آج کی تاریخ

آرڈیننس گردی

آرڈیننس گردی

پاکستان کے زیریں ایوان قومی اسمبلی میں گزشتہ روز ایک قرارداد اکثریت سے منظور کرلی گئی جس کی رو سے نگران سیٹ اپ کے دور میں 9 صدارتی آرڈیننس میں توسیع کی حمایت کی گئی ۔ اس طرح عجلت میں نگران دور میں نافذ کیے گئے آرڈیننس جن کی معیاد پوری ہوچکی تھی ان میں توسیع کے لیے قرارداد کی منظوری پر حزب اختلاف سنّی اتحاد کونسل / پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی نے شدید احتجاج کیا اور وہ ایوان سے واک آؤٹ بھی کرگئے۔ دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی جو حکومت کو حمایت دے رہی ہے نے اس موقعہ پر ایوان کے اندر رہ کر آرڈیننس میں توسیع کی نیم مخالفت کی لیکن ان کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی – اس سے یہ تاثر ابھرا کہ ایوان میں پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے نگران سیٹ اپ میں نافذ کیے جانے والے 9 صدارتی آرڈیننس کی مخالفت دکھاوا نہیں بھی تھی تو یہ لیپا پوتی کے زمرے میں ضرور داخل تھی- جن آرڈیننسوں کی توسیع کی قرارداد ایموان زیریں میں منظور کی گئی ان کے کئی ایک مشتملات اور نکات پر ملکی و غیر ملکی انسانی حقوق کے ادارے شدید تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں- خود پاکستان پیپلزپارٹی کا اپنا موقف بھی یہی رہا ہے کہ وہ آرڈیننس عوام کی خواہشات کے الٹ ہیں- اس وقت قومی اسمبلی میں ایسی اتحادی جماعتوں کی اکثریت ہے جس کا دعوا رہا ہے کہ وہ عوام کے حق حکمرانی کو بحال کرنے کی سیاست کر رہے ہیں – ان کی جانب سے حزب اختلاف کے دعوا جمہوریت پر بھی سوالیہ نشان لگائے جاتے ہیں اور وہ طاقت کا سرچشمہ عوام کو بنانے کی بات بھی کرتے ہیں لیکن نگران حکومت کے دور میں آرڈیننسوں کے زریعے سے متنازعہ قوانین کے نفاذ و توسیع نے ان سیاسی جماعتوں کے دعوؤں پر سنگین سوال کھڑا کردیا ہے۔ کیا حکومت آرڈینسوں کے زریعے سے حکومت چلانا چاہتی ہے؟ کیا وہ عوام کی مرضی و منشاء کے خلاف قوانین کو نافذ کرنے کی خواہاں ہے؟ یہ سب سوالات عوامی حلقوں میں گردش کر رہے ہیں- اگر حکومت اور قانون سازی آرڈیننسوں کے زریعے سے چلایا جانا مقصود ہے تو پھر سید نوید قمر نے درست ہی کہا کہ پارلیمنٹ کو بند کرکے گھر بیٹھ جانا چاہئیے – ہمیں بار ہا ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان میں پارلیمانی سیاست دائروں کا سفر ہوکر رہ کئی ہے جس میں اپوزیشن میں بیٹھ کر جمہور کی بالادستی کے قیام کا مطالبہ کرنے والے حزب اقتدار بنتے ہی سب سے پہلے جمہور کے لیے باعث ننگ و عار اقدامات کرنا شروع کردیتے ہیں – کل ایوان میں جس طرح میجارٹیرین ازم کا مظاہرہ کیا گیا اور یہاں تک جس جماعت کے تعاون سے حکومت تشکیل دی گئی اس کی درخواست تک کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا اس سے جمہور کو نیا صدمہ لگا ہے جو پہلے ہی اشرافیہ کی بد اعمالیوں کی سزا بھگت رہا ہے۔

شرح سود کا مسئلہ : معیشت کو تاریک سرنگ میں داخل ہونے سے بچائیں

پاکستان کا سرکاری بینک اسٹیٹ بینک 18 مارچ 2024ء کو شرح سود کے بارے میں فیصلہ کرے گا اس حوالے سے سوموار کے دن پاکستان اسٹیٹ بینک کی قائم کردہ مانٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوگا جو اس وقت شرح سود کے برقرار رکھنے یا کم کرنے کے بارے میں غور و فکر کرے گی- اس وقت شرح سود 22 فیصد ہے اور صارفین کی قیمتوں کا اشاریہ 23 فیصد ہے۔ مالیاتی پالیسی کے ماہرین کے اندر شرح سود کو لیکر ایک تقسیم ہے۔ ایک طرف پاکستان سٹیٹ بینک سے چاہتے ہیں کہ وہ شرح سود کو 22 فیصد پر برقرار رکھے جبکہ دوسری جانب کے ماہرین اسے کم کرنے پر زور دے رہے ہیںجیسا کہ ہم نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی شرح 23 فیصد ہے اور افراط زر کے ماضی کے مقابلے میں نیچے جانے کا سفر جاری ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے اغلب امکان ہے کہ سٹیٹ بینک پاکستان کی مانٹیرنگ کمیٹی شرح سود کو 22 فیصد پر برقرار رکھے گی- اس کی وجہ بھی موجود ہے۔ شرح سود جو 22 فیصد ہے اس کے مقابلے میں سی پی انڈیکس / صارفین کی قیمتوں کا اشاریہ 23 فیصد یعنی شرح سود ایک فیصد کم ہے۔ اور پھر عالمی سطح پر افراط زر اوپر کی طرف جا رہا ہے – اسے دیکھتے ہوئے شرح سود میں کسیی کمی کے آثار ابھی نظر نہیں آررہے۔ ہاں الگے مہینے اپریل کی 29 تاریخ کے بعد مانٹیرنگ کمیٹی اپنے اجلاس میں ڈسکاؤنٹ ریٹ میں 200 بیسک پوائنٹس کی کمی کرسکتی ہے اگر صارفین کی قیمتوں کا اشاریہ یونہی نیچے کی طرف گیا تو۔ اور ایسا آئی ایم ایف سے ایس بی اے معاہدے کے تیسرے اور آخری جائزے کے بعد ہی ہوگا-اگر شرح سود میں کمی آتی ہے تو اصل شئے جس کا جآغزہ لینا ہوگآ، وہ یہ ہوگی کہ کہیں اس سے کرنسی کی قدر، سپلائی تو متاثر نہیں ہوگی؟ کہیں اس سے افراط زر پھر تو نہیں بڑھ جائے گا- اس وقت تک تو طلب ہی منفی ہے۔ اس وقت تک بینکگ سیکٹر کا کہنا ہے کہ ابھی تک تو امپورٹ ڈیمانڈ گزشتہ سال کے محدود امپورٹ الاؤنس سے بھی کہیں کم ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال آٹو امپورٹ کزشتہ سال سے انتہائی کم ہے اور رواں مالیاتی سال کے آٹھویں مہینے میں آٹو سیکٹر سے امپورٹ کی ڈیمانڈ گزشتہ مالیاتی سال کے آٹھ مہینوں کی امپورٹ ڈیمانڈ کا محض 30 فیصد ہے۔ پھر اس وقت پٹرولیم امپورٹ بھی گزشتہ مالیاتی سال کے اس دورانیہ سے انتہائی کم ہے۔ اور ہم امپورٹ کے کئی سیکٹرز میں امپورٹ ڈیمانڈ میں بہت بڑی گراوٹ دیکھ رہے ہیں۔ایسے ہی پاکستانی روپیا کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہے اور طلب میں حقیقی کمی اس کی وجہ ہے۔ اور یہ امپورٹ پر لگی پابندیوں کے سبب نہیں ہے بلکہ درآمدات کی طلب میں واقعی حقیقی گراوٹ یکھنے کو مل رہی ہے۔ اور اگر روپیا کے مارکیٹ میں بہاؤ کو دیکھا جائے تو وہ بھی کمی کی طرف ہے- کچھ حلقے اس پیش رفت کو سراہا رہے ہیں – لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ ماضی کی تمام ادائیگیاں ( جیسے مقامی فرموں میں شئیر ہولڈرروں میں منافع کی تقسیم، رائلٹی اور کنٹریکٹ ادائیگیاں) جن مدوں میں مکمل طور پر ادا کردی گئی تھیں ان کا حجم ایک بار پھر اکٹھا ہورہا ہے ۔ اس لیے ہم نہیں سمجھتے کہ سٹیٹ بینک پاکستان کو کرنٹ اکاؤنٹ کے سرپلس (اگر وہ کوئی ہے بھی تو) کو ماضی کے واجب الادا واجبات کا حساب باق کرنے کے لیے استعمال کرنے سے باز رہنا ہوگا-واجب الادا ادائیگیوں اوربیرونی قرضوں پر سود کی اقساط کے بہت بڑے حجم کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ روپے کے جزوی استحکام کی بنیاد پر شرح سود میں کمی نہیں کی جانی چاہئیے۔ اورحالات و واقعات سے صاف پتا چل رہا ہے کہ روپیاہلکا سا مستحکم ہوا ہے اور یہ ہلکی سی بحالی بہرحال اتنی بڑا شکون نہیں ہے کہ شرح سود کو نیچے لیجایا جائے۔ کیونکہ ابھی بھی روپے کی قدر کے سستی کے ساتھ گراوٹ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا-اس وقت پاکستانی روپے کی قدر کی جو حرکیات ہے وہ شرح سود میں کسی طرح سے بھی جارحانہ کمی کی اجازت نہیں دیتی حالانکہ کچھ حلقے افراط زر کے نیچے بنیاد سے زوال پذیر ہونے کو بنیاد بناکر شرح سود میں بڑی کمی کا مطالبہ کررہے ہیں- اصل چیز تو ماہانہ اعداد و شمار کو دیکھنا ہے – اس بنیاد پر فروری میں تو افراط زر 23 فیصد پر ہی کھڑا رہا اس سے نيچے نہیں گیا- افراط زر کی حرکیات کو ابھی مزید دیکھنے کی ضرورت ہے یہ جب 16 فیصد تک چلا جائے اس وقت شرح سود میں کمی کرنے کا عمل مستحکم نتائج لیکر آئے گا- اس وقت مالیاتی صورت حال جو اشارے دے رہی ہے وہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں- سادہ سی بات ہے کہ ادائیگیوں کے مخصوص توازن کو بنیاد بناکر اگر امپورٹ کی طلب میں اضافہ ہوگا تو اس کا ملک اس وقت متحمل نہیں ہوسکے گا- اس وقت شرح سود کو موجودہ مقام پر برقرار رکھنے میں ہی عافیت ہے اگرچہ یہ بینکوں سے قرضے لینے والوں کے لیے مشکلات کو برقرار رکھے گا- اور ایسے میں چھوٹے اور درمیانے کاروباری طبقات کے لیے کمرشل بینکوں سے قرض لینا ممکن نہیں ہوگا-ہمیں یہ بات کسی صورت نظر انداز نہیں کرنی چاہئیے کہ وفاقی حکومت پہلے ہی جتنا ریویو پیدا کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ اس کا قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے۔ نجی سیکٹر میں کئی ایک فرموں کے قرضوں کے دیوالیہ ہونے کی ابتدائی علامات ظاہر ہوچکی ہیں- نجی شعبے نے اس مالیاتی سال میں بھی کمرشل بینکوں سے قرضہ لیا ہی نہیں وہ شرح منفی ہے۔ پاکستان کی جی ڈی پی کی جو شرح ہے وہ آبادی کی افزائش کی شرح سے کم ہے اور گوشتہ سال بھی جی ڈی پی کی گروتھ سکڑی ہی تھی- ایسے ہی بے روزگاری کا زمانہ ہے اور شرح بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ معشیت اس وقت تو عملی طور پر بار بار رک رہی ہے – ایسے تمام اشارے جارحانہ مالیاتی پالیسی کا تقاضا کرتے ہیں اور اس کے تحت آہستہ آہستہ شرح سود کو کم کرنے کا راستا ہی محفوظ راستا ہوگا- پاکستان کے سرکاری بینک سٹیٹ بینک پاکستان کو بہت ہی پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا اور شرح سود کو حقیقی افراط زر کی بنیاد پر ہی مقرر کرنے کا راستا اختیار کرنا ہوگا- ہم امید کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت اسحاق ڈار ڈاکٹرائن سے دور رہے گی جس کے مطابق شرح سود کو افراط زر کی شرح کے مقابلے میں مصنوعی طور پر کم رکھا گیا، روپیا کی قدر تبادلہ کو سرکاری طور پر کم رکھا گیا جس نے پاکستانی معشیت کو تاریک ترین سرنگوں میں داخل کردیا تھا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں