وزیراعظم ہندوستان نریندر مودی کے حواری ان کی دوسری ٹرم کے آخری دنوں میں سری نگر کے دورے کی کامیابی کے بڑے دعوے کر رہے ہیں اور کشمیر میں سب ٹھیک ہوگیا ہے کی گردان بھی کررہے ہیں۔
کیا اپنی حکومت کے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی محدود خودمختاری کو سلب کرنے کے تقریباً پانچ سال بعد، نریندر مودی کشمیریوں کو یہ بتانے کے لیے متنازعہ سرزمین پر اترے تھے کہ وہاں کے باشندے نئی دہلی کی حکمرانی میں کتنے ‘خوش ‘ رہ رہے ہیں؟۔ مودی کی مقبوضہ کشمیر میں آمد کے وقت پوے سری نگر کو کڑے سیکورٹی فورسز کی ناکہ بندی میں رکھا گیا تھا- اسٹیڈیم میں کرائے کے اور سرکاری ملازمین کو زبردستی لایا گیا تھا-عملی طور پر اس دوران سری نگر سخت ترین کرفیو میں ڈوبا ہوا تھا- مودی نے جب تقریر کے دوران یہ کہا کہ’’وہ کشمیریوں کے دل چیتنے آئے ہین‘‘ تو اپنے کہے ہوئے الاظ پر شاید انہیں بھی یقین ہیں ہوگا جب بین الاقوامی برادری تو ان پر ہنس ہی رہی ہوگی-مودی سرکار نے 219ء میں ہندوستانی آئین کی شق 370 کا خاتمہ کرکے جموں و کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ختم کر ڈالا تھا اس کے بعد سے کشمیریوں پر اتنا جبر ہوا ہے کہ خود بی جے پی کے کئی ایک اتحادی بھی ان سے الگ ہوگئے تھے۔ اس وقت نریندر مودی نے یہ دعوا کیا تھا کہ سپیشل اسٹیٹس کے خاتمے سے ان کی حکومت نے مسئلہ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کردیا ہے لیکن سب جانتے ہیں یہ دعوا کتنا جھوٹ نکلا ہے۔ اور خود مودی کو بھی پتا ہے ورنہ وہ اپنے دورے کے موقعہ پر پوری وادی کو لاک ڈاؤن میں نہ رکھتے۔ سری نگر میں کرفیو نہ لگا ہوتا- ہندوستانی وزیر اعظم نے ہجوم سے کہا کہ وہ “آپ کا دل جیتنے” آئے ہیں، حالانکہ ان کی حکومت کے ظالمانہ طریقے مقبوضہ علاقے میں اس کے کچھ سخت ترین وفاداروں کو بھی الگ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، خاص طور پر 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد۔ آئی ایچ کے کے چیف منسٹر نے سوشل میڈیا پر نوٹ کیا، یہ دورہ ممکنہ طور پر بھارت کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی کے حامیوں کو یاد دلانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا کہ ہندو قوم پرست حکومت نے کئی دہائیوں پرانے کشمیر کے سوال کو ‘حل’ کر دیا ہے – بھارت کے حق میں۔ معاملے کی حقیقت بلاشبہ اس سے بالکل مختلف ہے۔واضح طور پر، کشمیری انصاف چاہتے ہیں، اور جمہوری عمل کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں اور مودی ان کی آزادی کو زرا اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں- انتخابات کے بعد دھول صاف ہونے کے بعد، یہ دیکھنا باقی رہے گا کہ نئی بھارتی حکومت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کتنی سنجیدہ ہوگی؟۔ جہاں نئی دہلی کے عقاب کشمیر فائل کو بند کرنے پر اصرار کریں گےجس سے پاکستان، اقوام متحدہ اور کشمیری خود شدید اختلاف کرتے ہیں۔ اگر بی جے پی اور ہندوستانی سیاسی طبقے کے دیگر ارکان کشمیر میں امن قائم کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں، تو صرف ایک سہ فریقی حل – جس میں پاکستان، بھارت اور کشمیری شامل ہیں – ہی استحکام کی راہ ہموار کر سکتا ہے، اور درحقیقت باقی علاقوں میں درجہ حرارت کو کم کر سکتے ہیں۔ کیا ہندوستان میں نئی حکومت کوئی جرات مندانہ فیصلہ لے گی اور کشمیر کی فائل کو مدبرانہ انداز میں سنبھالے گی؟ یا وہی ضدی رویہ اور اس سے منسلک جبر اور تشدد اس اذیت زدہ سرزمین کو ستاتا رہے گا؟ کیا ہنوتوا کے تحت مسلمانوں سمیت دیگر مذہبی برادریوں کے ساتھ برا سلوک ہوتا رہے گا؟
قرضوں کا بڑھتا بوجھ کیسے کم ہوگا؟
وفاقی فنانس ڈویژن کی طرف سے پاکستان پر کل اندرونی و بیرونی قرضوں کے حجم بارے نئے اعداد و شمار مشتمل تازہ ترین رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق رواں مالیاتی سال 2023-24 کے پہلے 7 ماہ میں پاکستان پر کل قرضوں کے حجم میں مجموعی طور پر 6 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ 7 ماہ پہلے جون 2023ء میں پاکستان پر قرضوں کا حجم جو کل ملاکر 614 کھرب 80 ارب روپے تھا وہ جنوری 2024ء میں بڑھ کر 648 کھرب 42 ارب روپے ہوچکا تھا- یعنی 7 ماہ میں حکومتوں نے 40 کھرب روپے کا مزید قرضہ لے لیا-ہم اس سے پہلے فنانس ڈویژن کی ماہانہ معاشی رپورٹ میں فنانس بیوروکریسی کی جانب سے معاشی ابتری کو کم کرکے دکھانے اور معاشی میدان میں حکومت کی نا اہلی و غفلت سے عوام کا دھیان ہٹانے کے لیے جادوگری سے کام لینے کی عادت کو بے نقاب کرچکے ہیں (اور یہ بہت پرانی عادت ہے) – ان اعداد و شمار کو جاری کرتے ہوئے بھی فنانس ڈویژن میں بیٹھے بابوؤں نے یہی کیا ہے- قرضوں کے حجم بارے اس مرتبہ انہوں نے رواں مالی سال کے پہلے 7 مہینوں کا موازنہ گزشتہ سال کے انہی 7 مہینوں میں کرنے کی بجائے جون 2023ء سے کیا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں عوام کو یہ اندازہ لگانے میں اسانی ہوتی کہ 14 ماہ میں ہماری افسر شاہی نے اپنے اوپر کس قدر پابندیاں عائد کیں جس سے کل قرضوں کے بوجھ میں ان کی طرف ے کوئی کمی لائی کئی ہو-سات ماہ میں ہمارے قرضوں میں جو 40 کھرب روپے کا اضافہ ہے اس میں قریب قریب سارا قرضہ ڈومیسک بینکوں سے لیا ہوا ہے۔ جون 2023ء میں ڈومیسٹک قرضہ 3سو 83 کھرب تھا وہ بڑھ کرجنوری دو ہزار چوبیس میں 4 سو 26 کھرب 20 ارب روپے ہوگیا تھا- یہ کم و بیش 38 کھرب روپے کا اضافہ بنتا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر مقامی کمرشل بینکوں سے قرضے لینے کی وجہ کیا تھی؟ اسحاق ڈار کی قیادت میں سابق حکمران اتحاد پی ڈی ایم کی معاشی ٹیم نے بجٹ 2023-24 میں یہ امید(ناکام) دلائی تھی کہ 6 ارب 10 کروڑ روپے غیرملکی کمرشل بینکوں سے قرض اور سکوک/ یورو بانڈز کی فروخت سے اکٹھے کیے جائيں گے۔ لیکن نہ تو پی ڈی ایم کی سولہ ماہی اور نہ ہی بعد ازاں ششماہی نگران حکومت وہ 6 ارب 10 کروڑ ڈالر باہر سے لانے میں کامیاب ہوئی کیونکہ دونوں سیٹ اپ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ منفی سے مثبت کرانے میں ناکام ہو کئیں کیونکہ وہ ادائیگیوں کے توازن کو مطلوبہ معیار تک لانے میں ناکام ہوکئی تھیں۔ یہ ناکامی اس کے باوجود ہوئی کہ پی ڈی ایم حکومت نے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ آئی ایم ایف سے کرلیا تھا اور نگران حکومت 15 نومبر 2023ء کو ایس بی اے معاہدے کے پہلے جائزے کو کامیاب کراچکی تھی- آئی ایم ایف اس بارے رپورٹ اپنی ویب سائٹ پر ڈال چکا جو بتاتی ہے: “ایس بی اے کے تحت 3 ارب ڈالر کی رقم اقساط میں حکومت کو دی جاچکی ہے۔ اس معاہدے سے جڑی عبوری شرائط تو حکومت نے پوری کی ہیں لیکن میکرواکنامک اشاریوں کے اعتبار سے ابھی پاکستانی معشیت بڑے خطرات(ہائی رسک) سے دوچار ہے۔” اگر پبلک سیکٹر کا قرضہ یونہی بڑھا رہتا ہے تو ظاہر ہے حکومت کو رض کا کچھ حصّہ تو رول اوور کرانا پڑے گا جس کا آغاز چین کے قرض کے رول اوور سے ہوگیا ہے۔ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارا یونہی برقرار رہتا ہے تو یورو بانڈ اور سکوک بانڈ کا بیرون ملک منڈیوں میں فروخت مشکل ہوگی اور اگر باہر سے سرمایہ چاہے وہ قرض کی شکل میں ہو یا غیر ملکی کمرشل بینکوں سے قرض یا بانڈ بیچ کر لایا جانا ہو وہ نہ آیا تو اس سے خود محدود غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مطلوبہ مقدار میں برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا-دوسری بات نگران حکومت کرنٹ اخراجات کو بجٹ دستاویز میں مقرر کیے گئے ہدف تک برقرار رکھنے میں ناکام رہی اور نگران سیٹ اپ کے خاتمے تک اس میں 40 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ نگران سیٹ اپ کرنٹ اخراجات بجٹ دستاویز میں زکر کردہ ہدف سے 40 فیصد بڑھنے سے تو نہ روک سکی لیکن اس نے ترقیاتی اخراجات میں 5ء9 فیصد کا کٹ لگایا جس نے براہ راست گروتھ ریٹ پر اثر ڈالا اور وفاقی ادارہ شماریات شاید گروتھ ریٹ پر پڑنے والے منفی اثر کو چھپانے کے لیے موجودہ سال کے دوسرے چار ماہ یعنی اکتوبر تا دسمبر 2023ء کے دوران پاکستان کی معشیت کے گروتھ ریٹ پر مشتمل اعداد و شمار نہیں دیے ہیں۔ لیکن اس طرح کی تاخیر کرنے سے کیا درپیش خطرات ٹل جائیں گے؟آخری بات وہی ہے جو ہم ان اداریوں میں بار بار کرتے آئے ہیں: پاکستان کو فوری طور پر ملکی ٹیکس سٹرکچر میں بنیادی اصلاحات متعارف کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور اس کا پہلا قدم 75 فیصد ان ڈائرکٹ ٹیکسز کی جگہ دائریکٹ ٹیکسز کو لینا ہی ہوسکتا ہے۔ زرعی ٹیکس دیہی زمیندار اشرافیہ پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ رئیل اسٹیٹ کاروبار اور ریٹلرز پر براہ راست ٹیکسز کا نفاز بہت ضروری ہے- حکومت کو یہ ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت بجٹ خسارہ کے انتہائی بلند شرح اور کرنٹ اکاؤنٹ میں خسارے کا بلند ترین مقام یہ دونوں مالیاتی پالیسیوں کی بدترین ناکامی کا اظہار ہے اور اسے جب تک بدلا نہیں جائے گا اس وقت تک کوئی بہتری نہیں آئے گی۔