پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ کے علاقے شانگلہ میں واقع تفریحی مقام بشام میں شاہراہ قراقرم پر جار رہے چینی انجنئرز کے گاڑیوں کے ایک قافلے پر خود کش بمبار گاڑی کے دھماکے سے 5 چینی انجنئرز سمیت 6 افراد جآں بحق ہوئے ہیں- دوسری طرف تربت میں واقع پاک بحریہ کے نیول اڈے پر ہونے والے ایک دہشت گرد حملے میں ایک سپاہی جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ہیں جبکہ 4 حملہ آور دہشت گرد بھی مارے گئے۔
پاکستان میں یہ جو یکے بعد دیگرے دہشت گردوں کے دو حملے ہوئے ہیں یہ ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب ایک ہفتہ پہلے ہی وانا میں پاکستان آرمی کی چیک پوسٹ پر ہوئے حملے میں پاک فوج کے متعدد لوگ شہید ہوگئے تھے اور اس کے فوری بعد وفاقی وزیر اخلہ سید محسن رضا نقوی نے پاکستان کے تمام سویلین و فوجی انٹیلی جنس اداروں ، سی ٹی ڈی پولیس، سپیشل برانچ اور ائی بی کے سربراہان کے ساتھ ایک اجلاس کیا تھا- نیشنل کوارڈینیشن کمیٹی برائے نیشنل ایکشن پلان اور نیکٹا سے بھی اجلاس کیا گیا تھا- اس کے ساتھ ساتھ اپیکس کمیٹی ایف ایس آئی سی کا اجلاس بھی منعقد ہوا تھا جس کے بعد چینی حکام کو یقین دلایا تھا کہ پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندوں کی سیکورٹی کا فول پروف انتظام کرلیا گیا ہے۔ لیکن سانحہ بشام نے چینی حکومت تک کچھ اچھا پیغام نہیں گیا ہے۔ چینی حکام نے اس سانحہ بارے پاکستان کی حکومت سے جواب دہی کی ہے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے ہم واپس دہشت گردی کی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئےہیں- اب سول پھر اٹھ رہا ہے کہ اگر آج بھی ہم دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں تو ماضی کی ہماری کاروائیوں کا کیا نتیجہ نکلا- اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سابق حکومت کے دور میں افغانستان مین فرار تحریک طالبان پاکستان کے قریب قریب 10 سے 1500 عسکریت پسندوں کو واپس آنے کی اجازت دی گئی جس کے تباہ کن نتائج اب ہمیں کے پی کے اور بلوچستان میں بھگتنا پڑ رہے ہیں-
مہنگی گیس: صارفین پر نیا حملہ
حکومت نے سرکاری گیس کمپنیوں کے صارفین کے درمیان بنایا گیا سلیب ختم کردیا ہے۔ اب گیس کے وہ صارفین جو کو از کم ایک ایم بی بی یو ٹی گیس استعمال کریں گے انھیں اس گیس کی 4 ہزار 501 روپے قیمت ادا کرنی پرے گی جبکہ دیگر ٹیکسز اس کے علاوہ ہوں گے جو ایک ایم ایم بی ٹی یو پر 600 سے 800 روپے تک ہوں گے۔ یعنی ایک ایم ایم بی ٹی یو کے اندر گیس خرچ کرنے والا صارف 5 سے 6 ہزار روپے کا بل ادا کرے گا- اور اس میں نام نہاد لائف لائن صارفین بھی شامل ہوں گے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کے غریب اور سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والے صارفین کی آمدن میں سے 5 ہزار روپے سے زآئد کا آصافی بوجھ پرے گا جو ان کی مشکلات کو اور بڑھا دے گا-
ایک روز پہلے یہ جو خبریں شائع ہوئی تھیں کہ وزیراعظم پاکستان نے گیس کی قیمت میں 380 فیصد اضافے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور کیس کا ٹیرف کم سے کم رکھنے کے لیے گیس کمپنیوں کے سربراہان کو طلب کرلیا ہے محض بیان بازی ہی ثابت ہوا ہے۔ حکومتی حکام کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ ایک طرف تو اپنے اخراجات میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں کرتی ساتھ ہی وہ عالمی قرض دینے والے اداروں سے طے کی گئی شرائط کو پبلک نہیں کرتے اور ان شرائط میں سے جب کسی شرط پر عمل درآمد ہو رہا ہوتا ہے تو اس کا الزام کسی اور پر ڈال دیا جاتا اور ایسے ظاہر کیا جاتا ہے جیسے حکومتی حکام بالا تو اس اقدام کے خلاف تھے اور یہ اقدام کہیں اور سے مسلط کیا گیا ہے۔ اس طرح کی انکاری حالت کو ختم کیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔
محکمہ تعلیم میں ایڈہاک ازم کب تک؟
میڈیا میں شایع ہونے والی خبر کے مطابق پنجاب بھر کے اسکولوں میں 70 فیصد ہائی اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں مستقل ہیڈ ماسٹروں کی تعیناتی اب تک عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔ ہائر اسکیندری اسکولوں میں سبجیکٹ اسپیشلسٹ اساتذہ- ایس ایس ٹی کی دس ہزار دو سو تنتالیس نشستوں میں سے سات ہزار آسامیاں خالی پڑی ہیں – جبکہ 1997ء میں بھرتی ہونے والے ایس ایس ٹیز کو ان کے دورانیہ ملازمت میں ترقی ہی نہیں ملی اور وہ بغیر ترقی کے ریٹائر ہوگئے۔ قواعد و ضوابط کے مطابق حاضر سروس ایس ایس ٹی اساتذہ میں سے 67 فیصد کی ترقی کی جانا بنتی ہے جنھوں نے ہائی اور ہائر اسیکنڈری اسکولوں میں ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر لگنا ہوتا ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ ، تربیت یافتہ اور تجربہ کار ایس ایس اساتذہ کے لیے کئی سالوں سے ترقی کے دروازے بند ہیں- گزشتہ دس سالوں سے سبجیکٹ سپیلسٹ اور اسٹنٹ ایجویکسن افسران جن کی تعداد 14 ہزار ہے انہیں مستقل نہیں کیا گیا- اس وجہ سے پنجاب بھر میں ہائی اور ہائر اسیکنڈری اسکلوں میں ںظام تعلیم مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ ان اسکولوں میں داخلوں کی شرح کھٹ رہی ہے- سفید پوش اور غریب کے بچوں کو محدود اسٹاف کی وجہ سے داخلہ نہیں مل پا رہا اور کلاس رومز میں کنجائش سے کہیں زیادہ بچے ہیں جن پر محدود استاذہ ٹھیک سے توجہ نہیں دے پا رہے۔ اس سے پنجاب میں غیرمعیاری پرائیویٹ اسکولوں کا حجم بڑھتا جا رہا ہے اور سرکاری اسکولوں کی تعداد کم پڑتی جا رہی ہے۔ ڈراپ آؤٹ کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے جس پر پنجاب حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
راجن پور کی لیڈی پولیو ورکر کی موت
روزنامہ قوم ملتان میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق سرائیکی وسیب (جنوبی پنجاب) کے ضلع راجن پور کی بستی درہ مچھی والا سے تعلق رکھنے والی لیڈی پولیو ورکر ایک ٹریکٹر ٹرالی کی ٹکر لگنے سے اس وقت جاں بحق ہوئیں جب وہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلوا کر واپس ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال راجن پور لوٹ رہی تھیں تاکہ پولیو ویکسین اور دیکر سامان متعلقہ حکام کو جمع کرایا جاسکے۔ یہ حادثہ قطب پور نہر کے پاس پیش آیا- ٹریکٹر ٹرالی نے پیچھے سے اس موٹر سائیکل کو ٹکر ماری جس پر جاں بحق ہونے والی لیڈی پولیو ورکر واپس ہسپتال جا رہی تھیں۔
بظاہر ایک لیڈی پولیو ورکر کی ٹریکٹر ٹرالی سے ٹکر کے نتیجے میں ہونے والی موت میڈیا میں ہنگامہ خیز خبروں کے سیلاب میں ایک معمول کا واقعہ لگتی ہے۔ اور اسے نام نہاد مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر بھی خاص توجہ نہیں ملی- لیکن ہمارے نزدیک یہ فرائض سرانجام دیتے ہوئے محکمہ صحت پنجاب کی ایک ایسی خاتون ورکر کی موت ہے جو دیگر ہزاروں مرد و خواتین پولیو ورکرز کی طرح روزانہ اجرت(ڈیلی ویج) کے تحت بھرتی ہوئی تھیں- انہیں کسی قسم کے وہ تحفظات اور مراعات حاصل نہیں تھیں جو مستقل یا کانٹریکٹ نوکری کرنے والے کو حاصل ہوتے ہیں۔ نہ ہی محکمے کی طرف سے ان کی کوئی انشورنس تھی- اور ان کا شمار ان ملازمین میں بھی نہیں ہوگا جو دوران ڈیوٹی اگر فوت ہوجائیں تو کوٹے میں ان کی اولاد یا خاندان کا کوئی فرد ان کی جگہ بھرتی ہوتا ہے اور مرنے والے کو پنشن سمیت سب واجبات و فوائد ملتے ہیں- ہمارے خیال میں ایک تو راجن پور کی لیڈی پولیو ورکر کو ‘شہید کا درجہ دیا جائے کیونکہ وہ قوم کے بچوں کو معذوری سے بچاتے کے لیے سرگرداں تھیں اور اس راستے میں ان کی جاان چلی گئی – دوسرا ڈپٹی کمشنر راجن پور ، ای ڈی او ہیلتھ راجن پور اور اینٹی پولیو کمپئن کے ضلعی سربراہ سب کو وزیر اعلی مریم نواز شریف کو اس خاتون کے لیے اعزاز اور ان کے خاندان کو مالی امداد کی فراہمی کی سفارش کی کریں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ محکمہ صحت سمیت جس سرکاری یا غیر سرکاری شعبے میں ڈیلی ویج ملازم بھرتی ہوں،ان سب کی انشورس لازمی کرائی جائے اور دوران ڈیوٹی کسی ناگہانی حادثے میں معذوری یا جان چلے جانے کی صورت میں ان کے خاندان کو انشورنس کے ساتھ ساتھ حکومتی محکمہ یا پرائیویٹ ہائرنگ کمپنی کی طرف سے انہیں بھاری معاوضہ ملنے کو لازم کرے۔ پنجاب اسمبلی کو اس حوالے سے کوئی قانون متعارف کرایا جائے جس سے سرکاری محکموں کے لیے ڈیلی ویج ورکرز کی بھرتی کے لیے بنائے گئے قواعد و صوابط میں ضروری ترمیم لائی جاسکے۔