اب تک کی پیش رفت سے ایک بات تو واضح ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ اب صرف موسمیاتی تبدیلی کا معاملہ نہیں رہا- یہ سماجی اور معاشی خطرہ بھی ہے جس نے دولت کی عدم مساوات کو بڑھایا ہے۔ موسموں کی شدت اور بے یقینی نے سب سے زیادہ کم آمدنی والی آبادیوں کو متاثر کیا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے نے پاکستان جیسے غریب ملکوں کو سیلابوں میں ڈبوایا ہے تو کہیں انتہائی سخت گرم موسم سے دوچار کیا ہے۔ اس طرح کی غیر متوقع تبدیلیوں نے ان ممالک کے اندر پہلے سے جمے جمائے موسموں کا پیٹرن بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ حد سے زیادہ اچانک بارشیں نئے عذاب مسلط کر رہی ہیں- حالانکہ ان غریب ملکوں کا ماحولیاتی تبدیلی میں اتنا بڑا کردار بھی نہیں ہے۔ اس سارے عمل سے سب سے زیادہ دیہی آبادی متاثر ہورہی ہے۔
اس سلسلے میں، پالیسی سازوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کی رپورٹ، ‘دی انجسٹ کلائمیٹ، پر توجہ دیں، جو گزشتہ ہفتے شائع ہوئی تھی، جس میں پاکستان سمیت 24 ممالک کی دیہی برادریوں کا مطالعہ کیا گیا ہے اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح سیلاب، حرارتی دباؤ اور دیگر انتہائی موسمی واقعات نے دیہی غریب اور غیر غریب گھرانوں کے درمیان آمدنی کے فرق کو بڑھا دیا ہے۔
چند عددی نکات چیلنج کو مناسب توجہ میں لا سکتے ہیں۔ ایک اوسط سال میں، دیہی علاقوں کے غریب گھرانے اپنی کل آمدنی کا پانچ فیصد حرارتی دباؤ کی وجہ سے اور 4.4 فیصد سیلاب کی وجہ سے کھو دیتے ہیں۔
یہاں، خواتین کی سربراہی والے گھرانے اس اثر کو غیر متناسب طور پر محسوس کرتے ہیں، جن کے خاندان حرارتی دباؤ کی وجہ سے آمدنی میں آٹھ فیصد تک کا نقصان اٹھاتے ہیں، جو مالی اعتبار سے ایک سال میں 37 بلین ڈالر کی بہت بڑی رقم بنتی ہے۔
اس کے علاوہ، ہر انتہائی گرم دن کے ساتھ، غریب دیہی گھرانے اپنی زراعت پر مبنی آمدنی کا 2.4 فیصد، ان کی پیدا کردہ فصلوں کی قیمت کا 1.1 فیصد، اور ان کی زراعت سے ہٹ کر آمدنی کا 1.5 فیصد کھو دیتے ہیں۔
خواتین پر غیر متناسب اثر کو مزید اجاگر کیا گیا ہے کہ سیلاب اور خشک سالی کی وجہ سے دیہی خواتین کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، ان کے کام کے گھنٹے فی ہفتہ مر دوں کے مقابلے میں بڑھ جاتے ہیں، جبکہ اسی وقت، وہ زیادہ آمدنی کے مواقع کھو دیتی ہیں۔ جنسی معیارات پہلے ہی خواتین سے بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلو ذمہ داریوں سے متعلق کام کا بڑا حصہ اٹھانے کی توقع کرتے ہیں، انتہائی موسمی واقعات کے بعد ان کے کام کے بوجھ میں اضافہ موسمیاتی تبدیلی کی ان پر بے انصافی بھرے دباؤ کا ثبوت ہے۔
یہ ایک المیہ ہے کہ حاشیہ پر موجود دیہی برادریوں پر موسمیاتی تبدیلی کے نقصان دہ اثر کے تمام ثبوت دستیاب ہونے کے باوجود، ان کے خدشات قومی موسمیاتی پالیسیوں میں شاید ہی نظر آتے ہیں۔ دیہی غریبوں کے سامنے آنے والی موسمیاتی کمزوریوں کا تقاضا ہے کہ کثیر پہلووں پر مبنی اقدامات متعارف کرائے جائیں۔
موسمیاتی مزاحمتی زراعت میں سرمایہ کاری، غریب کسانوں کو موسمیاتی مزاحمتی فصلیں اگانے اور پائیدار زراعت کے طریقوں میں مصروف ہونے میں مدد فراہم کرنے سے ان کی انتہائی موسمی واقعات کے سامنے کمزوری کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، سماجی تحفظ کے پروگرام جو نقدی پر مبنی مدد فراہم کرتے ہیں، اور متعلقہ ٹیکنالوجی اور معلومات تک رسائی کو بہتر بنانے سے بھی دیہی غریبوں کو زیادہ موسمیاتی مزاحم بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ موسم کے مزاحمتی ڈھانچے میں سرمایہ کاری، آمدنی کے متنوع ذرائع کی ترویج اور کمیونٹی بیسڈ ایڈاپٹیشن پروگراموں کی حمایت کم آمدنی والے گھرانوں کو اپنی مخصوص موسمیاتی کمزوریوں کی شناخت اور ان کے حل کرنے کے قابل بنا سکتی ہے۔
اہم طور پر، ان ممالک جنہوں نے تاریخی طور پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اہم کردار ادا کیا ہے، انہیں نہ صرف اپنے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم کرنے کے لیے معنی خیز اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، بلکہ انہیں گزشتہ سال COP28 سمٹ میں کیے گئے مالی عہدوں کو بھی پورا کرنے کی ضرورت ہے، جہاں انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے دوچار ممالک کو مالی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، جو اب تک وہ پورا نہیں کر سکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر دیہی برادریوں کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مزاحمتی بنانے کے ذرائع فراہم نہیں کیے جاتے ہیں تو عالمی غربت کو ختم کرنے اور دنیا بھر میں بھوک کا خاتمہ کرنے کی کوئی بھی کوشش بے نتیجہ ثابت ہوگی۔ اور اس کے لیے، دیہی غریبوں کے لیے مساوات کو فروغ دینے اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے والی مخصوص مداخلتیں ضروری ہیں۔
ڈاکو راج
اطلاعات ہیں کہ ڈسٹرکٹ راجن پور پولیس نے کچّہ کے ڈاکوؤں کے خلاف ‘زبردست آپریشن شروع کردیا ہے۔ ڈی پی او راجن پور کی جانب سے میڈیا کو پریس ریلیز بھی جاری کی گئی ہے۔ چند ایک زخمی پولیس اہلکاروں ( کسی ایسی جنگ میں جس میں چنگ کی کمانڈ کے اندر کالی بھیڑیں ہوں وہاں پیدل سپاہی خوف جنگ کا ایندھن بنتے ہیں) کی تصاویر اور وڈیو بھی میڈیا کو جاری کی کئی ہیں- کچھ اشتہارات کے عکس بھی اخبارات اور ٹی وی چینلز کو بھیجے گئے ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت کچے کے ڈاکوؤں سے کیسے خود کو محفوظ رکھنا ہے۔
قتل، اغواء برائے تاوان، مسلح ڈاکے اور دہشت گرد اور اشہتاری پنجاب اور سندھ کے کچے کے علاقے سے جڑے اضلاع کے دریائی علاقوں میں رہنے والے بدنصیبوں کے لیے تو زندگی کے بدنما حقائق تھے ہی اس کے ساتھ ساتھ پورے پنجاب اور سندھ کے اکثر شہری علاقوں میں ہونے والی لوٹ مار ، رہزنی اور ڈکتیوں کے پیچھے بھی اسی علاقے میں پنپنے والے ڈکیٹ گورہوں کا ہاتھ نظر آرہا ہے۔ ڈاکوؤں نے ان علاقوں میں ریاست اندر ریاست قائم کر رکھی ہے۔ دہشت کا راج ہے۔ بھاری ہتھیاروں سے لیس اور ان علاقوں کے بھیدی بے رحمی اور بربریت میں زرا کمی نہیں کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کسی زمانے میں ‘بنارسی ٹھگوں کے پاس فریب اور دھوکہ دہی کے جو گر ہوا کرتے تھے اس سے بھی لیس ہیں۔
لیکن سوال یہ جنم لیتا ہے کہ 2006ء سے 2023ء تک کچہ کے علاقوں میں 16 بڑے آپریشن، اربوں روپے کے وسائل ان اپریشنوں میں جھونگے کئے اور جیسا کہ روزنامہ قوم نے اپنی خصوصی تحقیقاتی رپورٹوں میں تفصیل سے بتایا کہ ابھیی گزشتہ سال 10 جون 2023ء سابق نگران چیف منسٹر سید محسن رضا نقوی کے سامنے رحیم یار خان میں موجودہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے اپریل 2023ء میں شروع ہونے والے ایک گرینڈ آپریشن کے مکمل ہونے کا اعلان کیا تھا- ان کا دعوا تھا کہ کچّہ کا علاقہ سارے کا سارا مجرموں سے پاک کردیا گیا ہے اور وہاں جن علاقوں میں ڈاکو راج تھا وہاں پر مستقل چوکیاں بنا دی گئی ہیں اور لوگوں کو معمول کی زندگی کی طرف لایا گیا ہے اور اب وہاں ‘ڈاکو راج کبھی نہیں ہوگا- لیکن یہ کیا ہوا؟ صرف 11 ماہ میں کچّہ کا علاقہ پھر سے ڈاکو راج کا منظر پیش کرنے لگا- 400 سے زائد شہری صرف 11 ماہ کے دوران پنجاب کے دو اضلاع راجن پور اور رحیم یار خان کی دریائی بیٹ کچّہکے علاقے میں اغوا کرکے لیجائے کئے اور اس کے بعد وہ وہاں سے سندھ کے دریائی علاقوں میں ڈاکوؤں کی کمین گاہوں میں بھیج دیے گئے۔ آخر وہ سارا فنڈ کس پر اور کہاں حرچ ہوا؟ پنجاب حکومت نے اس مسئلے پر خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے؟ وہ اس فنڈکے سیپشل آڈٹ کا حکم جاری کرنے سے گریزاں کیوں ہے؟ وہ 2006ء سے 2023ء تک ہونے والے 16 گرینڈ آپریشنوں کے دوران ضلع رحیم یار خان، ضلع راجن پور میں تعینات رہنے والے ڈی پی اوز اور ڈی جی خان و بہاولپور میں تعینات آر پی اوز اور ان کے خاندانوں کے مالیاتی اثاثوں کی جانچ کا حکم کیوں نہیں دیتی؟ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ لوگ ان آپریشنوں کے انچارچ اور نگرانوں کی ایمانداری پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں- آئی جی پنجاب داکٹر عثمان انور کو اپریل 2023ء کے پنجاب پولیس کے سب سے بڑے آپریشن سے مطلوبہ تنتآئج کیوں حاصل نہیں ہوئے؟ اس بارے پنجاب کی عوام کو بتانا چاہئیے۔
حکام سے پوچھا جانا چاہئے: یہ بے معنی ‘صفائی آپریشنز کب تک دہرائے جاتے رہیں گے؟ کیوں ہے کہ مسلح گروہوں کے خلاف ‘ترقی اکثر ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی طرح لگتی ہے؟ ہم سن رہے ہیں کہ گزشتہ سال سے ڈاکو مسئلہ سے نمٹنے کے لئے اہم وسائل اور عملہ مختص کیا گیا ہے۔ کیا یہ دعوے صرف ایک دھوکہ تھے، یا ریاست کی رٹ قائم کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں؟ متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو ان کی قسمت پر کب تک چھوڑ دیا جائے گا؟ واضح طور پر، ملک کی داخلی سلامتی کے ذمہ دار لوگ اس معاملے میں انتہائی خراب کام کر رہے ہیں۔
جو لوگ ان گروہوں کی پشت پناہی، فنانس اور فراہمی کرتے ہیں، انہیں تلاش اور ختم کرنا چاہئے۔ یہ بیماری نہیں پھیلنی چاہئے۔