آج کی تاریخ

گوادر پورٹ اتھارٹی پر حملہ: صرف بیانیہ بنانے سے کام نہیں چلے گا

گوادر پورٹ اتھارٹی پر حملہ: صرف بیانیہ بنانے سے کام نہیں چلے گا

گوادر پورٹ اتھارٹی پر حملہ: صرف بیانیہ بنانے سے کام نہیں چلے گا
بدھ کی شام صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں کالعدم علیحدگی پسند عسکری تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی – بی ایل اے سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر حملہ کیا- جوابی کاروائی میں تمام حملہ اور مارے گئے۔ برطانیہ کے معروف اخبار انڈی پینڈنٹ کی آفیشل ویب سائٹ نے اس حملے کے دوران تین سیکورٹی اہلکاروں کے شہید ہوجانے کی اطلاع بھی دی ہے۔
بلوچستان میں علیحدگی پسندوں میں مسلح تحریک چلانے والی بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی یہ پہلی دہشت گردی کی کاروائی نہیں ہے جسے وہ تنظیمیں بلوچستان کی آزادی کے لیے کی جانے والی کاروائیاں قرار دیتے ہیں- اس دوران یہ علیحدگی کے حامی بلوچ عسکریت پسند سویلین اور سیکورٹی فورسز کے درمیاں کوئی تمیز بھی روا نہیں رکھتے۔ نہ ہی وہ انسانی حقوق کے اخترام کی پرواہ کرتے ہیں- گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس جو اس مرتبہ بی ایل اے کا ہدف تھا، وہاں پر وفاقی اور صوبائی انتظامیہ کے اہم ترین دفاتر ہی نہیں بلکہ وہاں پر سرکاری ملازمین کے خاندان بھی رہائش پذیر ہیں- اگر سیکورٹی فورسز اس حملے کو ابتداء سے ہی نہ روکتے تو لامحالہ سرکاری ملازمین کے خاندان کی عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی اس حملے کا نشانہ بنتے۔
گوادر پورٹ اتھارٹی پر بی ایل اے کے دہشت گردوں کے حملے کا ایک علامتی مطلب وفاق پاکستان پر حملہ کیا جانا بھی بنتا ہے۔
اس حملے کے فوری بعد قومی ادارہ انسداد دہشت گردی – نیکٹا کا ایک اجلاس اسلام آباد میں زیرصدارت وفاقی وزیر داخلہ و انسداد منشیات سید محسن رضا نقوی منعقد ہوا- اس اجلاس میں ایک بار پھر نیکٹا کو دہشت گری کے خلاف صف اول میں سرگرم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب نیشنل ایکشن پلان کی کوارڈینشن کمیٹی کا اگلے ہفتے اجلاس بلانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
پاکستان کی قومی سلامتی کے اداروں کی دہشت گردی کی کاروائیوں کے خلاف بروقت کاروائیوں اور اس دوران ان اداروں میں کام کرنے والے افسران و اہلکاروں کی قربانیاں قابل ستائش ہیں- لیکن یہاں پر ہم چند باتیں ‘خود احتسابی کے لیے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں:
وفاقی وزیر داخلہ سید محسن رضا نقوی کے پاس اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی بھی ہے۔ ملک کی داخلی سلامتی اور پاکستان کی کرکت کا انتظام و انصرام یہ دونوں الگ الگ کام ہیں- یہ دونوں شعبے اپنی اپنی جگہ مکمل توجہ مانگتے ہیں – اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں ان دونوں میں سے کسی ایک کام کے لیے خود کو ‘فل ٹائم مختص کرنے پر غور کرنا ہوگا-
نیکٹا کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ انتہا پسندی کے خلاف قومی بیانیہ بڑے پیمانے پر پھیلانا ہوگا-
پاکستان میں نائن الیون کے بعد سے جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں انھوں نے انتہا پسندی کے خلاف ‘قومی بیانیہ نام کی اصطلاح بڑے شد و مد کے ساتھ استعمال کی ہے۔ اس زمانے میں ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جواز کے لیے ‘بیانیہ تشکیل دینے کے نام پر بہت وسائل جھونکے گئے۔ لیکن بدقسمتی سے خود حکومتی اور ریاستی سطح پر اٹھائے جانے والے بہت سارے اقدامات ایسے تھے کہ جو خود اس جواز پر سوالیہ نشان لگاتے تھے۔ قریب قریب دوعشروں تک تو آنے والی حکومتیں ‘اچھے اور برے عسکریت پسند اور ‘اچھی اور بری پراکسی کی تقسیم سے جنم لینے والی الجھن کا خاتمہ کرنے میں ناکام نظر آئیں- اب بھی بلوچستان ہی نہیں ملک کے دیگر حصّوں میں ایسی تنظیمیں سرگرم ہیں جو نیکٹا کی طرف سے جاری کردہ ‘کالعدم تنظیموں کی فہرست میں موجود ہیں لیکن وہ سب بدستور کام کر رہی ہیں بلکہ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ان میں سے کئی ایک تنظیموں نے نام تبدیل کرکے خود کو الیکشن کمیشن پاکستان میں بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ کیا ہوا ہے اور انھوں نے حالیہ فروری میں ہوئے عام انتخابات میں حصّہ بھی لیا- سب سے پہلے تو وفاقی وزرات داخلہ کو تمام کالعدم تنظیموں کو کسی بھی شکل میں پاکستان کے اندر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے سے روکنے کے انتظامات کرنا ہوں گے۔ دوسرا اسے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس طرح کا تاثر ختم کرنا ہوگا جس سے یہ لگتا ہو کہ کسی بھی کعلدم تنظیم یا فورتھ شیڈول میں شامل فرد کو حکومتی پشت پناہی حاصل ہے۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں، سیاسی کارکن یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ وہاں پر کئی ایسے مبینہ ڈیتھ اسکواڈ سرگرم ہیں جنہیں سیکورٹی فورسز یا انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اندر سے کوئی سپورٹ یا سرپرستی حاصل ہے۔ بلوچ قوم پرست سیاست دان ایسے الزامات مسلسل عائد کرتے ہیں- ان سب کی غیر جانبدارانہ تحقیق ہونی چاہئیے۔
بلوچستان میں جاری عسکریت پسندی چاہے وہ نسلی بنیادوں پر ہے یا مذہبی بنیادوں پر ان سب کو سب سے زیادہ تقویت بلوچ سماج کے اندر پائی جانے والی سیاسی، سماجی، معاشی نا انصافی کے اندر چھپی ہوئی ہے۔ بلوچستان میں کئی سلگت مسائل ایسے ہیں جن کا حل کیا جانا ہی انتہا پسندی کے خلاف قومی بیانیہ کو عوامی حمایت دلا سکے گا- ان سلگتے اور سنگین ترین مسائل میں سے سب سے بڑا سنگین اور سلگتا ہوا مسئلہ ‘جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت اغوا و قتل ہے جس کے خلاف دسمبر میں خضدار سے اسلام آباد تک بلوچ یک جہتی کمیٹی کے تحت ایک لانگ مارچ بھی کیا گیا تھا جس میں بلوچ خواتین کی بہت بڑی تعداد شریک ہوئی تھی- وفاق اور بلوچستان میں حکومتیں آتی جاتی رہی ہیں اور کم و بیش سبھی حکومتوں نے اس سلگتے ہوئے مسئلے کا حل نکالنے کے دعوے بھی کیے۔ جبری گمشدگان کی بازیابی کے لیے ایک کمیشن بھی قائم ہوا- پاکستان سپریم کورٹ اور بلوچستان ہائیکورٹ میں بھی اس معاملے سے جڑے متعدد مقدمات زیر التوا ہیں- لیکن اب تک یہ مسئلہ وہیں اٹکا ہوا ہے اور اس کے سبب انتہا پسندی کے خلاف قومی بیانیہ کی تشکیل اور اس پر اتفاق رائے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے سے متعلق تمام اسٹیک ہولڈرز کو باہم مل بیٹھنے اور اس کا حل نکالنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ بندوق اور بارود کے زریعے سے مسئلے کا حل نکالنے والے بیانیہ کو مکمل شکست دی جاسکے۔

جامعات میں ہراسانی کے بڑھتے واقعات

بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ طبعیات میں بی ایس 8ویں سمسٹر کی ایک طالبہ سے شعبہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فیاض حسین کی جانب سے مبینہ ہراسانی کا واقعہ میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے۔ یہ واقعہ میڈیا میں اس وقت نمایاں ہوا جب مدعی طالبہ نے عورتوں کے عالمی دن کے موقعہ پر جامعہ بہاءالدین زکریا ملتان میں ہونے والے ایک سیمینار کے دوران وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ کو آن دا ریکارڈ یہ شکایت کی کہ ان کی درخواست کو جامعہ کے ڈین آف سائنسز نے وصول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس کے بعد مدعی طالبہ نے خاتون وفاقی محتسب دفتر میں اپنی درخواست جمع کرائی جس کے بعد وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ نے اس واقعے پر جامعہ کی طرف سے قائم کردہ ‘کمیٹی برائے ہراسانی کو اس واقعے کی مکمل جانچ پڑتال کرنے کا حکم صادر فرمایا- جامعہ بہاءالدین زکریا ملتان میں ہراسانی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں جامعہ میں تدریس جیسے مقدس پیشے سے وابستہ مرد اساتذہ پر خواتین طالبات اور اساتذہ کو ہراساں کیے جانے کا الزام لگا ہو- ایسی شکایات پہلے بھی منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ اب تک جتنی شکایات میڈیا میں رپورٹ ہوئی ہیں ان میں کئی ایک پہلو مشترکہ ہیں- سب سے پہلے تو ہراسانی کی مبینہ متاثرہ طالبہ یا استاد خاتون کی درخواست کو اس کے متعلقہ شعبے کے ڈین یا چیئرمین نے قبول کرنے اور اس کی جانچ پڑتال کرنے سے گریز کیا- درخواست دہندگان کی جانب سے یہ شکایت کی گئی کہ اس کو وہ درخواست واپس لینے اور خاموش رہنے کے لیے سخت ترین دباؤ کا سامنا کرنا پڑا- دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہراسانی کی مبینہ متاثرہ خاتون استاد یا طالبہ کی طرف سے ایسے واقعات کے خلاف دستیاب قانونی راستا اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی دیکھنے کو نہیں ملی – تیسرا پہلو یہ ہے کہ ہراسانی کے واقعے کی تحقیقات پر زور دیے جانے کی بجائے سوشل میڈیا اور کسی حد تک نام نہاد مین سٹریم میڈیا پر جامعات کے اندر طاقت، اختیار اور کنٹرول کے لیے جاری لڑائیوں کے پس پردہ لابیوں کے بااثر لوگوں نے اسے اپنے مبینہ مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا گیا- سوشل میڈیا اور کئی ایک میڈیا گروپوں کے اخبارات اور آفیشل ویب سائٹس پر یہاں تک ہوا کہ ہراسانی کی درخواست دینے والی طالبہ یا خاتون استاد کی شناخت، نام ، رہآئش اور شہر تک افشا کردیے گئے جو کہ بذات خود ایک سنگین جرم ٹھہرتا ہے۔ ایسے تمام ہتھکنڈوں نے تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے خلاف لڑنے کی ہمت، جرآت اور مورال تینوں کو ختم کردیا- اور آخرکار ‘ہراسانی کے اٹھنے والی مدعی طالبات اور خواتین مجبور ہوکر اپنی درخواستیں واپس لینے اور خاموش ہوجانے پر مجبور کردی گئیں-
کام یا تعلیم کی جگہ پر ہراسانی ایک نہایت حساس معاملہ ہے۔ اس طرح کی شکایت کے سامنے آنے پر سب سے اہم ذمہ داری وہاں کے انتظامی سربراہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ایک تو اس شکایت کو فوری طور پر ‘ہراسانی کمیٹی کے سپرد کرے۔ دوسرا وہ یہ یقینی بنائے کہ نہ تو مدعیہ کی شناخت افشاء ہوگی اور نہ ہی کوئی اس مدعیہ کے گھر والوں کو دباؤ میں لا سکے گا- ہراسانی کے خاتمے کے لیے ہر تعلیمی ادارے کو وہاں پڑھنے والی طالبات اور کام کرنے والے تدریسی و غیر تدریسی عملے میں شامل خواتین کو مکمل گائیڈ کریں اور ان کی تربیتی ورکشاپ کریں جس میں انہیں ہراسانی سے بچنے اور ہراسانی کی صورت میں کس طرح کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت سے مکمل طور پر آگاہ کیا جائے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا سے وابستہ افراد اور اداروں کو بھی ایسے معاملات میں ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا- صحافتی اخلاقیات کی پابندی ممکن بنانے کے لیے پریس کلبز، صحافتی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وائس چانسلر جامعہ بہاءالدین زکریا ملتان ہراسانی کے الزام کے تحت اس درخواست پر کاروائی کو منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنا پورا کردار ادا کریں گے اور درخواست دہندہ طالبہ کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا-
آخری بات، معاشرے کے ہر فرد کو ایسی فضا بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ہراسانی، جنسی زیادتی اور صنفی تفریق پر مبنی کسی بھی جبر کے خلاف لڑنے والی خواتین قابل تعریف ہیں ناکہ انہیں ‘شرمندہ کیے جانے کا احساس کرایا جائے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں