آج کی تاریخ

انتخابی معرکہ آرائی کے آخری لمحات

عوام کو ریلیف کب ملے گا؟

میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومت نے مالیاتی سال2024ء کی پہلی ششماہی میں پٹرولیم لیوی کی مد میں4 کھرب 72 ارب 20 کروڑ روپے پٹرولیم صارفین سےاکٹھے کیے ہیں- حکومت نے گزشتہ سال کی پہلی ششماہی کی نسبت اس سال کی ششماہی میں پٹرول اور ڈیزل پر 166 فیصد زیادہ لیوی/ ٹیکس اکٹھا کیا ہے۔ اور یہ ٹیکسزبجٹ دستاویز2023-24 میں مقرر کیے گئے ہدف کا 54 فیصد ہے۔ حکومت نے 2023-24 بجٹ دستاویز میں پٹرولیم لیوی کی مد میں 8 کھرب 60 ارب روپےاکٹھا کرنے کا ہدف رکھا تھا- جبکہ حکومت فی لٹر پٹرول اور ڈیزل پر 60 روپے لیوی/ٹیکس وصول کررہی ہے جبکہ گزشتہ سالاس نے 50 روپے فی لٹر وصول کیا تھا- پٹرولیم لیوی کی مد میں حکومتکی جانب سے 166 فیصد زیادہ رقم کی وصولی پٹرول و ڈیزل کی فروخت میں اس سال ریکارڈ کمی کے باوجود ہوئی ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق ملک بھر میں پٹرولیم پروڈکٹس کی فروخت میں 15 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ پورے ملک میں 76 لاکھ 80 ہزار ٹن پٹرولیم مصنوعات کی فروخت ریکارڈ ہوئی ہے۔ جبکہ گزشتہ سال کی پہلی ششماہی میں 90 لاکھ 30 ہزار ٹن کی فروخت ریکارڈ ہوئی تھی- اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ حکومت اس سال عوام سےپٹرولیم لیوی کی مد میں کس قدر زیادہ رقم لی ہے۔ جبکہ اس حکومت کے اپنے دعوؤں کے مطابق پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کافی حد تک مستحکم ہے۔ لیکن حکومت نے بلند ترین افراط زر(28 فیصد سے زیادہ) ہونےکے باوجودعوام کو نہ تو روپےکی قدر میں استحکام کا پٹرول کی قیمتوں میں کمی کرکےعوام کو پہنچایا اور نہ ہی جنوری کے آخری ہفتے میں جنوری کے پہلے پندرہ دنوں تک موجود تیل کی قیمت کو برقرار رکھا بلکہ اس میں اضافہ کردیا- حکومت نے اس سے قبل عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں دو بار کمی کا فائدہ بھی پندرہ روزہ تیل کی قیمت پر نظر ثانی کے دو مواقع پر عوام کو نہیں دیا تھا- اس سے یہاندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نگران سیٹ اپ جس میں ٹیکنو کریٹ اور پاکستان کے اشراف طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے نے پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے سابقہ حکومتوں کی طرح حکومتی ریونیو بڑھانے کے لیے پہلے سے موجود ٹیکس صارفین پر ہی بوجھ ڈالنے کی پالیسی کو جاری رکھا ہے۔ اس نے غیر دستاویزی معشیت خاص طور پر پاکستان میں اسمگنگ روٹس سے آنے والے پٹرول اور ڈیزل کے کاروبار کو روکنے اور اس شعبے میں ٹیکس کے نیٹ ورک سے باہر موجود افراد اور گروپوں کو ٹیکس نٹ ورک کےدائرے میں لانے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں- ہمارے پاس ایسے کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں جو ہمیں یہ بتانے میں مدد کریں بلیک مارکیٹ میں سے کتنا ٹن پٹرول و ڈیزل قانونی طریقے سے اب فروخت ہورہا ہے لیکن اگر ہم پٹرولیم مصنوعات کی دستاویزی مارکیٹ میں گزشتہ سال سے بھی کم پٹرول ڈیزل کی فروخت کے اعداد و شمار پاتے ہیں تو یہ گمان کرنا غلط نہیں ہوگا کہ پٹرولیم مصنوعات کی غیر دستاویزی معشیت کا غالب حصّہ اب بھی حکومت ٹیکس کے دائرے میں لانے سے قاصر رہی ہے۔ اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ حکومت پٹرول اور ڈیزل کی مد میں افراط زر اور مہنگائی سے متاثر ہونے والے طبقات کے لیے سبسڈی کا کوئی نظام وضع کرنے میں ناکام رہی ہے اور جیسے ہی حکومت سے دباؤ ہٹا ویسے ہی حکومت نے عوام کو تیل پر سسڈی نہ دینے کا فیصہ کرلیا- پاکستان کے سفید پوش اور غریب طبقوں سے تعلق رکھنے والے عوام پر حکومت مسلسل بجلی، گیس، تیل کی قیمتوں میں اضافے کرکے ان کی حالت اور ابتر بنا رہی ہے۔ ایسے میں ان طبقات سے تعلق رکھنے والے شہری یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ اگر عواسے سبسڈی چھیننے اور ان پر تیل، بجلی اور گیس کی مد میں حکومتی ثیکسز میں بے تحاشا اضافے کرنے کے سارے فیصلےنگران سیٹ اپ میں کرلیے گئے ہیں تو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں تیل، بجلی اور گیس کی مد میں عوام کو ریلیف دینے کے جو دعوے کررہی ہیں ان کی حقیقت کیا ہے؟ کئیایک حلقے تو انہیں محض لالی پاپ قرار دے رہے ہیں- ہم حکومت سے بجا طور پر امید کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دیے گی اور بتائے گی کہ عام آدمی کو ریلیف کب ملے گا۔

پاکستان کا تعلیمی بحران

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی 22 جنوری کو جاری ہونے والی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے تعلیمی شعبے کی حالت تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ نتائج سے ایک مایوس کن تصویر سامنے آتی ہے، جس میں فنڈز کی کمی، ناکافی سہولیات، طالب علموں اور اساتذہ کا خراب تناسب، غیر معیاری تعلیمی معیار اور اسکول نہ جانے والے 26 ملین بچے شامل ہیں۔ اس اداریے میں بحران کی بنیادی وجوہات، علاقائی عدم مساوات، سلامتی کے خدشات کا احاطہ کیا گیا ہے اور تعلیم کے شعبے کی بحالی کے لیے فوری اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔پاکستان میں تعلیم کے بحران میں سب سے بڑا کردار فنڈز کی ناکافی تقسیم ہے۔ وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر موجودہ بجٹ کی سطح اندراج میں اضافے کو یقینی بنانے اور اس شعبے کو درپیش بنیادی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بہت سے اسکولوں میں صاف پانی، بجلی، چار دیواری اور بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولیات غائب ہیں، جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو ایسے اداروں میں بھیجنے سے روکتے ہیں۔ ان بنیادی سہولیات کے بغیر، تعلیم کی حوصلہ افزائی کا امکان ایک مشکل جنگ بن جاتا ہے۔تعلیمی سہولیات میں علاقائی عدم مساوات بہت زیادہ ہے اور بلوچستان سب سے زیادہ محروم علاقوں میں سے ایک کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اس کے صرف 15 فیصد اسکولوں میں بجلی ہے، 23 فیصد کو پینے کے پانی تک رسائی ہے، اور صرف 33 فیصد اسکولوں میں بیت الخلا کی مناسب سہولت ہے۔ یہ عدم مساوات موجودہ تعلیمی بحران کو مزید بڑھادیتی ہے، وسائل کی زیادہ منصفانہ تقسیم اور نظر انداز کیے گئے علاقوں پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔سکیورٹی خطرات اور امن و امان کی صورتحال نے داخلے کی سطح، اسکول چھوڑنے کی شرح اور اسکولوں کی بندش پر نقصان دہ اثر ڈالا ہے۔ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اسلام آباد کی جامعات اور نجی شعبے کے اسکولوں کی حالیہ بندش وفاقی دارالحکومت میں درپیش وسیع تر چیلنجز کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس سے عسکریت پسندی اور لاقانونیت سے تاریخی طور پر متاثرہ علاقوں کی صورتحال کے بارے میں اہم سوالات اٹھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں تاکہ تعلیم کے سازگار ماحول کو فروغ دیا جاسکے۔سکیورٹی خطرات اور امن و امان کی صورتحال نے داخلے کی سطح، اسکول چھوڑنے کی شرح اور اسکولوں کی بندش پر نقصان دہ اثر ڈالا ہے۔ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اسلام آباد کی جامعات اور نجی شعبے کے اسکولوں کی حالیہ بندش وفاقی دارالحکومت میں درپیش وسیع تر چیلنجز کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس سے عسکریت پسندی اور لاقانونیت سے تاریخی طور پر متاثرہ علاقوں کی صورتحال کے بارے میں اہم سوالات اٹھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں تاکہ تعلیم کے سازگار ماحول کو فروغ دیا جاسکے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے حال ہی میں تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافے اور حل کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ موجودہ اسکولوں کے لئے مناسب بنیادی ڈھانچے کے معیار کو یقینی بنانے کے لئے وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر اسٹریٹجک منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ خاطر خواہ بجٹ مختص کرنا ضروری ہے۔ سماجی ترقی، معاشی ترقی اور انفرادی خودمختاری کو فروغ دینے کے لئے تعلیم کی تبدیلی کی طاقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ، اس اہم شعبے میں ترجیح دینے اور سرمایہ کاری کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے۔موجودہ بحران کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے پاکستان کو جدید اور آؤٹ آف دی باکس حل کی ضرورت ہے۔ اسٹریٹجک منصوبہ بندی میں نہ صرف موجودہ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا شامل ہونا چاہئے بلکہ خاص طور پر دور دراز علاقوں میں مزید اسکولوں کی تعمیر پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری پسماندہ علاقوں میں بچوں کے لئے تعلیم کو قابل رسائی بنانے کے لئے بھی اتنی ہی اہم ہے۔ مزید برآں، معاشی طور پر پسماندہ طلباء کے لئے اسکالرشپ پروگراموں کے قیام سے اندراج کی سطح میں اضافہ ہوسکتا ہے اور تعلیم تک رسائی میں رکاوٹ بننے والی غربت کے چکر کو توڑا جاسکتا ہے۔ثقافتی رکاوٹوں اور غربت جیسے دیرینہ مسائل کو جامع طور پر حل کیا جانا چاہئے۔ ایسے اقدامات جو برادریوں کے اندر تعلیم کی قدر کے بارے میں آگاہی اور تفہیم کو فروغ دیتے ہیں وہ ثقافتی رکاوٹوں پر قابو پانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ مزید برآں، غربت کے خاتمے کے مقصد سے ہدف شدہ پروگرام بالواسطہ طور پر اندراج میں اضافے میں کردار ادا کرسکتے ہیں، کیونکہ بہتر معاشی حالات والے خاندان اپنے بچوں کے لئے تعلیم کو ترجیح دینے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں.پاکستان کے تعلیمی شعبے کی خستہ حالی پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے اور موجودہ اعداد و شمار نظرانداز اور فوری طور پر نظر انداز کیے جانے کی ایک مایوس کن تصویر پیش کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو ترجیح دے، خاطر خواہ فنڈز مختص کرے اور اس شعبے کی بحالی کے لیے اسٹریٹجک منصوبوں پر عمل درآمد کرے۔ ایک جامع نقطہ نظر کو یقینی بنانے کے لئے علاقائی عدم مساوات، سلامتی کے خدشات اور ثقافتی رکاوٹوں کو منظم طریقے سے دور کیا جانا چاہئے۔ تاخیر کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ پاکستان کو تعلیم میں سرمایہ کاری کرکے اپنے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ تعلیم کی تبدیلی کی طاقت معاشرے کو ترقی دے سکتی ہے، معاشی ترقی کو فروغ دے سکتی ہے اور افراد کو بااختیار بنا سکتی ہے – ایک ایسا مستقبل جس پر پاکستان سمجھوتہ کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

انتخابی معرکہ آرائی کے آخری لمحات

پاکستان میں 2024 ء کے عام انتخابات سے پہلے کے آخری ہفتے کے ساتھ ہی سیاسی منظر نامے میں انتخابی مہم کا واضح فقدان نظر آ رہا ہے جو عام طور پر اس طرح کے واقعات سے پہلے ہوتا ہے۔ معمول کے جوش و خروش کی عدم موجودگی کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان مسابقتی حرکیات نے افق پر ایک دلچسپ مقابلے کی راہ ہموار کر دی ہےمسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بالکل برعکس، پی ٹی آئی، تیسرے اہم حریف کے طور پر، خاص طور پر ٹیلی ویژن اسکرینوں پر سرخیوں سے غائب رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کو اپنی انتخابی سرگرمیوں میں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں محدود نمائش اور دبے ہوئے جلسے شامل ہیں، جو ممکنہ طور پر ریاستی مداخلت کی وجہ سے منظم کیے گئے تھے۔ اس نے سیاسی منظر نامے کو سہ رخی مقابلے کی طرح چھوڑ دیا ہے ، حالانکہ ایک اہم حریف ، پی ٹی آئی ، رائے دہندگان کے ساتھ جڑنے کی اپنی کوششوں میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔جب پارٹیاں آخری مقابلے کی تیاری کر رہی ہیں تو کئی عوامل سامنے آتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی زات بیداری نظام کے اندر مضبوط روایتی نیٹ ورک رکھتی ہیں اور ریاستی اداروں کے ساتھ فعال رابطے رکھتی ہیں۔ دریں اثناء پی ٹی آئی عوام کی ہمدردیوں اور چینلز کی جانب سے اسٹیٹس کو کے خلاف عدم اطمینان پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ پی ٹی آئی کے لیے چیلنج اپنی بنیاد کو متحرک کرنا اور عوامی جذبات کو ووٹوں میں تبدیل کرنا ہے، کیونکہ اس کی انتخابی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد ہیں۔مسلم لیگ (ن) کو ‘پسندیدہ’ جماعت سمجھا جاتا ہے، جو ان علاقوں میں رائے دہندگان کو متاثر کر سکتی ہے جہاں روایتی تھانہ کچہری کی سیاست کا غلبہ ہے۔ یہ فائدہ، پارٹی کے قائم کردہ نیٹ ورکس کے ساتھ مل کر، مسلم لیگ (ن) کو ایک مضبوط حریف کے طور پر کھڑا کرتا ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی اپنی تاریخی موجودگی اور سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر گزشتہ ایک دہائی میں کھوئی ہوئی زمین کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔پی ٹی آئی کا نوجوانوں کے ووٹوں پر انحصار ایک ممکنہ گیم چینجر کے طور پر انتخابی مساوات میں ایک دلچسپ عنصر کا اضافہ کرتا ہے۔ موجودہ صورت حال کے خلاف عوامی عدم اطمینان پی ٹی آئی کے ہاتھ میں ایک اہم کارڈ ہے اور نوجوانوں کو متحرک کرنے کی اس کی صلاحیت کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ تاہم، کیا یہ مسلم لیگ (ن) اور پی کو حاصل فوائد کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوگا، یہ غیر یقینی ہے.جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، پاکستان میں اقتدار کا راستہ پنجاب سے گزرتا ہے۔ صوبہ مجموعی انتخابی نتائج کا تعین کرنے کی کلید رکھتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) وسطی پنجاب سے باہر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کھوئی ہوئی زمین دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی پیچھے ہٹنے سے انکار کرتے ہوئے ایک ایسے مقابلے کے لیے تیار ہے جو پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر دیرپا اثرات چھوڑ سکتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں