آج کی تاریخ

ماحولیاتی صحافت کی قیمت: ہندوستان میں مافیا کے ہاتھوں صحافیوں کی ہلاکت

ماحولیاتی صحافت کی قیمت: ہندوستان میں مافیا کے ہاتھوں صحافیوں کی ہلاکت

ہندوستان میں ماحولیاتی تباہی کے عناصر میں کئی مافیاز کا کردار ہے، جن کی سرگرمیاں نہ صرف قدرتی وسائل کی بے دریغ استحصال میں ملوث ہیں بلکہ انہوں نے ماحولیاتی صحافت کے لئے بھی خطرات کو بڑھا دیا ہے۔ “رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز” (آر ایس ایف) کے مطابق، گزشتہ دس سالوں میں ماحولیاتی صحافیوں پر تشدد اور قتل کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جن میں بڑی تعداد میں ریت مافیا اور دیگر غیر قانونی کان کنی کے نیٹ ورکس شامل ہیں۔وزیراعظم نریندر مودی کے دس سالہ دور حکومت کے دوران ہندوستان میں ہلاک ہونے والے 28 صحافیوں میں سے تقریباً نصف ماحولیات سے متعلقہ خبروں پر کام کر رہے تھے۔ یہ ایک بڑھتی ہوئی تشویشناک صورتحال ہے جسے ہندوستان کے عام انتخابات کے موقع پر اجاگر کیا گیا ہے تاکہ امیدواروں اور عوام کی توجہ اس جانب مبذول کروائی جا سکے۔ریت مافیا، جو کہ منظم جرمی گروہ ہیں، غیر قانونی طور پر ریت کی کھدائی کرتے ہیں اور اس کی فروخت سے ہندوستان کی تعمیراتی صنعت کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ یہ مافیا اکثر سیاسی حمایت کے سائے میں فعال ہوتا ہے اور جب بھی کوئی صحافی ان کی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتا ہے تو انہیں خاموش کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیا جاتا ہے۔آر ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق، ان صحافیوں کی ہلاکتیں نہ صرف ان کے خاندانوں کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہیں بلکہ یہ ہندوستان کے جمہوری نظام میں موجود ایک بڑے خلاء کی نشاندہی بھی کرتی ہیں۔ صحافیوں کی حفاظت اور ان پر ہونے والے تشدد کے جرائم کے خلاف بے سزائی کا خاتمہ، ان انتخابات کا مرکزی موضوع ہونا چاہیے جس میں وزیراعظم مودی دوبارہ انتخاب چاہتے ہیں۔ہندوستان کو میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کی حفاظت کے لئے سنجیدہ اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی صحافت کو تحفظ فراہم کرنا صرف اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ ایک جمہوری ضرورت ہے، کیونکہ یہ ہندوستان کو اپنے قدرتی وسائل کی حفاظت اور ان کے پائیدار استعمال کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔

سانحہ بارش: خیبر پختونخوا میں قدرتی آفت کی دہائی

پشاور: خیبر پختونخوا میں حالیہ بارشوں کے دوران ایک دن میں تقریباً دو درجن انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، جس سے صوبہ میں موت کی مجموعی تعداد 59 تک پہنچ گئی، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق۔ اہلکاروں اور ریسکیو ذرائع نے بتایا کہ بعض علاقوں میں زندگی معطل ہو گئی ہے کیونکہ مسلسل چوتھے دن بھی بارشیں تباہی مچا رہی ہیں، جس میں کم از کم 21 افراد کی جانیں گئیں اور متعدد گھرانے تباہ ہوگئے۔یہ صورتحال، جو ہر سال بار بار دہرائی جاتی ہے، ایک بھیانک یاد دہانی ہے کہ ہمارے سماجی و ادارتی ڈھانچے کتنے کمزور ہیں۔ ہم بارشوں کی تباہ کاریوں کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے میں مستقل ناکام رہے ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں بلکہ بنیادی ڈھانچہ بھی تباہ ہو رہا ہے۔بچوں اور خواتین کی اموات کی اکثریت اور بارشوں کے دوران چھتوں کا گرنا، سڑک حادثات، اور ڈوبنے کی وجہ سے ہونے والی اموات، ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہیں کہ ہماری بنیادی ترجیحات کہاں ہونی چاہییں۔ ان معصوم جانوں کا ضیاع نہ صرف ایک ذاتی سانحہ ہے بلکہ ایک قومی المیہ بھی ہے جو ہر سال دہرایا جاتا ہے۔مختلف علاقوں میں بجلی کی بندش اور سڑکوں پر ٹریفک کا معطل ہونا صرف ان حادثات کی شدت کو بڑھاتا ہے۔ ہمارے ردعمل کی کمزوری اور ناکافی تیاری ہمیں بار بار یہ سبق سکھاتی ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ہمیں اپنے انفراسٹرکچر اور ردعملی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ہمیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہمارے پاس ایک جامع اور موثر ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم موجود ہو، جو نہ صرف ان آفات کی پیش بندی کرے بلکہ ان کے نتائج سے نمٹنے کے لیے بھی تیار ہو۔ ادارہ جاتی اصلاحات، کمیونٹی تربیتی پروگرامز، اور موثر انفراسٹرکچر تعمیر نو، یہ سب اقدامات ہیں جو فوری طور پر اٹھائے جانے چاہییں۔یہ سانحات ہمیں بار بار ایک ہی سبق سکھاتے ہیں: اگر ہم اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے درکار تیاری نہیں کرتے، تو ہم ہر بار ناصرف انسانی جانوں کی قیمت ادا کریں گے بلکہ ہمارا سماجی و اقتصادی ڈھانچہ بھی متاثر ہوگا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اس ضرورت کو سمجھے اور عملی اقدامات اٹھائے، تاکہ آئندہ کے لیے ہم ایسے المیوں کی روک تھام کر سکیں۔

مواقع اور چیلنجز: پاکستان کی سولر پینل لوکل مینوفیکچرنگ پالیسی

پاکستان میں سولر انرجی کے فروغ کے لیے حکومت کی جانب سے نئی سولر پینل لوکل مینوفیکچرنگ اور الائیڈ ایکوپمنٹ پالیسی 2024 کا اجرا ایک اہم قدم ہے۔ اس پالیسی کا مقصد ملکی سطح پر سولر انرجی سیکٹر کی ترقی اور خود انحصاری کو بڑھاوا دینا ہے۔ اس پالیسی کے تحت حکومت نے مینوفیکچررز کو متعدد مراعات کی پیشکش کی ہے، جس میں ٹیکس اور ٹیرف میں چھوٹ شامل ہے، تاکہ مقامی پیداوار کو فروغ دیا جا سکے۔یہ پالیسی پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے نئے راہیں کھول سکتی ہے۔ سولر پینلز اور متعلقہ آلات کی مقامی تیاری سے نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہوگا بلکہ بیرونی ممالک کے سرمایہ کار بھی پاکستان کی جانب متوجہ ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایسی پالیسیاں ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی سودمند ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ سولر انرجی کو فروغ دینے سے کاربن کے اخراج میں کمی آئے گی۔پالیسی کے نفاذ میں بھی کئی چیلنجز ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج مقامی صنعتوں کی تیاری کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔ پالیسی کے تحت مینوفیکچرنگ فرموں کو پیداواری صلاحیت 01 گیگاواٹ سے بڑھا کر 10 گیگاواٹ تک لے جانا ہوگی، جو کہ ایک بڑا ہدف ہے۔ اس کے علاوہ، ٹیکنالوجیکل اپ گریڈیشن اور معیاری خام مال کی دستیابی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہو سکتی ہے۔پاکستان کو اپنی موجودہ پالیسیوں میں لچکداری اور جدت طرازی کو بڑھانا ہوگا تاکہ نہ صرف مقامی صنعتیں ترقی کر سکیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر مسابقتی بھی بن سکیں۔ اس کے علاوہ، حکومت کو چاہیے کہ وہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے موثر اور شفاف پالیسیاں وضع کرے۔پاکستان کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ اپنے اقتصادی اور ماحولیاتی مقاصد کو حاصل کر سکے۔ سولر انرجی کی مقامی تیاری سے نہ صرف انرجی کے شعبے میں خودکفالت حاصل ہوگی بلکہ مستقبل میں ماحول دوست ترقی کی بنیاد بھی مضبوط ہوگی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں