حکومت پاکستان نے حکومتی اخراجات میں کمی لانے کے لیے ایک باقاعدہ میکنزم تشکیل دینے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے اس کے لیے ایک 7 رکنی کمیٹی قآئم کی ہے جس کا کام حکومتی اخراجات میں کمی لانا ہوگا- کمیٹی میں کابینہ، فنانس ، آئی اینڈ پی ڈویژنوں اورتین آزاد ماہرین معاشیات شامل ہیں-پاکستان کے ریاستی ڈھانچے پر نظر دوڑائی جائے تو صاف نظر آجائے گا کہ اس وقت بے وردی نوکر شاہی کی چاندی ہے۔ ان کا پلڑا بھاری ہے تو اب تک امتیازی ٹیکسز سے سب سے بڑے فائدہ اٹھانے والی بھی وہی ہے- جب سے بدترین افراط زر/ مہنگائی کا چلن ہوا ہے تب سے ان کی تنخواہوں میں بھی بتدریج اضافہ آسمانوں کو چھونے لگا ہے۔ جب کہ پاکستان کے باقی تمام شعبوں کے لوگ یہاں تک کہ چھوے سرکاری ملازم وہ سب تو کہیںکارخانوں کی بندشوں، کہیں سیلابوں کا سامنا کر رہے ہیں اور اس سب سے ان کی فصلیں، ڈھوڑ ڈنگر، کجّے پکے بنے گھر سب تباہ ہوگئے ہیں- ان کو مسلسل سیکٹرنے والی معشیت کا سامنا ہے۔ ایسے میں حکومتی اخراجات میں کمی لانے والی 7 رکنی کمیٹی میں اگر چار اسی نوکر شاہی سے لوگ اراکین ہوں گے تو اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ یہ کمیٹی افسران بالا کی تنخواہوؤں اور مراعات میں کمی لانے کی تجویز دیں گے۔ یہ امید ازاد ماہرین معاشیات سے لگائی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی سی کوشش کریں گے۔ ان سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ نہ صرف افسر شاہی کے خرچوں میں کمی لانے کی کوشش کریں گے بلکہ ٹیکسز کے موجودہ سسٹم کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے جو صرف اشرافیہ کے حق میں استعمال ہو رہا ہے۔اس وقت افسر شاہی سب سے بڑا بوجھ خزانے پر مختلف خریداریوں کی مد میں کانٹی جینسی لگاکر یا باقاعدہ ٹینڈر کرکے ڈالتی ہے۔ اسے اس وقت تک روکا جائے جب تک معاشی استحکام مکمل طور پر حاصل نہ ہوجائے۔ دفتری اوقات سے ہٹ کر سرکاری گاڑیوں اور دفاتر کے استعمال پر سختی سے پبندی لگائی آجائے۔اس کمیٹی کے کام کرنے کے لیے قواعد و ضوابط ‘ٹرم آف ریفرنیسز ابھی تک تیار نہیں ہوئے ہیں لیکن وزیر اعظم نے واضح کردیا ہے کہ اس کمیٹی کے دائرہ کار میں دفاعی اخراجات اور قرضوں پر سود کی اقساط کی ادائیگی میں کمی کرنے کا اختیار نہیں ہوگا- پاکستان کا دفاع ایک اہم ضرورت ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے دفاعی اخراجات میں جو غیر رفاعی کاموں پر جیسے کمرشل سرگرمیاں ہیں شامل کی جاتی ہیں انہیں خالص دفاعی اخراجات سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپریشنل دفاعی بجٹ میں بے شک کوئی کمی نہ کریں لیکن دوسرے قسم کے بجٹ میں لازمی کمی کریں-اس کا بہت واضح مطلب ہوگا کہ آپریشنل اخراجات جو کہ 442 ارب سے زائد ہیں ، ملازمین سے متعلق یعنی تنخواہوں و پنشن وغیرہ جو 705 ارب سے زائد ہے ان میں کٹوتی واقعی نہیں ہونی چاہئیے۔ لیکن اس بجٹ میں 461 ارب روپے سسے زائد کا خانہ ایسا ہے جو مقامی خریداری اور گولہ و بارود کی امپورٹ کے لیے رکھا گیا ہے اس کو جب آپریشنل ضرورت ہو تب ہی استعمال کے آپشن پر رکھا جاسکتا ہے اور ایسے ہی اس میں 195 ارب سے زائد سول ورکس کے لیے رکھے گئے ہیں جن کو فی الحال کے لیے ملتوی کیا جاسکتا ہے – جہاں تک قرضوں پر سودی اقساط کا تعلق ہے تو یہاں جس چیز پر سب سے پہلے روک لگانے کی ضرورت ہے وہ مقامی کمرشل بینکوں سے بھاری بھر قرضےلینے کا رجحان ہے۔ سابق نگران حکومت دور میں ان میں ڈرامائی اضافہ ہوا- رواں مالیاتی سال کے 7 ماہ میں حکومت نے مقامی کمشل بینکوں سے جتنے قرضے لیے اتنے قرضے تو گزشتہ مالیاتی سال میں نہیں لیے تھے۔ حکومتی اخراجات میں 26 فیصد اضافہ کیا گیا اور اس کے لیے کمرشل بینکوں سے بھاری قرضے وصول کیے گئے اس نے افراط زر کو بڑھایا اور اس کا بوجھ عام آدمی پر پڑ رہا ہے۔ مقامی قزصے لینے کی حد مقرر کی جانی ضروری ہے ناکہ اس مد کو کمیٹی کے اختیار سے مکمل خارج کردیا جآئے۔ موجودہ اخراجات کا ایک بڑھتا ہوا حصہ، خاص طور پر پنشن، نے پچھلی چار سے پانچ انتظامیہ کے لیے شدید تشویش کا باعث بنا، حالانکہ کسی نے بھی ہڑتال کی کارروائی کے خطرے کی وجہ سے حکومت اور ڈونر کنسلٹنٹس کی طرف سے کیے گئے مختلف مطالعات کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا۔یہ ضروری ہے کہ یہ کمیٹی ان تمام مطالعات کو دیکھے جو متعلقہ وزارت میں دھول اکھٹا کرتی ہے اور اس صورت میں کہ اصلاحات فوری ہڑتال کی کارروائی کرتی ہیں تو مارگریٹ تھیچر کے راستے پر جانا ہی واحد آپشن ہو سکتا ہے: تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے فوج بھیجنا۔نتیجہ اخذ کرنے کے لیے، یہ پہلا موقع نہیں جب کسی موجودہ وزیر اعظم نے اخراجات کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کی ہو یا پھر کفایت شعاری کو یقینی بنانے کے لیے سفارشات پیش کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی ہو، حالانکہ پاکستانیوں کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ تجویز کردہ اقدامات اور ان پر عمل درآمد کے درمیان بہت فرق ہے۔معیشت میں مزید التوا کا عیش و آرام نہیں ہے اور یہ سفارش کی جاتی ہے کہ اقدامات سے موجودہ حکومت کے لیے ماضی کی طرح صرف اچھی آپٹکس فراہم نہیں کرنی چاہیے بلکہ درحقیقت اخراجات کو ایک قابل ذکر رقم سے کم کرنا چاہیے جس سے نہ صرف موجودہ ٹیکسوں میں اضافے کی ذمہ داری کو کم کیا جائے گا، جو اشرافیہ کے حق میں متزلزل رہتے ہیں، لیکن کم سخت اور سامنے والے حالات کے لحاظ سے قرض دہندگان کے ساتھ ہمارا فائدہ بھی بڑھاتے ہیں۔ اردو کا محاورہ ہے کہ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑاتے تھے ، یہ بات افسر شاہی کو سمجھ لینے کی ہے کیونکہ اب اگر انہوں نے فاختہ اڑانے( غیر ضروری و کم ضروری خرچے) پر اصرار کیا تو ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے پھر نہ پری رہے گی نہ جنوں ۔
پاکستان سپریم کورٹ کا خوش آئند فیصلہ
گزشتہ سے پیوستہ روز پاکستان کی سب سے بڑی عدالت پاکستان سپریم کورٹ نے نومنتخب وفاقی حکومت کو پابند کیا کہ وہ سپریم کورٹ میں ایک مفصل رپورٹ جمع کرائے جس میں حکومت کی طرف سے موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اب تک اٹھائے گئے اقدامات کا زکر ہو۔ پاکستان سپریم کورٹ کا یہ انتہائی خوش آئند اقدام ہے۔ اس پیش رفت سے حکومت پاکستان کے اندر سست افسر شاہی سے جو روکاوٹیں غیر متوقع موسمیاتی واقعات کی تیاری کے مقابلے میں برت لی جاتی ہے کے ختم ہونے کا کچھ امکان پیدا ہوا ہے۔ پاکستان نے 2022ء میں تباہ کن غیر متوقع سیلاب کے سبب 30 کھرب 20 ارب کا نقصان اٹھایا تھا-اور حال ہی میں گوادر او اس کے گرد و نواح میں غیر متوقع طوفانی بارشوں سے آنے والے سیلابی ریلوں نے جو تباہی مچائی وہ بھی اپنی جگہ انتہائی تشویش ناک ہے اس سے ہونے والے نقصانات کا ابھی تک مجموعی تخمینہ سامنے نہیں آیا۔پاکستان کا شمار دنیا کے ان چار بدترین ممالک میں چوتھے نمبر پر ہوتا ہے جن کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں- حالیہ ؤدید بارشوں میں درجنوں جانیں اور بڑی تعداد میں لائیواسٹاک کی تباہی نے صورت حال مزید خراب کردی ہے۔ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان ماحولیاتی تبدیلی ایکٹ 2017ء کا نفاذ ہوا لیکن ابھی تک نہ تو پاکستان اتھارٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کا قیام عمل میں آسکا ہے اور نہ ہی ‘ماحولیاتی تبدیلی فنڈ کا قیام عمل میں آسکا ہے۔ جبکہ اس ایکٹ کی رو سے دونوں کام فوری ہوجانے چاہئیے تھے۔ یہہمارے ہاں ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے وضع کردہ مفروضہ ڈھانچے کی تعمیر کے لیے بنیاد کی سی حثیت رکھتے ہیں اور یہ محض افسر شاہی کی خدمت کے لیے بنائے جانے والے بیوروکریٹک پھوں پھاں کے لیے نہیں ہیں نہ ہی ایسا ہونا چاہئیے۔ یہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط فریم ورک ہے، پاکستان اتھارٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی اور پاکستان ماحولیاتی تبدیلی فنڈ جیسے ادارروں کی تعمیر پر پاکستان سپریم کورٹ کا اصرار بہت اہم ہے۔ اس سے امید کی جاتی ہےکہ یہ دونوں ادارے جلد قائم ہوں گے۔ مضبوط اندرونی میکنزم کی تعمیر کے بغیر ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بیرونی امداد پر انحصار لا حاصل مشق ثابت ہوگی-نقصان اور نقصان کے فنڈ کو محفوظ کرنے پر عدالت کا زور بھی اتنا ہی اہم ہے، جو بڑے پیمانے پر موسمیاتی تباہی کے بعد دوبارہ تعمیر کی امید پیش کرتا ہے۔ اگرچہ عالمی مالی امداد انتہائی اہم ہے، لیکن پاکستان کے لیے اپنے گھر کو ترتیب دینا ضروری ہے۔ مضبوط اندرونی میکانزم اور منصوبہ بندی کے بغیر بیرونی امداد پر انحصار ایک غیر یقینی حیثیت ہے۔ فنڈ، اگرچہ اہم ہے، آب و ہوا کی لچک اور موافقت کی ایک بڑی پہیلی کا ایک ٹکڑا ہے جس کے لیے گھریلو تیاری اور دور اندیشی کی ضرورت ہے۔حکومت کو ایک جامع رپورٹ کے ساتھ سپریم کورٹ کی درخواست کا جواب دینا چاہیے جو نہ صرف ماضی کے اقدامات کا خاکہ پیش کرتی ہے بلکہ آگے بڑھنے کے لیے ایک واضح، قابل عمل راستہ بھی بتاتی ہے۔ اس رپورٹ میں ماحولیاتیتبدیلی اتھارٹی کے قیام، ماحولیاتیتبدیلی کے فنڈ کو چلانے، اور قدرتی آفات کے خطرے کے انتظام اور ماحولیاتیموافقت کے لیے مقامی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے اقدامات کی تفصیل ہونی چاہیے۔ اسے بین الاقوامی ماحولیات سے فائدہ اٹھانے کے لیے حکمت عملی بھی بیان کرنی چاہیے، بشمول نقصان اور نقصان کے فنڈ، مؤثر اور شفاف طریقے سے۔ عالمی آب و ہوا کے اہداف کے ساتھ قومی کوششوں کو ہم آہنگ کرنے کے لیے نمائندہ ماحولیاتی تبدیلی کے ادارے کا قیام ایک اہم قدم ہو گا، اس بات کو یقینی بنانا کہ پاکستان نہ صرف بین الاقوامی حمایت کا فائدہ اٹھانے والا ہے بلکہ عالمی ماحولیاتی نظم و نسق میں ایک فعال حصہ دار بھی ہے۔ عدالت کا حکم حکومت کے لیے ایک کارروائی کا مطالبہ ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کو نہ صرف ایک ماحولیاتی مسئلے کے طور پر بلکہ ملک کی سلامتی اور خوشحالی کے ایک اہم عنصر کے طور پر بھی ترجیح دے۔ رپورٹ کو نہ صرف عدالتی انکوائری کو مطمئن کرنا چاہیے بلکہ پاکستان کے لیے ایک لچکدار، پائیدار مستقبل کے لیے بلیو پرنٹ کے طور پر بھی کام کرنا چاہیے۔