آج سے دو روز پہلے آئی ایم ایف مشن نے اعلان کیا تھا کہ اس کا پاکستان سے اسٹینڈ بآئی ارینجمنٹ -ایس بی اے قرض کے دوسرے جآغزے پر عملے کی سطح کا معاہدہ – ایس ایل اے طے پا گیا ہے۔ یہ اعلان آئی ایم ایف کی آفیشل ویب سائٹ پر ایک پریس ریلیز کی شکل میں ظاہر ہوا تھا- اسی روز وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ایس ایل اے میں طے پائی شرائط پر عمل درآمد کرنے کے احکامات جاری کیے- اب جب کہ یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو خبر آرہی ہے کہ حکومت نےفی ایم ایم بی ٹی یو گیس ٹیرف 1100 روپے سے بڑھاکر 2700 روپے کردیا ہے۔ صعنتوں کے پاور کیپٹو پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند کرنے کا حکم جاری ہوا ہے۔
حکومت اور آئی ایم ایف کو عملے کی سطح پر معاہدے میں 6 روز لگے اور چھٹی کے روز بھی بات چیت جاری رہی اور اب یہ معاہدہ ائی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے جس کی مںطوری کے فوری بعد پاکستان کو اپریل کے آخر تک ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی آخری قسط مل جائے گی-
اب یہاں پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا اس قسط کے ملنے سے پاکستان کی سب سے بنیادی مالیاتی مشکل حل ہوجائے گی؟ جو 24 ارب 60 کروڑ ڈالر کا غیر ملکی قرضہ اور اس کا مارک اپ ہے کی ادائیگی ہے جو پاکستان نے جون 2024ء تک کرنی ہے؟ ظاہر ہے ایک ارب دس کروڑ روپے آئی ایم ایف سے ملنے سے یہ مشکل آسان ہونے والی تو نہیں ہے۔ اگرچہ حکومت کا دعوا ہے کہ وہ مطلوبہ واجب الادا غیر ملکی قرضے سے 12ارب 40 کروڑ ڈالر کے قرضے رول اوور کرالے گی اور اس کا دعوا یہ بھی ہے کہ اس کی یقین دہانی قرض دینے والی اقوام نے کرادی ہے۔ یہ نوٹ کرنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان کو اس کے دوست ممالک نے 2019ء سے واضح طور پر باور کرانا شروع کردیا تھا کہ اگر وہ آئی ایم ایف کے ساتھ فعال پروگرام نہیں رکھے گا تو اسے کوئی دوست ملک نہ تو مالی امداد دے گا اور نہ ہی واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کو ملتوی کرے گا- اس کا اب یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ ایس بی اے کی آحری قسط جاری ہونے کے بعد دوست ممالک نہ صرف پرانے قرضوں کی واپسی کی مہلت بڑھا دیں گے بلکہ نئے قرضے بھی جاری کریں گے۔
ایس ایل اے ہوجانے کے بعد حکومت یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ اس کے بعد تین عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو بہتر کردےیں گی اور اس سے شاید غیر ملکی کمرشل بینکوں سے کم شرح سود پر قرضے ملیں گے اور پاکستان سکوک / یورو بانڈزبین الاقوامی منڈی میں بیچ کر اپنے زرایع مبادلہ کے ذخیرے میں اضافہ کرپائے گا-
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں دو چیزین بیان کی گئیں جن کو نوٹ کرنا اہم ہے: کہا گیا کہ سٹیٹ بینک اور نگران حکومت نے ایس بی اے قرض کی شرائط پر سختی سے عمل کیا- ماضی میں عام طور پر ‘ پاکستانی حکام، جیسا عمومی لفظ بولا جاتا لیکن یہ پہلی بار ہوا کہ سٹیٹ بینک پاکستان اور حکومت الگ الگ ذکر ہوئے ہیں- اس تناظر میں ایس بی پی کا زکر کرنا خاص تناظر فراہم کرتا ہے کیونکہ اسحاق ڈار نے جنوری 2022ء تا 27 ستمبر 2022 تک ایس بی پی پر دباؤ ڈالے رکھا کہ وہ ڈالر -روپے کی شرح تبادلہ سرکاری طور پر مارکیٹ ریٹ سے کم رکھے اور یوں آئی ایم ایف سے طے کرنے کے باوجود سٹیٹ بینک اس معاملے میں رکھی گئی شرط کی خلاف ورزی کرتا رہا- اور ایسے ہی پاور سیکٹر کو 110 ارب روپے کی سبسڈی دے ڈالی جس کے سبب آئی ایم ایف نے اپنا قرض پروگرام پاکستان میں معطل کردیا تھا-
فنڈ کا اصرار ہے کہ دانشمندانہ مانیٹری پالیسی / شرح سودعائد کرنے کی پالیسی سے افراط زر کم ہوگا- اس اصرار کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر وہ دوسرے عموامل بھی زیر غور لائے جائیں جو افراط زر کو بلند رکھنے کا سبب بن رہے ہیں- ان میں سب سے پہلا فوکس ابتدائی خسارے کو کم کرنے پر کیا گیا جو رواں سال میں ہدف چار سو ایک ارب روپے کا تھا جبکہ بجٹ خسارے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس مں بہت بڑا آضافہ مقامی بینکوں سے بھاری قرضے لیے جانے کی وجہ سے ہو رہہا ہے۔ اس سے افراط زر میں تو بے تحاش اضافہ ہوا ہی ہی ساتھ بیرونی قرضوں کی مصیبت کے علاوہ مقامی قرضوں کا بھاری بھرکم بوجھ بھی کھڑا ہوگیا- اس سے معشیت کی نمو پر منفی اثر مزید پڑا- اور یہ بہت خطرناک ہوگا کیونکہ یہ کرنٹ اخراجات میں بے تحاشا اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ افراط زر میں اضافہ کا دوسرا عنصر اجارہ دارانہ حالات تر قابو پانے میں ناکامی کا ہے۔ پاکستان میں ہول سیلرز اور ریٹلرز دونوں ہی بہت بڑی تعداد میں اقتدار کی غلام گردشوں میں ہیں اور وہ پرائسز کے شفاف میکنزم میں سب سے بڑ روکاوٹ بنے ہوئے ہیں- تیسرا عنصر بے تحاشا منافع کمانے کا رجحان ہے جو اوپر سے نیچے سے نچلی سطح پر بہت گھمبیر شکل اختیار کر گیا ہے۔ اور اس نے بھی افراط زر کو بڑھا رکھا ہے۔
آئی ایم ایف نے اپنی پریس ریلیز میں جس دوسری اہم بات کا زکر کیا ہے وہ ہے پاکستان کی معاشی اور مالیاتی دونوں حالتوں میں بہتری آنے کا- آئی ایم ایف نے لکھا کہ اس سال عمومی افراط زر ہدف سے تھوڑا ہی اوپر رہا اور جاری پالیسی اور اصلاحات کی کوششیں بہتری پیدا کریں گی-
آئی ایم ایف کی یہ بات پاکستانی معشیت کی تمام بنیادی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش معلوم ہوتی ہیں- ازاد ماہرین معشیت کا کہنا ہے کہ یہ روایتی افسر شاہی طرز کی پوشیدگی ہے جس میں سبکچ درگزر کا کہہ کر بھی کچھ در گزر نہیں ہوتا- آئی ایم ایف نے یہ جو کہا کہ حکومت کو صرف انتہائی اشد ضروری ترقیاتی کام کرنے کو ترجحی دینی چاہئیے جبکہ اسے سخت معاشی اور مالیاتی پالسیوں کے متاثرہ عام آدمیوں کے لیے سماجی حفاظتی نیٹ کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا- یہ کافی نہیں ہے۔ جبکہ فنڈ نے خود نوٹ کیا تھا کہ ایس بی اے کےدوران بلند افراط زر کی شرح نے غربت کی شرح میں پریشان کن حد تک اضافہ کر ڈالا جو 40 فیصد تک ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف نے اس وقت اچھا نہیں کیا تھا جب اس نے کرنٹ اخراجات میں بے تحاشا اضافے والا بجٹ منظور کرلیا تھا۔ جبکہ اس میں پنشن اصلاحات کا بھی کوئی زکر تک نہ تھا-
نجی شعبے کی سرگرمیوں کو فروغ دینا فنڈ کا ایک اور نعرہ ہے جو کہ، نجکاری کے لیے مقدر ہر ادارے کی گہرائی سے تحقیق کے بغیر، خاص طور پر غریب اور کمزوروں کے نقطہ نظر سے واپس آ جائے گا۔ نجکاری کی چھتری کی منظوری ایک مناسب پالیسی فیصلہ نہیں ہے، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں جہاں حکومت کو بنیادی موجودہ پالیسی خامیوں کو مدنظر رکھنا ہے، جن میں شامل ہیں لیکن صرف ٹیرف ایکویلائزیشن کی پالیسی تک محدود نہیں ہے جس کی وجہ سے ٹیکس دہندگان کے اخراجات پر نصف ٹریلین روپے سے زیادہ کی سبسڈیز کی ضرورت ہوتی ہے- جبکہ دوسری جانب بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے اخراجات اور آمدنی کے درمیان بہت بڑا اور واضح فرق موجود ہے۔
پاکستانی انتظامیہ حال اور ماضی دونوں کی نے معشیت کے حوالے سے کئی غلطیاں کی ہیں لیکن موجودہ حکومتی انتظامیہ اسے مانتی نظر آرہی ہے۔ لیکن عالمی مالیاتی فنڈ کے سٹاف نے ان حکومتوں کے ڈیزائن کردہ پالیسی میں خامیوں کو نظر انداز کیا ہے جو عام معاشی پالیسیوں کے اندر موجود رہے تھے۔ اسے پاکستان کے خاص معاشی پیراڈائم کو دیکھ کر ایسی خامیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے تھا-
تو آئی ایم ایف کو چاہئیے تھا کہ وہ پاکستانی معاشی ٹیم کی طرف سے پیش کردہ منفرد پیراڈائم کے جواب میں روایت سے ہٹ حل تلاش کرتا اور پاکستان کے معاملے میں ہیڈکوارٹر کی رائے کی پیروی نہ کرتا تو عام آدمی کے لیے کچھ بہتریکی گنجائش نکلتی ۔
نیکٹا کو فعال کیجئے
موجودہ دہشت گردی کی دھمکی مختلف نظریاتی اور جغرافیائی لحاظ سے متنوع ہے، اور گزشتہ چند سالوں میں، خاص طور پر افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد میں، دہشت گردوں کو مزید حوصلہ ملا ہے اور انہوں نے پاکستان میں بڑی تعداد میں حملے کیے ہیں۔
دو ہزار نو میں پہلے دہشت گردی کی بغاوت کے درمیان بنائے گئے نیکٹا کو ریاست کے اہم دہشت گردی مخالف ادارے کے طور پر سوچا گیا تھا، لیکن ابتدائی کامیابیوں کے بعد حکمرانوں نے اسے بڑی حد تک نظرانداز کر دیا ہے۔ نیکٹا کو قومی سی ٹی کوششوں کو اکٹھا کرنے کے لیے ‘ایک ونڈو آپریشن’ کے طور پر تصور کیا گیا تھا، لیکن ایجنسی کو اپنے مقررہ مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ضروری اوزاروں سے بااختیار نہیں کیا گیا ہے۔
اس کے بجائے، سی ٹی کی کوششوں پر فوج اور اس کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا غلبہ ہے۔ جبکہ فوج کا دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے میں مرکزی کردار ہے، لیکن فوجی دہشت گردی مخالف نقطہ نظر کی اپنی حدود ہیں، خاص طور پر شہری علاقوں میں، جہاں شہری قانون نافذ کرنے والے اداروں اور متعلقہ طویل مدتی سی ٹی حکمت عملیوں کی ضرورت ہے تاکہ حرکی کوششوں کی تکمیل ہو سکے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ جب نیکٹا آپریشنل فریم ورک فراہم کرتا ہے، تو سی ٹی کوشش کا نظریاتی عنصر نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے رہنمائی کی جائے۔
خاص طور پر، معاشرے میں سرگرم فرقہ وارانہ اور انتہا پسند عناصر کو معاشرتی کاروبار سے باہر کر دینا چاہیے۔ یہ مضر قوتیں نظریاتی پس منظر فراہم کرتی ہیں جو دہشت گرد بغاوتوں کو طاقت دینے والے پرتشدد دہشت گردی کے پیدل سپاہیوں کو پیدا کرتی ہیں۔ نیکٹا ان کو نکال باہر کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔