حکومت بنے چند روز ہوئے ہیں اور حکومتی کیمپ سے ایسے بیانات کی بارش ہونے لگی ہے جن سے غیرمستحکم سیاسی نظام مزید عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ اور ایسے لگتا ہے جیسے اخیتارات کا گھنٹہ گھر اسلام آباد کو بنانے والی قوتیں بندوق عالمی مالیاتی بینک کے کندھے پر رکھنا چاہتی ہیں جس کا نشانہ اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو ملنے والے مالیاتی اختیارات ہیں مقصد قابل تقسیم سرکاری محصولات صوبوں کی حصّہ داری کم کرنا ہے۔
ہم نے اداریوں میں بار بار یہ بات کی ہے کہ وفاقی حکومت کو اپنے سرکاری محصولات/ ٹیکسز کو اکٹھا کرنے کے نظام کو بہتر بنانے اور سرکاری محصولات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے سب سے پہلے تو کل محصولات میں بالواسطہ محصولات کا حصّہ(75 فیصد) کم کرنا اور براہ راست آمدن پر سرکاری محصولات کا حصّہ بڑھانا ہوگا- دوسرے نمبر پر اسے وفاقی بورڑ آف ریونیو- ایف بی آر میں سٹرکچرل اصلاحات کرنا ہوگی – اگر اس وقت مقتدر طاقتوں میں کوئی لابی سرکاری محصولات میں صوبوں کا حصّہ کم کرنے سے آمدن بڑھانے کا سوچ رہی ہے تو اس کی سوچ نہ صرف مالیاتی اعتبار سے بھی غیر معقول بلکہ یہ سیاسی عدم بلوغت کا بھی اظہار ہے۔
آئی ایم ایف کے بارے میں جب یہ خبریں میڈیا میں آئیں کہ وہ پاکستان سے سرکاری محصولات کی تقسیم میں وفاق- صوبوں کے درمیان حصّہ داری کو اپنے تئیں متوازن بنانے کے لیے دوبارہ بات چیت کرنے کا خواہاں ہے تو سب سے پہلے پاکستان پیپلزپارٹی نے اس پر اپنا ردعمل دیا اور ٹھیک کہا کہ ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے کا کیا کام بنتا ہے کہ وہ پاکستان کے آئین میں دیے گئے وسائل کی تقسیم کے فریم ورک میں مداخلت کرے۔
وفاقی حکومت اٹھارویں ترمیم میں وفاق کی سطح پر اکٹھے ہونے والے قابل تقسیم محصولات کے لیے ‘نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ، میں بدلاؤ لانے کی بات کیوں کرتی ہے جبکہ اسی اٹھارویں ترمیم نے صوبوں کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنے اخراجات میں کمی لاکر اضافی پیسے بچائیں اور وہ خود کو اس قابل بنائیں کہ وہ بجائے وفاق سے سپلمینٹری گرانٹس، قرضے لینے اور ایسے ہی کمرشل بینکوں سے قرضے لینے کے الٹا وفاق کو مالیاتی تنگی سے نکالنے میں مدد دے سکیں- اس وقت صوبوں کا مالیاتی خسارا بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا- پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے اور وفاق و پنجاب میں برسراقتدار پاکستان مسلم لیگ نواز کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے اکثر سیاست دان ، ٹیکنوکریٹ، ریٹائرڈ جرنیل، ریٹائرڈ ججز اٹھرویں ترمیم میں صوبوں کو ملنے والے وسائل کے حجم کو اکثر وبشتر نشانہ بناتے ہیں جس سے باقی کے تین صوبوں میں سخت بے چینی پیدا ہوجاتی ہے جن کی نمائندہ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے صوبائی خودمختاری کے لیے بڑی طویل لڑائی لڑی ہے اور اس لڑائی میں ان کی یادیں بہت تلخ ہیں-
وہ بجا طور پر اٹھاروين ترمیم پر اعتراضات اٹھانے والی ‘پنجابی انٹیلجنشیہ کے ایک سیکشن کے جواب میں سوال اٹھاتے ہیں کہ پنجاب کی کل آمدنی میں آخر اس کی ٹیکسز و نان ٹیکسز سرکاری محصولات کا حصّہ 17 فیصد کیوں ہے؟ اور اسے 83 فیصد حصّہ وفاق سے کیوں مانگنا پڑتا ہے؟ یہ اپنے وسائل سے اپنی آمدنی اس قدر کیوں نہیں بڑھاتا کہ یہ اپنے بجٹ کے مالیاتی خسارے کو کم کرلے۔ دوسرا اہم سوال یہ بنتا ہے کہ وفاق کل جی ڈی پی کے اعتبار سے اپنے ٹیکسز کی شرح کو متعینہ ہدف 9 فیصد تک لیجانے میں بار بار ناکام کیوں ہوتا ہے۔ ٹیکسز کا دائرہ نہ بڑھنے کے سبب قرضہ 271 ارب ڈالر ہوچکا ہے۔
کیا وفاق کی مالیاتی میدان میں ناکامیوں کی بھرپائی صوبوں سے لیجانی چاہئیے یا وفاق کو اپنی مالیاتی ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلنے کی ضرورت ہے؟ کیا یہ مہم درست ہے کہ پھر سے ایک طاقتور وفاقی مرکز ہو اور اس کی کمزور اکائیاں ہوں جہاں پر اٹھارویں ترمیم کو ختم کرکے این ایف سی ایوارڈ کمیشن کے تحت صوبوں اور وفاق میں قابل تقسیم محصولات کا موجودہ فارمولا ختم کردیا جائے؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ صوبوں-مرکز تعلقات کو لیکر بہت پرآشوب ہے اور اس آشوب کا جو بھی شناسا ہے وہ اچھے سے جانتا ہے کہ صوبوں کے اختیارات کم کرکے یہاں تک کہ صوبوں کا وجود آئینی طور پر ختم کرکے مضبوط مرکز کے ساتھ مستحکم ریاست کے دعوے داروں نے نہ صرف خود بدترین ہزیمت اٹھائی بلکہ مملکت خداداد پاکستان کو بھی دولخت کرنے کا سبب بن گئے۔ اٹھارویں ترمیم نے پاکستان کے اندر تین صوبوں میں ماضی کے بہت سارے سلگتے قومی سوالوں کو سرد کردیا اور اس نے مرکزی دھارے سے کٹے ہوئے بہت سارے بااثر سیاست دانوں کو مرکزی دھارے میں آنے پر مجبور کیا- اس ترمیم نے ‘آزاد پشتونستان’ کے گرد کھڑی سیاست کے بہت بڑے سیکشن کو وفاق پرست سیاست کی طرف دھکیلا – سندھ میں علحیدگی پسند ‘سندھو دیش کی سیاست کو دھچکا لگا اور بلوچستان میں اختر مینگل سمیت کئی بلوچ قوم پرست سیاست دانوں کو واپس پانلیمانی سیاست میں لیکر آئی ۔
وفاق کی مالیاتی کمزوریوں کے پردے میں اٹھارویں ترمیم میں مالیات سے متعلق ترامیم پر نشانہ باندھنا اور اس بارے مہم چلانا بہت خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ صوبائی خودمختاری اور مالیاتی اختیارات کو واپس وفاقی مرکز کو دینے کی کوشش بہت بڑے انتشار کو جنم دے گی اور یہ بجا طور پر تین صوبوں کو پنجاب اور وفاق کے خلاف صف آراء کرے گی اور اس سے وفاق پاکستان مضبوط نہیں ہوگا بلکہ شدید غیر مستحکم ہوجائے گا- اس خطرناک راستے پر نہ چلا جائے جو پاکستان کو خدا نہ کرے بند گلی میں لیجا کر کھڑا کردے گا-
ہفتہ پاکستان مالیاتی خواندگی
فروری- مارچ کے مہینوں میں پاکستان بھر میں ادبی میلوں کی بہار کی ثقافت تو پوری طرح سے پھل پھول رہی ہے لیکن اس مرتبہ پہلی بار ماڑج کے پہلے ہفتے ‘پاکستان فناشل لٹریسی ویک – پی ایف ایل ڈبیلو بھی منایا گیا- پاکستان کے سرکاری بینک کے سٹرٹیجک وژن 2028 کی مناسبت سے ڈیجیٹل مالیاتی شمولیت کاری کو آگے بڑھانے کے لیے پہلا ہفتہ برائے ‘مالیاتی خواندگی منایا گیا- ہفتہ پاکستان مالیاتی خواندگی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر پاکستان سٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ ‘مالیاتی شمولیت کاری ‘ صارفین، بچت کنندگان، کاروباری حضرات کو ایک بڑے نیٹ ورک سے جوڑے گی اور پاکستانی کی معاشی ترقی میں بھیاہم کردار ادا کرے گی اور اس سے ہموار و مساوات پر مبنی معشیت کو فروغ ملے گا- گورنر سٹیٹ بینک پاکستان نے کہا کہ ہفتہ پاکستان مالیاتی خواندگی منانے کا مقصد مالیاتی خدمات تک پاکستان کے ہر شہری کی بلا امتیاز رسائی کو تسلیم کرنے کا مطلب اسے بنیادی انسانی حققوق میں سے ایک ماننا ہے۔ مالیاتی خواندگی ان کے مطابق ہر شہری کو معشیت میں مکمل طور پر شریک کرنے کے لیے درکار اوزار اور علم دونوں فراہم کرے گی-
اس میں دوسری رائے کوئی نہیں ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں مالیاتی خدمات سے شہریوں کی اکثریت اس لیے مستفید نہیں ہو پا رہی کہ ان کے پاس نہ تو مالیاتی سروسز بارے کچھ ویادہ معلومات ہیں اور نہ ہی ان خدمات تک ان کو رسائی کا طریقہ معلوم ہے۔ اس وقت بھی پاکستان کی بہت بڑی آبادی کے نہ تو بینکوں میں کھاتے ہیں، نہ ہی وہ ڈیجیٹل بینکاری کے لیے درکار معلومات اور ضروری تکنیک سے آشنا نہیں ہیں ۔ پاکستان میں خاص طور پر سفید پوش اور غریب لوگ مالیاتی خواندگی سے کوسوں دور ہیں اور اکثر و بیشتر حکومتیں جب کبھی ان کے لیے مالی امداد اور سبسڈی کا کوئی پروگرام وضع کرتی ہے تو ان کے لیے سلکیٹ ہونے والے شہریوں کی بہت بڑی تعداد مالیاتی ناخواندہ ہونے کے سبب نہ تو اپنا اندراج اس پروگرام میں کرا پاتی ہے اور جو کروا بھی لیتے ہیں ان کی بہت بڑی تعداد مالیاتی ناخواندگی کے سبب اس امداد میں بھی فراڈیوں کا نشانہ بن جاتی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹریشن سے محروم خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد مالیاتی ناخواندہ گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے اور بہت بڑی تعداد جو رجسٹرڈ ہے وہ بھی ڈیجیٹل ناخواندگی کے سبب لمبی لممبی قطاروں میں ذلت کا سامنا کرتی ہے۔
‘پاکستان مالیاتی خواندگی ‘ کا اقدام ہت زبردست ہے۔ ہفتہ برائے پاکستان مالیاتی خواندگی کے دوران پاکستان سٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں نے 29 لاکھ افراد تک مالیاتی خواندگی کا پیغام پہنچایا جن میں 50 فیصد عورتیں شامل تھیں۔ یہ درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے اور اس میں صنفی توازن بھی قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن یہاں ایک بات دیکھنے میں آئی ہے کہ کمرشل بیلکوں نےمالیاتی خواندگی کے ہفتے میں اپنی مضافاتی اور قصبہ جاتی شاخوں کو دیہی خواتین تک رسائی کا پڑوگرام تشکیل نہیں دیا وہاں پر یہ مہم بہت ٹھنڈی نظر آئی ۔ پاکستان سٹیٹ بینک کو کمرشل بینکوں کو اس حوالے سے بہتری لانے کی ہدایات جاری کرے۔