نیشنل ریگولیٹری اتھارٹی – نیپرا آج کل سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی – سی پہ پی اے و دیگر کی جانب مئی کے بجلی کے بلوں میں ایندھن کی قیمت میں اضافی 2 روپے 94 پیسے شامل کرنے کی درخواست کی سماعت کر رہی ہے- اگر یہ درخواست قبول کرلی جاتی ہے تو بجلی کے صارفین کو مئی کے بجلی کے بلوں میں 22 ارب 80 کروڑ روپے اضافی دینا ہوں گے اور لگتا ہے یہ اضافہ بھی مان لیا جائے گا جیسے کہ فروری کے بجلی کے بلوں میں ایندھن کی لاگت میں اضافہ منظور کرلیا تھا-
نیپرا کے چیئرمین وسیم مختار نے دوران سماعت بتایا کہ نیشنل گرڈ پاور سسٹم میں پانی سے تیار ہونے والی بجلی 26 فیصد سے زائد تھی جس کو استعمال ہی نہیں کیا گیا جبکہ ہائیڈرو پاور پر ایندھن کی لاگت بالکل بھی نہیں ہے – دوسری طرف مقامی کوئلے سے تیار کردہ بجلی نیشنل گرڈ میں 15 فیصد تھی جس میں سے صرف 10ء5 فیصد بجلی استعمال کی گئی جبکہ اس پر ایندھن کی لاگت کم پڑتی ہے- نیشنل گرڈ سے زیادہ تر بجلی کی سپلائی درآمدی کوئلے سے بننے والی بجلی سے کئی گئی جو کہ جس کی ایندھن لاگت بہت زیادہ ہے – دوسرے نمبر پر مقامی گیس سے پیدا بجلی کی سپلائی 11 فیصد تھی جبکہ اسے 15 فیصد ہونا تھا جس کی فی یونٹ لاگت گیس ٹیرف میں اضافے کے سبب 7 روپے 92 پیسے سے بڑھ 13 روپے 68 پیسے ہوگئی – جبکہ آر ایل این جی سے پیدا شدہ بجلی کا شئیر نیشنل گرڈ سسٹم میں 3 فیصد سے کم ہونا تھا جو بڑھ کر 20 فیصد تک جا پہنچی جبکہ اس سے پیدا بجلی کا فی یونٹ 23 روپے 84 پیسہ بنتا ہے- اس تفصیل سے صاف پتا چلتا ہے کہ بجلی کے فی یونٹ لاگت میں 2 روپے 94 پیسے کے اضافے کا سبب ایک تو ہائیڈرو بجلی گھروں کی بجلی نہ استعمال کرنا ، دوسرا کم لاگت والے مقامی کوئلے و گیس سے چلنے والے بجلی گھروں کی بجلی کا کم استعمال اور درآمدی کوئلے و گیس سے چلنے والے بجلی گھروں کی بجلی کا مقرر کردہ ہدف سے زیادہ استعمال ہے – بجلی کی قیمت میں اضافے کا ایک دوسرا سبب سالانہ بیس ٹیرف میں 26 فیصد اور چار ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ میں 10 فیصد اضافہ ہے اور اس کی بنیادی وجہ بجلی کی کھپت میں کمی ہے جس سے کیپسٹی چارجز میں اضافہ ہوا ہے یعنی بجلی کے صارفین سے انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسر کی جانب سے نہ پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت بھی وصول کی جا رہی ہے جو انھوں نے استعمال ہی نہیں کی ہے – نیشنل پاور گرڈ سسٹم میں 79 فیصد بجلی وہ ہے جو مقامی زرایع سے پیدا کی جاتی ہے-
سرکاری پاور ڈویژن کی یہ نا اہلی ہے کہ وہ صنعتی سیکٹر کو سستی بجلی کی فراہمی کا میکنزم بنانے میں ناکام رہا ہے جو اگر بنا ہوتا تو بجلی کی کھپت میں اضافہ کرکے ایک طرف تو انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے سارے بجلی گھروں کی مکمل استعداد کے مطابق بجلی پیدا کرکے ان کا استعمال ممکن بنایا جا سکتا تھا تو دوسری جانب مقامی کوئلے اور گیس سے بجلی بنانے والے کارخانوں سے پیدا ہونے والی ساری بجلی کو بھی زیر استعمال لایا جا سکتا تھا اور یوں بجلی کے صارفین پر مئی کے بلوں میں 22 ارب 80 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ نہ پڑتا –
نیپرا نے مارچ میں فروری کے بجلی کے بلوں میں ایندھن لاگت میں اضافی چارج کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے بھی یہ کہا تھا کہ صارفین سے بجلی کے بلوں میں جو اضافی چارجز وصول کیے جا رہے ہیں اس کی وجہ وجہ فنانس ڈویژن، پاور ڈویژن، سی پی پی اے اور پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں، نیشنل ٹرانسمیشن لائنز کمپنی کی نوکر شاہی کی نا اہلی ہے – عوام ایک طرف اس نوکر شاہی کی نا اہلی کی سزا بجلی کے بلوں میں ایندھن میں لاگت کے اضافی چارجز کی صورت میں بھگت رہے ہیں دوسرا وہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی جانب سے بجلی چوری پر قابو نہ پانے اور نیشنل ٹرانسمیشن لائنز کے انتہائی خستہ نظام کی وجہ سے ہونے والے لائن لاسز سے ان پر ڈالے جانے والے اس نقصان کی قیمت ادا کرنے کی صورت میں بھگت رہے ہیں – پھر بجلی کی کھپت کم ہونے کے سبب انھیں کیپسٹی چارجز کی مدد میں ادائیگی کی صورت میں بھگت رہے ہیں – پاکستان کے عام ٹیکس دہندگان کو ڈسکوز کے اربوں روپے کے خساروں کی ادائیگی ٹیکسز میں اضافے کی صورت میں بھگتنا پڑ رہے ہیں – پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ بھی ہر سال ایک بڑے بوجھ کی صورت ٹیکس صارفین کو بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ حکومت کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارا اس سے خوفناک شکل اختیار کرتا ہے جس کو حدود میں رکھنے کے لیے حکومت بلند ترین شرح سود پر مقامی بینکوں سے قرضے لیتی ہے جن کی ادائیگی بھی اس ملک کے ٹیکس دہندگان کو کرنا پڑتی ہے – حکومت نے آج تک پاور سسٹم سے جڑی نوکر شاہی کی ملازمت اور مراعات کو ان کی کارکردگی سے مشروط نہیں کیا اور نہ ہی ان کی نا اہلی پر کوئی سزا مقرر کی ہے الٹا اس نے پاور سسٹم سے منسلک بیوروکریسی کی تنخواہوں اور مراعات میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے – وہ آئی ایم ایف سے ہر بار قرض پروگرام لیتے ہوئے پاور سیکٹر میں سٹرکچرل اصلاحات متعارف کرانے کے وعدے تو کرتی رہی ہے لیکن اس نے ان کا نفاذ کبھی نہیں کیا – مہنگی بجلی نے صنعتی سیکٹر ہو یا زراعت کا شعبہ ہو وہاں پر کاروبار کی لاگت اور زرعی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے – ہمارے صنعت کار اپنی مصنوعات کو بین الاقوامی منڈی میں ان کی مہنگی قیمت کے سبب مسابقت کی شدید فضا میں بیچنے سے معذور دکھائی دیتے ہیں اور اس وجہ سے ہماری ایکسپورٹ 2013ء سے مسلسل زوال پذیری کا شکار ہے اور اس نے ایکسپورٹ و امپورٹ کے درمیان عدم توازن کو شدید کیا ہے اور اس سے ہمارا ادائیگیوں کا توازن بگڑا ہے اور ہمیں بار بار اپنے سالانہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز میں کٹوتی کرنا پڑی ہے جس سے معشیت سست روی کا شکار ہوئی ہے جس سے بہت کم نوکریاں پیدا ہو رہی ہیں اور ملک میں کاروباری سرگرمیاں سست ہوئی ہیں اور ہم تعلیم،صحت و دیگر سماجی خدمات کے لیے بہت رقوم مختص کر پا رہے ہیں- اور معاشی نمو کے ایک فیصد ہونے اور افراط زر کے 27 فیصد ہونے کی وجہ سے ہمارے سفید پوش اور غریب طبقات کی حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے – غربت کی شرح 40 فیصد ہوگئی ہے اور ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق نئے مالی سال میں مزید ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے خط غربت سے نیچے گر جانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے- اس ساری صورتحال سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موجودہ نظام کس قدر نا انصافی اور ظلم کا سبب بن رہا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے منتخب نمائندوں ، غیر منتخب ھئیت مقتدرہ خاص طور پر بابو شاہی کو اس کا ذرا بھی احساس نہیں ہے اور وہ مرے کو مارے شاہ مدار کے مقولے پر عمل پیرا ہے – حال ہی میں وفاقی وزیر خزانہ نے امریکہ میں عالمی مالیاتی فنڈ -آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے عہدے داروں سے ملاقات کے دوران اور امریکی انٹلانٹک کونسل کے سیمینار میں جو گفتگو کی اس میں بھی انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ معشیت کو بحران سے نکالنے کا سب سے بنیادی حل سرکاری انٹرپرائز میں سٹرکچرل اصلاحات کا فی الفور نفاذ ہے جس کے لیے راست اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے – لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ راست اقدام کب اٹھایا جائے گا؟ اس سوال پر تو خود وفاقی وزیر خزانہ متذبذب نظر آتے ہیں –
غزہ کی تباہی: عالمی برادری کی ذمہ داریاں اور امن کی آشا
غزہ کی موجودہ صورتحال ایک انسانی المیہ ہے جس کا انجام نہ صرف فلسطینیوں کے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ شہر کے کھنڈرات میں تبدیل ہونے کی خبریں اور وہاں کے باشندوں کی بے پناہ مشکلات کی داستانیں دل دہلا دینے والی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اہلکار کی جانب سے یہ بتانا کہ غزہ میں ملبہ ہٹانے میں تقریباً 14 سال لگ سکتے ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ صورتحال کتنی سنگین ہے۔
اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو عملی طور پر ایک بڑے قبرستان میں تبدیل کر دیا ہے جہاں معصوم شہریوں کی جانیں بلاوجہ نذر ہو رہی ہیں۔ ہزاروں لوگ شہید و زخمی ہو چکے ہیں اور لاکھوں بے گھر۔ یہ نہ صرف ایک سیاسی تنازعہ ہے بلکہ ایک وسیع تر انسانی بحران بھی ہے جو بین الاقوامی برادری کی توجہ اور فوری عمل کا مطالبہ کرتا ہے۔
یو این ایم اے ایس کے سینئر افسر پہر لودھمار کے مطابق، ملبے کی موجودگی میں نہ پھٹنے والے بارودی سرنگوں کا شامل ہونا غزہ کے عوام کے لیے مسلسل خطرہ بنا ہوا ہے۔ یہ بارودی سرنگیں نہ صرف موجودہ نسل کے لئے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی ایک دائمی خطرہ سمجھی جا سکتی ہیں۔
ان حالات میں بین الاقوامی برادری کا کردار انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔ عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو صرف سیاسی یا جغرافیائی نہ سمجھیں بلکہ ایک انسانی المیہ کے طور پر دیکھیں اور فوری طور پر اس کے حل کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں۔ انہیں چاہیے کہ امن کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے موثر اور جامع منصوبہ بندی کریں جس میں غزہ کے مکینوں کی ضروریات کو ترجیح دی جائے۔ انسانی حقوق کی پامالیوں کا سدباب اور عدل کی فراہمی اس عمل کے بنیادی جزو ہونے چاہیے۔
غزہ میں رہنے والے لوگوں کو درپیش بنیادی مسائل میں بھوک، بیماری، بے گھری اور تعلیم کا فقدان شامل ہیں۔ ان مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے عالمی امدادی تنظیموں کو زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان تنظیموں کو ملبہ ہٹانے کے عمل میں تیزی لانی چاہیے تاکہ جانی نقصان کو مزید کم کیا جا سکے اور عام زندگی کی بحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔
اسرائیلی حملوں کی وجہ سے غزہ کے علاقے میں بڑھتی ہوئی تباہی اور موت کا سلسلہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا بھی باعث بن رہا ہے۔ عالمی عدالتوں اور سلامتی کونسل کو چاہیے کہ وہ اس جارحیت کے خلاف سخت اقدامات کریں اور اسرائیل کو زمینی حقائق کی روشنی میں جوابدہ ٹھہرائیں۔
علاوہ ازیں، میڈیا کا کردار بھی ان حالات میں انتہائی اہم ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسندی کے ساتھ ان واقعات کی کوریج دے، تاکہ دنیا بھر کے لوگوں کو ان حالات کی سنگینی کا ادراک ہو سکے۔ اس طرح کی بے لاگ رپورٹنگ عالمی رائے عامہ کو متحرک کر سکتی ہے جو بدلے میں دلوں میں تبدیلی لانے کی کوشش میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں میڈیا کا اہم فرض ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف زمینی حقائق کو عیاں کرے بلکہ انسانی دکھ درد کو بھی عالمی سطح پر اجاگر کرے تاکہ عالمی برادری کی ذمہ داریاں واضح ہوں۔
فلسطینی عوام کی مدد کے لیے دنیا بھر سے انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی آگے آئیں۔ یہ تنظیمیں نہ صرف مالی اور انسانی وسائل کی فراہمی میں مدد کر سکتی ہیں بلکہ بین الاقوامی فورمز پر اس مسئلہ کو اٹھا کر زور دے سکتی ہیں کہ فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق ملنے چاہئیں اور ان کی زمینوں پر غیر قانونی قبضے کا خاتمہ ہو۔
اس کے ساتھ ساتھ، اسرائیل کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں کا جائزہ لے اور فلسطینی عوام کے ساتھ امن کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرے۔ دیرپا امن صرف مذاکرات اور باہمی احترام کی بنیاد پر قائم کیا جا سکتا ہے۔
اخیر میں، یہ بات اہم ہے کہ بین الاقوامی برادری غزہ میں جاری تباہی اور انسانی بحران کے سدباب کے لیے فوری، مربوط اور موثر کارروائی کرے۔ غزہ کے باشندوں کی مدد اور ان کی آواز کو بلند کرنے کا یہ وقت نہایت نازک ہے، اور ہمیں ان کے ساتھ اپنی انسانیت کے ناطے دیکھنا چاہیے۔ اس عالمی المیہ میں بین الاقوامی تعاون اور فعال کردار کی سخت ضرورت ہے تاکہ غزہ کے عوام کو ایک بہتر اور محفوظ مستقبل کی امید دی جا سکے۔