آج کی تاریخ

پنجاب کی گندم پالیسی،کسان دشمنی کا نیا روپ

پنجاب کی گندم پالیسی،کسان دشمنی کا نیا روپ

پنجاب کی حالیہ گندم پالیسی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ حکومتی اقدامات میں کسانوں کی بہبود کا تصور محض ایک فریب ہے۔ گندم کی اس پالیسی کے نتیجے میں جہاں ایک طرف مڈل مین اور آڑھتی مالا مال ہو رہے ہیں، وہیں پنجاب کے غریب کسانوں کو اپنی محنت کی کمائی ہاتھ سے نکلتی نظر آ رہی ہے۔ اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمتوں میں کمی کے باعث پنجاب کے کسانوں کو 564 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے، جبکہ حکومتی سپورٹ پرائس پالیسی نے انہیں مزید معاشی بوجھ تلے دبا دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر حکومت کسانوں کی اتنی بڑی تعداد کو نظرانداز کیوں کر رہی ہے؟ محکمہ زراعت پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق، پنجاب میں اس وقت ایک کروڑ 64 لاکھ ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی گئی ہے، جس کی مالیت اگر سپورٹ پرائس پر محاسبہ کیا جائے تو 3198 ارب روپے بنتی ہے۔ لیکن حکومت نے خود اپنے ہدف کے مطابق صرف 22 لاکھ ٹن گندم خریدنے کا فیصلہ کیا، جو کہ کل پیداوار کا صرف 59.8 فیصد ہے۔ اس سے کسانوں کو کیسے فائدہ پہنچے گا؟
مزید برآں، جنوبی پنجاب کے کسان، جو پنجاب کی کل گندم کاشت کا 46.41 فیصد بنتے ہیں، ان کی معاشی حالت بھی اس پالیسی کی وجہ سے مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ کسانوں نے حکومتی پالیسی کو کسان دشمن قرار دیتے ہوئے اپنی آواز بلند کی ہے، لیکن نہ تو اسمبلیوں میں اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان کی تباہی پر کوئی ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کسان ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ان کے بغیر نہ صرف زراعت بلکہ پوری معیشت متاثر ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کی محنت کی قدر کرے اور انہیں ان کی فصل کا مناسب معاوضہ دے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پالیسیوں میں شفافیت لائی جائے اور کسانوں کو معاشی فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے تاکہ وہ اپنی فصلوں کا بہتر معاوضہ حاصل کر سکیں اور ان کا استحصال روکا جا سکے-

پنجاب کے تھانوں میں انسانیت سوز رویوں کا عکس

پنجاب کے تھانوں میں بے بسی اور بے یارومددگار لوگوں کی داد رسی نہ ہونے کے واقعات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ راجن پور کا واقعہ، جہاں ایک مظلوم شخص نے پولیس کی بے حسی کی وجہ سے خود سوزی کی کوشش کی، یہ ہمارے معاشرے کی اخلاقی پستی کی نشانی ہے۔ اس شخص کو جس طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی والدہ کو بے عزت کیا گیا، وہ انتہائی شرمناک ہے۔ اس کے باوجود، جب وہ انصاف کی طلب گار بن کر تھانے گئے، تو انہیں صرف مایوسی ہاتھ آئی۔
اس طرح کے واقعات پنجاب پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ اگر پولیس اپنے بنیادی فرائض سے غافل ہو جائے تو عوام کہاں جائیں گے؟ انصاف کے تقاضے تو دور کی بات، بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی میں ناکامی نے پولیس کے وجود کو متنازعہ بنا دیا ہے۔
اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ پولیس کی تربیت میں اخلاقیات اور انسانی حقوق کا پہلو شامل کیا جائے۔ پولیس اہلکاروں کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ عوام کے خادم ہیں، نہ کہ حاکم۔ ان کا کام عوام کی حفاظت کرنا اور انہیں انصاف فراہم کرنا ہے۔
مزید برآں، پولیس کی جانب سے کسی بھی شکایت کی فوری سماعت کے لیے ایک مؤثر نظام وضع کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے تکنیکی حل، جیسے آن لائن شکایتی پورٹلز اور اپلیکیشنز کا استعمال بھی ایک مفید قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی ترقی اور سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد کو بغیر کسی تفریق کے بنیادی حقوق اور انصاف فراہم کیے جائیں۔ پنجاب پولیس کو اپنے فرائض کا احساس دلاتے ہوئے ان کی کارکردگی میں بہتری لانا ہوگی تاکہ مستقبل میں ایسے اندوہناک واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
پنجاب پولیس نے جو ایس او پیز مقدمات کے اندراج کے لیے دیے ہیں، ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی شکایت عام ہے۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب کے سرائیکی وسیب کے پولیس تھانوں میں، جہاں اکثر شکایات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ راجن پور میں ایک شخص کی خود سوزی کی کوشش اسی بے بسی کی داستان سناتی ہے، جہاں پولیس نے واضح دستورالعمل کے باوجود مقدمہ درج کرنے میں تاخیر کی۔
ویب پورٹلز اور فون کالز کے ذریعے شکایات کا نظام بھی محض خانہ پوری تک محدود رہ گیا ہے۔ آئی جی پنجاب پولیس کے دعوے کہ سنگین جرائم پر فوری انصاف فراہم کیا جائے گا، عملی جامہ نہیں پہن سکے۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا جنوبی پنجاب کے پولیس تھانوں میں ایس او پیز پر عملدرآمد ممنوع ہے؟
سرائیکی وسیب کے عام آدمی، جو سفارش یا طاقتور سابقوں کے سہارے سے محروم ہیں، انہیں تھانوں میں ذلیل کرنے کی کھلی اجازت دی گئی ہے؟ ان حالات میں پولیس کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ پولیس کے اخلاقی اور پیشہ ورانہ تربیتی پروگراموں میں اصلاحات، شکایتی نظام کی مؤثریت کو بڑھانے، اور انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے۔
ہمیں اپنے نظام کو ایسا بنانا ہوگا کہ ہر شہری کو بلاامتیاز انصاف میسر آ سکے اور پولیس کے دفاتر عوام کے لیے امید کی کرن بن سکیں، نہ کہ مایوسی کا سبب۔

قرضوں کی بڑھتی ہوئی لہر اور اس کا تدارک

پاکستان کے معاشی افق پر قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ایک تشویشناک رجحان ہے جو ملک کے مستقبل کے لیے خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ رواں مالی سال 2023-24 کے پہلے نو ماہ میں حکومتِ پاکستان نے تقریباً 6.899 بلین ڈالر کے قرضے حاصل کیے ہیں، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران حاصل کردہ 7.764 بلین ڈالر کے قرضوں سے کم ہے۔ تاہم، اس تناظر میں یہ کمی بھی اس بات کی عکاس نہیں کہ ملک کا قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا پانے کا کوئی واضح منصوبہ موجود ہے۔
مالیاتی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ حکومت قرضوں کی موجودہ پالیسیوں میں نمایاں تبدیلیاں لائے۔ اس سلسلے میں چند تجاویز پیش کی جا سکتی ہیں:
معاشی نمو کو فروغ دینے کے لیے داخلی سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافہ ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملکی سطح پر صنعتی اور زرعی شعبے میں اصلاحات متعارف کروائے جو کہ معیشت کی پائیداری کو بڑھا سکیں اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کریں۔
قرضوں کا استعمال مخصوص ترقیاتی منصوبوں کے لیے ہونا چاہیے جن کے مثبت معاشی اثرات طویل المدتی ہوں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان قرضوں کی تفصیلات کو عوام کے سامنے پیش کرے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر قرض کا استعمال ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے کیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈز اور دیگر اداروں کے ساتھ مذاکرات کے دوران زیادہ سازگار شرائط پر زور دینا چاہیے تاکہ قرضوں کی شرائط ملک کی معاشی حالت کے مطابق ہوں۔
ایک جامع مالی پالیسی ترتیب دی جائے جو کہ ملک کے مالیاتی وسائل کا بہترین استعمال یقینی بنائے اور معیشت کی خود انحصاری کو فروغ دے۔
ترقیاتی مالی امداد اور گرانٹس کا استعمال موثر پروجیکٹس کے لیے کیا جائے جو کہ ملک کی اقتصادی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔
یہ تجاویز حکومت کو قرضوں کے بڑھتے ہوئے حجم کو نہ صرف کنٹرول کرنے میں مدد دے سکتی ہیں بلکہ ملک کی معیشت کی پائیدار بنیادوں پر ترقی کو بھی یقینی بنا سکتی ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں