آج کی تاریخ

کراچی دھماکہ: انٹیلیجنس کی ناکامی اور بلوچستان کی جانب توجہ کی ضرورت

کراچی دھماکہ: انٹیلیجنس کی ناکامی اور بلوچستان کی جانب توجہ کی ضرورت

کراچی دھماکہ: انٹیلیجنس کی ناکامی اور بلوچستان کی جانب توجہ کی ضرورت
کراچی میں تازہ خودکش بم دھماکہ ایک المناک واقعہ ہے جس نے نہ صرف معصوم جانوں کو نگل لیا بلکہ سیکورٹی اور انٹیلیجنس اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ 19 اپریل، 2024 کو کراچی کے علاقے لانڈھی میں جاپانی آٹو ورکرز کو لے جانے والے قافلے پر ایک خودکش حملہ آور نے حملہ کیا جو کہ ایک بڑی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس واقعہ نے دو اہم سوالات کو جنم دیا ہے: پہلا، کیوں سیکورٹی ادارے اس قسم کے حملہ کی پیشگی اطلاع فراہم کرنے میں ناکام رہے، اور دوسرا، کیوں ضروری حفاظتی تدابیر عمل میں نہ لائی گئیں؟
جہاں تک انٹیلیجنس اداروں کی بات ہے، یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ان کی اطلاعاتی معلومات کا نظام مؤثر نہیں رہا۔ کراچی میں خودکش حملہ انٹیلیجنس کی ایک بڑی ناکامی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ اس علاقے میں خطرہ موجود ہونے کے باوجود، حملہ آوروں کو روکنے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے گئے۔
حکومتی ردعمل بھی قابل غور ہے۔ اگرچہ سرکاری بیانات میں خودکش حملے کو ناکام بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے، مگر یہ ایک طرفہ نقطہ نظر ہے جو زمینی حقائق کو نظرانداز کرتا ہے۔ جاپانی ورکرز کی بچت کو سراہا جا رہا ہے مگر مقامی شہریوں کی حفاظت کے لئے کوئی مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے۔
اس تراجدی نے نہ صرف سیکورٹی نظام کی خامیوں کو بے نقاب کیا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے عام شہریوں کی جان کی قدر و قیمت کے لئے کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی۔ اس سے بڑھ کر، ان حملات کے بعد بلوچ اکثریتی علاقوں میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشنز کا آغاز کر دیا گیا، جس نے مقامی آبادی میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی ہے۔ ان آپریشنز کے دوران بلوچ سیاسی کارکنان اور عام شہریوں کی گرفتاریاں اور ان پر تشدد، بالخصوص خواتین و بچوں کے ساتھ بدسلوکی، نے معاشرے میں مزید بے اطمینانی اور بے چینی کو جنم دیا ہے۔
اس طرح کے واقعات میں سیکورٹی اداروں کی بربریت صرف ان مسائل کو مزید پیچیدہ کرتی ہے جن کا سامنا پاکستان پہلے ہی کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بڑھتی ہوئی رپورٹس نے انٹرنیشنل کمیونٹی میں پاکستان کی ساکھ کو مزید متاثر کیا ہے، جو کہ ملک کی بین الاقوامی پوزیشن کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں، ایسے واقعات جہاں غیر ملکی باشندوں کی حفاظت کی جاتی ہے لیکن مقامی شہریوں کی حفاظتی اقدامات نظرانداز کیے جاتے ہیں، پاکستان کے لئے مزید بین الاقوامی دباؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔ جاپانی ورکرز کی حفاظت کے لئے کوششیں قابل تحسین ہیں، مگر مقامی شہریوں کی جان کی حفاظت کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جانی چاہیے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سانحہ کی شفاف تحقیقات کروائے، نہ صرف حملہ آوروں کے خلاف بلکہ ان سیکورٹی خامیوں کے خلاف بھی جن کی وجہ سے یہ حملہ ممکن بنا۔ ان تحقیقات کے نتائج کو عام کرنا ضروری ہے تاکہ شہریوں کا اعتماد بحال ہو سکے اور مستقبل میں ایسے حملوں کی روک تھام میں مدد مل سکے۔
اس کے علاوہ، پاکستان کو اپنی داخلی سیکورٹی پالیسیوں میں تبدیلی لانی چاہیے، جس میں خاص طور پر مقامی آبادیوں کی حفاظت اور ان کے حقوق کی ضمانت دینا شامل ہے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان بلوچستان کے معاملے کو فوجی حل کے بجائے سیاسی اور سماجی حل کی طرف لے جائے، جس میں بلوچ عوام کی شکایات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ان کے جائز مطالبات کو پورا کیا جائے۔
مزید برآں، حکومت کو بلوچ نمائندہ سیاستدانوں اور سماجی کارکنوں کے ساتھ مفاہمتی مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔ یہ مذاکرات بلوچستان کے سوال پر مرکزی حکومت کی سمجھ بوجھ اور حل تلاش کرنے کی خواہش کو ظاہر کر سکتے ہیں۔
ایک مؤثر اور جامع سیکورٹی اور انٹیلیجنس نظام کی تشکیل، جو کہ مقامی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے، اور ایسے واقعات کی پیشگی اطلاع فراہم کر سکے، ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت کارروائی کرنے والے قوانین کی موجودگی اور ان پر عملدرآمد، حکومتی و سیکورٹی اداروں کی طرف سے بلوچ آبادی کے ساتھ معاملات میں شفافیت اور انصاف پر مبنی رویہ اپنانا ضروری ہے۔
یہ واقعات نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی برادری کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوجی طاقت کے ذریعے نہیں لڑی جا سکتی؛اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی حل بھی تلاش کیے جائیں۔ یہ اہم ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت اور سیکورٹی ادارے ان عوامل کو پہچانیں جو دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں، اور ان کے خاتمے کے لیے جامع حکمت عملی اپنائیں جو کہ عوام کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کا احترام کرے۔
پاکستان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کرے اور انسانی حقوق کے عالمی معیارات کے مطابق خود کو ڈھالے۔ اس سے پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ میں بہتری آئے گی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری و تعاون کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
ان تمام کوششوں کے ساتھ، پاکستان کو اپنی داخلی سیاسی استحکام کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ بلوچستان کے سیاسی حل کی جانب پیشرفت نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ قومی سطح پر بھی استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے علاقائی اور قومی سطح پر امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئے گی اور پاکستان کے دیرینہ مسائل حل کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔
آخر میں، ہر سطح پر شفافیت اور جوابدہی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت، سیکورٹی ادارے، اور سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ عوام کے ساتھ کھل کر بات چیت کریں اور ان کے مسائل و خدشات کو سنجیدگی سے لیں۔ اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف داخلی سطح پر اعتماد بحال ہوگا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی مثبت تصویر پیش کی جا سکے گی، جو کہ امن و ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔اسی طرح کے معاملات میں حکومتی اور سیکورٹی اداروں کی توجہ اور کارروائیاں صرف جوابی حملوں یا فوری اقدامات تک محدود نہیں رہنی چاہئیں، بلکہ انہیں ایک طویل مدتی، جامع اور بنیادی حل تلاش کرنے پر مرکوز کرنا چاہیے۔ بلوچستان کے مسئلے کی جڑوں تک پہنچنے اور وہاں کی عوام کی اصل ضروریات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت وہاں کی مقامی آبادی کے ساتھ براہ راست مکالمہ کرے۔
سیاسی مصالحت کے عمل میں مقامی رہنماؤں اور عوام کی شمولیت انتہائی اہم ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کو یقین دلانا کہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں، اس عمل کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔
اس کے علاوہ، سیکورٹی اداروں کو بھی اپنے طریقہعدلیہ کے اصولوں کو یقینی بنانا ہوگا۔ انسانی حقوق کی پامالیوں کے واقعات کی مؤثر تحقیقات اور ان میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ضروری ہے تاکہ عوام کا سیکورٹی اداروں پر اعتماد بحال ہو سکے۔
تعلیم و ترقی کے پروگراموں کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے تاکہ بلوچستان کے عوام کو معاشی استحکام فراہم کیا جا سکے اور ان کے روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو۔ اس سے انہیں دہشت گردی اور شدت پسندی کی طرف راغب ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی حکومت اور سیکورٹی ادارے بلوچستان کی عوام کے ساتھ ایک مثبت اور تعمیری مکالمہ قائم کر کے اس خطے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ مکالمہ نہ صرف مقامی مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوگا بلکہ یہ پورے ملک کے لیے امن و استحکام کی راہ ہموار کرے گا۔
ان تمام اقدامات کے ساتھ، پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اپنی شبیہ کو بہتر بنانے اور اپنے داخلی مسائل کو حل کرنے کی جانب سنجیدہ قدم اٹھانے ہوں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام حکومتی و غیر حکومتی شراکت دار مل کر کام کریں اور ایک جامع اور دیرپا حل تلاش کریں جو کہ تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔

نیب کی دھار کم کرنے کے بعد بیوروکریسی کی جدیدیت کی طرف قدم

نیب (نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو) کی تلوار جو ملازمتوں کے سر پر لٹکی ہوئی تھی، اب اگر اس کا خاتمہ ہو جائے تو یہ بھی ایک چھوٹا معجزہ ہی سمجھا جائے گا۔ تاہم، ہمیں اب ایک بڑے معجزے کی ضرورت ہے کہ مردہ بیوروکریسی کو ایک جدید، زیادہ مؤثر انتظامی مشینری میں تبدیل کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو نیب کو بے دانت کرنا صرف سول سرونٹس کی جیت ہوگی، ملک کی نہیں۔
اس وقت کی صورتحال زیادہ کچھ طلب کرتی ہے؛ اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو فراہم کرے۔ بیوروکریسی، جو کہ ایک طویل عرصے سے مختلف مسائل کی جڑ رہی ہے، اب جبکہ نیب کے دباؤ سے نسبتاً آزاد ہے، کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ایک نئے عہد کے لیے تیار کرے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ بیوروکریسی کریسی حی کے لیے جامع منصوبہ بندی کرے۔ انتظامیہ کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ یہ ملک کی ترقی کی راہ میں ایک ناگزیر قدم بھی ہے۔ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم، تکنیکی مہارتوں اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دے –
بیوروکریسی کی کارکردگی بہتر ہو سکے اور وہ عوام کی خدمت میں زیادہ مؤثر طریقے سے اپنا کردار ادا کر سکے۔ علاوہ ازیں، اس اصلاحی عمل میں شفافیت اور جوابدہی کے عناصر کو مرکزی حیثیت دی جانی چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے اور سرکاری اداروں پر عوام کا بھروسہ مضبوط ہو۔
ایک جدید اور مؤثر بیوروکریسی کے قیام کے لیے حکومت کو اپنے اہداف واضح کرنے ہوں گے، جن میں سے ایک اہم ترین ہدف یہ ہونا چاہیے کہ سرکاری مشینری کو ایسا بنایا جائے کہ وہ عوام کے لیے نہ صرف قابل رسائی ہو بلکہ ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کا باعث بھی بن سکے۔ اس کے لیے نوکرشاہی میں انوویشن کو اہمیت دی جانی چاہیے، جیسے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال، جو کہ کارکردگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ شفافیت کو بھی یقینی بنا سکتے ہیں۔
نیب کی دھار کم ہونے کے بعد اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوروکریسی کو ایک جدید، مؤثر اور جوابدہ نظام میں تبدیل کرے۔ یہ عمل نہ صرف سرکاری ملازمین کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک جیت ہوگی۔
اس سلسلے میں، حکومت کو چاہیے کہ وہ موجودہ قوانین و ضوابط کا جائزہ لے اور انہیں اصلاح کے عمل سے گزارے تاکہ بیوروکریسی کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔ مثلاً، زیادہ سے زیادہ خدمات کو آن لائن منتقل کرنا، جس سے نہ صرف وقت کی بچت ہوگی بلکہ رشوت سطانی اور بدعنوانی کے مواقع بھی کم ہوں گے۔
علاوہ ازیں، سرکاری ملازمین کی تربیت و تعلیم کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا جانا چاہیے۔ انہیں نہ صرف جدید تکنیکی مہارتوں سے آراستہ کیا جائے، بلکہ ان کی سماجی و اخلاقی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جائے تاکہ وہ عوام کے ساتھ بہتر طریقے سے پیش آ سکیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت کارکردگی کی بنیاد پر ملازمین کی ترقیات اور ان کی جوابدہی کے نظام کو مزید مؤثر بنائے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف یہ کہ سرکاری مشینری مزید موثر بنے گی، بلکہ سرکاری ملازمین کو بھی اپنی کارکردگی میں بہتری لانے کی ترغیب ملے گی۔
اس تمام عمل کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو بھی اس اصلاحی عمل میں شامل کیا جائے۔ عوامی رائے اور تجاویز کو سننا اور ان پر عمل پیرا ہونا حکومت کی جانب سے شفافیت کی ایک مثال ہو سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ بیوروکریسی میں اصلاحات کو عوامی تائید ملے گی، بلکہ یہ بھی ثابت ہوگا کہ حکومت عوام کی بھلائی اور خدمت کے لیے پرعزم ہے۔
یقیناً، نیب کی دھار کم ہونے کے بعد اب حکومت کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ وہ بیوروکریسی کو جدید خطوط پر استوار کرے اور ایک ایسا نظام تشکیل دے جو نہ صرف مؤثر بلکہ عوام دوست بھی ہو۔ اس طرح کی اصلاحات کا تقاضا ہے کہ سرکاری مشینری میں جوابدہی، شفافیت اور افادیت کو فروغ دیا جائے۔
ان اصلاحات کے لیے ایک مضبوط مانیٹرنگ اور تقویم کا نظام بھی قائم کرنا ہوگا، جس کے ذریعے مختلف محکموں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے اور انہیں مسلسل بہتر بنانے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ یہ نظام عوامی شمولیت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ، اداروں میں بہتری لانے کے لیے ضروری تبدیلیوں کو بھی متعارف کرائے گا۔
بیوروکریسی کی اصلاح کا یہ عمل صرف ایک جامع پالیسی اور قوی عزم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس عمل کو ایک ملکی ترجیح کے طور پر لے، تاکہ عوام کی خدمت کے لیے ایک بہتر اور مؤثر ماحول بنایا جا سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام حکومتی و غیر حکومتی شراکت داروں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور تعاون ہو۔
آخر میں، اگرچہ نیب کی دھار کم ہونے کا عمل ایک مثبت پیش قدمی ہو سکتی ہے، مگر اصل کامیابی اسی صورت میں حاصل ہوگی جب حکومت اور بیوروکریسی ان اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوں گے۔ یہ نہ صرف بیوروکریسی بلکہ پورے ملک کے لیے ایک حقیقی جیت ہوگی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں