سن 2017ء میں تحریک لیبک پاکستان -ٹی ایل پی کی جانب سے لانگ مارچ کے فیض آباد دھرنے میں تبدیل ہونے اور اس کو ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے سے روکنے میں ناکامی کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے سپریم کورٹ پاکستان نے جو کمیشن قائم کیا تھا، اس کمیشن کی رپورٹ بدھ کے روز جاری کی گئی۔
رپورٹ کی خواندگی کے بعد جو پہلا تاثر قائم ہوا اور اس تاثر کی میڈیا رپورٹ میں گونج سنائی دی وہ یہ تھا کہ فیض آباد کمیشن نے اپنے سب سے بنیادی کام کو تو سر انجام ہی نہیں دیا – اس نے سرے سے ذمہ داروں کا تو تعین ہی نہیں کیا – انکوائری کمیشن نے اس معاملے میں براہ راست ذمہ داری کسی بھی حکومتی عہدے دار پر ڈالنے سے گریز کیا – کیوں؟ پھر اس کمیشن کو قائم کرنے کا کیا فائدہ ہوا؟ اس کے لیے سرکاری خزانے سے جو فنڈز خرچ ہوئے ، ان کا کیا جواز بنتا ہے؟
فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کے جو ٹرمز آف ریفرینسز- ٹی او آرز بنائے گئے تھے ان میں صاف لکھا ہے :
اس بات کا کھوج لگایا جائے کہ کیا ٹی ایل پی کے دھرنے کے شرکاء کو غیرقانونی مالی امداد اور دوسری سہولیات فراہم کی گئیں؟
ان لوگوں کی نشاندہی جنھوں نے اس دھرنے کے لیے فتوے جاری کیے اور ان کے خلاف تادیبی کاروائی کی سفارش
کسی افسر یا عوامی نمائندے کی جانب سے کسی قانون کی خلاف ورزی کی گئی اور اس پر جو تاوان بنتا ہو اس کی سفارش کرنا
حکومتی اداروں بشمول انٹیلی جنس اداروں میں افسران اور اہلکاروں میں سے ذمہ داروں کا تعین اور ان کے خلاف مجوزہ اقدامات اٹھائے جانے کی سفارش
ٹی او آرز کی روشنی میں رپورٹ کا جائزہ بتاتا ہے کہ درج بالا ٹی او آرز میں کمیشن کے جن فرائض کا ذکر تھا ان کو ادا ہی نہیں کیا گیا اور کوئی عملی اقدامات اٹھانے کی سفارش ہی نہیں کی گئی –
رپورٹ یہ تو ذکر کرتی ہے کہ دھرنے کے معاملے میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہی نہیں کیا گیا اور اس حوالے سے بنائے ہوئے ایس او پیز سے مکمل انحراف برتا گیا لیکن اس کی ذمہ داری کن پر عائد ہوتی ہے اور ان کے خلاف کیا اقدامات کرنے چاہیں اس کا ذکر ہی نہیں ہے –
رپورٹ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ کرنے اور ایس او پیز سے انحراف کی وجہ سے سیکورٹی ایجنسیوں ، پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان کوآرڈینیشن کی سنگین کمی کا تو ذکر کرتی ہے لیکن اس کے ذمہ دار کون سے عوامی نمائندے اور سیکورٹی افسران ہیں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔اس رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے آئی ایس آئی کو احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات کرنے کو کہا اور ڈی جی رینجرز کو ان کے خلاف آپریشن کرنے کو کہہ دیا – اس آپریشن کو سر انجام دینے کے دوران 7 لوگوں کی اموات ہوئیں جبکہ 250 ایف سی اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ آپریشن کی قیادت آئی جی اسلام آباد نے کی – یہ ایس او پیز کی خلاف ورزی تھی کیونکہ فوجی و نیم فوجی سیکورٹی ادارے سویلین انتظامیہ کی مدد کے لئے ہوتے ہیں اور ایسی کاروائی کی قیادت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، کمشنر اور پولیس سربراہ نے کرنا ہوتی ہے – لیکن اس انحراف کا ذمہ کون ہے اس پر بھی رپورٹ خاموش ہے-
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایات کی روشنی میں اسلام آباد پولیس نے آپریشن شروع کیا لیکن وہ آپریشن اسلام آباد پولیس اور راولپنڈی پولیس کے درمیان کوآرڈینیشن نہ ہونے کے سبب ناکام رہا جبکہ راولپنڈی پولیس نے ٹی ایل پی کے مارچ میں شریک لوگوں کو راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہ اٹھائے- کمیشن رپورٹ اس کا پتا نہیں لگا سکی کہ راولپنڈی پولیس کو دھرنے کے شرکاء کو اسلام آباد داخل ہونے سے نہ روکنے کا حکم کس نے دیا تھا یا یہ اس کا اپنا فیصلہ تھا؟
امن و عامہ ، قانون نافذ کرنا اور بین الاضلاعی سرحدوں پر کنٹرول کی ذمہ داری پولیس کی ہوتی ہے لیکن یہ ذمہ داری بھی رینجرز اور ایف سی پر ڈالی گئی – یہ کس نے کیا؟ اس سوال کا جواب بھی کمیشن کی رپورٹ فراہم نہیں کرتی –
سابق صوبائی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو کمیشن نے پیش ہونے اور اپنا بیان ریکارڈ کرانے کو کہا اور انھیں کئی بار یاد دہانی مراسلے بھیجے گئے ، لیکن وہ کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوئے ، نہ ہی کمیشن نے ان کے پیش نہ ہونے پر سپریم کورٹ پاکستان کو مطلع کیا- کیوں؟ یہ سوال بھی جواب کا منتظر ہے۔
کیا کمیشن نے ازخود یہ فیصلہ لیا کہ وہ اس معاملے میں ریاستی عہدے داروں کی غلطیوں اور ناکامیوں کی پردہ پوشی کرے اور اپنے ٹی او آرز کی خلاف ورزی کرے؟ یا ریاست نے خود اپنے عہدے داروں کی غلطیوں اور فرائض سے غفلت بارے ایمانداری نہ برتنے کا فیصلہ لیتے ہوئے خفیہ طریقے سے کمیشن کو اس طرح کے کام پر مجبور کیا؟ یہ سوال اس رپورٹ کے مندرجات کو پڑھ کر فوری پیدا ہوتا ہے – جب تک ریاست اپنے اہلکاروں کی غلطیوں پر پردہ ڈالے رکھے گی اور اس بارے دیانت نہیں برتے گی تب تک ایسے بحران کے موقعہ پر حماقتوں کا جنم ہوتا رہے گا اور انہیں دوہرایا جاتا رہے گا – یہ رپورٹ کس قدر کمزور اور بے عملی پر مبنی ہے اس کا اندازہ خود وزیر دفاع خواجہ آصف کے تبصرے سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے اس رپورٹ پر غیر مستند اور ساکھ سے محروم ہونے کا الزام عائد کیا ہے – خواجہ آصف نے سوال اٹھایا ہے کہ کمیشن کے سامنے دھرنے کے وقت کے مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر اشفاق باوجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پیش کیوں نہ ہوئے؟ انھوں نے ان دونوں کو فیض آباد دھرنے کے مرکزی کردار قرار دیا ہے اگرچہ وہ اپنی پارٹی کے اس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی غیر حاضری کی نشاندہی کرنے سے قاصر رہے اور یہ سوال بھی نظر انداز کر گئے کہ کمیشن کے سامنے اس وقت کے چیف منسٹر پنجاب میاں محمد شہباز شریف اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پیش کیوں نہ ہوئے؟
کمیشن کے سامنے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ڈی جی آئی ایس آئی کی حاضری بڑی اہمیت کی حامل بنتی تھی کیونکہ اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ احس اقبال نے کمیشن کو جو بیان ریکارڈ کرایا اس میں انھوں نے دعوا کیا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے اجازت لیے بغیر اور ان سے ملاقات سے پہلے ہی ٹی ایل پی کی قیادت سے ایک معاہدہ کرچکے تھے جس کے تحت شرکا واپس ہونے تھے اور انھیں واپس جانے کا سرکاری فنڈز سے کرایہ اور ٹرانسپورٹ بھی مہیا کی جانی تھی لیکن کمیشن کے سامنے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے پیش نہ ہونے سے نہ تو احسن اقبال کے دعوے کی تصدیق و تردید ہو پائی اور نہ ہی اس سوال کا جواب مل سکا کہ اگر ڈی جی آئی ایس آئی نے ٹی ایل پی سے مذاکرات اور معاہدہ وفاقی حکومت سے اجازت لیے بغیر کیا تھا تو اس پر عمل درآمد کیوں کیا گیا؟ سینٹ آف پاکستان کے سابق چئیرمین میاں رضا ربانی کا فیض آباد کمیشن رپورٹ پر مشاہدہ اور رائے بھی قابل غور ہے جس میں انھوں نے الزام لگایا ہے کہ کمیشن رپورٹ میں سارا الزام بادی النظر میں پنجاب حکومت پر ڈال دیا گیا ہے اگرچہ کسی پنجاب حکومت کے کسی عہدے پر براہ راست ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے –
مسلم لیگ نواز کے حامی حلقوں میں اس رپورٹ کے مندرجات پر ناراضگی یا کم از کم عدم اطمینان نظر آ رہا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ کمیشن نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اس دھرنے کے دوران آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید نے منتخب سویلین اتھارٹی اور حکومت کو بائی پاس کیا تھا – جبکہ دوسری جانب سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید سے منسوب یہ بیان میڈیا رپورٹ میں درج ہوا کہ انھوں نے ٹی ایل پی کی قیادت سے مذاکرات اور معاہدہ وفاقی حکومت سے اجازت ملنے کے بعد کیا تھا- لیکن وہ کمیشن کے سامنے یہی موقف بیان کرنے کے لیے پیش کیوں نہ ہوئے ؟ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اس پر خاموش کیوں ہیں اور وہ حقیقت سامنے کیوں نہ لائے؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ بنیادی اہمیت کے حامل ہیں –
مسلح افواج پاکستان کے سابق سربراہ جنرل قمر باوجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی پر نواز لیگ کے سابق دور حکومت میں پی ٹی اے کے سربراہ اور معروف صحافی ابصار عالم نے اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال ، چند ایک ہاؤسنگ سوسائٹیز اور ٹی وی چینلز کے مالکان کے مبینہ اغوا میں ملوث ہونے اور ان سے سے بھاری رقوم بٹورنے کے الزامات عائد کیے ہیں – اس سے یہ تاثر پختہ ہوا ہے کہ فوج اور انٹیلی جنس کے سابق سربراہان اپنے ذاتی مفادات کے لیے اپنے اختیارات اور اپنے اداروں کی طاقت کا ناجائز استعمال کرتے رہے ہیں – ایک فنانشل ویکلی میگزین نے فوجی فاونڈیشن کے حال میں بھی مدت ملازمت سے پہلے سبکدوش ہونے والے سربراہ کی سابق آرمی چیف کی طرف سے تعیناتی کے ذریعے سے اپنے عزیز و اقارب کی فوجی فاونڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تعیناتی اور مالی مفادات حاصل کرنے کے الزامات پر مبنی تحقیقاتی رپورٹ بھی شایع کی ہے – یہ انتہائی سنگین الزامات ہیں جن کو یونہی چھوڑ دیا جانا خود فوجی اسٹبلشمنٹ کی ساکھ پر سوال کھڑے کرے گا اور ان کے خلاف سوشل میڈیا پر اٹھائے جانے والے سوالات کو طاقتور کرے گا – یہاں پر کچھ حلقے یہ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا طاقت اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات پر تحقیق و تفتیش کا دائرہ سابق فوجی و انٹیلی جنس قیادت تک ہی محدود رہے گا؟ جو الزامات سابق آرمی چیف کیانی، سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اور ان سے مبینہ اتحاد میں کھڑے نواز شریف پر لگے جن میں سے ایک الزام اس ٹرائیکا پر سن 2013ء کے عام انتخابات میں مداخلت کرنے اور نواز شریف کو آراوز کے ذریعے حکومت بنانے میں مدد کرنے کے لگے ان کی تحقیقات بھی کی جائے گی ؟ جیسے یہ سوال بہت ہی ٹھیک ہے کہ فیض آباد دھرنے کے دوران سابق فوجی و انٹیلی جنس سربراہوں کے سویلین اتھارٹی سے انحراف اور ان کہ جانب سے اپنے اختیارات سے آگے جاکر اقدامات اٹھانے پر جواب دہی کیوں نہیں کی گئی؟ ویسے یہ سوال بھی اہم ہے کہ صرف باجوہ و فیض حمید ہی کیوں؟ کیانی و افتخار چودھری کیوں نہیں؟ پاکستان تحریک انصاف کے سابق چئیرمین اور وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان آن دا ریکارڈ ہے کہ فروری 2023ء کے انتخابات کے دوران اور بعد میں اصل اسکرپٹ رائٹر مسلح افواج کے سربراہ جنرل عاصم منیر ہیں اور موجودہ حکومت ڈی فیکٹو ہے – یہ بھی ایک طرح سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور سویلین اتھارٹی کو بائی پاس کرنے جیسے سنگین الزامات ہیں – یہ الزام سچ ہیں یا جھوٹ ہر صورت میں ایک اعلٰی سطحی انکوائری کمیشن کے قیام کی اشد ضرورت پر زور دیتے ہیں – ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی ریاست کے غیر منتخب ہئیت حاکمہ میں اہم ترین عہدے رکھنے والوں پر سنگین ترین الزامات عائد کیے جا رہے ہیں جن سے ان اداروں کی عزت، وقار اور احترام سب داو پر لگا ہوا ہے- ان سب الزامات کی غیرجانبدارانہ تحقیق ہونے چاہیئے – ریاستی اداروں کے عزت و احترام کو ٹرولنگ یا بدنام کرنے کی سازش قرار دے کر سوشل میڈیا پر پابندیاں عائد کرکے ، ایکس ایپ کے لنک کو ڈاؤن کرکے اور پی ٹی اے کی جانب سے 12 لاکھ 50 ہزار ویب سائٹس اور سوشل اکاؤنٹس بند کرکے بحال نہیں کیا جا سکتا – ہمیں وفاقی وزیر داخلہ سید محسن رضا نقوی کی اس تجویز سے بھی سخت اختلاف ہے جس میں وہ حکومت کو سوشل میڈیا کے لیے سخت ترین انضباطی اور فوجداری قوانین بنانے اور حکومت کی طرف سے سوشل میڈیا کی سخت نگرانی کرنے کے لیے قواعد و ضوابط بنانے پر زور دے رہے ہیں – ہم نے اپنے اداریوں میں پیکا ایکٹ کی کئی ایک شقوں کو براہ راست آزادی صحافت کو پابند سلاسل کیے جانے کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور اس کی سچائی اب خود سپریم کورٹ پاکستان کے معزز جج صاحبان مان رہے ہیں – پاکستان کو مزید سخت ترین سیکورٹی اور پولیس اسٹیٹ بنانے سے ریاست کے اداروں کی عزت اور احترام کی بحالی نہیں ہو سکے گی بلکہ ریاستی اداروں میں اہم ترین عہدے رکھنے والوں کو اپنے اختیارات کے استعمال پر جواب دہ بنانے سے بحالی کا عمل شروع ہوگا-
اسٹاک مارکیٹ کی بہتری: اصلی سرمایہ کاری کریں
موجودہ معاشی منظر نامے میں، جہاں شہباز شریف کی سابقہ حکومت اور موجودہ نگران حکومت دونوں کے دور میں بین الاقوامی قرضوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے معیشت پر دباؤ بڑھا ہے، اسٹاک مارکیٹ میں دکھائی دینے والی مصنوعی تیزی کو معاشی بہتری کا حقیقی پیمانہ سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے۔ اسٹاک مارکیٹ کی یہ مصنوعی بلندی محض سطحی پہلو کو ظاہر کرتی ہے اور اس سے ملکی سرمایہ کاری کے ماحول کی اصل صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔
سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کو موثر پالیسیوں کی تشکیل پر غور کرنا چاہیے، خصوصاً بڑے پیمانے پر صنعتی شعبے یعنی ایل ایس ایم کو مدنظر رکھتے ہوئے جو کہ معاشی ترقی کا اہم محرک بن سکتا ہے۔ ایل ایس ایم شعبے کی ترقی کے لئے موزوں پالیسیوں کا نفاذ نہ صرف موجودہ سرمایہ کاری کو بہتر بنائے گا بلکہ مستقبل میں اس شعبے کو ترقی کا انجن بنا سکتا ہے۔
اس ضمن میں حکومت کی جانب سے فوری طور پر توجہ کی ضرورت ہے۔ پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ موجودہ اقتصادی پالیسیوں کا جائزہ لیں اور ان میں وہ تبدیلیاں کریں جو طویل مدتی استحکام اور ترقی کی ضمانت فراہم کر سکیں۔ مزید برآں، ان پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے شفافیت اور جوابدہی کے اصولوں کو مدنظر رکھنا ہوگا تاکہ ہر طرح کیمالی بدعنوانی سے بچا جا سکے اور اس شعبے میں اصلاحات کو یقینی بنایا جا سکے۔ ایل ایس ایم کی ترقی کے لیے پالیسیوں میں جدت اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے جو کہ سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ معیشت کے لئے مستحکم بنیادیں فراہم کر سکیں۔
ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ان پالیسیوں کو مارکیٹ کی طلب اور ضروریات کے مطابق ڈھالنا ہوگا، تاکہ یہ نہ صرف موجودہ صنعتی یونٹس کو تحفظ دیں بلکہ نئے سرمایہ کاروں کو بھی مائل کریں۔ حکومت کو اس بات کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے کہ اصلاحات کا عمل محض کاغذی کارروائی تک محدود نہ رہے بلکہ ان کا عملی نفاذ بھی یقینی بنایا جائے۔
اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف اقتصادی ترقی میں مدد ملے گی بلکہ ملک کے معاشی مستقبل کو بھی مضبوط بنایا جا سکے گا۔ ایل ایس ایم شعبے کی مضبوطی اور ترقی معیشت کے دیگر شعبوں کے لیے بھی مثبت اثرات مرتب کرے گی، جس سے نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ قومی آمدنی میں اضافہ بھی ہوگا۔
لہذا، یہ ضروری ہے کہ حکومت ایل ایس ایم شعبے کی ترقی کے لئے موثر اور حقیقی پالیسیوں کو ترجیح دے، تاکہ اس شعبے کو واقعی میں معاشی ترقی کا انجن بنایا جا سکے۔ اس کے لئے مطلوب ہے کہ پالیسی ساز ماہرین اور صنعتی لیڈران کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ ایک جامع اور دیرپا حکمت عملی تیار کی جا سکے جو کہ ملک کی معاشی بنیادوں کو مضبوط کرے۔معاشی پالیسیوں کے جائزے اور اصلاح کے اس عمل میں، یہ ضروری ہے کہ تمام فریقین کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔ ایل ایس ایم شعبے کی مختلف سطحوں پر موجود اسٹیک ہولڈرز، جیسے کہ چھوٹے اور بڑے صنعتکار، سپلائرز، مزدور تنظیمیں، اور صارفین کو مل کر ایک جامع حکمت عملی بنانے میں حصہ لینا چاہیے۔ اس سے نہ صرف پالیسیوں کی موثریت بڑھے گی بلکہ یہ بھی یقینی بنایا جا سکے گا کہ تمام متعلقہ فریقین کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔
ان پالیسیوں کی تشکیل میں شفافیت اور جوابدہی کے اصولوں کو برقرار رکھنا بھی انتہائی اہم ہے۔ حکومت کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ پالیسی سازی کے عمل میں عوامی رائے اور مشاورت کو فروغ دیا جائے تاکہ اعتماد کی فضا قائم ہو سکے اور پالیسیوں کی تاثیر اور دیرپا اثرات کو بہتر بنایا جا سکے۔
مزید برآں، ایل ایس ایم شعبے کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور تکنیکی جدت کو فروغ دیا جائے۔ یہ شعبہ جدید ٹیکنالوجیز اور انوویشن کی حمایت سے مستفید ہو سکتا ہے، جس سے نہ صرف پیداواری صلاحیت بڑھے گی بلکہ مقامی و بین الاقوامی مارکیٹوں میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوگا۔
اس کے علاوہ، حکومت کو ایل ایس ایم شعبے کے لئے مختلف قسم کی مالی سہولیات اور ترغیبات فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس شعبے کو زیادہ مسابقتی اور پائیدار بنایا جا سکے۔ ان مالی ترغیبات میں ٹیکس ریلیف، سرمایہ کاری کے لئےرعایتی قرضے، اور انوویشن کو فروغ دینے والے گرانٹس شامل ہونے چاہئیں۔ ایسی پالیسیاں، جو معاشی فعالیت کو تحریک دیں اور صنعتی ترقی کو بڑھاوا دیں، ملک کے معاشی ڈھانچے کو مضبوط بنانے میں مدد دے سکتی ہیں۔