح پر ایک مثبت اور موثر تاثر بھی قائم کر سکتی ہے۔ اسحاق ڈار کے بیانات سے جہاں ایک طرف عزم و یقین کی جھلک ملتی ہے، وہیں دوسری جانب او آئی سی کے لئے ایک نئے عزم کی دعوت بھی۔
اگر او آئی سی ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو یہ نہ صرف مسلم دنیا کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لیے بہت بڑا کارنامہ ہوگی –

نیپرا کی جانب سے اوور بلنگ کیخلاف نئے قوانین کی منظوری

قومی اسمبلی کی جانب سے نیپرا ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے اوور بلنگ پر 3 سال کی سزا کا بل منظور کر لیا گیا ہے، جو کہ صارفین کے لئے ایک خوش آئند خبر ہے۔ اس قانون کی منظوری سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت بجلی صارفین کے مفادات کی حفاظت کے لئے سنجیدہ ہے۔ اوور بلنگ ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے نہ صرف صارفین کو مالی مشکلات میں ڈال رکھا ہے بلکہ اس سے ان کا اعتماد بھی متاثر ہوتا ہے۔
نیپرا کی جانب سے اس قانون کی منظوری اور اس کے نفاذ سے امید کی جا سکتی ہے کہ اوور بلنگ اور غلط بلنگ کے واقعات میں نمایاں کمی آئے گی۔ اس ترمیم کے مطابق، اوور بلنگ کے مرتکب افسران کو نہ صرف معطل کیا جا سکتا ہے بلکہ ان پر مقدمہ چلانے کا بھی اختیار حاصل ہوگا۔ یہ ایک اہم قدم ہے کیونکہ اکثر افسران اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی طریقے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کا کہنا ہے کہ نیپرا اب خود اوور بلنگ پر کارروائی کرے گا، جو کہ ایک منطقی فیصلہ ہے کیونکہ اس سے ایف آئی اے کی بلاوجہ ہراسمنٹ سے بچا جا سکے گا۔ اب ایف آئی اے صرف نشاندہی کرے گی اور نیپرا ہی کارروائی کا مجاز ہوگا۔ اس سے انتظامیہ کے درمیان تعاون بڑھے گا اور ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کا بہتر تعین ہو سکے گا۔
یہ قانون نہ صرف اوور بلنگ کے خلاف ایک مؤثر ہتھار بنے گا بلکہ یہ ٹرانسپیرنسی اور احتساب کے عمل کو بھی مزید مضبوط کرے گا۔ صارفین کو اب یہ اعتماد ہو سکے گا کہ اگر ان کے بلوں میں کسی قسم کی غلطی یا زیادتی ہوتی ہے تو ان کی شکایات کا مناسب طور پر جائزہ لیا جائے گا اور مجرمان کو سزا دی جائے گی۔ اس قانونی ترمیم کے نفاذ سے نہ صرف اوور بلنگ بلکہ بجلی چوری کے واقعات میں بھی کمی آئے گی، کیونکہ افسران کو معلوم ہوگا کہ ان کی ہر حرکت کی نگرانی کی جا رہی ہے اور غلطی کی صورت میں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جا سکتی ہے۔
اس تبدیلی سے نیپرا کی ذمہ داری میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ نیپرا کو چاہیے کہ وہ اپنے نئے کردار کو بخوبی نبھاتے ہوئے، نہ صرف اوور بلنگ بلکہ دیگر مسائل جیسے بجلی کی کمی اور کوالٹی کے مسائل پر بھی توجہ دے۔ اس سے بجلی کی صنعت میں شفافیت اور موثریت میں اضافہ ہوگا۔
یہ نئے قوانین بجلی کے شعبے میں صارفین کے حقوق کی مزید مضبوطی کی طرف ایک قدم ہیں۔ اب ضروری ہے کہ نیپرا اور دیگر متعلقہ ادارے ان قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائیں اور صارفین کو ان کے حقوق کے بارے میں بھرپور آگاہی فراہم کریں۔
اس قانون کی کامیابی کا دارومدار اس کے نفاذ کی شفافیت، موثریت اور بروقت عملدرآمد پر ہے۔ صارفین کی جانب سے شکایات کا جلد از جلد حل اور افسران کی جانب سے کی جانے والی ہر قسم کی زیادتیوں کا بروقت تدارک اس قانون کے اصل مقاصد کو پورا کر سکتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں