وزیراعظم پاکستان – آپ کی آواز مکّے مدینے
وزیراعظم پاکستان نے 19 رکنی وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جو خطاب کیا ہے اس خطاب کے اہم نکات پڑھنے کے بعد ہر پاکستانی یہی کہے گا ، وزراعظم پاکستان! آپ کی آواز مکّے مدینے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کا کہنا تھا کہ 16 ماہ میں ہماری کارکردگی پوری قوم نے دیکھی۔ ہم قوم کی خدمت کےلیے منتخب ہوئے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ 8 فروری کے الیکشن میں قوم نے منقسم مینڈیٹ دیا، 8 فروری کو مختلف جماعتوں کو مینڈیٹ ملا، سب کا احترام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری گزشتہ حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچالیا تھا، ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا تو اس کے بعد معاملات زیادہ خراب نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ موبائل یوٹیلیٹی اسٹورز کو بھی دوبارہ فعال کر رہے ہیں، بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی اضافی رقم دی جارہی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ سب سے بڑا چیلنج اس وقت مہنگائی ہے، مہنگائی کو کم کرنا ہمارا پہلا امتحان ہے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ اشیاء کی قیمتوں میں کوئی خرابی برداشت نہیں کریں گے، کوشش ہے کہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر مہنگائی کنٹرول کریں۔ انکا کہنا تھا کہ مٹھی بھر اشرافیہ 90 فیصد وسائل پر قابض ہے۔ کیا جواز ہے کہ غریب مہنگائی میں پسے اور اشرافیہ کو سبسڈی ملے- وزیراعظم نے کہا کہ بجلی کی مد میں سالانہ 500 ارب روپے چوری ہوتی ہے اس میں غریب آدمی کا کیا قصور ہے؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گیس بجلی کا گردشی قرض پانچ ہزار ارب روپے ہے، بجلی سرپلس ہے، سوچا ہی نہیں گیا کہ اس کو منافع بخش کیسے بنایا جائے۔ آج ہم اس نہج پر پہنچ گئے کہ تنخواہیں بھی ادھار سے دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کل بات ہو رہی تھی کہ رٹیلرز پر ٹیکس لگانا چاہیے، عالمی ادارے رٹیلرز پر ٹیکس لگانے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ رٹیلرز کی بات تو بعد میں آتی ہے، ہول سیلر کہاں گیا؟ دکاندار جو مشکل سے روزی کمارہا ہے اس کو پکڑ رہے ہیں۔
انھوں نے بالکل درست کہا ہے کہ ‘حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں، نجی شعبے کو تعاون فراہم کرنا ہے’ – سرمایہ داری کے نئے ماڈل (اگرچہ یہ اب اتنا بھی نیا نہیں رہا) نیو لبرل ازم میں حکومت کا کردار ایک ریگولیٹری ادارے سے زیادہ کا نہیں ہوتا- لیکن کیا کیجئے کہ خود وفاقی سطح پر اور صوبائی سطح پر سرکاری شعبے میں درجنوں انٹرپراغز چل رہے ہیں اور ان پر لدھے قرضوں کے بوجھ کی قیمت عام آدمی جگا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کا کام کمزور طبقے کے مفادات کا تحفظ ہے۔ ایسے میں پاکستان کا عام شہری ان سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ آخر یہ دوسرا کام یعنی کمزور شہریوں کے مفادات کا تحفظ کرنے میں حکومتیں ناکام کیوں رہ جاتی ہیں- ابھی نیشنل پاور ريگولیٹری اتھارٹی نے کہا ہے کہ ساہیوال کول پاور پلانٹ کے لیے درآمدی کوئلے کا ٹھیک جن دو کمپنیوں کے پاس ہے انھوں نے 18 ماہ میں مہنگا کوئلہ بیچ کر 550 ارب روپے کا فراڈ کیا ہے۔ حکومت مصنوعی مہنگائی کو نہیں روک پائی – بڑے بڑے کاروباری گروپوں کو کارٹیل بنانے سے روک نہیں سکی حالانکہ مسابقتی کمیشن موجود ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے پہلے سے ٹیکس دکنے والوں پر مزید ٹیکس نہ لگانے اور ٹیکس نیٹ کے دائرے کو بڑھانے کا عزم بھی کیا ہے۔ ہم بلاوجہ ان کے اس عزم پر شکوک و شبہات کا اظہار کرنا نہیں چاہتے- نہ ہی ہم انہیں یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ماضی میں ان کے سمیت جتنے بھی لوگ برسراقتدار آئے سب ٹیکس دائرے میں وسعت پیدا کرنے کا دعوا تو کرتے رہے لیکن انھوں نے عملی طور پر ٹیکس کے تنگ دائرے میں ہی مزید نئے ٹیکس داخل کیے اور عام آدمی پر ہی ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جاتا رہا- پاکستان کی حکمران اشرافیہ مختلف اشکال میں ریاستی مراعات کا 90 فیصد لے رہی ہے- ہم امید کرتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان کے کہنے کے مطابق ان 90 فیصد مراعات کو اشرافیہ سے کاٹ کر غریبوں کو دینےکا اہتمام ہوگا۔
ڈیجیٹل مارکیٹنگ اورصارفین کے حقوق کاتحفظ
آج کے ڈیجیٹل دور کی تعریف اس بڑھتے ہوئے اثرات سے کی گئی ہے جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے زندگی کے تمام شعبوں پر ڈالا ہے، جس سے ہمارے دنیا سے جڑنے کے طریقے کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔
اس ماحولیاتی نظام نے سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والے افراد کے عروج کا بھی مشاہدہ کیا ہے، ایسے افراد جو بڑی تعداد میں پیروکار جمع کرتے ہیں جن پر وہ اہم اثر و رسوخ رکھتے ہیں، جس کا فائدہ وہ مصنوعات کی توثیق کرنے، تجربات کا اشتراک کرنے اور رجحانات کی شکل دینے کے لیے کرتے ہیں، جس سے برانڈز اور پیروکاروں کے ساتھ ایک علامتی تعلق پیدا ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر اثر انداز کرنے والوں کے جدید مارکیٹنگ کے منظر نامے میں لازمی کھلاڑی بننے کے ساتھ، یہ کہے بغیر کہ اب انہیں اخلاقی معیارات کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری بھی اٹھانی چاہیے جب بات ان کی تشہیری سرگرمیوں میں شفافیت اور صداقت کو یقینی بنانے کی ہو۔ بدقسمتی سے، عالمی سطح پر ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے – جس میں پاکستان بھی مستثنیٰ نہیں ہے – مصنوعات کی توثیق اور تشہیر کرتے وقت اخلاقی اور قانونی اصولوں کی دھجیاں اڑاتے ہیں، جس سے ریگولیٹرز کو صارفین کی حفاظت اور تحفظ کو سب سے اہم رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس سلسلے میں، مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پیز) کی جانب سے اثراندازوں، مواد کے تخلیق کاروں اور مشتہرین کو اشتہاری مہموں میں حصہ لینے کے دوران جھوٹی اور گمراہ کن تائیدات کرنے کے خلاف حالیہ وارننگ انتہائی خوش آئند ہے۔
جیسا کہ واچ ڈاگ کی طرف سے نشاندہی کی گئی ہے، متاثر کن افراد اور مشہور شخصیات کے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے ایسی متعدد مثالیں سامنے آئی ہیں جو دھوکہ دہی پر مبنی توثیق کرتے ہیں اور جہاں وہ توثیق کیے جانے والے پروڈکٹ سے اپنے مادی تعلق کو ظاہر نہیں کرتے ہیں، جس میں یہ واضح کرنا شامل ہے کہ آیا انہیں ادائیگی کی گئی ہے۔ ان کی تعریف فراہم کرنے کے لئے یا آیا وہ زیربحث پروڈکٹ کے حقیقی صارف ہیں۔ جیسا کہ مسابفقتی کمیشن پاکستان نے زور دیا ہے، اس طرح کی پروموشنل سرگرمیاں مسابقتی ایکٹ 2010 کے سیکشن 10 کی خلاف ورزی ہیں جو دھوکہ دہی والے مارکیٹنگ کے طریقوں سے متعلق ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اثراندازوں کی طرف سے اس قسم کا دھوکہ نہ صرف صارفین کے حقوق کو پامال کرتا ہے، بلکہ اس کے نتیجے میں مسابقتی کاروباروں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے، جس سے کم مثالی کاروباری ماحول پیدا ہوتا ہے، جہاں غیر منصفانہ مسابقت اور صارفین کے اعتماد کو مجروح کیا جاتا ہے۔ معمول ہمارے ابھرتے ہوئے ای کامرس کے منظر نامے کو درپیش ایک بڑا چیلنج صارفین کے درمیان اعتماد کا فقدان اور کاروبار کی ساکھ کا کھو جانا ہے جو لامحالہ اس وقت ہوتا ہے جب صارفین آن لائن پروموشنل مہمات کے ذریعے دھوکہ یا گمراہ ہونے کا احساس کرتے ہیں، جو اس شعبے کی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں، جو ہمارے پہلے ہی جدوجہد کرنے والی معیشت غیر متحمل ہوسکتی ہے۔
بہت طویل عرصے سے، پاکستان میں صارفین کے حقوق کا تصور بہت سے شہریوں کے لیے ایک ٹھوس حقیقت کے بجائے ایک اعلیٰ مثالی رہا ہے۔ قوانین اور ریگولیٹری اداروں کے وجود کے باوجود جن کا مقصد صارفین کو تحفظ فراہم کرنا ہے، زمینی حقیقت صارفین کے مفادات کے تحفظ میں چیلنجوں اور کوتاہیوں کی واضح تصویر پیش کرتی ہے۔ سوشل میڈیا مارکیٹنگ کے تناظر میں، نوجوان صارفین خاص طور پر کمزور ہو جاتے ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ آن لائن ملنے والی توثیق کے مکمل مضمرات کو نہ سمجھ سکیں۔ یہ واضح ہے کہ عام لوگوں میں صارفین کے حقوق کے بارے میں محدود آگاہی اور سمجھ بوجھ ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ بہت سارے پاکستانی صارفین کو اپنے حقوق کے بارے میں علم نہیں ہے کہ وہ ان کو کس طرح مؤثر طریقے سے بیان کر سکتے ہیں، جس کی وجہ سے ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے جہاں کاروبار اور اثر و رسوخ رکھنے والوں کے لیے یہ آسان ہے۔ غیر منصفانہ طریقوں سے بچنے کے لئے. اس کو دیکھتے ہوئے، سی سی پی صارفین کو چوکنا رہنے اور فریب دینے والے اشتہارات کی اطلاع دینے کی تاکید کرتا ہے، جب کہ بہت زیادہ ضرورت ہے، یہ کافی نہیں ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عوام میں اس بارے میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ دھوکہ دہی والی مارکیٹنگ کیا ہے اور اگر صارفین کو کسی خلاف ورزی کی اطلاع دینے کی ضرورت ہو تو وہ کن طریقوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
سخت سزاؤں کے ذریعے اثر و رسوخ رکھنے والوں اور کاروباروں کو کسی بھی غیر قانونی کارروائی کے لیے جوابدہ ٹھہرا کر، ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ پاکستانی ڈیجیٹل لینڈ سکیپ سب کے لیے ایک قابل اعتماد جگہ بنی رہے۔ اس سے ملک میں صارفین کے حقوق کے ایک مضبوط منظر نامے کو فروغ دینے میں بھی مدد مل سکتی ہے، جہاں ریگولیٹری ادارے، کاروبار، اثر و رسوخ اور صارفین سبھی شفافیت، جوابدہی اور اخلاقی طرز عمل کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔