آج کی تاریخ

آزادی اظہار کی حفاظت میں وفاقی وزیراطلاعات کا قابل تعریف موقف

آزادی اظہار کی حفاظت میں وفاقی وزیراطلاعات کا قابل تعریف موقف

وفاقی وزیر اطلاعات، عطاء تارڑ کا تازہ بیان، جس میں انہوں نے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنے والے نئے قوانین کی مخالفت کی اور ایپ ایکس کی بندش کو سابق حکومت کا غلط اقدام قرار دیا، ایک اہم اور مثبت پیش رفت ہے۔ یہ بیان نہ صرف آزادی اظہار کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط موقف ہے بلکہ انٹرنیٹ تک رسائی کی آزادی کے لئے بھی ایک سود مند اقدام ہے۔
آج کے دور میں، سوشل میڈیا نے عوامی مکالمہ اور رائے کی آزادی کو فروغ دینے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ ناقابل انکار ہے۔ اس پلیٹ فارم نے لوگوں کو نہ صرف اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی دی ہے بلکہ انہیں معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی مسائل پر بحث میں حصہ لینے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ اس طرح، سوشل میڈیا ایک ڈیجیٹل عوامی میدان کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں ہر آواز کو سنا جا سکتا ہے۔
وفاقی وزیر کا یہ موقف کہ حکومت سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانے کے حق میں نہیں ہے، پاکستان میں آزادی اظہار کے تحفظ اور ڈیجیٹل حقوق کی مضبوطی کی طرف ایک قدم ہے۔ اس سے پہلے، سوشل میڈیا ایپلیکیشنز پر پابندیاں غیر موثر ثابت ہوئیں ہیں اور انہوں نے معاشرتی اور اقتصادی نقصانات کا باعث بنی ہیں۔
ایپ ایکس کی بندش جیسے اقدامات نے نہ صرف نوجوانوں میں مایوسی اور اضطراب بڑھایا ہے بلکہ ان کے کاروباری اور تعلیمی مواقع پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایسے میں وفاقی وزیر کا بیان کہ سابق حکومت کا یہ قدم غلط تھا، ایک امید افزا اشارہ ہے کہ موجودہ حکومت آزادی کی قدر کرتی ہے اور ڈیجیٹل دنیا میں پاکستانیوں کی رسائی کو محدود کرنے کی بجائے اسے بڑھانا چاہتی ہے۔
یہ موقف اہم اس لیے بھی ہے کیونکہ یہ دیگر ممالک کے لئے بھی ایک مثال قائم کرتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے یہ دکھانا کہ وہ اپنے شہریوں کے ڈیجیٹل حقوق کی حمایت کرتا ہے، نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی ساکھ کو بہتر بناتا ہے۔
ہمیں امید ہے کہ وفاقی وزیر کا یہ موقف نہ صرف بیان تک محدود رہے گا بلکہ اس کے تحت آنے والے دنوں میں مزید مثبت اقدامات بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف آزادی کی فضا قائم ہوتی ہے بلکہ یہ پاکستان کو ایک جدید، روشن خیال اور ترقی پسند معاشرہ بنانے میں مدد دیتے ہیں جہاں ہر شخص کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا پورا حق حاصل ہو۔
اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے، ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت مستقبل میں بھی اسی طرح کی مثبت اور شہری حقوق کی حامی پالیسیاں اپنائے گی جو کہ نہ صرف آزادی اظہار کی حفاظت کرے بلکہ ڈیجیٹل دنیا میں پاکستانیوں کی بہتر رسائی کو یقینی بنائے۔\

پاکستان میں بچت کی کم شرح اور اس کے معاشی اثرات

پاکستان میں بچت کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے، جو کہ ایک سنجیدہ معاشی مسئلہ ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران، پاکستان کی بچت کی شرح جی ڈی پی کا اوسطاً 13 فیصد رہی ہے، جو کہ خطے میں سب سے کم ہے۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش میں یہ شرح بالترتیب 32 فیصد اور 37 فیصد ہے۔
بچت کی کم شرح معاشی ترقی کے لئے سرمایہ کی دستیابی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ بچت کی شرح میں اضافے کے لئے فوری اصلاحات کی ضرورت ہے، جس میں قلیل مدتی کھپت کے بجائے طویل مدتی سرمایہ کاری کا انتخاب ضروری ہے۔ یہ تبدیلی بڑی کمپنیوں کی ترقی کو فروغ دے کر پاکستان کی معیشت کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
اگرچہ بچت کی شرحوں کے معاملے کو حل کرنا اہمیت رکھتا ہے، تاہم توانائی، ٹیکسیشن، پالیسیوں، بنیادی ڈھانچے اور گورننس جیسے تمام شعبوں میں جامع اصلاحات کی ضرورت کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے۔ بچت کی زیادہ شرح نہ صرف انفرادی اور ادارہ جاتی سطح پر دانشمندانہ مالی رویے کی عکاسی کرتی ہے بلکہ سرمایہ کاری، سرمائے کی تشکیل اور بالآخر معاشی ترقی کو آگے بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
بچت کی کم شرح میں اہم کردار ادا کرنے والا ایک اہم عنصر ملک میں وسیع پیمانے پر غربت اور عام طور پر کم آمدنی کی سطح ہے۔ غربت کی بلند شرح اورکم بچت کی شرح کا باہمی تعلق ہے، اور اس کے برعکس بچت کی زیادہ شرح اور
خوشحالی ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی تقریبا 39 فیصد آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم فی کس آمدنی کی حامل ہے۔ پاکستان کی تقریبا 60 فیصد آبادی صرف 2 ڈالر یومیہ پر گزارہ کرتی ہے۔ اس سے گزر بسر کا معیار بمشکل پورا ہوتا ہے، جس سے بچت کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔
پاکستان میں رائج رہن سہن کے طریقےاور صارفین کی ذہنیت بھی بچت کی حوصلہ شکنی میں کردار ادا کرتی ہے۔ لوگوں میں قلیل مدتی اخراجات کی عادات عام ہیں، وہ طویل مدتی مالی تحفظ پر فوری خرچ کو ترجیح دیتے ہیں۔
بچت کی کم شرح ضرورت سے بہت زیادہ اخراجات کلچر کی وجہ سے ہے۔ پاکستان میں کاروباری ماحول کی وجہ سے مواقع کی کمی ہے اور پالیسی سازوں کی جانب سے ایکسپورٹ مخالف رویے کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کاروبار میں آسانی کے حوالے سے پاکستان عالمی سطح پر 108 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ بھارت 63 ویں نمبر پر ہے۔ یہ ناسازگار ماحول انٹرپرینیورشپ اور جدت طرازی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، کیونکہ کاروباری افراد کو داخلے میں درپیش رکاوٹوں، حد سے زیادہ سرخ فیتہ، بدعنوانی، اور وسائل اور مدد تک محدود رسائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں نجی سرمایہ کاری میں کمی معیشت میں سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی کی عکاسی کرتی ہے۔ حکومت کی طرف سے بار بار یکطرفہ پالیسی تبدی
لیاں صنعت کے جذبات کو متاثر کرتی ہیں، حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کو ختم کرتی ہیں اور سرمایہ کاری کے لئے ضروری ایکویٹی سرمائے کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔
مایوس کن صورتحال اس حقیقت سے مزید اجاگر ہوتی ہے کہ 2023 میں پی ایس ایکس پر صرف ایک ابتدائی پبلک آفرنگ (آئی پی او) ہوئی تھی۔اس کے موازنہ اگر انڈیا سے کیا جائے تو وہاں پر یہ تعداد57 تھی۔
پاکستان میں لسٹڈ کمپنیوں کو دوہرے ٹیکس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پہلے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 29 فیصد اور پھر ڈیویڈنڈ ڈسٹری بیوشن پر 15 فیصد کے ساتھ 10فیصد سپرٹیکس بھی دینا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس، غیر شامل کاروباری اداروں کو سلیب میں زیروفیصد سے 35فیصد تک مختلف ٹیکس کی شرحوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹیکسوں میں یہ عدم مساوات کارپوریٹائزیشن اور معیشت کو دستاویزی بنانے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے، کیونکہ ان لسٹڈ کاروباری اداروں کو کافی حد تک کم ٹیکسوں سے فائدہ ہوتا ہے۔
پاکستان میں اصلاحات کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک آئی ایم ایف کے ایک اور پروگرام پر مذاکرات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حکومت کو ایسی اصلاحات کا آغاز کرنا چاہیے جو معیشت کو اس کی مخدوش حالت سے بچانے کے لیے کاروبار دوست ماحول پیدا کریں۔
فیصلہ کن کارروائی کے بغیر متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حقیقی معنوں میں خودمختاری اور معاشی استحکام حاصل کرنے کے لئے، حکومت کو ایسی حکمت عملیوں کو ترجیح دینی چاہیے جو بچت کو فروغ دیں، جیسےکہ بچت کے طرز عمل کی حوصلہ افزائی کرنا اور سرمایہ کاری کے مضبوط ماحول کو فروغ دینا۔ برآمدات میں اضافے، اسٹاک مارکیٹ کو مضبوط بنانے اور بچت کے کلچر کو فروغ دینے پر توجہ دے کر پاکستان پائیدار ترقی کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔

نیشنل سائبر کرائمز انوسٹی گیشن ایجنسی کا قیام – مثبت پیش رفت

حکومت پاکستان کا وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے اختیارات ختم کرکے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کا قیام ایک مثبت اور بروقت اقدام ہے۔ یہ نیا ادارہ، جو کہ وزارت داخلہ کے ماتحت ہے، ملک میں سائبر کرائم کے خلاف جدوجہد کو مزید موثر بنانے کا وعدہ رکھتا ہے۔
سائبر کرائم کا مسئلہ دنیا بھر میں پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان بھی اس سے مستثنی نہیں۔ اس لئے این سی سی آئی اے کا قیام نہ صرف ضروری تھا بلکہ اس سے امید کی جاتی ہے کہ یہ ایجنسی سوشل میڈیا پر ملک دشمن عناصر اور دیگر سائبر کرائمز کے خلاف مؤثر اقدامات اٹھائے گی۔ اس اقدام سے نہ صرف قانون کی حکمرانی مضبوط ہوگی بلکہ شہریوں کے ڈیجیٹل حقوق کی حفاظت میں بھی مدد ملے گی۔
تاہم، اس نئے ادارے کی موثریت اس کی شفافیت اور جواب دہی پر منحصر ہے۔ این سی سی آئی اے کو چاہیے کہ وہ اپنے طریقہ کار کو شفاف بنائے، تاکہ عوام کا اعتماد برقرار رہے۔ شفافیت اور جواب دہی کے بغیر، کوئی بھی ادارہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، اہل دانش اور آزادی اظہار کے حامیوں کو تختہ مشق نہ بنایا جائے۔ سائبر کرائم کے خلاف جنگ میں بے گناہوں کی آزادیوں کو محدود کرنا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ یہ قانونی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ این سی سی آئی اے کو چاہیے کہ وہ اپنی تفتیشات میں انصاف اور دیانتداری کو مقدم رکھے۔
مجموعی طور پر، این سی سی آئی اے کا قیام ایک امید افزا اقدام ہے، لیکن اس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ ایجنسی کس طرح اپنے فرائض انجام دیتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ایجنسی کو مکمل آزادی اور وسائل فراہم کرے، تاکہ وہ اپنے اہداف کو مؤثر طریقے سے حاصل کر سکے۔ نیز، اس ایجنسی کی کارکردگی کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جانا چاہیے تاکہ کسی بھی قسم کی غلطی یا بے ضابطگی کو فوراً درست کیا جا سکے۔
ہماری توقعات ہیں کہ این سی سی آئی اے ملک میں سائبر کرائم کے خلاف جنگ میں ایک مضبوط کردار ادا کرے گی اور شہریوں کی آزادیوں کا تحفظ کرتے ہوئے شفافیت کے ساتھ کام کرے گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں