آج کی تاریخ

عالمی یوم مزدور: پاکستان میں مزدور دوست اصلاحات اور جدید مہارتوں کی تربیت کی ضرورت

عالمی یوم مزدور: پاکستان میں مزدور دوست اصلاحات اور جدید مہارتوں کی تربیت کی ضرورت

عالمی یوم مزدور: پاکستان میں مزدور دوست اصلاحات
اور جدید مہارتوں کی تربیت کی ضرورت
ہر سال یکم مئی کو عالمی یوم مزدور منایا جاتا ہے، جو دنیا بھر کے مزدوروں کی جدوجہد، قربانیوں اور حقوق کی یاد دلاتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ دن بڑی تعظیم کے ساتھ منایا جاتا ہے، لیکن یہ تقریبات اکثر صرف رسمیات تک محدود رہ جاتی ہیں جبکہ مزدوروں کے حقیقی مسائل اور ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لئے عملی اقدامات کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔
پاکستان، جہاں صنعتی شعبے میں لاکھوں افراد محنت کش طبقے کے طور پر کام کرتے ہیں، وہاں ان مزدوروں کو درپیش مشکلات کا حل تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں جبکہ دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور نئی مہارتوں کی ضرورت اہم ہوتی جا رہی ہے، ہمارے مزدوروں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور ان کی مہارتوں کو بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ مزدور دوست اصلاحات متعارف کروائیں جو کہ نہ صرف مزدوروں کے روزمرہ کے حقوق کی حفاظت کریں بلکہ انہیں آنے والے کل کے لئے تیار بھی کریں۔ ان اصلاحات میں سب سے پہلے مزدوروں کے لئے محفوظ اور صحتمند کام کے ماحول کی فراہمی شامل ہونی چاہیے۔
علاوہ ازیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ مزدوروں کے لئے جدید مہارتوں کی تربیت کے مواقع فراہم کرے، جیسے کہ ڈیجیٹل مہارتیں‘مشینری کی دیکھ بھال، اور دیگر ٹیکنیکل اسکلز جو کہ موجودہ وقت میں بہت ضروری ہیں۔ ان تربیتی پروگراموں کو وسیع پیمانے پر متعارف کروانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر طبقے کا مزدور ان سے استفادہ کر سکے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت مزدوروں کے لئے سماجی تحفظ کے نظام کو مزید موثر بنائے۔ مزدوروں کو ہر قسم کی حادثاتی اور صحت سے متعلقہ سہولیات مہیا کرنے کے علاوہ، ان کے بچوں کے لئے تعلیمی وظائف اور دیگر فلاحی اقدامات کو بھی فروغ دینا چاہیے۔
صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے صوبوں کے صنعتی شعبوں میں مزدوروں کے لئے خصوصی تربیتی مراکز قائم کریں جہاں وہ نہ صرف جدید مہارتیں سیکھ سکیں بلکہ اپنی پروفیشنل ترقی کے لئے ضروری گائیڈنس بھی حاصل کر سکیں۔ ان مراکز کو ایسے ڈیزائن کیا جانا چاہیے کہ وہ مزدوروں کو مارکیٹ کی تبدیل شدہ ضروریات کے مطابق تیار کر سکیں۔
اس کے علاوہ، ٹیکنالوجی کے شعبے میں تربیت حاصل کرنے والے مزدوروں کو خصوصی مراعات اور سبسڈیز فراہم کی جانی چاہیے تاکہ وہ اس شعبے میں اپنی مہارتوں کو بروئے کار لا کر ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
یوم مزدور کے موقع پر ہماری حکومت اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ان تمام تجاویز پر غور کریں اور مزدوروں کی بہتری کے لیے موثر اقدامات اٹھائیں۔ صرف اس طرح سے ہم اپنے ملک کے مزدوروں کو ان کا حقیقی مقام دلا سکتے ہیں اور پاکستان کو ایک خوشحال اور ترقی پذیر ملک بنا سکتے ہیں-

معیشت میں استحکام کی نئی امید

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پیر کو پاکستان کے لیے ایک اہم مالی امداد کی منظوری دی، جو کہ 1 ارب 10 کروڑ ڈالر پر مشتمل ہے۔ یہ رقم آئی ایم ایف کی اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے تحت جاری کی جائے گی، جس کا مقصد پاکستان کی معیشت میں استحکام برقرار رکھنا اور مالیاتی چیلنجز سے نمٹنا ہے۔
گزشتہ ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستانی حکام کے مذاکرات کے بعد، ایس بی اے کے دوسرے اور آخری جائزے کی تکمیل پر یہ فنڈز جاری کیے جانے کا فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے کی روشنی میں، پاکستان کو مزید مالی استحکام اور میکرو اکنامک بحالی کی طرف بڑھنے میں مدد ملے گی۔
بریٹن ووڈس کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی حکام کو اپنی پالیسیوں اور اصلاحات کی کوششوں کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مضبوط اور پائیدار بحالی کی جانب پیش قدمی کی جا سکے۔ پاکستان کا مقصد اب ایک بڑے اور طویل مدتی معاہدہ کے ذریعے میکرو اکنامک استحکام حاصل کرنا ہے۔
حالیہ ملاقاتوں میں، جو سعودی عرب میں ورلڈ اکنامک فورم کے دوران وزیراعظم شہباز شریف اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان ہوئیں، پاکستان کی معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ اس دوران وزیراعظم نے پاکستانی مالیاتی ٹیم کو ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنے اور مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنے کی ہدایات جاری کیں۔
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے اس پروگرام کی تکمیل کو مثبت قرار دیتے ہوئے، پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں میں بہتری اور معاشی استحکام کی بحالی کی تعریف کی گئی۔ آئی ایم ایف کی نائب منیجنگ ڈائریکٹر اینٹونیٹ سیح نے کہا کہ پاکستان نے مالیاتی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر مہنگائی پر قابو پانے، حکومتی ملکیتی اداروں میں اصلاحات اور پروگرام کے دوران میکرو اکنامک حالات میں بہتری لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
آئی ایم ایف کے اس فیصلے کے بعد، پاکستان کے لیے اب اہم چیلنج یہ ہوگا کہ وہ ان اصلاحات کو جاری رکھے اور مزید مؤثر پالیسیاں تیار کرے تاکہ مستقبل میں مالیاتی استحکام اور پائیدار ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی، مرکزی بینک کی جانب سے سخت مانیٹری پالیسی کا موقف اور غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ جیسے اقدامات کو بھی جاری رکھنے کی ضرورت ہوگی۔
اس پیشرفت سے پاکستان کی معیشت کو مستقبل میں کس طرح فائدہ ہوگا، یہ وقت ہی بتائے گا، لیکن یہ ضرور ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے دی جانے والی یہ امداد پاکستان کے لیے نئے دور کی ابتدا کر سکتی ہے جس میں مالی استحکام اور اقتصادی ترقی دونوں کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے گی۔

پاکستان کی سیاسی بساط پر چلتی بڑھتی چالیں

پاکستانی سیاست کے حالیہ دور میں جو رنگینیاں اور نزاکتیں دیکھنے میں آئیں، وہ کسی دلچسپ ڈرامے سے کم نہیں۔ حکومتی اور اپوزیشن بنچز کے درمیان کی جمود کی حالت، جو کہ پچھلے ہفتے میں نرم پڑتی نظر آئی، اب کچھ زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ دونوں دھڑوں میں موجود برف آہستہ آہستہ پگھلتی نظر آ رہی ہے اور اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ شاید اب کچھ بہتری آ سکے۔
اس تمام تر پیش رفت کے دوران، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کردار سب سے زیادہ دلچسپ رہا۔ پارٹی کے اندر سے متضاد بیانات کا آنا اور اس کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے مختلف شرائط کا مطالبہ، اس بات کا ثبوت ہے کہ پارٹی کے اندر کوئی واضح سمت نہیں۔ پی ٹی آئی ایک طرف تو مذاکرات کا اشارہ دیتی ہے، لیکن دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصفیہ کی کوشش بھی جاری رکھتی ہے، جو کہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے۔
مذاکرات کی میز پر آنے والے ہر فریق کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مذاکرات کا مطلب ہتھیار ڈالنا نہیں بلکہ باہمی احترام اور تفہیم کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ مثلاً، پی ٹی آئی کا یہ مطالبہ کہ ان کی “چوری ہوئی” نشستیں واپس کی جائیں، ایک جائز تقاضا ہو سکتا ہے لیکن اسے مذاکرات کی میز پر عملی اور مثبت رویے کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔
اس کے علاوہ، پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت، بالخصوص عمران خان کی قید، ایک اور اہم مسئلہ ہے جسے حکومت کو فوری طور پر حل کرنا چاہیے۔ یہ نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ پاکستان کی جمہوری صحت کے لیے بھی ضروری ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو آزادی سے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے دی جائے۔
آنے والے دنوں میں، پی ٹی آئی اور حکومت دونوں کو چاہیے کہ وہ مزید تعمیری اور جمہوری طریقہ اپنائیں۔ اگر پی ٹی آئی اپنے مطالبات کو منطقی اور قابل عمل بنانے میں کامیاب ہوتی ہے، اور حکومت بھی اپوزیشن کے ساتھ معاملات کو زیادہ شفافیت اور انصاف کے ساتھ ہینڈل کرتی ہے، تو یقینی طور پر پاکستان کی سیاست میں ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ دونوں فریق جمہوری اصولوں کا دامن تھامیں اور پاکستان کی سیاسی بساط پر ایک نئے اور روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں