اقوام متحدہ کی قرارداد: کیا غزہ میں امن ہوپائے گا؟
غزہ میں قتل عام شروع ہونے کے پانچ مہینوں سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے آخر کار پیر کے دن ایک قرارداد منظور کی جس میں مقبوضہ فلسطینی علاقے میں جنگ بندی کی اپیل کی گئی تھی۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے ایسی کئی کوششیں کی گئیں، لیکن امریکہ نے تین جنگ بندی قراردادوں کو ویٹو کر دیا تھا۔
اس بار، شاید بین الاقوامی سطح پر اسرائیلی بربریت کے خلاف ردعمل اور انتخابی سال میں بائیڈن انتظامیہ کی تل ابیب کے قاتلانہ مہم کے لیے ‘آئرن کلیڈ حمایت پر داخلی تنقید کی وجہ سے، واشنگٹن نے فیصلہ کیا کہ وہ اس پر احتجاج نہیں کرے گا۔ یہ امریکی حکومت کی 32,000 سے زیادہ فلسطینی شہریوں کے اجتماعی قتل پر اخلاقی ابہام کو ظاہر کر سکتا ہے – اقوام متحدہ کے سفیر نے کہا کہ وہ قرارداد میں موجود ہر چیز سے ‘اتفاق نہیں کرتے – لیکن شاید ایسی پوزیشن قتل عام کو روکنے کی ہر کوشش کو روکنے سے بہتر ہو۔
جبکہ غزہ میں تکلیف کی سطح حیران کن ہے، اس لیے جشن منانے کو کچھ نہیں ہے، کم از کم محاصرہ شدہ پٹی کے لوگوں کو اپنے پیاروں کے لیے غم منانے اور لمبے، تکلیف دہ عمل کی شروعات کرنے کے لیے روزانہ موت اور تباہی کی خوراک سے ایک وقفہ ملے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل حال ہی میں رفاہ کراسنگ پر تھے اور غزہ تک امداد پہنچانے میں رکاوٹوں کو ہٹانے کی اپیل کی۔ اسرائیل سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اور یہ امید کی جاتی ہے کہ جنگ بندی سے سینکڑوں ہزار فلسطینیوں کو خوراک، پانی اور طبی امداد پہنچنے کی اجازت ملے گی جو مصیبت میں ہیں۔ قحط – جو زیادہ تر اسرائیل کی وجہ سے پیدا ہوا ہے – اب غزہ کو دہشت میں مبتلا کر رہا ہے، عالمی ادارہ صحت کہتا ہے کہ پٹی میں بچے “موت کے کنارے” پر ہیں۔ مزید برآں، ہزاروں بچے اس غیر مقدس جنگ میں یتیم ہو گئے ہیں، اور انہیں خصوصی طور پر طبی اور نفسیاتی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے نسل کش تشدد کو دیکھنے کے صدمے سے نمٹ سکیں۔ یہ بین الاقوامی برادری کے فوری اہداف ہونے چاہئیں۔
غزہ کی آبادی کو فوری انسانی امداد فراہم کرنے کے علاوہ، تمام فریقوں کو تشدد کے زیادہ مستقل خاتمے کی طرف کام کرنا چاہئے۔ یاد رہے کہ نومبر میں تقریباً ایک ہفتہ طویل جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا تھا، لیکن جلد ہی ٹوٹ گئی۔
موجودہ انتظام زیادہ پائیدار ہونا چاہئے۔ جبکہ ‘حل کی بات کرنا ابھی ناقابل عمل ہو سکتا ہے، ایک بار جب دھول بیٹھ گئی ہو، اسرائیل کو ہزاروں بے گناہوں کے قتل کے لئے ادائیگی کرنی چاہئے۔ فلسطینی زندگیاں اہم ہیں، اور یتیم غزہ کی ایک نسل دنیا کی برادری سے ان کے لئے انصاف کی تلاش میں ہوگی۔
اب تمام نظریں اسرائیل اور اس کے اہم سرپرست امریکہ پر ہوں گی۔ کیا تل ابیب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی پابندی کرے گا؟ یا کیا وہ اپنی سرکش ریاست ہونے کی شہرت پر پورا اترے گا اس بندھن والی اپیل کو مسترد کرکے، اور غزہ میں اپنی جرائم پیشہ مہم جاری رکھے گا؟ آنے والے دن پورے خطے کے لئے نازک ہوں گے۔
ڈسکوز کی نجکاری یا پھر۔۔۔۔
عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے معاشی پالیسی ساز اداروں پر ہمیشہ سے زور دیتے آئے ہیں کہ وہ توانائی کی پوری لاگت وصول کریں اور قابل عمل پالیسی بنائیں – اس اصرار کا مطلب ان اداروں نے یہ لیا کہ انرجی کے دام بڑھا دیں- اس عمل نے نہ صرف افراط زر کو بڑھایا بلکہ صعنتی اداروں کی مال پیدا کرنے کی لاگت میں بھی اضافہ کیا جس سے عالمی منڈی میں ہماری بنائی ہوئی اشیاء دیگر کے مقابلے میں بہت مہنگی ہوگئی ہیں اور یوں ہمارا صعنتی مال مساقت سے باہر ہوگیا ہے۔
پاکستان کی حکومتیں اس شعبے میں موجود بحرانوں سے نمٹنے کے لیے دوسرے درج ذیل اقدامات کی حمایت کرنے اور انہیں اٹھانے میں مصروف رہی ہیں:
گردشی قرضے کو ختم کرنے کے لیے مزید ادھار اٹھایا- اس عمل نے2013ء میں 480 ارب روپے کا گردشی قرضہ ختم کیا تو ساتھ ہی دوسرا قرض جڑھا دیا-
پی ٹی ائی کی حکومت نے انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز- آئی پی پی از کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر کامیابی کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کیے جس نے کیپسٹی پیمنٹس( بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت سے جڑی ادائیگیوں اور منافوں کی واپسی کے حوالے سے شرائط کو دوبارہ طے کیا جو اس سے پہلے آئی پی پی از کے حق میں تھے لیکن وہ کامیابی محدود تھی کیونکہ سی پیک کے تحت قائم ہونے ووالے آزاد بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں نے معاہدے پر ںظرثانی کرنے سے انکار کیا کینکہ ان کا خیال تھا کہ اگر ایسا کیا گیا تو دوسرے ممالک بھی ایسا کرنے پر اصرار کریں گے اور انہوں نے اس کی بجائے دوسری مالیاتی مراعات کی پیشکش کی-
اپریل 2022ء کے بعد حکومت دوسرے متبادل آپشن پر غور کر رہی ہے: بجلی کی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو صوبوں کے حوالے کردیا جائے۔ اس تجویز پر یہ کہہ کر شور مچایا گیا کہ صوبے اس کی اہلیت نہیں رکھتے حالانکہ ایک صوبے (سندھ) نے اس شعبے کے ماہرین کو ہآغر بھی کرلیا تھا جس کے بعد زیادہ مسئلہ نہیں ہونا چاہئے تھا- صوبے اس طرح کے کام کرنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں- اس کی ایک مٹال صوبوں کی جانب سے ایونیو بورڈز کی تشکیل ہے جو ایف بی آڑسے کہیں زیادا اچھے طریقرں سے سیلز ٹیکس جمع کر رہے ہیں- اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح سے سیلز ٹیکس کی مد میں چوری کی شرح اس سے کہیں کم ہے جب یہ کام ایف بی آر کر رہا تھھا- دوسرا آپشن ان کمپنیوں کی نجکاری ہے جس کی ایس ایف آئی سی کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں منظوری بھی دی گئی ہے۔ اور اسے وفاقی وزیر خزانہ کی بھی حمایت حاصل ہے جسے وہ ترجیحی آپشن قرار دیتے ہیں۔
سرمایہ کاروں کی اکثریت بجلی کی تقیم کرنے والی کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی تجویز کے حامی ہیں- لیکن اس کے لیے سب سے پہلے نجکاری کے حوالے سے موجود حکمت عملی کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان کمپنیوں کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والے سرمایہ کار سمجھتے ہیں کہ اس وقت جو بجلی کی قیمتوں اور اسے کنٹرول کرنے میں ایک ہی اجارہ داری چل رہی ہے اس کے ہوتے ہوئے کون خریدار بنے گا؟
جبکہ معیشت دان نجی شعبے کے اجارہ دار کو فروخت کرنے کے خلاف خبردار کرتے ہیں جو ٹیرف بڑھا کر منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کرے گا جو، بلاشبہ، بجلی کے شعبے کے ریگولیٹر کو ٹیرف مقرر کرنے کو غیر ضروری بنا دیتا ہے، تاہم یہ واضح طور پر ظاہر ہے کہ ایک مسابقتی بجلی کی مارکیٹ کسی بھی کشش کو ختم کر دے گی جو نجی شعبہ آج مارکیٹ میں داخل ہونے کے لئے رکھتا ہو کیونکہ موجودہ بجلی تقسیم نیٹ ورک ایک غالب خصوصیت کے طور پر رہے گا جو جو بھی اسے کنٹرول کرتا ہے اسے فائدہ پہنچائے گا لیکن اس پہلو سے نمٹنے کے موثر طریقے موجود ہیں۔
دوسرا، غور طلب ہے کہ شہباز شریف کی سربراہی والی حکومت کے پچھلے دور میں کابینہ کمیٹی برائے توانائی کی طرف سے تجویز کردہ ویلنگ چارج برائے بجلی کی منتقلی ایک ڈسکو سے صارف تک – ایک نظام جو پرانا ہے اور بہتری کے لئے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ یہ چارج بھی موجودہ ڈھانچے کی اپ گریڈیشن میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہاں نجی شعبے کے خریدار کے لئے ایک رکاوٹ کے طور پر کام کرے گا۔
کے الیکٹرک کی نجکاری کی مثال کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ سازوں کو یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا مختلف قسم کے صارفین کے ٹیرف کے درمیان قمیت کو مساوی رکھنے اور کراس سبسڈی کی پالیسی کو نافذ کرنے کے لئے سالانہ سبسڈی دینا جاری رہے گا۔
فیصلہ سازوں کے لئے برابر طور پر تشویش کا باعث ہونا چاہیے کہ ٹیرف مساوات کی پالیسی ریاستی طور پر چلنے والی ڈسکوز/جینکوز کو بڑی سالانہ سبسڈی کی وجہ بنی ہے (موجودہ سال میں 150 ارب روپے کا بجٹ – ایک ہدف جو تجاوز کیا جا سکتا ہے، دیکھتے ہوئے کہ یہ پچھلے سال کے ترمیم شدہ تخمینوں میں 225 ارب روپے تھا) اور اے جے کے کو 55 ارب روپے۔ آئی پی پیز کو موجودہ سال میں 310.075 ارب روپے موصول ہونے کا بجٹ ہے اور واپڈا/پیپکو کو کل سبسڈی کا بجٹ 579.075 ارب روپے ہے۔
ظاہر ہے، نجکاری کا اہم مقصد کارکردگی میں بہتری، بدعنوانی کا خاتمہ اور بجٹ شدہ سبسڈیز ہے؛ تاہم، اگر حکومت ٹیکس دہندگان کے خرچ پر سبسڈی دینا جاری رکھے گی تو یہ نجکاری کے مقصد کو شکست دے گی۔
اور اسی وقت ڈسکوز کی فروخت میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے نجی شعبے کو ایک زرخیز زمین فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ صارفین کے ساتھ ساتھ آپریٹر کو ضروری تحفظات کے ساتھ کام کر سکے اور ساتھ ہی نجی آپریٹر کو سیاسی مجبوریوں کے تحت گھٹنے نہ ٹیکے۔ یہ مشکل انتخاب ہیں اور ایسی پالیسی پر چلنے سے پہلے ان پر اچھے سے غور و خوض کرنا بہتر رہے گا-
مستقل وائس چانسلرز کب تعینات ہوں گے؟
روزنامہ قوم میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق پنجاب بھر کی 35 جامعات میں مستقل وائس چانسلروں کی تعیناتی تاحال عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے۔ ان جامعات میں پرو وائس چانسلرز کی تعیناتی سے ایڈہاک بنیادوں پر کام چلایا جا رہا ہے۔ مستقل وائس چانسلروں کی عدم تعیناتی کے سبب ان جامعات میں بڑے پیمانے پر انتظامی نظم و ضبط کا فقدان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مالیاتی بدانتظامی مستقل پہلو بنتی جا رہی ہے۔ اور پرو وآئس چانسلرز ان جامعات کے اندر مختلف پرشر گروپوں کے دباؤ میں کھلے اور دو ٹوک فیصلے نہیں کر پا رہے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر بدترین اقربا پروی اور میرٹ سے ہٹ کر فیصلوں کی بھرمار ہے۔ جامعات مين رواں مالیاتی سال کے آخر تک مختلف شعبوں میں داخلوں کی تعداد بھی گھٹ رہی ہے اور جامعات کی بینا الاقوامی رینکنگ میں بھی کمی آئی ہے۔ حکومت کو فوری طور پر مستقل وآئس چانسلرز کی تعیناتی کرنا بنتی ہے تاکہ ان سب خرابیوں کو دور کیا جائے-